Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents

ابتدائ کليسياء کے درخشاں ستارے

 - Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First
    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents

    باب ۵۱ - وفادار نگہبان

    پطرس کا پہلا عام خط

    اعمال کی کتاب میں پطرس رسُول کی زندگی کے آخری کام کے بارے کچھ زیادہ ذکر نہیں آیا۔ اپنی خدمت کے مصروف ترین دنوں میں جب عید پنتِکُست کے دن روح القدس نازل ہوا، پطرس ان شاگردوں میں شامل تھا جنہوں نے یروشلم میں سالانہ عید پر عبادت کے لئے آنے والے یہودیوں میں انتھک خدمت کی۔ IKDS 482.1

    جب یروشلم میں اور دوسری جگہوں پر انجیل کےپیامبروں کی منادی کے نتیجہ میں ایمانداروں کی تعداد میں اضافہ ہوا تو ابتدائی کلیسیا کے لئے وہ توڑے جو خُداوند نے پطرس کو دے رکھے تھے بڑے ہی قیمتی ثابت ہوئے۔ مسیح یسُوع کے بارے اس کی شہادت کی تاثیر دُور و نزدیک پھیل گئی۔ پطرس پر دوہری ذمہ داری عائد ہو گئی۔ اسے بے ایمانوں کے سامنے مسیح موعود کی گواہی پیش کر کے انہیں مسیح کے قدموں میں لانا تھا، اور اسی دوران ایمانداروں کو مسیح کے ایمان میں مستحکم کرنا تھا۔ IKDS 482.2

    یہ اُس وقت ہُوا جب پطرس نے خُود انکاری کر کے کُلی بھروسہ خُداوند کی قُوت میں رکھا تب اُسے نگہبان کی بُلاہٹ ملی۔ مسیح یسُوع کا انکار کرنے سے پہلے، پطرس کو آپا نے کہا تھا “جب تو رجُوع کرے تو اپنے بھائیوں کو مضبوط کرنا” لُوقا ۳۲:۲۲ یہ کلام اُس کے بارے میں بڑا ہی معنی خیز تھا رسُول مستقبل میں اُن کے لئے کرنے کو تھا جنہوں نے مسیح کے قدموں میں آنے کا فیصلہ کرنا تھا۔ اس کام کے لئے پطرس کو اس کے اپنے گناہ ، تکالیف اور توبہ نے تیاری بخشی۔ جب تک اُسے اپنی کمزوریوں کا علم نہ ہُوا اس نے مسیح پر بھروسہ کرنے کی ضرُورت کو محسوس نہ کیا۔ آزمائشوں کے سیلاب میں ہی اس نے سیکھا تھا کہ انسان صرف نجات دہندہ پر بھروسہ کر کے ہی سلامتی سے چل سکتا ہے۔ IKDS 482.3

    سمندر کے کنارے مسیح کی شاگردوں کے ساتھ آخری میٹنگ میں تین بار ایک ہی سوال کے ذریعے پطرس کا امتحان لیا گیا “کیا تُو مجھ سے محبت رکھتا ہے” یوحنا ۱۵:۲۱۔۱۷ اور اس امتحان نے پطرس کے مقام کو بارہ شاگردوں کے اندر بحال کیا۔ یسُوع مسیح نے اسے اس کی خدمت کے لئے تعینات کر دیا۔ جب وہ تبدیل ہو گیا اور خُداوند یسُوع مسیح نے اسے قبول کر لیا تب اسے نہ صرف ان بھیڑوں کو ڈھونڈنا اور بچانا تھا جو بغیر چرواہے کے تھیں بلکہ خود اسے بھیڑوں کا چرواہا بننا تھا۔ IKDS 483.1

    مسیح یسُوع نے خدمت کرنے کے لئے پطرس کے سامنے صرف ایک ہی شرط رکھی “کیا تُو مجھے عزیز رکھتا ہے” یہی سب سے اہم وصف ہے اگر پطرس میں باقی تمام خوبیاں ہو تیں مگر وہ محبت سے خالی ہوتا تو وہ خُدا کے گلہ کی نگہبانی نہیں کر سکتا تھا۔ علم، فیاضی، شعلہ بیانی، جوش و جذبہ اچھی خدمت کے لئے یہ سب کچھ ہی بہت اہم ہے مگر دل میں مسیح کی محبت رکھے بغیر مسیحی خادم کا کام یکسر فیل ہے۔ IKDS 483.2

    مسیح کی محبت عارضی اور اضطراری جذبہ نہیں بلکہ زندہ اُصول ہے اور اس کا اظہار دل میں بسنے والی قُوت کے ذریعہ کیا جا سکتا ہے۔ اگر نگہبان کا چالچلن اور خدمت اس صداقت کے مطابق ہو جس کا وہ پرچار کرتا ہے تو خُدا اس کے کام پر اپنی منظوری کی مہر ثبت کر دے گا۔ چوپان اور گلہ دونوں ایک ہو جائیں گے اور دونوں کی مسیح میں ایک ہی مُبارک اُمید ہو گی۔ IKDS 483.3

    پطرس کے ساتھ نجات دہندہ کا طریقہ ء برتاو پطرس اور دوسرے شاگردوں کے لئے سبق تھا۔ بے شک پطرس نے اپنے آقا کا انکار کیا تھا لیکن یسُوع کے دل میں جو اس کے لئے محبت تھی وہ زوال پذیر نہ ہوئی۔ اور جب رسُول نے دوسروں کو کلام سنانے کی ذمہ داری لینا تھی تو اسے بھی گنہگاروں کے ساتھ صبر، ہمدردی اور محبت سے پیش آنا تھا۔ اپنی کمزوریوں اور ناکامیوں کو یاد کر کے اسے بھی ان بھیڑوں کے ساتھ جو خُداوند نے اس کی نگرانی میں دینی تھیں مسیح کی مانند پیش آنا تھا۔ IKDS 484.1

    بنی نوع انسان جو خُود بھی بدی سے مغلوب ہیں، وہ قصور واروں اور آزمائش میں گِرے ہووں کے ساتھ بڑی سختی سے پیش آتے ہیں۔ وہ کسی کے دل کو پڑھ نہیں سکتے اور نہ ہی اس کے درد اور جدوجہد اور کشمکش سے واقف ہوتے ہیں۔ ملامت جس میں محبت شامل ہو، زخم جو شفا کا باعث ہو، تنبیہ جس سے اُمید پیدا ہو، خُدا کے خادموں کو سیکھنے کی ضرورت ہے۔ IKDS 484.2

    جو گلہ پطرس کے سپُرد کیا گیا تھا، پطرس نے اپنی ساری خدمت کے دوران اس کی اچھی فکر کی۔ اور خود کو اُس ذمہ داری کے لائق ثابت کیا جو مسیح یسوع نے اُس پر عائد کی تھی۔ اس نے ہمیشہ مسیح یسُوع کو آل آدم کا نجات دہندہ اور بنی اسرائیل کی واحد اُمید کے طور پر سر بلند کیا۔ اس نے خُود اپنی زندگی کو خُدا وند مسیح کے تابع کر دیا جو تمام کار گزاروں کا آقا ہے۔ پطرس نے ہر ممکنہ طریقہ سے ایمانداروں کو سرگرم خدمت کے لئے تعلیم دی۔ اس کے پاکیزہ اور خُدا ترس نمونہ اور انتھک خدمت سے متاثر ہو کر بہت سے نوجوانوں نے اپنی پوری زندگی خُدا وند کی خدمت کے لئے وقف کر دی۔ وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ رسُول کا اثر بطور معلم اور رہبر کے نشوونما پاتا گیا، اور اگرچہ اسے یہودیوں کی بہت فکر تھی اور وہ اپنے سینہ پر ان کا بوجھ لئے پھرتا تھا، پھر بھی اس نے بہت سے ملکوں میں مسیح یسُوع کی گواہی دی اور ایماندارون کو مسیح کے ایمان میں مضبوط کیا۔ IKDS 484.3

    اپنی خدمت کے آخری دنوں میں رُوح القدس نے اسے ایمانداروں کو تحریر کرنے کی ترغیب دی جو “پنطُس، گلتیہ، کپدُکیہ، آسیہ اور بتُھنیہ میں جا بجا رہتے تھے۔” ان خطوط کے لکھنے کا مطلب یہ تھا کہ ان ایماندارون کی ہمت اور اُمید کو جلابخشی جائے جو آزمائشیں برداشت کر رہے ہیں۔ اور اُن کے اچھے کاموں کو تازگی بخشنا تھا جو بہت سی آزمائشوں کے سبب خُدا کو چھوڑنے کے خطرے میں تھے۔ ان خطوط سے اس بات کا تاثر ملتا ہے کہ یہ اس شخص نے لکھے ہیں جس میں مسیح کے دُکھ اور تشفی دونوں بکثرت موجود ہیں، جو پوری طرح خُدا کے فضل سے تبدیل ہو چُکا ہے اور جسکی ابدی زندگی کے لئے اُمید یقینی ہے۔ IKDS 485.1

    اپنے پہلے خط کے آغاز میں عمر رسیدہ رسُول نے خُدا وند مُبارک کہا اور اس کے نام کی تعریف کی۔ “ہمارے خُدا وند یسُوع مسیح کے خُدا اور باپ کی حمد ہو جس نے یسُوع مسیح کے مردوں میں سے جی اٹھنے کے باعث اپنی بڑی رحمت سے ہمیں زندہ اُمید کے نئے سرے سے پیدا کیا تاکہ ایک غیر فانی اور بے داغ اور لازوال میراث کو حاصل کریں۔ وہ تمہارے واسطے (جو خُدا وند کی قُدرت سے ایمان کے وسیلہ سے اس نجات کے لئے جو آخری وقت میں ظاہر ہونے کو تیار ہے حفاظت کئے جاتے ہو) آسمان پر محفوظ ہے”۔ IKDS 485.2

    نئی زمین کے وارث ہونے کی اُمید میں ابتدائی مسیحی آزمائشوں اور دُکھوں اور ظلم و تشدد کے باوجود شادمان تھے “اس کے سببب سے تُم خُوشی مناتے ہو۔ اگرچہ اب چند روز کے لئے ضرورت کی وجہ سے طرح طرح کی آزمائشوں کے سبب سے غم زدہ ہو۔ اور یہ اس لئے ہے کہ تُمہارا آزمایا ہُوا ایمان جو آگ سے آزماتے ہوئے فانی سونے سے بھی بہت ہی بیش قیمت ہے یسُوع مسیح کے ظہُور کے وقت تعریف اور جلالی اور عزت کا باعث ٹھہرے۔ اس سے تُم بے دیکھے محبت رکھتے ہو اور اگرچہ اس وقت اس کو نہیں دیکھتے تو بھی اس پر ایمان لا کر ایسی خُوشی مناتے ہو جو بیان سے باہر اور جلال سے بھری ہے، اور اپنے ایمان کا مقصد یعنی رُوحوں کی نجات حاصل کرتے ہو”۔ IKDS 485.3

    رسُول کا کلام ہر زمانے کے ایماندار کے لئے تحریر میں آیا۔ اور اس کی اہمیت ان کے لئے اور بھی بہت اہم ہے جو اخیر زمانہ میں رہ رہے ہیں۔ “سب چیزوں کا خاتمہ جلد ہونے والا ہے”۔ اس کی ہدایات، لعنت ملامت اور حوصلہ اور ایمان کا کلام ان سب رُوحوں کےلئے ہے جو اپنے ایمان کو قائم رکھنا چاہتے ہیں “آیر تک مضبوطی سے قائم رہیں”۔ عبرانیوں ۱۴:۳ IKDS 486.1

    رسُول نے اپنے خطوط کے ذریعہ سے ایمانداروں کو سکھانا چاہا کہ اپنا ذہن و دماغ بیہودہ باتوں کی طرف نہ لگا اور نہ ہی اپنی قوت فضول اور بے حقیقت اشیاء پر صرف کریں۔ وہ سب مسیحی جو ابلیس کے ہتھ کنڈوں سے محفوظ رہنا چاہتے ہیں لازم ہے کہ وہ ایسا مواد پڑھنے یا دیکھنے سے گریز کریں جو ان کے ذہن میں گندے خیالات پیدا کرنے کا باعث ہو۔ بغیر سوچے سمجھے ابلیس کے مشورے پر کچھ نہ پڑھیں۔ دل کی اچھی طرح حفاظت کی جائے ورنہ باہر کی بدیاں، برائیاں دل کے اندر داخل ہو جائیں گی اور روح اندھیرے میں بھٹکتی پھرے گی۔ اس واسطے اپنی عقل کی کمر باندھ کر اور ہوشیار ہو کر اس فضل کی کامل اُمید رکھو جو یسُوع مسیح کے ظہُور کے وقت تُم پر ہونے والا ہے۔ اور فرمانبردار فرزند ہو کر اپنے جہالت کے زمانہ کی پرانی خواہشوں کے تابع نہ بنو۔ بلکہ جس طرح تمہارا بلانے والا پاک ہے اسی طرح تم بھی اپنے سارے چالچلن میں پاک بنو۔ کیونکہ لکھا ہے کہ پاک ہو اس لئے کہ میں پاک ہوں”۔ IKDS 486.2

    “اپنی مسافرت کا زمانہ خوف کے ساتھ گزارو۔ کیونکہ تُم جانتے ہو کہ تمہارا نکما چالچلن جو باپ دادا سے چلا آتا تھا اس ے تُمہاری خلاصی فانی چیزوں یعنی سونے چاندی کے ذریعہ نہیں ہوئی۔ بلکہ ایک بے عیب اور بے داغ برّے یعنی مسیح کے بیش قیمت خُون سے۔ اس کا علم تو بنائے عالم سے پیشتر تھا مگر ظہُور اخیر زمانہ میں تمہاری خاطر ہُوا ۔ کہ اس کے وسیلہ سے خُدا پر ایمان لائے ہو جس نے اس کو مردوں میں سے جلایا اور جلال بخشا تاکہ تمہار ایمان اور اُمید خُدا پر ہو۔” IKDS 486.3

    اگر سونا چاندی انسان کی نجات کو خریدنے کے لئے کافی ہوتا تو اس کے لئے کتنا آسان ہوتا جو یہ کہتا ہے “سونا چاندی میرا ہے” جحی ۸:۲۔۔۔۔ مگر خُدا کے بیٹے کے قیمتی خون سے ہی گنہگار نجات پا سکتا تھا۔ نجات کی تجویز قربانی پر رکھی گئی۔ پولُس رسُول لکھتا ہے “کیوں کہ تُم ہمارے خُداوند یسُوع مسیح کے فضل کو جانتے ہو کہ وہ اگرچہ دولت مند تھا مگر تمہاری خاطر غریب بن گیا تاکہ تُم اُس کی غریبی کے سبب سے دولتمند ہو جاو”۔۲۔کرنتھیوں ۹:۸۔۔۔ مسیح یسُوع نے خُود کو ہماری خاطر دے دیا تاکہ ہمیں گناہ کی غلامی سے چُھڑالے۔ “خدا کی بخشش ہمارے خُداوند مسیح یسُوع میں ہمیشہ کی زندگی ہے”۔ رومیوں ۲۳:۶IKDS 487.1

    “چونکہ تُم نے حق کی تابعداری سے اپنے دلوں کو پاک کیا ہے جس سے بھائیوں کی بے ریا محبت پیدا ہوئی۔ اس لئے دل و جان سے آپس میں بہت محبت رکھو۔ کیوں کہ تُم فانی تخم سے نہیں بلکہ غیر فانی سے خُدا کے کلام کے وسیلہ سے جو زندہ اور قائم ہے نئے سرے سے پیدا ہوئے ہو” بھائیوں کی بے ریا محبت” خُدا سے علاقہ رکھتی ہے جو اعلیٰ اور پاک کردار کی طرف رہنمائی کرتی اور خُود غرضی کو دُور کرتی ہے۔ IKDS 487.2

    جب سچائی زندگی میں قائم رہنے والا اصول بن جاتی ہے تو روح نئے سرے سے پیدا ہو جاتی ہے۔ فانی تخم سے نہیں بلکہ غیر فانی سے خُدا کے کلام کے وسیلہ سے جو زندہ اور قائم ہے” مسیح یسوع کو خُدا کے کلام کے طور پر قبُول کرنے کے نتیجہ میں یہ نئی پیدائش وقوع میں آتی ہے۔ جب روح القدس کے ذریعہ الہٰی سچائیاں دل پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ نئی ذہنی صُورت بیدار ہو جاتی ہے اور ساری قوا خُداوند کے ساتھ متحد ہو جاتی ہیں۔ IKDS 487.3

    یہی حال پطرس اور دوسرے شاگردوں کا ہُوا۔ مسیح یسُوع دُنیا پر سچائی کو آشکارہ کرنے والا تھا اسی کے ذریعہ غیر فانی بیج یعنی خُدا کا کلام انسانوں کے دلوں میں بویا گیا۔ لیکن عظیم معلم نے کئی قیمتی اسباق دیئے جن کو اس وقت بہتیرے نہ سمجھ پائے۔ لیکن جب اس کے آسمان پر صعود فرمانے کے بعد رُوح القدس نے وہ اسباق ان کو یاد دلائے تو ان کا سویا ہوا شعور بیدار ہو گیا۔ اور یہ سچائیاں مکاشفہ بن کر اُن کے ذہن نشین ہو گئیں۔ اس کے بعد مسیح یسُوع کا شاندار تجربہ ان کا اپنا تجربہ بن گیا۔ کلام نے ان آدمیوں کے ذریعہ گواہی دی جن کو خُدا نے مقرر کر رکھا ہے۔ اور انہوں نے سچائی کا بھرپُور پرچار کیا۔ “اور کلام مجسم ہُوا اور فضل اور سچائی سے معمور ہو کر ہمارے درمیان رہا اور ہم نے اُس کا ایسا جلال دیکھا جیسا باپ کے اکلوتے کا جلال۔ اس کی معموری میںہم سب نے پایا یعنی فضل پر فضل”۔ یوحنا ۱۴:۱۔۱۶ IKDS 488.1

    رسُول نے ایمانداروں کو کلام مقدس کا مطالعہ کرنے کی ترغیب دی اور بتایا کہ اُس کی راست سمجھ سے ابدیت کے کام کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ پطرس محسوس کرتا ہے کہ ہر ایک روح بالآخر فتح مند ہو گی تاہم پریشانی اور آزمائشوں کا سامنا ہو گا۔ اُسے یہ بھی علم تھا کہ جن کی آزمائش ہوئی ہے اُن کے ذہن میں کلام کی صحیح سُوجھ بُوجھ وہ وعدے لا سکیں گے جو ان کے لئے باعث اطمینان ہوں اور خُدا میں ان کے ایمان کو مستحکم کر ے گی۔ IKDS 488.2

    “ہر بشر گھاس کی مانند ہے اور اس کی ساری شان و شوکت گھاس کے پھول کی مانند۔ گھاس تو سُوکھ جاتی ہے اور پھُول گر جاتا ہے۔ لیکن خُداوند کا کلام ابد تک قائم رہے گا۔ پس ہر طرح کی بد خواہی اور سارے فریب اور ریا کاری اور حسد اور ہر طرح کی بد گوئی کو دُور کر کے نو زائید بچوں کی مانند خالص رُوحانی دُودھ کے مشتاق رہو تاکہ اُس کے ذریعہ سے نجات حاصل کرنے کے لئے بڑھتے جاو۔ اگر تُم نے خُداوند کے مہربان ہونے کا مزہ چکھا ہے”۔IKDS 488.3

    بہت سے ایماندار جن کو رسُول نے لکھا وہ بُت پرستون کے درمیان رہتے تھے اور ان کا خُدا کے ساتھ وفادار رہنا از حد ضروری تھا۔ اس لئے مسیح کے پیروکار ہونے کے ناطے میں رسُول نے ان کو ترغیب دی “تم ایک برگزیدہ نسل، شاہی کاہنوں کا فرقہ، مقدس قوم اور ایسی امت ہو جو خُدا کی خاص ملکیت ہے تاکہ اس کی خوبیاں ظاہر کرو جس نے تمہیں تاریکی سے اپنی عجیب روشنی میں بُلایا ہے پہلے تُم کوئی اُمت نہ تھے مگر اب خُدا کی اُمت ہو۔ تُم پر رحمت نہ ہوئی تھی مگر اب تُم پر رحمت ہوئی۔ IKDS 489.1

    “اے پیارو میں تمہاری منت کرتا ہوں کہ تُم اپنے آپ کو پردیسی اور مسافر جان کر ان جسمانی خواہشون سے پرہیز کرو جو رُوح سے لڑائی رکھتی ہیں۔ اور غیر قوموں میں اپنا چالچلن نیک رکھو تاکہ جن باتوں میں وہ تُمہیں بدکار جان کر تمہاری بد گوئی کرتے ہیں تمہارے نیک کاموں کو دیکھ کر اُنہی کے سبب سے ملا خطہ کے دن خُدا کی تمجید کریں”۔ IKDS 489.2

    رسُول نے بڑی صفائی سے بیان کیا کہ ایمانداروں کا حکومت والوں اور اختیار والوں کے ساتھ کیسا رویہ ہونا چاہئے۔ “خداوند کی خاطر انسان کے ہر ایک انتطام کے تابع رہو۔ بادشاہ کے اس لئے کہ وہ سب سے بزرگ ہے۔ اور حاکموں کے اس لئے وہ بدکاروں کی سزا اور نیکو کاروں کی تعریف کے لئے اس کے بھیجے ہوئے ہیں۔ کیونکہ خُدا کی مرضی یہ ہے کہ تُم نیکی کر کے نادان آدمیوں کی جہالت کی باتوں کو بند کر دو۔ اور اپنے آپ کو آزاد جانو مگر اس آزادی کو بدی کا پردہ نہ بناو بلکہ اپنے آپ کو خُدا کے بندے جانو۔ سب کی عزت کرو۔ برادری سے محبت رکھو۔ خُدا سے ڈرو۔ اور بادشاہ کی عزت کرو۔”IKDS 489.3

    اور جو غلام تھے انہیں اپنے مالکوں کے تابع رہنا تھا۔ “اے نوکرو! بڑے خوف سے اپنے مالکوں کے تابع رہو۔ نہ صرف نیکوں اور حلیموں ہی کے بلکہ بد مزاجوں کے بھی۔ کیونکہ اگر کوئی خُدا کے خیال سے بے انصافی کے باعث دُکھ اُٹھا کر تکلیفوں کو برداشت کرے تو یہ پسندیدہ ہے۔ اس لئے کہ اگر تم نے گناہ کر کے مُکے کھائے اور صبر کیا تو کون سا فخر ہے؟ ہاں اگر نیکی کر کے دُکھ پاتے اور صبر کرتے ہو تویہ خُدا کے نزدیک پسندیدہ ہے اور تُم اُسی کے لئے بُلائے گئے ہو کیونکہ مسیح بھی تمہارے واسطے دُکھ اُٹھا کر تمہیں ایک نمونہ دے گیا ہے تاکہ اس کے نقش قدم پر چلو۔ نہ اس نے گناہ کیا اور نہ اس کے منہ سے کوئی مکر کی بات نکلی ۔ نہ وہ گالیاں کھا کر گالی دیتا تھا اور نہ دُکھ پاکر کسی کو دھمکاتا تھا بلکہ اپنے آپ کو سچے انصاف کرنے والے کے سپُرد کرتا تھا۔ وہ آپ ہمارے گناہوں کو اپنے بدن پر لئے ہوئے صلیب پر چڑھ گیا تاکہ ہم گناہوں کے اعتبار سے مر کر رستبازی کے اعتبار سے جئیں اور اسی کے مار کھانے سے تُم نے شفا پائی۔ کیونکہ پہلے تُم بھیڑوں کی طرح بھٹکتے پھرتے مگر اب روحوں کے گلہ بان اور نگہبان کے پاس پھر آئے ہو۔”IKDS 489.4

    اسی طرح رسُول نے ایماندار بہنوں کو بھی گفتگو، بناو سنگھار اور لباس کے برے تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا۔ “اے بیویو! تُم بھی اپنے اپنے شوہر کے تابع رہو۔ اور تمہارا سنگھار ظاہری نہ ہو یعنی سرگُوندھنا اور سونے کے زیور اور طرح طرح کے کپڑے پہننا۔ بلکہ تمہاری باطنی اور پوشیدہ انسانیت حِلم اور مزاج کی غُربت کی غیر فانی آرائش سے آراستہ رہے کیونکہ خُدا کے نزدیک اس کی بڑی قدر ہے”۔ IKDS 490.1

    اس سبق کا اطلاق ہر زمانہ کی بہنوں پر ہوتا ہے۔ “تُم اُن کے پھلوں سے پہچان لو گے”۔ متی ۲۰:۷۔۔۔۔ باطنی پاکیزگی کا کوئی نعم البدل نہیں ہے۔ حقیقی مسیحی کی بیرونی ٹیپ ٹاپ باطنی اطمینان اور پاکیزگی سے ہم آہنگ ہوتی ہے۔ یسُوع مسیح نے فرمایا “اگر کوئی میرے پیچھے آنا چاہے تو اپنی خودی کا انکار کرے اور اپنی صلیب اٹھائے اور میرے پیچھے ہو لے”۔ متی ۲۴:۱۶۔۔۔ خود انکاری اور قربانی مسیحی زندگی کی رُوح رواں ہیں۔ اور جو مسیحی راہ پر چلیں گے اُن کے لباس سے بھی عیاں ہوگا۔ IKDS 490.2

    خوبصورتی کو چاہنا درست ہے مگر خُدا وند چاہتا ہے کہ ہم اس عارضی خوبصُورتی سے زیادہ اعلیٰ و برتر خوبصُورتی کی تلاش میں رہیں جو اُسی سے صادر ہوتی ہے۔ کسی طرح کی بھی ظاہری خوبصورتی “حلیمی اور سکون” کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ جیسے مکاشفہ ۱۴:۱۹ میں سفید اور صاف مہین کتانی کپڑے سے تشبیہ دی گئی ہے جو زمین کے تمام مقدسین پہنیں گے۔ یہ انہیں نہایت ہی حسین بنا دے گا۔ اور انہیں آسمانی بادشاہت کے قابل بنادے گا۔ کیونکہ اس کا وعدہ ہے “وہ سفید پوشاک پہنے ہوئے میرے ساتھ سیر کرینگے کیونکہ وہ اس لائق ہیں”۔ مکاشفہ ۴:۳ IKDS 491.1

    نبیانہ رویا میں اس نے کلیسیا پر آنے والے مصائب اور ظلم و ستم کو دیکھ کر ایماندارون کو ثابت قدم رہنے کی تلقین فرمائی “اے پیارو! جو مصیبت کی آگ تمہاری آزمائش کے لئے تُم میں بھڑکی ہے یہ سمجھ کر اس سے تعجب نہ کرو کہ یہ ایک انوکھی بات ہم پر واقع ہے” IKDS 491.2

    آزمائش، تکلیف، مصیبت مسیح کے سکول میں دی جانے والی تعلیم کا ایک حصہ ہے تاکہ اس کے بچے زمینی آرائشوں سے پاک ہو سکیں اور آنے والے آزمائشی تجربات اور امتحانات میں پُورے اُتر سکیں۔ تکالیف اور رکاوٹیں اس کے نظم و ضبط کی تربیت دینے اور کامیابی عطا کرنے کے چنیدہ اور مخصوص ذرائع ہیں۔ وہ جو دلوں کو پڑھ سکتا ہے وہ اُن کی کمزوریوں سے واقف ہے۔ وہی جانتا ہے کہ بعض میں ایسی خوبیاں ہیں کہ اگر انہیں صحیح طور سے استعمال کیا جائے تو اس کے کام کو ترقی دینے کا باعث بن سکتے ہیں۔ لہٰذا وہ اُن رُوحوں کو مختلف حالات اور ماحول میں لے آتا ہے تاکہ وہ اپنی اُن کمزوریوں سے واقف ہو سکیں جن کا اُنہیں پہلے علم نہیں تھا۔ چنانچہ وہ انہیں موقع دیتا ہے تاکہ وہ اُن عیُوت کو دُور کر کے اس کی خدمت کے قابل ہو سکیں۔ اکثر ایسا ہوتا تھا کہ وہ مصیبت کی آگ بھڑکا دیتا ہے تاکہ وہ پاک صاف ہو سکیں۔ IKDS 491.3

    خُداوند بدستور اپنی میراث کی حفاظت کرتا ہے۔ وہ اپنے بچوں پر کوئی آفت نہیں آنے دیتا، مگر وہی جو اُن کی موجودہ اور ابدی بھلائی کے لئے ضروری ہوتی ہے۔ وہ اپنی کلیسیا کو پاک کرے گا جیسے مسیح خُداوند نے ہیکل کو صاف کیا جب وہ اس دھرتی پر تھا۔ مصائب جو وہ اپنے بچوں پر لاتا ہے ان کا مقصد فقط یہ ہوتا ہے کہ وہ صلیب کی فتح کے لئے زیادہ قُوت اور عمیق پارسائی حاصل کر سکیں۔ IKDS 492.1

    پطرس کے تجربہ میں ایک ایسا بھی وقت تھا جب وہ مسیح کی خدمت میں صلیب کو دیکھنا نہیں چاہتا تھا۔ جب خُداوند یسُوع مسیح نے شاگردوں کو آنے والی مصیبت اور اپنی موت کے بارے بتایا تو پطرس بول پڑا “خداوند خُدا نہ کرے یہ تجھ پر ہرگز نہیں آنے کا” ۔ متی ۲۲:۱۶۔۔ مسیح کے دُکھوں میں شامل نہ ہونے کے سبب پطرس سخت نادم تھا۔ یہ پطرس کے لئے نہایت ہی تلخ سبق تھا جو اس نے دھیرے دھیرے سیکھا کہ مسیح کی راہ دُکھوں سے آراستہ ہے۔ آگ کی جلتی بھٹی میں ہی اسے یہ سبق سیکھنا تھا اب اپنے تجربہ سے وہ لکھتا ہے۔ “اے پیارو! جو مصیبت کی آگ تمہاری آزمائش کے لئے تُم میں بھڑکی ہے یہ سمجھ کر اس سے تعجب نہ کرو کہ یہ ایک انوکھی بات ہم پر واقع ہوئی ہے بلکہ مسیح کے دُکھوں میں جوں جوں شریک ہو خُوشی کرو تاکہ اس کے جلال کے ظہُور کے وقت بھی نہایت خُوش و خرم ہو”۔ IKDS 492.2

    کلیسیا کے بزرگوں کو مسیح کے گلہ کے نگہبان ہونے کی ذمہ داریوں کے متعلق خطاب کرتے ہوئے پطرس نے فرمایا “خدا کے اس گلہ کی نگہبانی کرو جو تُم میں ہے۔ لاچاری سے نگہبانی نہ کرو بلکہ خُدا کی مرضی کے موافق خُوشی سے اور ناجائز نفع کے لئے نہیں بلکہ دلی شوق سے جو لوگ تمہارے سپُرد ہیں ان پر حکومت نہ جتاو بلکہ گلہ کے لئے نمونہ بنو۔ اور جب سردار گلہ بان ظاہر ہو گا تو تُم کو جلال کا ایسا سہرہ ملے گا جو مرجھانے کا نہیں”۔IKDS 492.3

    جو نگہبان کی خدمت سے وابستہ ہیں ان کو خُدا کے گلہ کی بدل و جان نگہبانی کرنا ہے۔ ان پر حکومت نہیں جتانا بلکہ اُن کی ہمت بندھانا، مسیح میں مضبوط کرنا ہے۔ مسیحی خدمت وعظ کرنے سے کہیں زیادہ ہی ہے۔ اس کا مطلب خلوص دلی اور خلوص نیتی سے ذاتی خدمت۔ کلیسیا کمزوراور خطا کار بہنوں اور بھائیوں پر مشتمل ہے جن کے لئے صبر اور سخت کوشش کی ضرورت ہے۔ تاکہ تربیت پانے سے وہ نظم و ضبط کا مظاہرہ کر سکیں جو اس زندگی اور آنے والی زندگی کے لئے قابل قبول ہو۔ پاسبانوں کو وفادار چوپان ہونے کی خدمت ملی ہے۔ نہ تو وہ خُدا کے لوگوں کی خوشامد کریں اور نہ ہی ان کے ساتھ سختی سے پیش آئیں بلکہ انہیں زندگی کی روٹی کھلائیں۔ وہ ایسے اشخاص ہوں جن کی زندگیوں میں رُوح القدس جا گزیں ہو اور ان کے لئے بے لوث محبت رکھتے ہوں جن کی وہ خدمت کرتے ہیں۔ IKDS 493.1

    جب نگہبان کلیسیا میں تفرقہ، تعصب، نفرت دیکھتا ہے تو اُسے بڑی ہوشمندی اور معاملہ فہمی اور دور اندیشی سے کام لے کر اس سے نپٹنا چاہئے اور مسیح یسُوع کی روح کے تابع رہ کر سارے معاملے کو درُست کرنا چاہئے۔ بڑی وفاداری سے انتبا ہ کیا جائے، گناہ کی ملامت کی جائے اور جہاں غلطی پائیں اس کی درستی کرے نہ صرف وعظ کے ذریعہ بلکہ ذاتی کوشش سے۔ شاید بد دماغ اور خُود پسند دل پیغام کی تعبیر و تفسیراپنی نیت کے مطابق کرے جس سے خُدا کے خادم نکتہ چینی کا نشانہ بنے اور اسے غلط سمجھ لیا جائے۔ چنانچہ اُسے ہر وقت یاد رکھنا چاہئے “مگر جو حکمت اُوپر سے آتی ہے اول تو وہ پاک ہوتی ہے پھر ملنسار حلیم اور تربیت پذیر، رحیم اور اچھے پھلوں سے لدی ہوئی، بے طرفدار اور بے ریا ہوتی ہے، اور صلح کرانے والو کے لئے راستبازی کا پھل صلح کے ساتھ بویا جاتا ہے”۔ یعقو ب ۱۷:۳۔۱۸، ۱۷:۳۔۱۸ IKDS 493.2

    انجیل کے خادم کا کام “سب پر یہ بات روشن کرو کہ جو بھید ازل سے سب چیزوں کے پیدا کرنے والے خُدا میں پوشیدہ رہا اس کا کیا انتظام ہے”۔ افسیوں ۹:۳۔۔۔ اس خدمت میں داخل ہونے والا اگر تن آسانی سے کام لے گا اور قربانی سے گریز کرے گا اور صرف وعظ پر ہی اکتفا کر کے اور شخصی خدمت کا کام کسی اور پر چھوڑ دے گا، خُدا وند کی نظر میں اس کی خدمت قابل قبول نہ ہو گی۔ روحیں جن کے مسیح نے جان دی برباد ہو رہی ہیں۔ کیونکہ انہیں کوئی شخصی طور پر آ کر ہدایات نہیں دے رہا اور اس نے اپنی بُلاہٹ کو بُھلا دیا ہے اور گلے کی ضرُوریات کو نظر انداز کر دیا ہے۔ IKDS 494.1

    حقیقی نگہبان اپنی فکر نہیں کرتا بلکہ اپنا سب کچھ بھُول کر صرف اور صرف خُدا وند کے لئے کام کرتا ہے۔ شخصی طور پر وہ لوگوں کے گھر گھر جا کر ان کی ذاتی ضروریات دُکھوں اور آزمائشوں سے واقف ہوتا ہے۔ اُن کی مصیبتوں میں ان کے شامل حال ہوتا ہے ان کی پریشانیوں میں انہیں تسلی دیتا ہے۔ اور مسیح کے لئے ان کے دلوں کو جیت لیتا ہے۔ اس خدمت میں آسمانی فرشتے اس کے مددگار ہوتے ہوں اور اُسے سچائی سے ہمکنار کرتے ہیں جو اُسے نجات کے قابل بناتی ہے۔ IKDS 494.2

    وہ سب جو کلیسیا میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں ان کے لئے رسُول نے اپنی ہدایات میں ان اصولات کا ذکر کیا ہے جن کی پیروی کلیسیا کے تمام رہنماوں کو پیروی کرنا ہے۔ جو خادم خدمت میں ابھی چھوٹے ہیں اُنہیں بزرگوں کی مسیحی فروتنی نمونہ کی پیروی کرنا ہے “اے جوانو! تم بھی بزرگوں کے تابع رہو بلکہ سب کے سب ایک دوسرے کی خدمت کے لئے فروتنی سے کمر بستہ رہو اس لئے کہ خُدا مغروروں کا مقابلہ کرتا ہے مگر فروتنوں کو توفیق بخشتا ہے۔ پس خُدا کے قوی ہاتھ کے نیچے فروتنی سے رہو تاکہ وہ تُمہیں وقت پر سر بلند کرے۔ اور اپنی فکر اُسی پر ڈال دو کیوں کہ اُس کو تُمہاری فکر ہے ۔ تُم ہوشیار اور بیدار رہو۔ تُمہارا مخالف ابلیس گرجنے والے شیر ببر کی طرح ڈھونڈتا پھرتا ہے کہ کس کو پھاڑ کھائے”۔ IKDS 494.3

    چنانچہ پطرس نے ایمانداروں کو خاص اُس وقت لکھا جب کلیسیا کو سخت آزمائشوں کا سامنا تھا۔ اور بہتیرے پیشتر ہی مسیح کے دُکھوں میں شریک ہو چکے تھے اور باقی کلیسیا جلد ہی ظلم و ستم کا شکار ہونے کو تھی۔ چند ہی سالوں یعنی تھوڑے سے عرصے میں بہت سے معلم اور ہادی جو کلیسیا کے رہنماوں میں شامل تھے انجیل کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے کو تھے۔ جلد ہی پھاڑنے والے بھیڑئیے گلہ میں داخل ہونے اور گلے کو برباد کرنے کو تھے۔ مگر جن کی اُمیدوں کا مرکز خُود مسیح خُداوند تھا اُنہیں پست ہمت ہونے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ پطرس نے ہمت افزائی کے کلام سے اُن کی توجہ موجودہ دُکھوں سے ہٹا کر آنے والے دُکھی منظر پر جما دیں۔ “تاکہ ایک غیر فانی اور بے داغ اور لازوال میراث کو حاصل کریں۔ اب خُدا جو ہر طرح کے فضل کا چشمہ ہے۔ جس نے تُم کو مسیح میں اپنے ابدی جلال کے لئے بُلایا ہے تُمہارے تھوڑی مدت تک دُکھ اُٹھانے کے بعد آپ ہی تُمہیں کاملاور قائم اور مضبوط کرے گا۔ ابدُالآباد اُسی کی سلطنت رہے۔ آمین”۔ IKDS 495.1

    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents