Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents

ابتدائ کليسياء کے درخشاں ستارے

 - Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First
    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents

    باب ۶ - ہیکل کے پھاٹک پر

    اعمال ۳، ۱:۴-۳۱

    مسیح یسوع کے شاگردوں کو یہ گہرا احساس تھا کہ وہ کمزور اور بے بس انسان ہیں۔ اس لئے بڑی فروتنی اور دُعا کے ذریعہ انہوں نے اپنی کمزوری خالق خدا وند کی قوت کے ساتھ، اپنی جہالت کو اس کی حکمت کے ساتھ، اپنی ناراستی کو اسکی راستبازی کے ساتھ اور اپنی غربت اور افلاس کو اُس کی لا زوال دولت کے ساتھ پیوست کر دیا۔ لہٰذا مسیح کی قوت اور قدرت حاصل کر کے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے وہ اپنے آقا کی خدمت کے لئے نکل پڑے۔ IKDS 48.1

    رُوح القدس کے نزول کے تھوڑی دیر بعد اور دُعا مانگنے کے فوراً بعد پطرس اور یوحنا ہیکل میں عبادت کے لئے گئے، وہاں اُنہوں نے اُس پھاٹک پر جسے خوبصورت کہتے ہیں ایک ایک چالیس سالہ مفلوج کو بیٹھے دیکھا جس کی زندگی بچپن سے ہی اُس کے لئے عذاب بنی ہوئی تھی۔ اُس بد نصیب شخص کی دیرینہ خواہش تھی کہ وہ یسوع کو دیکھے شاید وہ اُسے شفا دے سکے۔ مگر وہ بے چارہ تو بالکل بے بس تھا اور اُسے عظیم طبیب سے بہت دُور دھکیل دیا گیا تھا۔ اُس کی منت سماجت کی وجہ سے بعض دوستوں نے اُسے ہیکل کے پھاٹک پر بٹھا دیا تھا۔ مگروہاں پہنچنے پر اُسے معلوم ہوا کہ جو اُس کی اُمید تھی اُسے تو ظالموں نے مصلوب کر دیا ہے۔ IKDS 48.2

    اُس کی مایوسی نے بعض ایک ہمدردیاں یہ سوچ کر بھڑ کا دیں کہ یہ شخص کتنی دیر سے یسوع مسیح سے ملنے کا مشتاق تھا۔ مگر اس کی حسرت پوری نہ ہوں ، چنانچہ وہ روزانہ اُسے ہیکل کے پھاٹک پر لایا کرتے تھے تاکہ آنے جانے والے لوگ اُس پر ترس کھا کر اُسکی کچھ مدد کریں۔ جُونہی پطرس اور یوحنا وہاں سے گزرے اُس نے اُن سے خیرات کا سوال کیا۔ “ہماری طرف دیکھ” وہ اُن سے کچھ ملنے کی امید پر ان کی طرف متوجہ ہوا۔ تب پطرس نے کہا “سونا چاندی تو میرے پاس ہے نۃِن” جونہی پطرس نے اپنی غُربت کا اظہار کیا مفلوج کا غم سے چہرہ لٹک گیا (پطرس سے اُسے ملنے کی کچھ امید نہ رہی) لیکن اُس کا چہرہ دوبارہ خوشی سے دمکنے لگا جب پطرس نے بات کو جاری رکھتے ہوئے یوں کہا “مگر جو میرے پاس ہے وہ تجھے دیئے دیتا ہوں۔ یسوع مسیح ناصری کے نام سے چل پھر”۔ اعمال ۶:۴-۷IKDS 48.3

    “اور اُسکا دہنا ہاتھ پکڑ کر اُسکو اُٹھایا اور اُسی دم اُسکے پاوں اور ٹخنے مضبوط ہو گئے ۔ اور وہ کود کر کھڑا ہو گیا اور چلنے پھرنے لگا اور چلتا اور کُودتا اور خُدا کی حمد کرتا ہوا اُن کے ساتھ ہیکل میں گیا اور سب لوگوں نے اُسے چلتے پھرت اور خُدا کی حمد کرتے دیکھ کر اُس کو پہچانا کہ یہ وہی ہے جو ہیکل کے خوبصورت دروازہ پر بیٹھا بھیک مانگا کرتا تھا۔ اور اُس ماجرے سے جو اُس پر واقع ہوا تھا بہت دنگ اور حیران ہوئے”۔ اعمال ۸:۴-۱۰ IKDS 49.1

    جب وہ پطرس اور یوحنا کو پکڑئے ہوئے تھا تو سب لوگ بہت حیران ہو کر اس برآمدہ کی طرف جو سلیمان کا کہلاتا ہے اُن کے پاس دوڑے آئے”۔ ۱۱:۴ لوگ اس لئے بھی حیران تھے کہ یہ شاگرد بھی اُسی طرح کے مُعجزات کر رہے ہیں جس طرح کے معجزے مسیح یسوع سے صادر ہوتے تھے۔ کیوں کہ اُن کے سامنے چالیس سال سے مفلُوج شخص تھا جو شفا پا کر اچھلتا کُودتا ہوا مسیح یسوع پر ایمان لے آیا تھا۔ IKDS 49.2

    جب پطرس نے لوگوں کی حیرانی دیکھی تو کہنے لگا۔ “اے اسرائیلیو! اس پر تم کیوں تعجب کرتے ہو اور کیوں اس طرح دیکھ رہے ہو کہ گویا ہم نے اپنی قدرت اور دینداری سے اس شخص کو چلتا پھرتا کر دیا؟ پطرس نے اُنہیں یقین دلایا کہ یہ شفا یسوع مسیح کے نام اور اُسکے ذریعہ سے اس شخص کو ملی ہے۔ اُس یسوع ناصری کے نام سے جسے خدا نے مردوں میں سے زندہ کر دیا ہے۔ رسول نے اعلانیہ فرمایا “اُسی کے نام نے اس ایمان کے وسیلہ سے جو اس کے نام پر ہے اس شخص کو مضبوط کیا جیسے تم دیکھتے اور جانتے ہو”۔ ۱۶:۳ IKDS 49.3

    رسولوں نے بڑی صفائی سے یہودیوں کو بتا دیا کہ تم نے مسیح یسوع کو جو زندگی کا مالک ہے رد کر کے اور مصلوب کر کے بڑا گناہ کیا ہے۔ تاہم رسول بڑے محتاط انداز میں یہ کلام کرتے تھے مُبادہ اُن کے سامعین کو دُکھ پہنچے ۔ اور اب اے بھائیو!میں یہ جانتا ہوں کہ تم نے یہ کام نادانی سے کیا اور ایسا ہی تمہارے سرداروں نے بھی۔ مگر جن باتوں کی خُدا نے سب نبیوں کی زبانی پیشتر خبردی کہ اُس کا مسیح دُکھ اُٹھائے گا وہ اُس نے اسی طرح پوری کیں” اُس نے اُنہیں بتایا کہ رُوح القدس اُنہیں توبہ کے لئے بُلاتا ہے اور یہ بھی بتایا کہ اُس کے بغیر نجات نہیں ہے جسے اُنہوں نے مصلوب کر دیا تھا۔ اب اس میں ایمان رکھنے وے ہی گناہ مُعاف ہو سکتے ہیں۔ IKDS 50.1

    “پس توبہ کر و اور رجوی لاو تاکہ تمہراے گناہ مٹائے جائیں اور اس طرح خدا کے حضور سے تازگی کے دن آئین”۔ اعمال ۱۹:۴ تم نبیوں کی اولاد اور اس عہد کے شریک ہو جو خُدا نے تمہارے باپ دادا سے باندھا جب ابرہام سے کہا کہ تیری اولاد سے دُنیا کے سب گھرانے برکت پائیں گے۔ خُدا نے اپنے خادم کو اُٹھا کر پہلے تمہارے پاس بھیجا تاکہ تم میں سے ہر ایک کو اسکی بدیوں سے ہٹا کر برکت دے”۔ اعمال ۲۵:۴-۲۶ IKDS 50.2

    یوں شاگردوں نے مسیح کے جی اُٹھنے کی منادی کی۔ سامعین میں بہتیرے ایسے تھے جو اس خوشخبری کو سننے کے لئے آئے۔ اُنہیں یسوع مسیح کی تعلیم یاد آئی اور وہ ان میں شامل ہو گئے۔ جنہوں نے انجیل کو قبول کیا تھا یہ وہ بیج تھا جو مسیح یسوع نے بویا تھا وہ اُگا بڑھا اور پھل لایا۔ اس دوران جبکہ شاگرد لوگوں سے کلام کر رہے تھے تو “کاہن اور ہیکل کا سردار اور صدوقی اُن پر چڑھ آئے۔ کیونکہ سخت رنجیدہ ہوئے کہ وہ لوگوں کو تعلیم دیتے اور یسوع کی نظیر دے کر مردوں کے جی اُٹھنے کی منادی کرتے تھے”۔ ۱:۴-۲ IKDS 50.3

    مسیح یسوع کے زندہ ہونے کے بعد کاہنوں نے یہ افواہ دُور و نزدیک ہر جگہ پھیلا دی کہ جب رومی پہرے دار سو رہے تھے تو یسوع کے شاگرد آ کر اُسکی لاش چُرالے گئے۔ اس میں حیرانی کی کئی بات نہیں کہ وہ یہ سُن کر سخت رنجیدہ ہوئے کہ جس کو انہوں نے مصلوب کیا تھا پطرس اور یُوحنا اُس کے جی اُٹھنے کی منادی کر رہے ہیں۔ صدوقی خاض طور پر سیخ پا ہوئے کیونکہ مسیح کے جی اُٹھنے سے اُن کے عقیدہ پر دھبہ آتا تھا (مردے جی نہیں اُٹھتے یہ اُن کا عقیدہ تھا) اور یہ اُن کے لئے بڑی خُفت کا باعث تھا۔ IKDS 51.1

    نئے ایمانداروں کی تعداد میں بڑی تیزی سے اضافہ ہو تا گیا۔ فریسیوں اور صدوقیوں دونوں نے خیال کیا کہ اگر ان نئے معلموں کو روکا نہ گیا تو اُن کے اپنے عزت و وقار کو اُس وقت کی نسبت جب یسوع اس دھرتی پر تھا اب ان مُعلموں کے ہاتھوں زیادہ دھچکا لگے گا۔ چنانچہ ہیکل کا سردار بعض صدقیوں کے ہمراہ چڑھ آیا اور پطرس اور یوحنا کو قید کر کے حوالات میں رکھا کیونکہ شام ہو گئی تھی اور قانون کے مطابق تفتیش نہیں ہو سکتی تھی۔ IKDS 51.2

    رسولوں کے دُشمن قائل ہوئے بغیر نہ رہ سکے کہ مسیح مردوں میں سے جی اُٹھا ہے۔ اور مسیح کے جی اُٹھنے کے بارے واقعات اتنے واضح اور ٹھوس تھے کہ شک کی گنجائش نہ تھی۔ اس کے باوجود اُنہوں نے اپنے دلوں کو سخت کر لیا اور اپنے اس ہولناک فعل سے توبہ کرنے اور خداوند سے معافی مانگنے سے انکار کیا جو مسیح کو مصلوب کرنے کی صورت میں اُن سے سرزد ہوا تھا۔ رسول بے شمار ثبوت یہودی سرداروں کو الہٰی رویا کے تحت پیش کرتے تھے مگر اُنہوں نے بڑی ہٹ دھرمی سے سچائی کے کلام کی مزاحمت کی۔ جس طرح یہودی توقع رکھتے تھے میسح اس طرح اس دھرتی پر نہ آیا۔ گو بعض اوقات وہ قائل ہو جاتے کہ یہی خدا کا بیٹا ہے اس کے باوجود انہوں نے اپنی اس قائلیت کا گلا دبا دیا اور اُسے مصلوب کر دیا۔ خداوند نے اپنے رحم میں اُنہیں مزید ثبوت فراہم کئے اور اب ایک اور موقع فراہم کیا تاکہ وہ اُسکی طرف پلٹیں۔ اس طرح اس نے رسولوں کو بھیجا تاکہ وہ اُنہیں بتائیں کہ تم نے زندگی کے شہزادے کو مصلوب کیا۔ اس گھناونے فعل کے باوجود بھی میں تمہیں توبہ کے لئے بلاہٹ پیش کرتا ہوں۔ مگر وہ اپنی ہی راستبازی میں مگن رہے۔ اس لئے یہودی اُستادوں نے یہ ماننے سے انکار کر دیا کہ رسول روح القدس کے تحت یہ کہہ رہے ہیں کہ تم نے مسیح کو مصلوب کیا۔ IKDS 51.3

    چونکہ اُنہوں نے شروع سے ہی مسیح کے ساتھ دُشمنی کرنے کا تہیہ کر رکھا تھا اس لئے مزاحمت کا ہر فعل اُنہیں اپنی روش پر چلنے کے لئے باعث تقویت ہوتا۔ اُن کی ضد پختہ سے پختہ تر ہوتی گئی۔ یہ نہیں کہ وہ خود کو مسیح کے تابع نہ کر سکتے تھے، مگر اُنہوں نے نہ چاہا۔ صرف یہی نہیں کہ اُنہوں نے یہ سب کچھ کیا اور وہ قصور وار ٹھہرے جسکی سزا موت ہے یہی نہیں کہ انہوں نے خدا کے بیٹے کو مصلوب کیا اور نجات سے محرُوم ہو گئے بلکہ اُنہوں نے اُن تمام مکروہ حرکتوں کے علاوہ خدا کے خلاف ہتھیار اُٹھا لئے۔ انہوں نے بڑی ثابت قدمی سے نور کو رد کردیا اور قائلیت کی روح کا گلا گھونٹ دیا۔ وہ تاثیر جو نافرمانی کے بچوں کو کنٹرول کرتی ہے ان کے اندر عمل پیرا ہو گئی اور وہ اُن مردوں کو لعن طعن کرنے لگی جن کے ذریعہ خداوند کام کر رہا تھا۔ خدا کے خلاف اُن کی بغاوت کی خباثت مزاحمت کے ہر فعل اور پیغام کے ساتھ مزید گہری ہوتی جاتی جو خداوند اپنے کار گزاروں کے ذریعہ اُن تک پہنچاتا۔ آئے روز توبہ کرنے کے انکار میں یہودی لیڈر اپنی بغاوت کو تازہ کرتے اور اس فصل کو کاٹنے کی تیاری کرتے جو اُنہوں نے بوئی تھی۔ IKDS 52.1

    خدا کا غضب غیر تائب شدہ گنہگاروں کے خلاف اس لئے نازل نہیں ہو گا کہ وہ گناہ کے مرتکب ہوئے تھے بلکہ اس لئے نازل ہو گا کہ جب اُنہیں توبہ کرنے کی دعوت دی گئی تو اُنہوں نے مستقل مزاحمت کرنے کا چناو کیا اور بدستور ماضی کے گناہوں سے لُطف اندوز ہوتے رہے اور اس روشنی کو للکارا جو اُنہیں دی گئی تھی۔ اگر یہودی لیڈر رُوح القدس کی قائل کرنے والی تاثیر کے تابع ہو جاتے تو اُن کو ضرُور معافی ملتی۔ مگر انہوں نے مصمم ارادہ کر لیا کہ وہ خود کو خدا کے سامنے نہیں جھکائیں گاگے۔ بعینہ حال ایک گنہگار کا ہے کہ جب وہ مسلسل مزاحمت کرتا جاتا ہے تو وہ اپنے آپ کو ایسے مقام پر لے آتا ہے جہاں روح القدس اُسے متاثر نہیں کر سکتا۔ IKDS 53.1

    مفلوج کے شفا پانے کے دوسرے دن حنّا اور کائفا ہیکل کے دوسرے افسروں کے ساتھ تفتیش کے لئے جمع ہوئے اور قیدی اُن کے سامنے حاضر کئے گئے۔ اسی کمرہ میں اور بعض انہی لوگوں کے سامنے پطرس نے بڑی بے حیائی سے اپنے آقا کا انکار کیا تھا۔ جب وہ اس کمرے میں اپنی پیشی کے لئے آیا تو یہ خاص شرمناک واقعہ بھی اُسے یاد آیا۔ اب اُس کے پاس بزدلی کو خیر باد کہنے کا بہت اچھا موقع تھا۔ IKDS 53.2

    وہ لوگ جو پطرس کی اس حرکت سے واقف تھے (جو مسیح کی پیشی کے وقت پطرس نے کی) تو وہ شیخی بگھار کر کہنے لگے کہ یہ شخص موت اور قید کی دھمکی سن کر پھر بزدلی کا مظاہرہ کرے گا۔ لیکن پطرس جس نے مسیح کا اُس وقت انکار کیا جب اُسے اُس کی اشد ضرورت تھی، وہ پطرس اب جوشیلا، پُر اعتماد بن چکا تھا۔ اب وہ پہلے والا پطرس نہیں رہا تھا جسے اب سنہیڈرن (نیشنل کونسل ) کے سامنے پیش کیا گیا تھا۔ اب وہ تبدیل شدہ شخص تھا۔ وہ اب مغرور اور شیخی باز نہیں رہا تھا بلکہ نہایت سنجیدہ اور مسیح پر بھروسہ رکھنے والا پطرس بن چُکا تھا۔ وہ روح القدس سے معمور تھا اور اُسکی قوت سے ہی وہ اس قابل ہوا کہ مسیح سے محرت ہونے کے دھبے کو دُور کر سکے۔ اب اُس نے اس مسیح کو سر بلند کرنا سیکھ لیا تھا جس کا اُس نے کبھی انکار کیا تھا۔ IKDS 53.3

    اس کے بعد کاہنوں نے مسیح کی مصلوبیت اور جی اُٹھنے کے بارے کلام کرنے سے گریز کیا۔ لیکن اپنے مقصد کی تکمیل کے لئے ملزمان سے یہ دریافت کرنے پر مجبور تھے کہ اس بے بس آدمی کی شفا کس طرح وقوع میں آئی۔ اُنہوں نے پُوچھا کہ “تم نے یہ کام کس قدرت اور کس نام سے کیا ہے؟”۔ IKDS 54.1

    اس کا جواب پطرس نے رُوح القدس کی قوت سے بڑی دلیری اور بیباکی کے ساتھ یوں دیا۔۔۔۔ “تم سب اور اسرائیل کی ساری اُمت کو معلوم ہو کہ یسوع مسیح ناصری جس کو تم نے صلیب دی اور خدا نےمردوں میں سے جلایا اُسی کے نام سے یہ شخص تمہارے سامنے تندرست کھڑا ہے۔ یہ وہی پتھر ہے جسے تم معماروں نے حقیر جانا اور وہ کونے کے سرے کا پتھر ہو گیا اور کسی دُوسرے کے وسیلہ سے نجات نہیں کیونکہ آسمان کے تلے آدمیوں کو کوئی دُوسرا نام نہیں بخشا گیا جس کے وسیلہ سے ہم نجات پاسکیں”۔ اعمال ۱۰:۴-۱۲ IKDS 54.2

    اس جرات مندانہ دفاع نے یہودی لیڈروں کو خوفزدہ کر دیا۔ اُن کا خیال تھا کہ جب شاگردوں کو سنہیڈرن کے سامنے پیش کیا جائے گا تو وہ خوف و اضطراب کا شکار ہو جائیں گے۔ لیکن اس کے برعکس ان گوہوں نے اسی طرح کلام کیا جیسے میسح یسوع نے قائل کرنے والا کلام کرکے دُشمنوں کے مند بند کر دئیے تھے۔ جب پطرس نے مسیح کے بارے کلام کیا اُسکی آواز میں خوف کا شائبہ تک نہ تھا۔ “یہ وہی پتھر ہے جسے تم معماروں نے حقیر جانا اور وہ کونے کے سرے کا پتھر ہو گیا”۔ IKDS 54.3

    رسول نے جو اصطلاح استعمال کی اس سے کاہن اچھی طرح واقف تھے۔ نبیوں نے بھی رد کئےہوئے پتھر کے بارے کلام کیا تھا۔ یسوع نے خود بھی ایک موقع پر کاہنوں اور قوم کے بزرگوں کو یوں فرمایا تھا۔ “یسوع نے اُن سے کہا کیا تم نے کتاب مقدس میں کبھی نہیں پڑھا کہ جس پتھر کو معماروں نے رد کیا وہی کونے سرے کا پتھر ہو گیا۔ یہ خدا وند کی طرف سے ہوا اور ہماری نظر میں عجیب ہے۔ اس لئے میں تم سے کہتا ہوں کہ خدا کی بادشاہی تم سے لے لی جائے گی۔ اور جو اس پتھر پر گرے گا ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا۔ لیکن جس پر وہ گرے گا اُسے پیس ڈالے گا”۔ متی ۴۲:۲۱-۴۴ IKDS 54.4

    جُونہی کاہنوں نے رسولوں کی دلیری دیکھی اور معلوم کیا کہ یہ ان پڑھ اور ناواقف آدمی ہیں تو تعجب کیا پھر اُنہیں پہچانا کہ یہ یسوع کے ساتھ رہے ہیں”۔ پہاڑ پر یسوع کی صورت بدلنے کے بعد شاگردوں کے بارے لکھا ہے کہ جبیہ منظر اختتام پذیر ہوا “یسوع کے سوا اور کسی کو نہ دیکھا”۔ متی ۸:۱۷ ” صرف یسوع” ان الفاظ میں زندگی کا بھید اور قدرت پنہاں ہے جس نے ابتدائی کلیسیا کی تاریخ کو شاندار اور نمایاں کیا۔ جب پہلی بار شاگردوں نے مسیح کا کلام سُنا، انہوں نے محسوس کیا کہ اُنہیں مسیح یسوع کی ضرورت ہے، انہوں نے اُسکی چاہت کی، اُسے ڈھونڈا اور اُسکی پیروی کی ، وہ ہیکل میں کھانے کی میز پر، دامن کوہ اور کھیتوں میں اُس کے ساتھ تھے، وہ طالبعلموں کی طرح اُستاد کے ساتھ رہے تھے۔ اور روزانہ اس سے ابدی صداقت کا سبق لیتے تھے۔ IKDS 55.1

    نجات دہندہ کے آسمان پر جانے کے بعد بھی الہٰی حضوری کا احساس جو نُور اور محبت سے بھرپور تھی ان کے ساتھ تھی، یہ ذاتی موجودگی تھی، یسوع نجات دہندہ، جو ان کے ساتھ چلتا پھرتا اور ان کے ساتھ مل کر دُعا کرتا تھا، جس نے ان کے ساتھ اُمید اور اطمینان بخش کلام کیا تھا اور جب اُس کے لبوں پر ابھی امن کا پیغام تھا، انکے پاس سے آسمان پر اُٹھا لیا گیا۔ جونہی فرشتوں کے رتھ نے اُسے لیا، تو اس کا یہ کلام ان تک پہنچا۔۔۔۔۔ “دیکھو میں دُنیا کے آخر تک ہمیشہ تمہارے ساتھ ہوں”۔ متی ۲۰:۲۸ وہ انسانی جامہ میں آسمان پر اٹھایا گیا۔ وہ جانتے تھے کہ وہ خدا کے تخت کے سامنے ہے۔ وہ جانتے تھے کہ وہ ابھی تک اُن کا دوست اور نجات دہندہ ہے۔ وہ جانتے تھے کہ اُسکی ہمدردیاں لا تبدیل ہیں۔ وہ جانتے تھے کہ وہ انسانی دُکھوں سے ہر وقت واقف رہے گا۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ وہ خدا وند کے تخت کے سامنے اپنا خون پیش کرے گا۔ اور اپنے زخمی ہاتھوں اور پاون (یاد دلانے کے لیے) دکھائے گا کہ اس نے نجات یافتگان کے لئے قیمت چُکا دی ہے۔ یہ خیال اُنہیں مسیح کی خاطر لعنت ملامت سہنے کے لئے تقویت دیتا تھا۔ اُن کا اتحاد اب اس کے ساتھ اس وقت کی نسبت جب وہ شخصی طور پر اُن کے ساتھ تھا کہیں بڑھ کر تھا۔ نور، محبت اور قوت جو اُن کے اندر مسیح کے بسنے کی وجہ سے تھی وہ اُں کے بدنوں سے روشن ہوئی جسے دیکھ کر انسان حیران رہ گئے۔ IKDS 55.2

    مسیح یسوع نے پطرس کے اس کلام پر مہر کردی جو اُس نے مسیح کا دفاع کیا تھا۔ شاگردوں کے قریب ہی وہ شخص کھڑا تھا جو معجزانہ طریقہ سے شفا پا گیا تھا۔ یہ جسب سے زیادہ قائل کرنے والی گواہی تھی۔ یہ شخص چند گھنٹے پہلے بے بس، اور مفلوج تھا۔ لیکن اب اُسے مکمل تندرستی نصیب ہو گئی ہے۔ اور اس سے پطرس کی گواہی کو چار چاند لگ گئے۔ کاہنوں اور سرداروں کا منہ بند ہو گیا۔ وہ پطرس کے کلام کو جُھٹلا نہیں سکتے تھے۔ تاہم انہوں نے شاگردوں کو تعلیم دینے سے باز رکھنے کے لئے پُختہ ارادہ کر لیا۔ IKDS 56.1

    لعزر کو زندہ کرنے کے شہکار مُعجزہ کی وجہ سے کاہنوں نے مُصمم ارادہ کر لیا کہ وہ مسیح اور اس کے شاندار کاموں کو مٹا کر رہیں گے۔ کیونکہ مسیح کے کارناموں کی وجہ سے اُن کی عزت خاک میں مل گئی تھی۔ اُنہوں نے اُسے مصلوب کیا تھا لیکن اُنہیں قائل کرنے کے وافر ثبوت موجود تھے کہ وہ اُسکے نام پر وقوع میں آنے والے مُعجزات کو ختم نہ کر پائے اور نہ اس صداقت کی تشہیر کو بند کر سکے جو مسیح نے سکھائی تھی۔ پیشتر ہی مفلوج کی تندرستی اور رسولوں کی منادی نے یروشلیم میں ہل چل مچا رکھی تھی۔ IKDS 56.2

    اپنی پریشانی کو چُھپانے کے لئے کاہنوں اور سرداروں نے حُکم دیا کہ رسولوں کو صدر عدالت سے باہر لے جائیں تاکہ وہ آپس میں مشورہ کر سکیں۔ وہ سب اس بات پر متفق ہوئے کہ اس مُعجزے کا انکار کرنا بے کار ہے ( کہ ایک مفلوج تندرست ہو گیا ہے۔) وہ مُعجزے کو جھوت سے چُھپانا چاہتے بھی تو نہ چُھپا سکتے کیونکہ یہ واقعہ بھیڑ کی موجودگی میں دن دیہاڑے رُونما ہوا تھا۔ اور اس کا چرچا ہزاروں میں ہو چکا تھا۔ اُنہوں نے محسوس کیا کہ شاگردوں کو کام کرنے سے منع کرنا چاہیے ورنہ مسیح یسوع کے بے شمار شاگرد بن جائیں گے۔ نیز اس کے بعد انکی اپنی بے عزتی ہونے کو تھی کیونکہ انہوں نے ہی مسیح کو مصلوب کیا تھا اور وہ اس جُرم کے سزاوار تھے۔ IKDS 57.1

    اس ے علاوہ وہ شاگردوں کو بھی ختم کرنے کی خواہش رکھتے تھے۔ کاہن اس سے زیادہ کچھ نہیں کرنا چاہتے تھے کہ اُن کو سخت سزا کی دھمکی دے کربھیج دیا جائے کہ وہ دوبارہ یسوع نام لے کر منادی نہ کریں۔ چنانچہ اُنہیں دوبارہ صدرِ عدالت میں پیش کیا گیا۔ اُنہیں حکم دیا گیا کہ مسیح کا نام لینا اور نہ ہی یسوع نام کی منادی کرنا۔ مگر پطرس نے جواب میں ان سے کہا۔ مگر پطرس اور یوحنا نے جواب میں ان سے کہا کہ تم ہی انصاف کرو۔ آیا خدا کے نزدیک یہ واجب ہے کہ ہم خُدا کی بات سے تمہاری بات زیادہ سنیں۔ کیونکہ ممکن نہیں کہ جو ہم نے دیکھا اور سنا ہے وہ نہ کہیں”۔ اعمال ۱۹:۶-۲۰۔ کاہن اور سردار شاگردوں کو ضرور سزا دیتے لیکن وہ لوگوں سے ڈرتے تھے۔ “اُنہوں نے اُن کو اور دھمکا کر چھوڑ دیا کیونکہ لوگوں کے سبب سے اُن کو سزا دینے کا کوئی موقع نہ ملا”۔ IKDS 57.2

    جب پطرس اور یوحنا قید خانہ میں تھے تو دوسرے شاگرد یہودیوں کی خباثت کو سمجھتے ہوئے اپنے بھائیوں کے لئے بلا ناغہ دُعا مانگتے تھے تاکہ اُن کے ساتھ بھی وہ ظلم دہرایا نہ جائے جو مسیح یسوع کے ساتھ ہوا تھا۔ جب پطرس اوریوحنا کو رہائی مل گئی تو سب سے پہلے اُنہوں نے بھائیوں کی تلاش اور اُنہیں ساری کاروائی کے نتائج بتائے اس سے ایماندار خُوشی سے بھر گئے۔ “جب انہوں نے یہ سُنا تو ایک دل ہو کر بلند آواز سے خدا سے کہا کہ اے مالک! تو وہ جس نے آسمان اور زمین اور سمندر اور جو کچھ اُن میں ہے پیدا کیا۔ تو نے روح القدس کے وسیلہ سے ہمارے باپ اپنے خادم داود کی زبانی فرمایا کہ قوموں نے کیوں دھوم مچائی ہے۔ اور اُمتوں نے کیوں باطل خیال کئے۔ خدا وند اور اُسکے مسیح کی مخالفت کو زمین کے بادشاہ اُٹھ کھڑے ہوئے اور سردار جمع ہو گئے کیوں کہ واقعی تیرے پاک خادم یسوع کے برخلاف جسے تو نے مسح کیا ہیر و دیس اور پنطُس غیر قوموں اور اسرائیلیوں کے ساتھ اسی شہر میں جمع ہوئے۔ تاکہ جو کچھ پہلے سے تیری قدرت اور تیری مصلحت سے ٹھہر گیا وہی عمل میں لائیں”۔ اعمال ۲۴:۴-۲۸”اب اے خداوندا اُن کی دھمکیوں کو دیکھ اور اپنے بندوں کو یہ توفیق دے کہ وہ تیرا کمال دلیری کے ساتھ سُنائیں۔ اور تو اپنا ہاتھ شفا دینے کو بڑھا اور تیرے پاک خادم یسوع کے نام سے معجزے اور عجیب کام ظہور میں آئیں”۔ اعمال ۲۹:۴-۳۰ IKDS 57.3

    شاگردوں کی دُعا تھی کہ اُنہیں خدمت کے کام کے لئے اس سے بھی بڑھ کر قوت دی جائے کیونکہ اُن کو احساس ہو گیا تھا کہ اُنہیں بھی اس مخالفت کا سامنا کرنا ہو گا جس کا سامنا مسیح یسوع کو کرنا پڑا جب وہ یہاں تھا۔ جُونہی اُن کی دُعائیں ایمان کے ساتھ اکٹھی آسمان پر پہنچیں، اُنہیں ان کی دُعاوں کا جواب مل گیا۔ جس گھر میں وہ جمع تھے وہ ہل گیا اور وہ سب روح القدس سے بھر گئے۔ اُن کے دلوں میں بڑی دلیری آگئی۔ وہ یروشیلم میں دوبارہ منادی کرنے کے لئے چلے گئے۔ اور بڑی قوت کے ساتھ شاگردوں نے یسوع مسیح کے جی اُٹھنے کی گواہی دی”۔ اور رسول بڑی قدرت سے خُداون یسوع کے جی اُٹھنے کی گواہی دیتے رہے اور ان سب پر بڑا فضل تھا”۔ ۳۳:۴ IKDS 58.1

    اس حکم کے جواب میں کہ “یسوع کا نام لے کر ہرگز بات نہ کرنا اور نہ تعلیم دینا”۔ رسولوں نے بے خوف و خطریہ کہا۔” آیا یہ خداکے نزدیک واجب ہے کہ ہم خدا کی بات سے تمہارے بات زیادہ سنیں تم ہی انصاف کرو”۔ IKDS 59.1

    یہ انجیل کے وفاداروں کے لئے اُس وقت بھی سچ تھا جب وہ اصلاح مذہب کے زمانہ میں جدوجہد کر رہے تھے۔ ۱۵۲۹ء میں جرمن شہزادے ڈائٹ آف سپائرز میں جمع ہوئے جہاں بادشاہ نے مذہبی آزادی کے خلاف حکم جاری کیا تھا اور باقی تمام اصلاح مذہب کی بدعتوں پر مکمل پابندی عائد کر دی۔ ایسے دکھائی دیتا تھا جیسے دُنیا کی اُمیدوں کا خون ہونے والا ہے۔ کیا جرمن شہزادے بادشاہ کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کر لیں گے؟ کیا انجیل کی روشنی اُن تک نہ پہنچائی جائے گی جو اندھیرے میں بیٹھے ہیں؟ وہ تمام لوگ جنہوں نے اصلاح شدہ ایمان قبول کر لیا تھا اکٹھے ہوئے۔ اُن سب کا متفقہ فیصلہ تھا کہ ” اس حُکم کورد کریں” جب ضمیر کی بات ہو تو اکثریت کی کوئی قوت نہیں ہوتی۔ IKDS 59.2

    اس زمانہ میں ہمیں بھی اس اصُول کو بڑی ثابت قدمی سے برقرار رکھنا چاہیے، سچائی کا جھنڈ اور مذہبی آزادی کا، گاسپل چرچ کے بانیوں اور خُدا کے گواہوں کے سبب سر بلند ہوا۔ اس بات کو صدیاں ہو گئیں ہیں اور اب اس آخری کشمکش میں یہ خدمت ہمیں سونپی گئی ہے۔ اس نعمت کو بڑی ذمہ داری سے اُن کے کندھوں پر آتی ہے جو خداوند کے کلام کا علم رکھتے ہیں۔ ہم یہ کلام عظیم اختیار کے ساتھ حاصل کرنے کو ہیں۔ ہمیں یہ نہ بھُولنا چاہیے کہ دُنیا کی حکومتیں خدا کی طرف سے ہیں اور ہمیں اُن کے تابع رہنا ہے۔ لیکن خدا کے احکام اورکلام کو ہر بات پر فضیلت اور ترجیح دینا ہمارا فرض ہو۔ IKDS 59.3

    “خدا وند یوں فرماتا ہے” اس کلام کو کلیسیا اور حکومتی فرمانوں پر فضیلت حاصل ہونا چاہیے۔ IKDS 60.1

    ہمیں حکومت والوں اور اختیار والوں کا مقابلہ کرنے کے لئے کہا گیا۔ ہمارا کلام تحریری ہو یا زبانی اچھی طرح دیکھ بھال کر کیا جائے مبادہ ہمیں قانوں کے دُشمن سمجھ لیا جائے۔ ہمیں نہ تو کچھ ایسا کہنا ہے نہ کرنا ہے جو غیر ضروری طور پر ہماری راہیں مسدُود کر دے۔ ہمیں یسوع کے نام میں آگے بڑھنا ہے اور اور جو سچائی ہم تک پہنچی ہے اس کا دفاع کرنا ہے۔ اگر لوگ ہمیں اس کام سے روکیں تو ہم رسولوں کے ساتھ مل کر یہ کہہ سکتے ہیں آیا “خُدا کے نزدیک یہ واجب ہے کہ ہم خُدا کی بات سے تمہاری بات زیادہ سُنیں۔ تم ہی انصاف کرو کیونکہ ممکن نہیں کہ جو ہم نے دیکھا اور سُنا ہے وہ نہ کہیں”۔ IKDS 60.2

    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents