Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents

ابتدائ کليسياء کے درخشاں ستارے

 - Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First
    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents

    باب ۱۹ - یُہودی اور غیر قوم

    شام کے انطاکیہ میں پہنچے پر جہاں سے اُنہیں اُن کے مشن پر بھیجا گیا تھا، پولُس اور برنباس نے اپنی پہلی فُرصت میں ایمانداروں کو جمع کر کے اُنہیں اپنی خدمت کے بارے بیان کیا۔ “وہاں پہنچ کر اُنہوں نے کلیسیا کو جمع کیا اور اُن کے سامنے بیان کیا کہ خُدا نے ہماری معرفت کیا کچھ کیا اور یہ کہ اس نے غیر قوموں کے لئے ایمان کا دروازہ کھول دیا”۔ اعمال ۲۷:۱۴ انطاکیہ کی کلیسیا بڑی اور ہر لحاظ سے بڑھنے پھُولنے والی کلیسیا تھی۔ مشنری سرگرمیوں کا مرکز ہونے کے سبب یہ مسیحی ایمانداروں کی ایک بہت ہی اہم جماعت بن چکی تھی، اس کی ممبر شپ (رُکنیت) یُہودی اور غیر قوم دونوں پر مشتمل تھی اور کئی جماعتوں سے تعلق رکھتی تھی۔ IKDS 175.1

    انطاکیہ میں جب رسُول خادموں اور خُود پرور کار گزاروں کے ساتھ جمع ہر کر مسیح یسُوع کے لئے رُوحوں کو جیتنے کی کوشش میں مصرُوف تھے تو اس دوران یہودیہ سے چند یہودی ایماندار جن کا تعلق فریسیوں کے فرقہ سے تھا آ کر ایسا سوال لوگوں کے سامنے رکھنے میں کامیاب ہو گئے جس نے کلیسیا میں نا چاقی پیدا کر دی اور تمام ممبران حیرت اور تذبذب کا شکار ہو گئے۔ کیونکہ یہودی اور غیر قوم ایماندارون کو ان رسموں کے قائل مُعلمین نے بڑے دعویٰ کے ساتھ کہا کہ نجات پانے کے لئے ختنہ اور ساری کی ساری رسمی شریعت کو ماننا از حد ضرُوری ہے۔ IKDS 175.2

    پولُس اور برنباس نے بڑی چابکدُستی سے اس غلط عقیدے کا مقابلہ کیا اور غیر قوم ایماندارون کے سامنے اس تعارفی موضوع کی بھر پُور مخالفت کی۔ مگر دوسری طرف بہت سے انطاکیہ کے ایماندار یہودیوں نے ان بھائیوں کا ساتھ دیا جو یہودیہ سے آئے تھے۔ IKDS 175.3

    عام طور پر یہودی مسیحی فوراً اس راہ پر چلنے کے لئے تیار نہ تھے جو خُدا وند نے اُنہیں دکھائی تھی۔ جب کہ غیر قوموں میں سے رسُولوں کی خدمت کے نتیجہ میں جس قدر سُرعت کے ساتھ جتنے لوگ مسیحی دین میں شامل ہو رہے تھے اُس سے یہ اندازہ ہوتا تھا کہ اُن کی تعداد بہت جلد یہودی ایمانداروں کی تعداد سے کہیں زیادہ بڑھ جائے گی۔ چنانچہ یہودی ایماندار ڈرتے تھے کہ اگر غیر قوم ایماندارون پر پابندی عائد نہ کی گئی اور اُنہیں تمام یہودی شریعت کو ماننے کا پابند نہ کیا گیا تو یہودیوں کی اکثریت اور انفرادیت انجیل کی خُوشخبری ماننے والوں میں ختم ہو جائے گی جو اُنہیں اب تک دوسری تمام قوموں میں حاصل رہی ہے۔ IKDS 176.1

    یہودی ہمیشہ اس بات پر فخر کرتے تھے کہ اُن کی عبادت اور بندگی کے آداب خود خُداوند نے مقرر کئے ہیں۔ چنانچہ یہودیوں میں سے جتنوں نے مسیح کو قبول کیا وہ ابھی تک یہی سوچتے تھے کہ جب خود ذات الہٰی نے یہودی طریق عبادت کا تعین کر دیا ہے تو پھر اس میں کسی طرح کی تبدیلی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس لئے وہ بضد تھے کہ یہودی آئین و قوانین اور رسموں کو مسیحی مذہب کی رسُوم میں شامل کیا جائے۔ وہ اس بات کو سمجھنے میں بڑے سست تھے کہ تمام کفارہ کے نذرانے مسیح یسُوع کی موت کی مثیل تھے۔ اور وہ مسیح یسُوع کے مصلُوب ہونے کے ساتھ ہی اختتام کو پہنچ گئے چنانچہ موسیٰ کی تمام رسمی قُربانیوں کا کوئی جواز نہ رہا۔ IKDS 176.2

    تائب ہونے سے پہلے پولُس خود کو بے عیب خیال کرتا تھا”شریعت کی راستبازی کے اعتبار سے بےعیب تھا”۔ فلپیوں ۶:۳ لیکن دل کی تبدیلی کے سبب اس نے مسیح کے مشن کا اصل مفہوم بڑی صفائی سے سمجھ لیا تھا کہ وہ تمام نسل آدم کا نجات دہندہ ہے۔ اس میں یہودی اور غیر قوم والے برابر شریک ہیں نیز اس نے زندہ ایمان اور مردہ رسُوم کا فرق بھی سیکھ لیا۔ انجیل کی روشنی، قدیم مذہبی رسوم جو بنی اسرائیل کو دی گئیں اُنہوں نے گہرا اور نیا مفہوم اپنا لیا۔ اور جن کا وہ پر تو ‘سایہ’ تھے وہ جاتا رہا اور جو مسیحی انتظام کے زیر سایہ رہتے ہیں وہ یہودی رسوم سے آزاد ہو گئے ہیں۔ مگر خُداوند خُدا کے دیئے ہوئے دس احکام کی شریعت کو پولُس ابھی تک دل و جان سے مانتا تھا۔ IKDS 176.3

    انطاکیہ کی کلیسیا میں ختنہ کے سوال پر بہت تکرار اور جھگڑا ہوا۔ بالآخر کلیسیا کے ممبران نے پولُس اور برنباس کو چند دوسرے ذمہ دار بھائیوں کے ساتھ فیصلہ کے لئے یروشلیم بھیجا تاکہ وہ یہ معاملہ کو رسُولوں اور بزرگوں کے سامنے رکھیں اور ہم اس پھُوٹ سے بچ جائیں جو کلیسیا میں متوقع تھی۔ وہاں وہ مختلف کلیسیاوں سے آنے والے نمائندگان سے ملنے والے تھے اور ان افرادسے بھی جو آنے والی فسح کو منانے یروشلم میں آ چکے تھے۔ یہ طے پایا کہ اس وقت تک ہر طرح کی کشمکش اور تکرار بند رہے گی جب تک جنرل کانفرنس اس کا حتمی فیصلہ نہ دے دے۔ نیز جو بھی کانفرنس فیصلہ دے وہ ملک بھر کی تمام کلیسیائیں قبول کریں۔ IKDS 177.1

    یروشلیم کی طرف سفر کرتے ہوئے رسُول جن جن شہروں سے گزرے وہاں کے ایمانداروں سے مُلاقاتیں کرتے اور ان کو خُدا کے کام غیر قوموں ی تبدیلی کے تجربات بتا بتا کر ان کی حوصلہ افزائی کرتے گئے۔ IKDS 177.2

    یروشلیم میں انطاکیہ سے آنے والے نمائندوں نے مختلف کلیسیاوں کے بھائیوں سے ملاقاتیں کیں جو وہاں جنرل میٹنگ کے لئے جمع ہوئے تھ۔ رسُولوں نے اُنہیں اپنی اُس کامیابی کے بارے رپورٹ دی جو اُنہیں غیر قوموں میں ہوئی تھی۔ پھر اُنہوں نے اس گومگو کی حالت کی تفصیل بیان کی جو بعض ایماندار فریسیوں نے پیدا کی تھی کہ جب تک غیر قوم والے ختنہ نہ کروائیں اور موسیٰ کی ساری شریعت پر عمل نہ کریں وہ نجات نہیں پا سکتے۔ IKDS 177.3

    اسمبلی میں زندگی کے مختلف طبقوں اور شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل تھے IKDS 178.1

    چنانچہ مذکورہ مسئلہ (سوال) پر بھر پُور اور گرما گرم بحث ہوئی۔ ختنہ کے سوال سے ملتے جلتے کچھ اور بھی مطالبات تھے جن کا بڑی احتیاط سے جائزہ لینے کی ضرُورت تھی۔ ان میں ایک مسئلہ تو یہ تھا کہ جو کھانے بُتون کو چڑھائے جاتے ہیں ان کے بارے ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ کیونکہ بہت سے غیر قوم سے مسیح ہونے والے ایماندار، جاہل اور توہم پرست لوگوں میں رہتے تھے جو بُتوں کے لئے اکثر قربانیاں چڑھاتے تھے۔ بُت پرستی کرنے والوں کے کاہن ان کے پاس قربانیوں کے ساتھ بہت زیادہ تجارتی سامان لے کر آتے تھے لہٰذا یہودی ڈرتے تھے کہ کہیں غیر قوم مسیحی اس سامان کو خریدنے سے جو شاید بتوں کی نظر ہوا تھا مسیحیت میں تفرقہ پیدا نہ کر دیں۔ IKDS 178.2

    اس کے علاوہ غیر قوم والے گلا گھونٹے جانور کا گوشت بھی کھاتے تھے جبکہ یہودیوں کو خُداوند کی طرف سے یہ واضح ہدایت تھی کہ جب کسی جانور کو کھانے کے لئے ہلاک کیا جائے تو اس کے بدن کا سارا خون بہا دیا جائے ورنہ یہ پاک قرار نہ دیا جائے گا۔ خُدا وند خُدا نے یہودیوں کو یہ ہدایت اچھی صحت کو برقرار رکھنے کے لئے دی تھیں، خون کھانا یہودیوں کے نزدیک گناہ سمجھا جاتا تھا۔ ان کے نزدیک خون زندگی ہے۔ اور خون بہانا گناہ کی معافی کے لئے بے حد ضروری ہے۔ مگر غیر قوم والے اس کے برعکس قربانی کے جانور کے بہائے ہوئے خون کو جمع کرلیتے اور کھانا تیار کرنے میں اُسے استعمال کرتے۔ یہودی اس بات کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں تھے کہ ان رسموں میں تبدیلی لائی جائے جو خُداوند کی خاص ہدایت سے اُنہیں پہنچی ہیں۔ اُس وقت کے مطابق اگر یہودی مسیحی اور غیر قوم والے مسیحی اکٹھے ایک میز پر کھانا کھاتے تو اول الذکر کو صدمہ بھی پہنچتا اور وہ ایسے کھانے کی وجہ سے خود کو نجس خیال کرتا۔ IKDS 178.3

    غیر قوم مسیحی اور خاص کر یونانی مسیحی عیاش اوباش اور زانی تھے اس لئے یہ خطرہ تھا کہ بعض جنہوں نے دل سے تبدیلی قبول نہیں کی وہ بدی کی عادات کو ترک کئے بغیر ہی ایمان کا اقرار نہ کر لیں۔ یہودی مسیحی اس طرح کی بد اخلاقی کسی طرح بھی برداشت نہیں کر سکتے تھے جبکہ بُت پرستوں کے نزدیک یہ کوئی جُرم نہ تھا۔ چنانچہ یہودی مسیحیوں نے ان تمام باتوں کے پیشِ نظر (جن کا محولہ بالا سطور میں بیان آ چکا ہے) غیر قوم والے مسیحیوں کی خلوص نیتی، استبازی اور دینداری کی آزمائش کے لئے چاہا کہ اُنہیں پابند کیاجائے کہ وہ ختنہ کے علاوہ موسیٰ کی طرس سے دی گئی ساری شریعت کو مانیں۔ یہودی مسیحیوں کا گمان تھا کہ ایسا قانوں بنانے سے کلیسیا میں اُن لوگوں کے داخلہ میں خاصی کمی واقع ہو گی جو دل کی سچی تبدیلی کے بغیر ہی مسیحی دین میں چلے آتے ہیں۔ ان خیال میں ایسے لوگ بعد میں بد اخلاقی اور بد فعلی سے خُدا کے کام کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ IKDS 178.4

    مرکزی اور مقدم سوال کو طے کرنے میں کئی دوسرے گوناگوں امور اس کے ساتھ شامل ہو گئے اور ایسے معلُوم ہوتا تھا کہ ان مشکلات پر قابو پانا کونسل کے لئے کارِمحال ہے۔ مگر رُوح القدس نے اس سوال کو پیشتر ہی حل کر دیا تھا جس کے فیصلے پر مسیحی کلیسیا کی برومندی (نشوونما) کا انحصار ہے۔ IKDS 179.1

    “اور بہت بحث کے بعد پطرس نے کھڑے ہو کر اُن سے کہا کہ اے بھائیو! تُم جانتے ہو کہ بہت عرصہ ہوا جب خُدا نے تُم لوگوں میں سے مجھے چُنا کہ غیر قومیں میری زبان سے خوُشخبری کا کلام سن کر ایمان لائیں”۔ اس نے دلائل دیتے ہوئے فرمایا کہ جو مسئلہ زیر غور ہے رُوح القدس نے اُسے پیشتر ہی غیر قوم نا مختونوں اور یہودی مختونوں دونوں پر مساوی قوت بھیج کر حل کر دیا ہے۔ اُس نے اُس رویا کو دُہرایا جو خُدا وند نے اُسے دی تھی۔ اس نے بتایا کہ خُدا نے ایک چادر میرے سامنے کی جس میں پاک اور ناپاک چوپائے موجود تھے اور خُدا وند نے مجھے حُکم دیا کہ میں اُنہیں ذبح کروں اور کھاوں، اور جب کھانے سے انکار کیا اور خُدا کو بتایا کہ میرے منہ میں کبھی کوئی حرام چیز نہیں گئی تو خُدا کا یہ جواب تھا “جس کو خُدا نے پاک ٹھہرایا ہے تو اُنہیں حرام نہ کہہ”۔ اعمال۱۵:۱۲۔ IKDS 179.2

    پطرس نے اس کلام کی سادہ سی تفسیر پیش کر دی جو اُسے تقریباً فوراً ہی خُدا وند کے اُس حُکم کے ساتھ ملی کہ صوبیدار کے پاس جا اور اُسے مسیحی ایمان کی ہدایت کر۔ یہ پیغام اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ خُدا وند کسی کا طرفدار نہیں بلکہ جو اُس سے ڈرتا اور راستبازی کرتا ہے وہ اُس کو پسند آتا ہے۔ پطرس نے سچائی کاکلام پیش کرتے ہوئے اُن کے سامنے جو کُرنیلیس کے گھر میں لوگ جمع تھے اپنی حیرانی کا اظہار کیا۔ وہ اس بات کا بھی گواہ تھا کہ رُوح القدّس اس کے سامعین پر نازل ہوا جن میں یہودی مسیحی اور غیر قوم مسیحی دونوں شامل تھے۔ وہ نُور اور جلال جو مختون یہودیوں پر چمکا، وہی نامختون غیر قوم والوں کے چہروں پر بھی چمکا، اور یہ پطرس کو خُدا کی طرف سے تنبیہ تھی کہ کسی کو بھی دوسرے سے کمتر خیال نہ کرے کیونکہ مسیح کا خُون تمام ناراستی سے پاک کرنے پر قادر ہے۔ IKDS 180.1

    پطرس نے بھائیوں کے ساتھ ایک دفعہ پہلے بھی کُرنیلیس اور اس کے دوستوں اور دوسرے ساتھیوں کی تبدیلی کے بارے بحث کی تھی۔ اس موقع پر پطرس نے بتایا کہ رُوح اُن پر کیسے نازل ہوا “پس جب خُدا نے اُن کو بھی وہی نعمت دی جو ہمکو خُداوند یسوع مسیح پر ایمان لا کر ملی تھی تو میں کون تھا کہ خُد کو روک سکتا؟” اعمال ۱۷:۱۱۔ “اور خُدا نے جو دلوں کی جانتا ہے ان کو بھی ہماری طرح رُوح القدّس دے کر اُن کی گواہی دی۔ اور ایمان کے وسیلہ سے اُن کے دل پاک کرکے ہم اور ان میں کچھ فرق نہ رکھا۔ پس اب تُم شاگردوں کی گردن پر ایسا جوا رکھ کر جس کو نہ ہمارے باپ دادا اُٹھا سکتے تھے نہ ہم”۔ یہ جُوا دس احکام کی شریعت نہ تھا جیسے کہ بعض کا خیال ہے اور اس کی مخالفت بھی کرتے ہیں۔ پطرس یہاں رسمی شریعت کا ذکر کرتا ہے جو مسیح کی مصلُوبیت کے ساتھ ہی مٹا دی گئی۔ IKDS 180.2

    پطرس کا خطاب سامعین کو اس مقام پر لے آیا جہاں وہ پولُس اور برنباس کی بات بڑے تحمل سے سُن سکتے تھے جنہوں ے غیر قوم میں کام کرنے کا اپنا تجربہ بیان کیا۔ “پھر ساری جماعت چُپ رہی اور پولُس اور برنباس کا بیان سُننے لگی کہ خُدا نے اُن کی معرفت غیر قوموں میں کیسے کیسے نشان اور عجیب کام ظاہر کئے۔۔۔۔ بعقوب نے بھی اپنی گواہی دیتے ہوئے یون بیان کیا کہ یہ خُدا کا مقصد تھا کہ وہ یہودیوں اور غیر قوم والوں کو کلیسیائی برکات اور مواقع فراہم کرے۔ IKDS 180.3

    رُوح القدس نے یہ مناست جانا کہ غیر قوم مسیحیوں پر رسمی شریعت نہ تھوپی جائے۔ چنانچہ اس معاملہ میں رسُولوں کے دماغ خُداوند کے رُوح کے ہم آہنگ تھے۔ کونسل کی صدارت کے فرائص یعقوب نے ادا کئے اور بالآخر اس کا فیصلہ یہ تھا ۔۔۔ “پس میرا فیصلہ یہ ہے کہ جو غیر قوموں میں سے خُدا کی طرف رجُوع ہوتے ہیں ہم اُن کو تکلیف نہ دیں” اس کے ساتھ ہی ساری بحث موقوف ہو گئی۔ IKDS 181.1

    اس سارے واقع کی روشنی میں ہم رومن کیتھولک کلیسیا کی اس تعلیم کی تردید کرنا چاہتے ہیں کہ “پطرس کلیسیا کا سردار ہے۔ وہ سب جو بطور پوپ اس کے جانشین ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں کلام مقدس میں اُن کے دعویٰ کی کوئی بُنیاد موجود نہیں۔ پطرس کی زندگی میں اس دعویٰ کی تصدیق و توثیق نہیں ہو تی کہ اُسے حق تعالیٰ کے نائب ہونے کی بنا پر بھائیوں سے سر بلند کیا گیا۔ وہ سب لوگ جنہیں اس کا جانشین ہونے کے لئے مقرر کیا گیا اگر وہ اس کا نمونہ اپناتے تو وہ اپنے بھائیوں کے مساوی ہونے پر ہی قناعت کرتے۔ IKDS 181.2

    متذکرہ واقعہ سے ایسے معلوم ہوتا ہے کہ بھائیوں نے یعقوب کو چُنا تھا کہ وہ کونسل کے فیصلے کا اعلان کرے۔ یہ اُسی نے کہا تھا کہ رسمی شریعت اور خصوصاً ختنے کی رسم غیر قوم مسیحیوں پر نہ تھوپی جائے۔ یعقوب رسُول نے اس حقیقت سے بھائیوں کو متاثر کرنا چاہا کہ خُدا کی طرف آنے سے ہی غیر قوم والے اپنی زندگیوں میں بہت بڑی تبدیلی لائے ہیں۔ اس لئے ہمیں بڑی ہوشیاری سے کام لینا چاہیے اور اُن سے پُر شکُوک اور پریشان کن اور غیر اہم سوالات نہ کرنا چاہیئں۔ مبادہ یسُوع کی پیروی کرنے میں پست ہمیں ہو جائیں۔ IKDS 181.3

    غیر قوم مسیحی اُن رسم و روایات کو ترک کرنے کو تھے جو مسیحی اصُولوں کے منافی تھیں۔ کیونکہ رسُولوں اور کلیسیا کے بُزرگوں نے اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ غیر قوم مسیحیوں کو لکھا جائے کہ وہ ان کھانوں سے گریز کریں جو بتوں کو چڑھائے گئے ہیں۔ اور اُنہیں ہدایت کی جائے کہ حرامکاری، گلا گھونٹے اور خون کو نہ کھائیں۔ اور اُنہیں دس احکام کی شریعت ماننے اور پاک زندگی بسر کرنے کی ترغیب دیں۔ مزید غیر قوم سے ایمان لانے والے مسیحیوں کو یقین دلایا گیا کہ جن لوگوں نے ختنہ کی تعلیم پھیلائی تھی، اُنہیں رسُولوں کی طرف سے ایسی تعلیم دینے کا کوئی اختیار نہیں دیا گیا تھا۔ IKDS 182.1

    جنرل کونسل نے غیر قوم مسیحیوں کے سامنے پولُس اور برنباس کو اُن کے سامنے ایسے کارندوں کے طور پر پیش کیا گیا جنہوں نے اپنی زندگیاں خُداوند کی خاطر خطرے میں ڈال رکھی ہیں۔ یہودہ اور سیلاس کونسل کا فیصلہ زبانی سنانے کے لئے غیر قوم مسیحیوں کے پاس رسُولوں کے ہمراہ گئے۔ “کیوں کہ رُوح القدّس نے اور ہم نے مناسب جانا کہ ان ضروری باتوں کے سوا تم پر اور بوجھ نہ ڈالیں۔ کہ تُم بُتوں کی قُربانیوں کے گوشت سے اور لہو اور گلا گھونٹے ہوئے جانوروں اور حرامکاری سے پرہیز کرو۔ اگر تُم ان چیزوں سے اپنے آپ کو بچائے رکھو گے تو سلامت رہو گے۔” خُداوند کے چار خادم اُس خط اور پیغام کے ساتھ انطاکیہ کو بھجے گئے جس نے ساری کشمکش کا خاتمہ کرنا تھا کیونکہ زمین پر یہ اعلیٰ اختیار یعنی جنرل کانفرنس کی آواز تھی۔ IKDS 182.2

    جس کونسل نے اس کیس کا فیصلہ کیا وہ اُن معلمین اور رسُولوں پر مشتمل تھی جو یہودی مسیحی اور غیر قوم مسیحی کلیسیاوں کو قائم کرنے میں بڑا نام رکھتے تھے۔ اور ان کے ساتھ فیصلہ میں شریک مختلف کلیسیاوں سے منتخب ہو کر آنے والے نمائندے بھی تھے۔ یروشلیم کے ایلڈرز اور انطاکیہ سے نمائیندے بھی آئے تھے ان کے علاوہ دوسری با اثر کلیسیاوں سے نمائندگان بھی کونسل میں حاضر تھے۔ اس کونسل میں موجود ہر ایک نے دیکھا کہ خُدا نے خُود اُس سوال کا جواب غیر قوم والوں پر رُوح القدّس نازل کرکے دے دیا ہے۔ اور اُنہوں نے یہ بھی محسُوس کیا کہ اب اُن کا فرض بنتا ہے کہ رُوح کی ہدایت کے مطابق چلیں۔ IKDS 182.3

    اس سوال پر تمام مسیحیوں کو ووٹ ڈالنے کے لئے نہ بُلایا گیا بلکہ “رسُولوں اور بُزرگوں” اور بارسُوخ بھائیوں کو بُلایا گیا تاکہ مسئلے کا ایسا حل تلاش کریں جو تمام کلیسیاوں کو قابل قبُول ہو۔ بے شک اس فیصلہ سے سب کے سب تو خُوش نہ ہوئے۔ کیونکہ وہاں بھائیوں میں ایک جاہ طلب سیاسی گروہ تھا اس فیصلے سے ناخُوش تھا۔ یہ بھائی اپنی ذمہ داری پر خُدا کی خدمت اختیار کرنا چاہتے تھے۔ یہ بُڑبڑانے اور نکتہ چینی میں مشغول رہتے۔ نئے نئے منصوبوں کا مشورہ دیتے اور جو مخصوص شُدہ خادم تھے اُن کے کام کو بگاڑنے میں وقت گزارتے۔ شُروع سے ہی کلیسیا کو اس طرح کی رکاوٹوں کا سامنا رہا ہے اور یہ تاابد رہے گا جب تک خاتمہ نہ ہو۔ IKDS 183.1

    یروشلیم یہودیوں کا دارالحکومت تھا وہیں ہٹ دھرمی اور دوسروں سے علیحدہ رہنے کا رجحان پایا گیا۔ یہودی مسیحی جن کی آنکھوں کے سامنے ہیکل رہتی تھی فطری طور پر اُن کے دماغ اُس طرف پلٹ جاتے اور وہ سمجھنے لگتے کہ یہودی “خداوند کی خاص قوم ہے” اس لئے جب اُنہوں نے دیکھا کہ مسیحی کلیسیا یہودی رسم و روایات کو ترک کر رہی ہے اور گمان کیا کہ نئے ایمان کی روشنی میں یہودی رسم و رواج کا فُور ہو جائیں گے تو بہت سے یہودی مسیحی پولُس کے ساتھ سخت برہم ہوئے۔ کیونکہ پولُس ہی بڑی حد تک ایسی تبدیلی کا ذمہ دار تھا۔ یہاں تک کہ بہت سے شاگرد بھی کونسل کے اس فیصلے کے ساتھ متفق نہ تھے۔ بعض جو رسمی شریعت کے دلدادہ تھے اُنہوں نے پولُس کی اس لئے حمایت نہ کی کیونکہ اُنہوں نے سوچا کہ پولُس کے اصُول یہودی شریعت کے مقابلہ میں بہت ہی نرم و ملائم ہیں۔ IKDS 183.2

    جنرل کانفرنس کے واضح اور دُور رس فیصلوں سے غیر قوم مسیحیوں میں اعتماد آیا اور خُداوند کا کام بار آور ہُوا۔ انطاکیہ میں یہودہ اور سیلاس کی موجودگی کی وجہ سے جو رسُولوں کے ساتھ یروشلیم کی میٹنگ سے واپس آئے کلیسیا پر بڑی شفقت ہوئی۔ “اور یہودہ اور سیلاس نے جو خُود بھی نبی تھے بھائیوں کو بُہت سی نصیحت کر کے مضبوط کر دیا”۔ یہ خُدا پرست بھائی وہاں چند روزہ رہ کر اور بھائیوں سے سلامتی کی دُعا لے کر اپنے بھیجنے والوں کے پاس رُخصت کر دئیے گئے۔ “پولس اور برنباس انطاکیہ میں ہی رہے اور بہت سے لوگوں کو خُداوند کا کلام سکھاتے اور اُسکی منادی کرتے رہے”۔ IKDS 184.1

    جب بعد میں پطرس انطاکیہ میں گیا تو اپس نے اپنی مصلحت اندیشی سے غیر قوم مسیحیوں کا اعتماد جیت لیا۔ کچھ دیر تک وہ آسمانی روشنی کے مطابق عمل پیرا رہا۔ فطری تعصب پر اس قدر قابو پالیا کہ وہ غیر قوم والوں کے ساتھ ایک ہی میز پر بیٹھ کر کھایا پیا کرتا تھا۔ لیکن جب بعض یہودی جو رسمی شریعت کے دلدادہ تھے یروشلم سے انطاکیہ میں آئے تو پطرس نے غیر دانشمندی سے بُت پرست ایمانداروں کے ساتھ اپنا رویّہ بدل لیا”۔ گلتیوں ۱۱:۲-۱۲ IKDS 184.2

    جن لیڈروں کو کلیسیا عزت کی نگاہ سے دیکھتی اور محبت کرتی تھی جب اُن پر اُن کی اس کمزوری کا ظہور ہوا تو اس رویہ نے غیر قوم مسیحیوں کے ذہن پر نہایت ہی اذیت ناک تاثر چھوڑا۔ کلیسیا کے بٹوارے کا خطرہ پیدا ہو گیا۔ لیکن پولُس جس نے دیکھا کہ کلیسیا میں پطرس کے دُہرے عمل کی تاثیر سے تخریبی عمل شُروع ہُوا ہے اُسے اپنے حقیقی جذبات کو چُھپانے اور مکاری کرنے پر جھڑکا۔ بلکہ کلیسیا کی موجودگی میں پولُس نے اُس سے پُوچھا۔ “جب میں نے دیکھا کہ وہ خُوشخبری کی سچائی کے موافق سیدھی چال نہیں چلتے تو میں نے سب کے سامنے کیفا سے کہا کہ جب تُو باوجود یہودی ہونے کے غیر قوموں کی طرح زندگی گزارتا ہے نہ کہ یہودیوں کی طرح تو غیر قوموں کو یہودیوں کی طرح چلنے پر کیوں مجبور کرتا ہے؟”۔ گلتیوں ۱۴:۲۔ IKDS 184.3

    پطرس نے اس غلطی کو دیکھا جو اُس سے سر زد ہوئی تھی اور جہاں تک اُس سے ہو سکا اُس نے فوراً اس بُرائی کو دُور کرنے کے لئے کمر کس لی۔ خُدا وند خُدا جو ابتدا سے انتہا تک دیکھتا ہے اُس نے پطرس کو اپنے چال چلن میں پائی جانے والی اس کمزوری کو جاننے کا موقع دیا تاکہ اُسے معلوم ہو کہ بذاتِ خُود اس میں کوئی ایسی خوبی نہیں جس پر وہ فخر کر سکے۔ کہنا یہ ہے کہ اگر بہترین سے بہترین اشخاص کو بھی ان کی اپنی صوابدید پر چھوڑ دیا جائے تو وہ بھی غلطی کا شکار ہو جائیں گے۔ خُداوند نے یہ بھی دیکھا کہ آنے والے وقتوں میں بعض اُٹھ کھڑے ہوں گے اور اس کے جانشین ہونے کا دعویٰ کریں گے اور پطرس کو وہ عزت و تکریم دیں گے جو صرف خُدا وند کا ہی حق ہے۔ چنانچہ کتاب مقدس میں رسُول کی کمزوری کا یہ ریکارڈ اسی ثبوت کے لیے رکھا گیا ہے تاکہ س جان سکیں کہ وہ بھی انسان تھا اور اس سے بھی غلطیاں سر زد ہوئی تھیں ، نیز وہ کسی بھی لحاظ سے دوسرے رسُولوں سے اعلیٰ و بالا نہ تھا۔ IKDS 185.1

    راست اصول سے انحراف کی یہ تاریخ ان حضرات کے لیے بڑی ہی سنجیدہ تنبیہ کا کام کرتی ہے جو خُداوند کی خدمت میں اعلیٰ مرتبہ رکھتے ہیں اور کلیسیا ان پر بھروسہ بھی رکھتی ہے۔ لہٰذا ان کے لئے یہ بے حد ضرُوری ہو جاتا ہے کہ وہ کسی بھی حالت میں راست باشی اور دیانتداری کا ساتھ نہ چھوڑیں۔ کسی بھی انسان کو جتنی بڑی ذمہ داری سونپی جائے گی اور جتنے زیادہ نگرانی کرنے اور حُکم دینے کے مواقع اس کے پاس موجود ہوں گے اگر وہ ہوشیاری اور فکر مندی اور دانشمندی سے خُداوند کی راہوں کی پیروی نہیں کرے گا اور ایماندروں کی اعلیٰ جماعت کے فیصلوں کے مطابق خدمت انجام نہیں دے گا تو یقینی طور پر وہ بہت بڑے نقصان کا باعث ٹھہرے گا۔ IKDS 185.2

    پطرس کی تمام ناکامیوں کے پیچھے اس کا زوال اور بحالی، اس کی طویل خدمت، مسیح یسوُع کے ساتھ شناسائی، راست اصولوں پر عمل کرنے کی تعلیم جو اُسے براہِ راست مسیح سے حاصل ہوئی اور تمام ہدایات جو اس نے حاصل کیں۔ تعلیم دینے اور منادی کرنے کی بدولت جو تمام نعمتیں، علم اور عزت نصیب ہوئی۔ اس لیے یہ کوئی عجیب بات نہیں کہ یہ ساری عزت و ناموس اور اختیار رکھتے ہوئے پطرس نے آدمیوں کے خوف سے یا انسانوں سے تعظیم اور عزت و احترام پانے کی کاطر منافقت کی اور انجیل کے اصولوں سے انحراف کیا۔ دُعا ہے کہ خُداوند ہر شخص کو اُسکی کمزوری اور نااہلی سے سبق سیکھنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ وہ اپنی کشتی کو بالکل بحفاظت سیدھا بندرگاہ (خُداوند کی بادشاہت) میں لے جا سکے۔ IKDS 186.1

    پولوس کو اپنی خدمت کے دوران اکثر کئی بار تنہا خُداوند کے لیے کھڑا ہونا پڑا۔ اصُولوں کے بارے سمجھوتہ کرنا اُس نے خُداوند سے سیکھا تھا۔ بعض اوقات اُسے بڑی بڑی آزمائشوں کا سامنا ہوتا تھا مگر وہ ہر حالت میں ثابت قدم رہا۔ اُسے یہ ہمیشہ یاد رہتا تھا کہ کلیسیا کو کسی بھی حالت میں انسانی نگرانی میں نہ چھوڑنا چاہیے۔ روایات قصے کہانیوں اور کہاوتوں کو ان صداقتوں کی جگہ نہ لینی چاہیے جو خُداوند کی طرف سے ہم پر ظاہر ہوئی ہیں۔ انجیل کی منادی کے کام میں کسی شخص یا اشخاص کے تعصب یا حوالے سے بالکل رکارٹ نہیں آنی چاہئے خواہ کلیسیا میں ان کا کتنا ہی بڑا مقام اور مرتبہ کیوں نہ ہو۔ IKDS 186.2

    پولُس نے اپنے آپ کو اور اپنی تمام قوا (قوتوں) کو خُداوند خُدا کی خدمت کے لیے وقف کر رکھا تھا۔ انجیل کی تمام صداقتیں اسے براہِ راست خُداوند سے ملی تھیں۔ اپنی ساری خدمت کے دوران اس نے مسلسل خُداوند سے رابطہ قائم رکھا۔ غیر قوم مسیحیوں پر غیر ضروری بوجھ نہ ڈالنے کے بارے اُس نے خُداوند سے سیکھا تھا۔ اسی لیے جب انطاکیہ میں یہودی ایمانداروں نے ختنہ کی رسم پر زور دیا تو پولُس ایسی تعلیم کے بارے جانتا تھا کہ خُدا کے رُوح کی کیا مرضی ہے چنانچہ وہ اُن کے مقابلہ میں ثابت قدمی سے ڈٹا رہا۔ بالآخر تمام کلیسیاوں کو یہودی رسم و رواج سے خلاصی دلا دی۔ IKDS 186.3

    اس حقیقت کے باوجود کہ پولُس رسُول کو خُدا وند خُدا کی طرف سے براہ راست تعلیم ملی تھی اس نے کبھی بھی انفرادی ذمہ داری کے بناوٹی خیال کو اپنے دل میں نہ آنے دیا۔ جب اُسے خُداوند سے براہ راست ہدایت پانے کی ضرُورت محسوس ہوتی، اس وقت بھی وہ ایمانداروں کی جماعت کے اختیارات کو نظر انداز نہ کرتا۔ اُس نے ایمانداروں سے صلاح مشورہ لینے کی ضرُورت کو ہمیشہ مدِنظر رکھا۔ اور جب کبھی اہم مسائل اُٹھ کھڑے ہوتے تو وہ اُنہیں بڑی خُوشی سے کلیسیا کے سامنے رکھتا اور بھائیوں کے ساتھ مل کر حکمت اور صحیح فیصلہ کے لیے خُداوند کو ڈھونڈتا۔ ایک موقع پر اس نے خُدا وند کے رُوح کے تحت فرمایا “نبیوں کی رُوحیں نبیوں کے تابع ہیں۔ کیونکہ خُدا ابتری کا خُدا نہیں بلکہ امن کا بانی ہے۔ جیسا مقدسوں کی سب کلیسیاوں میں ہے” ۔۱۔ کرنتھیوں ۳۲:۱۴:۳۳ چنانچہ اُس نے اپنی ساری خدمت میں پطرس کے ساتھ مل کر ان سبھوں کو جو کلیسیائی اتحاد میں پیوست ہیں یہ سکھایا “سب کے سب ایک دوسرے کے تابع رہو”۔ ۱ پطرس ۵:۵۔ IKDS 187.1

    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents