Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents

ابتدائ کليسياء کے درخشاں ستارے

 - Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First
    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents

    باب ۳۹ - قیصریہ میں پیشی

    اعمال چوبیسواں باب

    پولُس کے قیصریہ میں پہنچنے کے پانچ روز بعد اس پر الزام لگانے والے یروشلیم سے ترطلُس نامی ایک وکیل کو ساتھ لے کر وہاں آگئے جو ان کا مشیر تھا۔ جلد سماعت کے لئے مقدمہ کی منظوری مل گئی۔ پولُس کو اسمبلی کے سامنے لایا گیا تو ترطلس “الزام لگا کر” کہنے لگا (یہ سمجھتے ہوئے کہ رومی گورنر سادہ سچائی اور انصاف کے کلمات کی نسبت ستائشی کلمات سے زیادہ متاثر تو مکاروکیل نے اپنی تقریر اُس کی تعریف میں یوں شروع کی)۔۔۔ اے فیلکس بہادر! چونکہ تیرے وسیلہ سے ہم بڑے امن میں ہیں اور تیری دُوراندیشی سے اس قوم کے فائدہ کے لئے خرابیوں کی اصلاح ہوتی ہے۔ ہم ہر طرح اور ہر جگہ کمال شکر گزاری کے ساتھ تیرا احسان مانتے ہیں” IKDS 392.1

    ترطلُس یہاں کھلم کھلی جھوٹی گواہی دینے پر تُل گیا تھا اور جو کچھ اس نے ترطلُس کے حق میں کہا وہ سب لغو تھا۔ کیونکہ ترطلُس کا چالچلن نفرت انگیز تھا۔ وہ لوگ جنہوں نے ترطلُس کو اُس کی تعریف کرتے سُنا وہ جانتے تھے کہ وہ غلط بیانی اور چاپلُوسی سے کام لے رہا ہے، مگر سچائی کی نسبت اُنہیں بھی پولُس کو مجرم ثابت کر کے سزا دلانے میں زیادہ دلچسپی تھی۔ IKDS 392.2

    اپنی تقریر میں ترطلُس نے پولُس پر جو الزامات لگائے اگر وہ ثابت ہو جاتے تو وہ سب سے بڑا فتنہ انگیز اور باغی مانا جاتا۔ “ہم نے اس شخص کو مفسد اور دُنیا کے سب یہودیوں میں فتنہ انگیز اور ناصریوں کے بدعتی فرقہ کا سر گروہ پایا۔ اس نے ہیکل کو ناپاک کرنے کی بھی کوشش کی تھی” اور پھر ترطلُس نے یہ بھی کہا کہ جب ہم اُسے اپنی عدالت کے مطابق اس کا فیصلہ کرنے والے تھے تو لُوسیاس جو یروشلیم میں پلٹن کا سردار تھا آکر اُسے ہمارے ہاتھ سے چُھڑا کر لے گیا۔ چنانچہ ہم مجبوراً فیصلے کے لئے تیرے پاس آئے ہیں۔ اس ساری تقریر کا مقصد صرف یہ تھا کہ پولُس کو یہودی عدالت کے سامنے پیش کیا جائے۔ یہ سماعت یہودیوں کے رُوبرو ہوئی اور اُنہوں نے اس معاملہ میں پولُس کے برخلاف اپنی نفرت کا اظہار کھل کر کیا۔ IKDS 392.3

    فیلکس پولُس پر الزام تراشی کرنے والوں کے ارادوں کو فوراً بھانپ گیا۔ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ اُنہوں نے کیوں اُس کی تعریف کی ہے۔ اور اُس نے یہ بھی دیکھ لیا کہ جو الزامات اُنہوں نے پولُس پر لگائے ہیں اُن کے ثبوت فراہم کرنے میں یہ ناکام رہے ہیں۔ پھر فیلکس نے پولُس کی طرف اشارہ کیا کہ تُو ان الزامات کا کیا جواب دیتا ہے؟۔۔۔ پولُس نے ستائشی کلمات کا سہارا نہ لیا بلکہ وقت ضائع کئے بغیر اُس نے کہا مجھے خُوشی ہے کہ میں خاطر جمعی سے تیرے سامنے اپنا عُذر پیش کر سکتا ہوں۔ چونکہ فیلکس کافی عرصہ سے اس قوم کی عدالت کر رہا تھا اس لئے اُسے یہودی قوانین اور رسُوم سے کافی وقفیت تھی۔ اُن الزامات کا حوالہ دیتے ہوئے جو اُس پر لگائے گئے تھے اُس نے بڑی سادگی سے بتایا کہ اُن میں سے ایک بھی درست نہیں۔ اس نے یہ بھی واضح کیا کہ اس نے یروشلیم کے کسی حصہ میں انتشار نہیں پھیلایا اور نہ ہی ہیکل کو ناپاک کیا ہے۔ “اور اُنہوں نے مجھے نہ ہیکل میں کسی کے ساتھ بحث کرتے یا لوگوں میں فساد اُٹھاتے پایا نہ عبادت خانوں میں نہ شہر میں اور نہ ہی وہ ان باتوں کا جن کے مجھ پر اب الزامات لگاتے ہیں تیرے سامنے ثابت کر سکتے ہیں”۔ IKDS 393.1

    “لیکن تیرے سامنے یہ اقرار کرتا ہوں کہ جس طریق کو یہ بدعت کہتے ہیں اسی کے مطابق میں اپنے باپ دادا کے خُدا کی عبادت کرتا ہوں اور جو کچھ توریت اور نبیوں کے صحیفوں میں لکھا ہے اُن سب پر میرا ایمان ہے۔ اور خُدا سے اسی بات کی اُمید رکھتا ہوں جس کے وہ خُود بھی منتظر ہیں کہ راستبازوں اور ناراستوں دونوں کی قیامت ہو گی۔ اسی لئے میں خُود بھی کوشش میں رہتا ہوں کہ خُدا اور آدمیوں کے باب میں میرا دل مجھے کبھی ملامت نہ کرے”۔ IKDS 393.2

    بڑے ہی صاف سیدھے اور اعلیٰ انداز میں پولُس نے یروشلیم میں اپنے آنے کے مقصد پر روشنی ڈالی، اور اپنی گرفتاری اور پیشی کے بارے بھی بتایا “بہت برسوں کے بعد میں اپنی قوم کو خیرات پہنچانے اور نذریں چڑھانے آیا تھا۔ انہوں نے بغیر ہنگامہ یا بلوے کے مجھے طہارت کی حالت میں یہ کام کرتے ہوئے ہیکل میں پایا۔ ہاں آسیہ کے چند یہودی تھے اور اگر اُن کا مجھ پر کچھ دعویٰ تھا تو انہیں تیرے سامنے حاضر ہو کر فریاد کرنا واجب تھا۔ یا یہی خُود کہیں کہ جب میں صدرِ عدالت کے سامنے کھڑا تھا تو مجھ میں کیا برائی پائی تھی۔ سوا اس ایک بات کے کہ میں نے ان میں کھڑے ہو کہ بُلند آواز سے کہا تھا کہ مردوں کی قیامت کے بارے میں آج مجھ پر تمہارے سامنے مقدمہ ہو رہا ہے”۔ IKDS 394.1

    رسُول نے بڑی دیانتداری اور خلوص دلی سے بات کی۔ اس کی باتوں میں وزن تھا جس سے سامعین قائل ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ کلودیُس لو سیاس نے فیلکس کو اپنے خط میں پولُس کے بارے یہی کچھ لکھا تھا جو پولُس نے ابھی ابھی بیان دیا تھا۔ علاوہ ازیں فیلکس کو خُود بھی لوگوں کے خیال سے کہیں زیادہ یہودی مذہب کی کافی واقفیت تھی۔ چنانچہ جب پولُس نے اپنا بیان دیا تو فیلکس یہودیوں کی سازش سے بخوبی واقف ہو گیا کہ وہ دھوکے سے پولُس کو مارنا چاہتے ہیں۔ IKDS 394.2

    چنانچہ گورنر یہودیوں کے ایک رومی شہری کے برخلاف غیر ضروری اور بے انصافی پر مبنی دلائل سننے کے لئے تیار نہ تھا اور نہ ہی اُسے بغیر مقدمہ چلائے موت کے لئے اُن کے حوالہ کرنا چاہتا تھا۔ اس کے باوجود اُسے ترقی (پروموشن) کی اُمید تھی اور وہ یہودیوں کو ناراض نہیں کرنا چاہتا تھا چنانچہ اُس نے اُس شخص کے ساتھ پُورا انصاف نہ کیا جس کو وہ خُود بھی بے گناہ سمجھتا تھا۔ چنانچہ اُس نے لو سیاس کے آنے تک مقدمہ ملتوی کر دیا “فیلکس نے جو صحیح طور پر اس طریق سے واقف تھا یہ کہہ کر مقدمہ کو ملتوی کر دیا کہ جب پلٹن کا سردار لو سیاس آئے گا تو میں مقدمہ کا فیصلہ کروں گا۔”IKDS 394.3

    چنانچہ پولُس بدستُور قید میں رہا۔ اور فیلکس نے صوبہ دار کو حُکم دیا کہ “اسکو قید تو رکھ مگر آرام سے رکھنا اور اس کے دوستوں میں سے کسی کو اس کی خدمت کرنے سے منع نہ کرنا” اور چند روز کے بعد فیلکس اپنی بیوی درُوسلہ کو جو یہودی تھی ساتھ لے کر آیا اور پولُس کو بُلوا کر اُس سے مسیح یسوع کے دین کی کیفیت سُنی۔ وہ ان صداقتوں کو سُننے کے لئے رضا مند تھے بلکہ سننے کے مشتاق تھے جو شاید پھر کبھی نہ سُنیں۔ اور اگر ان صداقتوں کو رد کردیں تو روز عدالت یہ سب کچھ اُن کے خلاف گواہ ہو گا۔ IKDS 395.1

    پولُس نے سمجھا کہ خُدا نے یہ موقع فراہم کیا ہے چنانچہ اُس نے بڑی وفاداری اور ایمانداری سے اس موقع کا فائدہ اُٹھایا۔ رسُول کو اچھی طرح معلوم تھا کہ وہ ایسے شخص کے حضور کھڑا ہے جو اُسے موت کے گھاٹ اُتار سکتا ہے اور چاہے تو آزاد بھی کر سکتا ہے۔ اس کے باوجود اُس نے فیلکس یا درُوسلہ کی خوشامد نہ کی۔ وہ جانتا تھا کہ اس کا کلام ان کے لئے زندگی یا موت ثابت ہو سکتا ہے۔ چنانچہ اس نے ہر ہر بات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے جو کچھ اُن کی ابدی زندگی کے لئے کافی تھا تفصیلاً عرض کردیا۔ IKDS 395.2

    پولُس کو اس بات کا پُورا پُورا احساس تھا کہ جو انجیل کو سُنتے ہیں ان کا یہ شرف ہو گا کہ خُدا کے تخت کے قریب مقدسین میں کھڑے ہوں یا ان لوگوں میں کھڑے ہوں جنکو مسیح یسوع یہ کہے گا “اے بدکار میرے پاس سے چلے جاو” متی ۲۳:۷ اُسے معلوم تھا کہ وہ اپنے سامعین میں سے ہر ایک کوآسمانی عدالت کے سامنے اپنا اپنا حساب دینے کے لئے کھڑا پائے گا۔ نہ صرف اس کا حساب دینا ہو گا جو انہوں نے کہا اور کیا بلکہ کس نیت سے کلام کیا اس کا بھی حساب دینا ہو گا۔ فیلکس کی زندگی ظلم اور تشدد سے عبارت رہی تھی۔ یہاں تک کہ کوئی اُسے یہ بتانے کی جرات بھی نہیں کرتا تھا کہ اس کا چالچلن درُست نہیں ہے۔ مگر پولُس کو کسی انسان کا ڈر نہیں تھا۔ اُس نے بڑی صفائی سے مسیح میں اپنے ایمان کا اظہار کیا، اس ایمان کی وجہ بھی بتائی اور پھر مسیحی چالچلن کی اشد ضروری خوبیوں پر سیر حاصل تبصرہ کیا، جو ان دونوں میاں بیوی میں سرے سے مفقود تھیں۔ IKDS 395.3

    رسُول نے س جوڑے کے سامنے خُدا کی سیرت، اس کی رستبازی، انصاف، مساوات اور اس کی شریعت کو رکھا۔ رسُول نے بتایا کہ یہ انسان کا فرض ہے کہ شائشتہ اور پرہیز گاری کی زندگی بسر کرے، اپنے جذبات کو اپنے قابو میں رکھے، خُدا وند کی شریعت کے مطابق زندگی گزارے اور اپنی جسمانی اور دماغی قوا کو صحت مند حالت میں پرکھے۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ عدالت کا ایک دن مقرر ہے جس دن انسان کو اُن سب کاموں کا حسات دینا ہو گا جو اُس نے اپنے بدن کے ذریعہ کئے ہیں۔ اور اس دن واضح ہو جائے گا کہ خُدا کی طرف داری حاصل کرنے کے لئے اور گناہ سے خلاصی پانے کے لئے دھن دولت یا مرتبہ (Position) سب کچھ ناکام ہو جائے گا۔ رسُول نے بتایا کہ آنے والی زندگی کے لئے ہمیں اسی زندگی میں تیاری کرنا ہو گی۔ اگر انسان اس زندگی میں میسر مواقع اور مراعات کو نظر انداز کر دے گا تو وہ ابدی نُقصان اُٹھائے گا اور اس کے بعد اس کے لئے اور کوئی موقع میسر نہ آئے گا۔ IKDS 396.1

    پولُس خُدا کی شریعت کے دُور رس دعووں پر جیتا تھا۔ اُس نے انہیں بتایا کہ کس طرح شریعت انسان کے اُن اخلاقی پہلووں کو اُجاگر کرتی ہے جو انسانی آنکھ سے پوشیدہ ہیں۔ یعنی جو کچھ انسانی ہاتھ کرتا ہے، زبان ہولتی ہے یہ ظاہری زندگی ہے اس سے کسی بھی انسان کا پُوری طرح احاطہ نہیں ہوتا کہ اُس کی سیرت کیسی ہے؟ انسانی آنکھ اُس کے ناتمام اخلاقی چالچلن کا اندازہ نہیں کرسکتی۔ شریعت ہی اس کے خیالات ارادوں اور مقاصد کو ڈُھونڈ نکالتی ہے۔ وہ گھناو نے جذبات و خیالات جو انسانی نظر سے پوشیدہ ہیں مثلاً حسد، نفرت، بد پرہیزی، بُری رغبتیں، بد فعلیاں، خُدا کی شریعت ان سب کی مخالفت کرتی ہے۔ IKDS 396.2

    ان باتوں کے علاوہ پولُس اپنے سامعین کی توجہ گناہ کے لئے دی گئی عظیم قُربانی کی طرف دلانا چاہتا تھا۔ اُس نے اُن رسمی قربانیوں کی طرف اشارہ کیا جو آنے والی قربانی کی نظیر تھیں، پھر اُن قربانیوں کے عوض مسیح یسُوع کو پیش کیا جو گری ہوئی نسلِ انسانی کی واحد اُمید اور زندگی کا منبع ہے۔ اُس نے مزید بتایا کہ قدیم میں مقدسین کے خون میں ایمان رکھنے سے بچائے گئے۔ جب وہ ذبح ہونے والے جانوروں کی جان کنی کی حالت کو دیکھتے تو اُن کی نگاہیں خُدا کے برے کی طرف اٹھ جاتیں جو دُنیا کے گناہ اُٹھا لے جاتا ہے۔ IKDS 397.1

    خُدا وند اپنی تمام مخلوقات سے محبت اور وفاداری کے مطالبہ میں سچا اور راست ہے۔ اُس نے اپنی شریعت میں اُن کو راستی کا بالکل درست معیا ر عطا فرمایا ہے مگر بہتیرے ہیں جو خُدا کی مرضی کے برخلاف اپنی راہوں کی پیروی کرنے کا انتخاب کر لیتے ہیں۔ وہ محبت کی بجائے عداوت پیش کرتے ہیں جو آسمان کی طرح بلند اور کائنات کی طرح وسیع ہے۔ بدکار لوگوں کے معیار کی ہمسری کرنے کے لئے خُداوند اپنی شریعت کے مطالبات کا معیار گرا نہیں سکتا۔، اور نہ ہی انسان اپنی طاقت میں شریعت کی تکمیل کر سکتا ہے۔ صرف مسیح میں ایمان رکھنے کی بدولت ہی گنہگار اپنے گناہوں سے مخلصی پا سکتا ہے اور اپنے خالق کی شریعت کی پابندی کرنے کے قابل ہو سکتا ہے۔ IKDS 397.2

    IKDS 397.3

    اسی طرح پولُس قیدی نے الہٰی شریعت کے مطالبات یہودیوں اور غیر قوم مسیحیوں کو ماننے کے لئے ترغیب دی اور یسُوع کو جو خُدا کا بیٹا اور دُنیا کا نجات دہندہ ہے ان کے سامنے پیش کیا۔ IKDS 397.4

    یہودی شہزادی نے شریعت کے تقدس کو بخوبی سمجھ لیا جسے اُس نے بڑی بے حیائی سے توڑا تھا، مگر مسیح مصلُوب کے خلاف اس کے تعصب نے زندگی کے کلام کے خلاف دِل کو پتھر کر دیا۔ فیلکس نے تو اس سے پہلے کبھی یہ سچائی نہیں سُنی تھی اور جب خُدا کے رُوح نے اُسے قائل کیا تو وہ بہت ہی گھبرا گیا۔ اس کا ضمیر جاگ اُٹھا اور اُس نے اپنے ضمیر کی آواز کو سُنا اور محسُوس کیا کہ پولُس کا کلام سچا ہے۔ اس کا دھیان اپنے غلیظ داغدار ماضِ کی طرف چلا گیا۔ بڑے نمایاں انداز میں اُس کے سامنے اوائل عمری کی پوشیدہ اوباشی اور عیاشی، خون خرابہ، اور پچھلی عمر کا وحشتناک ریکارڈ آ گیا۔ اس نے خود کو عیاش، ظالم اور غارت گر اور لالچی پایا۔ اس سے پہلے اس کے دل میں اس طرح کی سچائی نے گھر نہیں کیا تھا۔ اس سے پہلے اس کی رُوح اس قدر خوف و ہراس سے نہیں بھری تھی۔ یہ خیال آتے ہی کہ اُس کی زندگی کے تمام پوشیدہ جرائم خُدا کی آنکھوں کے سامنے بے پردہ ہوں گے اور اس کی عدالت اس کے اعمال کے مطابق ہو گی، یہ سوچ کر وہ دہشت زدہ ہو گیا۔ چاہئے تو یہ تھا کہ وہ اپنی قائلیت کی روشنی میں توبہ کرتا، برعکس اس کے اس نے اس ناپسندیدہ کلام کو سُننا نہ چاہا اور پولُس سے کہا “اس وقت تُو جا۔ فُرصت پا کر تجھے پھر بلاوں گا”۔ IKDS 397.5

    فیلکس اور فلپی کے داروغہ کی زندگیوں میں کتنا وسیع تضاد ہے۔ خُدا کے خادم پا بجولان قید خانے میں لائے گئے جیسے پولُس فیلکس کے پاس لایا گیا۔ خُدا کے خادموں کے پاس یہ ثبوت کافی تھے کہ خُدا وند خُود انہیں سنبھالتا اور قائم رکھتا ہے۔۔۔ یعنی رسوائی اور ظلم ستم کے درمیان بھی خُوش وخرم، ان کا بھونچال میں اطمینان جب دھرتی لڑکھڑاتی اور ڈُگمگاتی تھی اور مسیح کی مانند معاف کرنے کی رُوح نے داروغہ کے دل میں قائلیت پیدا کی۔ اور اس نے ڈرتے اور کانپتے ہوئے توبہ کر کے گناہوں کی معافی کی درخواست کی۔ فیلکس بھی دہشت زدہ ہو گیا۔ وہ بھی خوف سے بھر گیا مگر اُس نے توبہ نہ کی ۔ داروغہ نے خُدا وند کے رُوح کو بخوشی اپنے دل اور گھر میں خُوش آمدید کہا جبکہ فیلکس نے خُدا کے خادم کو چلے جانے کے لئے حُکم دیا۔ ایک نے خُدا کا فرزند بننے اور خُدا کی بادشاہی کا وارث ہونے کا چناو کیا اور دوسرے نے بدی کے کارندوں کا ساتھ دیا۔۔۔۔ IKDS 398.1

    اگلے دو برس تک پولُس کے خلاف کوئی کاروائی عمل میں نہ لائی گئی۔ فیلکس نے کئی بار اُس سے ملاقات کی اور اس کی باتیں بڑے غور سے سُنیں۔ مگر بظاہر اس دوستی کا مقصد پولُس سے بھاری رقم ملنے کی اُمید تھی جس کے بعد وہ اُسے رہا کر دیتا مگر رشوت دے کر رسُول آزاد ہونے کے حق میں نہ تھا۔ اس نے کوئی جرم نہیں کیا تھا اس لئے وہ آزادی حاصل کرنے کے لئے کوئی بھی غلط حربہ استعمال کرنا نہیں چاہتا تھا۔ اس کے علاوہ وہ اتنی بڑی رقم کہاں سے دیتا؟ اور اگر اسے اتنا انتظام کرنا پڑتا تو وہ ہرگز اپنے لئے ایمانداروں سے ہمدردی اور فیاض دلی سے دینے کی اپیل نہ کرتا۔ وہ محسُوس کرتا تھا کہ وہ خُدا کے ہاتھوں میں ہے اور اُسے اپنی بڑائی کے لئے خُدا کے مقاصد میں رکاوٹ کا باعث نہیں بننا چاہئے۔ IKDS 399.1

    بالآخر فیلکس کو یہودیوں کے ساتھ بعض زیادتیاں کرنے کی وجہ سے روم میں بُلا لیا گیا۔ اس جواب دہی کے لئے قیصریہ چھوڑنے سے پہلے اس نے سوچا کہ میں یہودیوں کو اپنی کچھ ہمدردیاں دکھاوں سو وہ پولُس کو قید خانہ میں ہی چھوڑ گیا۔ مگر فیلکس اس طرح بھی یہودیوں کا اعتماد حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ اُسے بڑی رُسوائی کے ساتھ اس عہدے سے اُتارا گیا پُر کیس فیستس، فیلکس کی جگہ مقرر ہوا۔ IKDS 399.2

    جب پولُس فیلکس کے ساتھ راستبازی ، پرہیزگاری اور آنے والی عدالت کا ذکر کر رہا تھا تو روشنی کی ایک کرن کو خُدا وند نے فیلکس پر چمکنے کی اجازت دی تھی۔ یہ خُدا کی طرف سے اسے ایک موقع دیا گیا تھا کہ وہ اپنی خطاوں پر نگاہ کر کے انہیں ترک کر دے مگر اُس نے خُدا کے ایلچی کو یوں کہہ کر موقع کھو دیا “اس وقت تُو جا۔ فُرصت پا کر تجھے پھر بُلاوں گا” اس نے رحم کی آخری دعوت کو بھی ٹھُکرادیا۔ اس کے بعد اُسے زندگی بھر دوسری بار دعوت نہ دی گئی۔ IKDS 399.3

    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents