Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents

ابتدائ کليسياء کے درخشاں ستارے

 - Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First
    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents

    باب ۱۲ - ستم ظریف سے شاگرد تک

    اعمال ۱:۹-۱۸

    یہودی لیڈروں میں بہت ہی نمایاں لیڈر جو انجیل کی تشہیر کی کامیابی سے سیخ پا ہو گیا وہ ساول ترسی تھا۔ پیدائش کے لحاظ سے وہ رومی تھا اس کے آباو اجداد یہودی تھے اور تعلیم و تربیت یروشلیم میں نامی گرامی ربیوں سے حاصل کی۔ وہ خُود فرماتا ہے “آٹھویں دن میرا ختنہ ہوا۔ اسرائیل کی قوم اور بنیمین کے قبیلہ کاہوں۔ عبرانیوں کا عبرانی، شریعت کے اعتبار سے فریسی ہوں۔ جوش کے اعتبار سے کلیسیا ک ستانے والا، شریعت کی راستبازی کے اعتبار سے بے عیب تھا”۔ فلپیوں ۵:۳-۶ ربیوں نے اس نوجوان سے بڑی توقعات وابستہ کر رکھی تھیں۔ وہ سمجھتے تھے کہ یہ نوجوان قدیم عقیدے کا بڑی شدومد کے ساتھ دفاع کرے گا۔ سنہیڈرن کونسل میں اس کو جو مرتبہ حاصل تھا اُس میں بڑا ہی اختیار پایا جاتا تھا۔ IKDS 102.1

    ساول نے ستفنس کی تفتیش اور اُس پر فتویٰ صادر کرانے میں بڑا ہی سرگرم اور نمایاں کردار ادا کیا تھا۔ تاہم شہید کے ساتھ جو خُدا کی موجودگی کے واضح ثبُوت تھے اُن کے سبب ساول بڑا ہی پریشان تھا اور سوچتا تھا کہ مسیح کے پیروکاروں کے ساتھ ہمارا سلوک راستی پر مبنی نہیں۔ چنانچہ اُس کا ذہن انتشار کا شکار ہو گیا۔ اپنی اس پریشان کن حالت میں اُس نے اُن کی طرف رجوع کیا (یہودی عالموں) جن کی حکمت اور رائے میں اُسے کامل بھروسہ تھا۔ بالآ خر فقیہوں اور سرداروں کے دلائل نے اُسے قائل کر لیا کہ ستفنس کُفر بکنے والا تھا اور یسوع مسیح جس کے بارے شہید پر چار کرتا تھا دھوکے باز تھا۔ مگر ہم جو مقدس خدمت انجام دیتے ہیں راستی پر ہیں۔ IKDS 102.2

    سخت آزمائش اور اذیت کے بغیر ساول اس مندرجہ بالا نتیجہ پر نہیں پہنچا تھا۔ مگر اختتام پر اسکی تعلیم، تعصب، اپنے قدیم اساتذہ کا احترام اور ہر دلعزیزی کے غرُور نے اس کے ضمیر کی آواز اور خُدا کے فضل کے خلاف بغاوت کرنے پر آمادہ کر لیا۔ اور کُلی طور پر فیصلہ کر لیا کہ کاہن اور ربی درُست تھے۔ چنانچہ ساول اس تعلیم کی سخت مخالفت کرنے لگا جو مسیح کے شاگردوں نے سکھائی تھی۔ ساول کا مقدس بہنوں اور بھائیوں کو پیشی کے لئے محض اس لئے گھسیٹ گھسیٹ کر لانا اور اس لئے قید اور قتل کروانا کیونکہ ان کا ایمان مسیح میں ہے اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بعض نئی منظّم شدہ کلیسیاوں کے دل میں خوف اور غم بھر گیا بلکہ بعض نے بھاگ جانے میں ہی سلامتی سمجھی۔ IKDS 103.1

    پس جو یروشلیم سے پراگندہ ہوئے وہ کلام کی خوشخبری دیتے پھرے۔ اعمال ۴:۸ جن شہروں میں وہ بھاگ کر گئے اُن شہروں میں ایک شہر دمشق بھی تھا جہاں بہت سے لوگ اس نئے ایمان میں آ گئے۔ کاہنوں اور سرداروں کا خیال تھا کہ ہماری انتھک کوشش اور سخت سزائیں اس بدعت کو کُچل سکتی ہیں۔ اب اُنہوں نے سوچا کہ وہی اقدام جو نئی تعلیم کے خلاف یروشلیم میں اُٹھائے تھے وہی اقدام دُوسری جگہوں کے لئے بھی عمل میں لائے جائیں۔ اور وہ خاص کام جو وہ دمشق میں کرنا چاہتے تھے اُسے انجام دینے کے لئے ساول نے اپنی خدمات پیش کر دیں۔ “اور ساول جو ابھی تک خُداوند کے شاگردوں کے دھمکانے اور قتل کرنے کی دُھن میں تھا سردار کاہن کے پاس گیا۔ اور اُس سے دمشق کے عبادتخانوں کے لئے اس مضمون کے خط مانگے کہ جن کو وہ اس طریق پر پائے خواہ مرد خواہ عورت ان کو باندھ کر یروشلیم میں لائے”۔ اعمال ۱:۹-۲ “اسی حال میں سردار کاہنوں سے اختیار اور پروانے لے کر دمشق کو جاتا تھا”۔ اعمال ۱۲:۲۶ ترسُس کا ساول جوانی کے عالم شباب اور قوت سے سرشار، غلظ جوش و خروش سے برانگیختہ ہو کر وہ ایک یاد گار سفر پر روانہ ہو گیا ۔ مگر راستے میں اُسے ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے اُس کی پُوری زندگی کو نہ و بالا کر کے رکھ دیا۔ IKDS 103.2

    سفر کے آخری دن “دوپہر کے وقت” تھکے ماندے مسافر جیسے ہی دمشق کے قریب پہنچے تو اُن کے سامنے بڑی ذرخیز زمین، سرسبز و شاداب باغات اور میوے دار درخت تھے جن کو پہاڑوں سے جاری ہونے والی میٹھے پانی کی ندیوں نے گھیر رکھا تھا۔ لق و دق ویرانوں میں سفر کرنے کے بعد یقیناً یہ منظر آنکھوں کو طراوت پہنچا رہا ہو گا۔ جب ساول اپنے ساتھیوں کے ہمراہ سر سبز میدانوں اور خُوبصورت شہر کو دیکھ کر باغ باغ ہو رہا تھا “اچانک” (جیسے ساول نے بعد میں بتایا) “دوسرے کے وقت راہ میں یہ دیکھا کہ سُورج کے نور سے کہیں زیادہ ایک نُور آسمان سے میرے اور میرے ہمسفروں کے گردا گرد آ چمکا” اعمال ۱۳:۲۶ یہ نور اتنا جلالی تھا کہ انسانی آنکھ اُس تاب نہیں لاسکتی تھی۔ ساول بینائی سے محروم حیران پریشان زمین پر اوندھے منہ گر پڑا۔ جب روشنی مسلسل اُن کے گرد چمک رہی تھی تو ساول نے عبرانی زبان میں یہ آواز سنی “اے ساول اے ساول! تُو مجھے کیوں ستاتا ہے؟ اُس نے کہا اے خُدا وند تُو کون ہے جسے میں ستاتا ہوں؟ خُداوند نے فرمایا میں یسوع ہوں جسے تُو ستاتا ہے۔ پینے کی آڑ پر لات مارنا تیرے لئے مُشکل ہے”۔ اعمال ۱۴:۲۶IKDS 104.1

    نظارہ کی تاب نہ لاتے ہوئے سراسیمہ اور چکا چوندھ نُور سے تقریباً اندھا ہو گیا۔ ساول کے ہمسفروں نے آواز سُنی مگر کسی کو نہ دیکھا، مگر ساول نے اُس کلام کو بخوبی سمجھ لیا اور اُسےبھی جس نے اس سے کلام کیا تھا کیوں کہ اُس نے خود کو ساول پر اچھی طرح آشکارہ کر دیا۔ اب وہ جانتا تھا کہ جس کو وہ ستاتا ہے وہ خُدا کا بیٹا ہے۔ کیونکہ جو جلالی بدن میں اُس کے سامنے کھڑا تھا وہ مسیح مصلُوب تھا۔ پژمردہ وہ یہودی کی رُوح پر نجات دہندہ کا چہرہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نقش ہو گیا۔ جو کلام اُس سے کیا گیا وہ اس کے دل میں اُتر گیا۔ اُس کے تاریک ذہن میں روشنی کا سیلاب آ گیا جو اُس کی ماضی کی جہالت اور غلطیوں کو ظاہر کرنے لگا۔ ساول پر یہ بھی ظاہر ہوا کہ اب اُس کی موجودہ زندگی کے لئے رُوح القدس کے نُور کی کس قدر ضرورت ہے۔ IKDS 104.2

    اب ساول نے دیکھا کہ مسیح کے پیرو کاروں کو ستانے سے اُس نے در حقیقت ابلیس کی خدمت کی ہے۔ اُس نے دیکھا کہ اُس کی قائلیت اور اس کا فرض زیادہ تر کاہنوں اور سرداروں کے اندیکھے اعتماد پر مبنی تھا۔ اُس نے اُن کا اُس وقت بھی یقین کر لیا جب اُنہوں نے بتایا کہ مسیح کے جی اُٹھنے کی کہانی اُس کے شاگردوں کی من گھڑت کہانی ہے۔ چونکہ اب خُدا وند یسوع مسیح خُود اُس پر ظاہر ہو گیا تھا اس لئے وہ اُن سچے دعووں کا بھی قائل ہو گیا تھا جو شاگردوں نے کئے تھے۔ IKDS 105.1

    آسمانی روشنی کی وجہ سے ساول کا ذہن بڑی سُرعت سے کام کرنے لگا۔ الہٰی صحیفوں کے نبیانہ ریکارڈ کو وہ اب بہت اچھی طرح سے سمجھنے لگا۔ اُس نے دیکھا کہ یہودیوں کا مسیح یسوع کو رد کرنا، اُس کی مصلوبیت، مردوں میں سے جی اُٹھنا اور آسمان پر چڑھنا یہ سب کچھ یہ نبیوں نے پہلے سے بتا دیا تھا۔ اور یہ سب کچھ ثابت کرتا تھا کہ یسوع ہی مسیح ہے۔ وہ کلام جو ستفنس نے اپنی شہادت کے وقت کیا تھا وہ زبردستی اپس کے ذہن میں داخل ہو گیا تھا۔ اور ساول نے محسُوس کیا کہ شہید نے واقعی خُدا کے جلال کو دیکھا تھا جب اُس نے یوں فرمایا “دیکھو! میں آسمان کو کھلا اورابن آدم کو خُدا کی دہنی طرف کھڑا دیکھتا ہوں” اعمال ۵۵:۷ کاہنوں نے تو اُس وقت اُس کے کلام کو سن کر کہا تھا کہ یہ کفر بولتا ہے۔ مگر اب ساول نے جان لیا کہ وہ سچ بولتا تھا۔ IKDS 105.2

    ستانے والے کے لئے یہ مکاشفہ کتنا شاندار تھا! اب ساول یقینی طور پر جانتا تھا کہ موجودہ مسیح اس دھرتی پر بطور یسوع ناصری آیا تھا۔ اور اُسے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ وہی رد کیا گیا اور ان لوگوں کے ذریعہ صلیب پر چڑھایا گیا جنکو وہ بچانے آیا تھا۔ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ نجات دہندہ قبر پر فتح پا کر زندہ ہو کر آسمان پر چڑھ گیا ہے۔ الہٰی مکاشفہ کے ان لمحات میں ڈرا اور گھبراہٹ کے ساتھ ساول کو یاد آیا کہ ستفنس جس نے مسیح کی مصلوبیت اور اُس کے جی اُٹھنے کی گواہی دی تھی اُسے میری ہی رضا سے سنگسار کیا گیا اور بعد میں مُجھے ہی آلہ کار بنا کر مسیح یسوع کے کئی اور لائق فائق شاگردوں کو سخت اذیتیں دے کر موت کے گھاٹ اُتارا گیا۔ IKDS 105.3

    مسیح یسوع نے ستفنس کے ذریعہ ساول سے گُفتگو کی تھی جس کے دلائل کو جُھٹلایا نہیں جا سکتا تھا۔ اس یہودی عالم نے شہید کا چہرہ دیکھا تھا جس پر مسیح کا جلال منعکس ہو رہا تھا۔ اُسکا چہرہ فرشتہ کا سا تھا۔ “اور اُن سب نے جو عدالت میں بیٹھے تھے اُس پر غور سے نظر کی تو دیکھا کہ اُسکا چہرہ فرشتہ کا سا ہے”۔ اعمال ۱۵:۶ اپنے دشمنوں کے بارے اُس نے اُس کی رحم دلی اور صبر کو بھی دیکھا تھا۔ اتنی بڑی اذّیت کے دوران بھی اُس نے باپ سے درخواست کی تھی کہ یہ گناہ ان کے ذمہ نہ لگا۔ وہ اُن کی بہادری سے بھی واقف تھا جن کو اُس نے ستایا اور قید کروایا تھا۔ ساول نے دیکھا تھا کہ اُن میں سے بعض ایک نے ہنستے اور خوشی مناتے ہوئے اپنے ایمان کی خاطر موت کو گلے لگا لیا۔ IKDS 106.1

    ان تمام واقعات نے ساول کو قائل کر لیا کہ یسوع ہی موعودہ مسیح تھا۔ اس سے پیشتر کئی بار اُس نے ساری ساری رات اپنے آپ کو قائل کرنے کی بے سود اور بے حد تگ و دو کی تھی کہ یسوع ہی مسیح موعود ہے مگر ہر بار اپنے عقیدے کی تسکین میں یہی کہتا رہا کہ یسوع ناصری، مسیح موعود نہیں اور اس کے سارے حواری جنونی اور دھوکے باز ہیں۔ IKDS 106.2

    اب خُدا وند یسوع مسیح نے خُود اس سے کلام کر کے کہا تھا “اے ساول اے ساول! تُو مجھے کیوں ستاتا ہے؟” اور ساول نے پُوچھا “اے خُداوند تُو کون ہے؟” اور جواب ملا “میں یسُوع ہوں جسے تو ستاتا ہے”۔ خُداوند یسوع مسیح نے خود کو اپنے لوگوں کے ساتھ شناخت کرایا۔ خُداوند یسوع مسیح کے حواریوں کو ستانے کے ذریعہ ساول نے براہ راست آسمان کے خالق کو دُکھ دیا تھا۔ اُن پر جھوٹے الزامات عائد کرنے اور جھوٹی گواہی دینے سے اُس نے دُنیا کے نجات دہندہ کے خلاف یہ سب کُچھ کیا تھا۔ IKDS 106.3

    بے شک ساول کے ذہن میں آیا ہو گا کہ جو اُس سے کلام کر رہا ہے وہ یسوع ناصری ہی ہے جس کا عرصہ سے انتظار تھا اور جو اسرائیل کی تسلی اور نجا ت ہے” ڈرتے اور کانپتے ہوئے ساول نے پُوچھا اے خُداوند تُو کیا چاہتا ہے کہ میں تیرے لئے کروں؟ تب خُداوند نے جواب میں اس سے کہا “اُٹھ شہر میں جا اور جو تُجھے کر نا چاہیے وہ تجھ سے کہا جائے گا”۔ IKDS 107.1

    جب مسیح کا جلال جاتا رہا اور ساول زمین سے اُٹھ گیا تو اُسے معلوم ہوا کہ اُس کی بینائی مکمل طور پر جا چُکی ہے۔ خُداوند کے جلال کی آب و تاب اُس کی آنکھوں کی برداشت سے باہر تھی اور جب اُس کو اُٹھایا گیا تو اُس کی رویا پر رات کی تاریکی چھا گئی۔ اُسے یقین ہو گیا کہ نابینا پن کی سزا اُسے خُدا کی طرف سے اس لئے ملی ہے کیونکہ اُس نے مسیح کے پیروکاروں پر بڑا ظُلم ڈھایا تھا۔ اس ہولناک تاریکی میں وہ اِدھر اُدھر ٹٹولنے لگا۔ اُس کے ہمراہی خوف اور حیرت میں غلطاں اس کا ہاتھ پکڑ کر دمشق میں لے گئے۔ IKDS 107.2

    جس صبح یہ واقعہ پیش آیا ساول اپنے آپ میں انتہائی مطمئن ہو کر دمشق کے قریب پہنچ چُکا تھا۔ کیونکہ جو اعتماد اور بھروسہ کاہنوں نے اُس پر کیا تھا اُس پر اُسے بڑا ہی فخر اور اطمینان تھا۔ ساول کو بڑی ہی سنجیدہ ذمہ داریاں سونپی گئی تھیں۔ اُسے یہودی مذہب کی ترقی اور برومندی اور دمشق میں نئے ایمان کو ختم کرنے کی پُوری پُوری اجازت دی گئی تھی۔ لہٰذا اُس نے اپنے مشن کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کا مُصمم ارادہ کر لیا۔ اور وہ اُن تجربات کو جن سے اُسے دو چار ہونا تھا اُن کی کامیابی کی توقع لئے بیٹھا تھا۔ IKDS 107.3

    لیکن اب شہر میں اُس کا داخلہ اُس کی توقعات کے بالکل برخلاف تھا۔ بینائی سے محرُوم، بے بس، پچھتاوے کی اذّیت، اور اس بات سے ناواقف کہ اُسے مزید کس سزا کا سامنا ہو گا۔ بہر کیف اُس نے شاگرد یہودہ کے گھر کی تلاش کی جہاں تنہائی میں اپس کے پاس دُعا اور غورو خوض کرنے کا کافی وقت تھا۔ IKDS 108.1

    تین دن تک ساول نہ دیکھ سکا اور نہ ہی اُس نے کچھ کھایا پیا۔ جانکنی کے یہ تین دن ساول کو کئی برسوں کے برابر معلوم ہوئے۔ اسے بار بار بڑے دُکھ کے ساتھ یاد پڑتا تھا کہ کس طرح اُس نے ستفنس کی شہادت میں کردار ادا کیا تھا۔ بڑے کرب اور خوف کے ساتھ وہ اپنے اِس جُرم کو یاد کرتا جو اُس نے خُود کو کاہنوں اور سرداروں کی خباثت اور تعصب کے حوالے کر دیا تھا۔ اور اس نے خود کو ان کے چنگل سے اس وقت بھی آزاد نہ کیا جب ستفنس کا چہرہ آسمانی نُور سے دمک اٹھا تھا۔ بڑی ہی اُداسی اور غمگینی اور شکستہ رُوح کے ساتھ اُس نے کئی واقعات کو دُہرایا جب اُس نے واضح شہادتوں کی طرف سے اپنی آنکھیں اور کان بند کر لئے تھے اور بڑی بے رحمی سے یسوع ناصری پر ایمان رکھنے والوں کے خلاف لوگوں کو اُکسایا تھا۔ IKDS 108.2

    دِل کی فروتنی اور قریب سے اپنا امتحان کرنے کے یہ دن تنہائی میں گزرے۔ چونکہ ایمانداروں کو پہلے سے آگاہ کر دیا گیا تھا کہ ساول کس مقصد کے لئے دمشق آرہا ہے چنانچہ وہ ڈرے کہ کہیں ہمیں اپنے جال میں پھنسانے کے لئے اُس نے ڈرامہ نہ رچایا ہو۔ بدیں وجہ وہ اُس سے کنارہ کشی کرتے اور اس سے ہمدردی جتانے سے صاف صاف انکار کرتے رہے۔ ساول غیر تائب یہودیوں سے اپیل نہیں کرنا چاہتا تھا جن کے ساتھ اُس نے مل کر ایمانداروں کو ستانے کا منصوبہ بنایا تھا۔ کیونکہ اُسے معلوم تھا کہ وہ اُس کی کہانی بھی نہیں سُنیں گے۔ اس طرح وہ تمام انسانوں کی ہمدردی سے محرُوم ہو گیا۔ اُس کی واحد اُمید رحیم خُداوند خُدا ہی تھا۔ اسی سے اس نے دل کی شکستگی میں التجا کی۔ IKDS 108.3

    ان طویل گھڑیوں کے دوران جب ساول خُدا کے ساتھ تنہائی میں تھا اُسے بہت سے الہامی نسخوں میں کئی حوالہ جات جو یسُوع مسیح کی پہلی آمد کے بارے تھے یاد آئے۔ بڑی احتیاط سے اُس نے پیشنگوئیوں کو ڈھونڈا۔ اور جب اُس نے اُن پیشنگوئیوں کے معنوں پر غور کیا تو وہ اپنے پہلے نابینا پن اور بے سمجھی پر بڑا حیران ہوا۔ بلکہ یہودیوں کے نابینا پن اور بے سمجھی پر بھی حیران رہ گیا جنہوں نے موعودہ مسیح کو رد کرنے میں لوگوں کی رہنمائی کی تھی۔ اب کُھل کر سامنے آنے والی رویا کے ذریعہ اُس پر سب کچھ صاف اور واضح ہوگیا۔ وہ جانتا تھا کہ اس کے پہلے تعصب اور کم اعتقادی نے اُس کے ذہن کو گھمبیر کر دیا تھا تاکہ وہ پیشنگوئی کے یسوع ناصری کو جو مسیح موعود تھا نہ پہچانے۔ IKDS 109.1

    جب ساول کُلی طور پر رُوح القدس کی قائل کرنے والی قُوت پر ایمان لے آیا تو اُس نے اپنی زندگی کی خطاوں کو پہچانا اور خُدا کی شریعت کے دُور رس دعووں کو تسلیم کیا۔ ساول جو فریسی ہونے پر فخر کرتا تھا اور جس کا یہ ایمان تھا کہ اعمال حسنہ سے انسان راستباز ٹھہرتا ہے اب وہ خُدا کے سامنے فروتنی اور سادگی میں چھوٹے بچے کی مانند سجدے میں پڑا ہُوا اپنے نکمے پن کا اقرار کر رہا تھا۔ اور مردوں میں سے زندہ ہونے والے اور مسیح مصلوب کی خُوبیوں کا واسطہ دے کر معافی مانگ رہا تھا۔ اب ساول کی خواہش تھی کہ وہ پُور طرح خُدا باپ اور اُس کے بیٹے کے ساتھ ہم آہنگ ہو جائے۔ چنانچہ مُعافی کی خواہش کی شدت کے زیر سایہ اُس نے فضل کے تخت کے سامنے اپنی مناجات گزرانیں۔ IKDS 109.2

    تائب دل فریسی (ساول) کی دعائیں رائیگاں نہ گئیں۔ اس کے دل کے خیالات و جذبات الہٰی فضل سے تبدیل ہو گئے اور اس کی نیک قواء (بدنی اور ذہنی) خُدا وند کے ابدی مقصد کے ساتھ ہم آہنگ ہو گئیں۔ اب ساول کے قریب مسیح اور اس کی راستبازی کا حصول تمام دُنیا کو حاصل کرنے سے کہیں بڑھ چڑھ کر تھا۔ IKDS 109.3

    گنہگاروں کو قائل کرنے کے لئے ساول کا تبدیل ہونا رُوح القدس کی مُعجزانہ قوت کا حیران کن اور شاندار ثبوت ہے۔ تائب ہونے سے پہلے ساول یقین کر چکا تھا کہ یسوع ناصری نے خُدا کی شریعت کی بے حُرمتی کی ہے اور اپنے شاگردوں کو بتایا ہے کہ اب یہ غیر موثر ہے۔ مگر تبدیل ہونے کے بعد ساول نے کہا کہ مسیح یسوع دُنیا میں اس لئے آیا تاکہ اپنے باپ کے قانوں اور نعمتوں کو دُنیا پر آشکارہ کرے۔ وہ قائل ہو گیا تھا کہ مسیح یسوع ہی یہودہ قُربانیوں کے نظامکا بانی ہے۔ اُس نے دیکھا کہ صلیب پر جان دے کر خُدا وند یسوع مسیح نے علامتی قربانیوں کو موقوف کر دیا۔ نیز عہد عتیق کی پیشنگوئیوں کو جو بنی اسرائیل کے نجا ت دہندہ سے علاقہ رکھتی تھیں اُن کو پورا کر دیا۔ IKDS 110.1

    ساول کی تبدیلی کے ریکارڈ میں بڑے ہی اہم اصُول پیش کئے گئے ہیں جو ہمیں تا ابد اپنے ذہن میں محفوظ کر لینے چاہئیں۔ ساول براہ راست یسوع کی حضوری میں لایا گیا۔ یہ وہی تھا جسے یسوع مسیح کوئی اہم ذمہ داری دینے کا خواہاں تھا اور جو اپس کا چنا ہوا وسیلہ تھا۔ تاہم خُدا نے اُسے فوراً یہ نہ بتایا کہ اُسے کیا کرنا ہے۔ خُداوند نے اُسے اسیر کیا اور گناہ کے بارے قائل کیا۔ لیکن جب ساول نے پوچھا کہ اے خُداوند تُو کیا چاہتا ہے کہ میں تیرے لئے کروں؟ تو خُدا نے اُس پوچھنے والے یہودی کو کلیسیا کے ساتھ ملا دیا۔ تاکہ وہاں سے وہ اپنے لئے خُدا کی مرضی معلوم کرے۔ IKDS 110.2

    وہ عجیب و غریب روشنی جس نے ساول کی تاریکی کو روشن کر دیا یہ خُدا کا کام تھا۔ مگر اس کے علاوہ اور بھی کام تھا جو ساول کے لئے شاگردوں کو کرنا تھا۔ یسوع مسیح نے قائلیت اور مکاشفہ مہیا کیا اور اب تائب دل ساول اس حالت میں تھا کہ اُن سے یہ سب کچھ سیکھنے جن کو خُدا نے اپنی سچائی سکھانے کے لئے مخصوص کر رکھا تھا۔ IKDS 110.3

    جس وقت ساول تنہائی میں یہودہ کے گھر دُعا اور مناجات کی کیفیت میں تھا تو خداوند رویا میں ایک شاگرد حننیاہ پر ظاہر ہوا۔ اور کہا حننیاہ اُٹھ اُس کوچہ میں جا جو سیدھا کہلاتا ہے اور یہودہ کے گھر میں ساول نام کو پُوچھ لے کیونکہ دیکھ وہ دُعا کر رہا ہے اور اُس نے حننیاہ نام ایک آدمی کو اندر آتے اور اپنے اُوپر ہاتھ رکھتے دیکھا ہے تاکہ پھر بینا ہو۔ IKDS 111.1

    حننیاہ کو فرشتہ کی باتوں کا بمشکل یقین آیا کیونکہ یروشلیم میں ساول کے ظُلم کی داستانیں دُور و نزدیک پہنچ چُکی تھیں۔ چنانچہ حننیاہ نے جواب دیا “اے خُداوند میں نے بہت سے لوگوں سے اس شخص کو ذکر سُنا ہے کہ اُس نے یروشلیم میں تیرے مقدسوں کے ساتھ کئی برائیاں کی ہیں اور اُس کو سردار کاہنوں کی طرف سے اختیار ملا ہے کہ جو لوگ تیرا نام لیتے ہیں ان سب کو باندھ لے” مگر اُس کے لئے خداوند کا ایک ہی حُکم تھا “تُو جا” کیونکہ یہ قوموں بادشاہوں اور بنی اسرائیل کے میرا نام ظاہر کرنے کا میرا چنا ہوا وسیلہ ہے”۔ IKDS 111.2

    فرشتے کی ہدایت کی پیروی کرتے ہوئے حننیاہ ساول کی تلاش میں نکل پڑا جس نے حال ہی میں مسیح کے نام لیوا لوگوں کی زندگی اجیرن کر دی تھی۔ چنانچہ اُسے پا کر تائب دل ساول کے سر پر ہاتھ رکھ کر فرمایا۔ “اے بھائی ساول! خُداوند یعنی یسُوع جو تجھ پر اُس راہ میں جس سے تُو آیا ظاہر ہُوا تھا اُسی نے مجھے بھیجا کہ تُو بینائی پائے اور رُوح القدس سے بھر جائے۔ اور فوراًاس کی آنکھوں سے چھلکے سے گرے اور وہ بینا ہو گیا اور اُٹھ کر بپتسمہ لیا”۔ IKDS 111.3

    یوں یسوع نے کلیسیا کے اختیار کی توثیق کی اور ساول کو زمین پر اپنی قائم کر دہ ایجنسی (کلیسیا) کے ساتھ منسلک کیا۔ اب کلیسیا زمین پر مسیح کی نمائندہ ہے اُسے خُدا وند نے تائب گنہگاروں کو زندگی کی راہ دکھانے کی ذمہ داری دے رکھی ہے۔ IKDS 111.4

    بہت سے بہن بھائی یہ سوچتے ہیں کہ جو روشنی اور تجربہ اُن کے پاس ہے اس کے لئے وہ صرف مسیح یسوع کو جواب دہ ہیں۔ مسیح یسوع گنہگاروں کا دوست ہے اُن کی تکلیفوں سے اس کا جی بھر آتا ہے۔ زمین اور آسمان کا کل اختیار اس کے پاس ہے۔ اس کے باوجود وہ اُن وسائل کی قدر کرتا ہے جو اُس نے آدمیوں کو تعلیم دینے اور نجات بخشنے کے لئے مخصوص کر رکھے ہیں۔ وہ گنہگاروں کو کلیسیا کی جانب جانے کی ہدایت کرتا ہے جو دُنیا کے لئے روشنی کا منبع ہے۔ IKDS 111.5

    جب ساول اپنی غلطی اور تعصب میں غلطاں تھا اُسے یسوع کا مکاشفہ حاصل ہوا جسے وہ ستاتا تھا۔ اُسے براہ راست کلیسیا کی رفاقت میں رکھا گیا جو دنیا کا نُور ہے۔ اس طرح حننیاہ، یسوع مسیح اور اُس کے خادموں کی اس زمین پر نمائندگی کرتا ہے جو یسوع کی جگہ خدمت کرنے کے لئے تعینات کئے گئے ہیں۔ یسوع کی جگہ حننیا نے ساول کی آنکھوں کو چھوتا ہے تاکہ وہ پھر بینا ہو جائے۔ یسوع کی جگہ اُس نے ساول پر ہاتھ رکھے اور جُونہی یسوع کے نام میں دُعا کرتا ہے ساول رُوح القدس پاتا ہے۔ IKDS 112.1

    یہ سب کچھ یسوع کے نام اور اختیار سے کیا گیا۔ مسیح یسوع چشمہ ہے، جبکہ کلیسیا اُس چشمہ تک پہنچنے کا وسیلہ۔ IKDS 112.2

    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents