Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents

زمانوں کی اُمنگ

 - Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First
    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents

    باب نمبر 22 - یوحنا کی قید اور شہادت

    یوحنا بپتسمہ دینے والا پہلا شخص تھا جس نے مسیح کی بادشاہی کی خوشخبری سنائی اور یوحنا پہلا شخص تھا جسے اذیت اور موت کا سامنا کرنا پڑا۔ بیابان کی آزاد فضاؤ ں اور بہت بڑی بھیڑ کو چھوڑ کر ( جو اس کے کلام پر ایمان لے آئی) یوحنا اسیر ہو گیا۔ اُسے ہیرودیس انتپاس کے قلعہ میں نظر بند کیا گیا۔ یہ یردن کے مشرق کی طرف ہے جہاں یوحنا نے اپنی زیادہ تر خدمت انجام دی۔ ہیرودیس نے بذاتِ خود یوحنا بپتسمہ دینے والے کی منادی سنی تھی۔ مگر توبہ کی بلاہٹ پر بد چلن ہیرودیس کانپ اٹھا۔ ” کیونکہ ہیرودیس یوحنا کو راستباز اور مقدس آدمی جان کر اس سے ڈرتا اور اسے بچائے رکھتا تھا اور اس کی باتیں سن کر بہت حیران ہو جاتا تھا مگر سنتا خوشی سے تھا۔” مرقس 20:6 --- یوحنا نے بڑی ایمانداری سے بادشاہ کے احتیار کی پرواہ کئے بغیر اسے اس بدی سے آگاہ کیا جو اُس میں پائی جاتی تھی۔ اُس نے بغیر کسی لگی لپٹی کے بادشاہ کو بتایا کہ تجھے اپنے بھائی فلپس کی بیوی ہیرودیاس کو بطور بیوی رکھنا روا نہیں۔ یوحنا کی منادی سے متاثر ہو کر ہیرودیس نے اپنی بری راہیں ترک کرنا چاہیں مگر ہیرودیاس نے اسے ایسا کرنے نہ دیا۔ اور بلآخر یوحنا کو قید میں ڈلوا دیا۔ یوحنا بہت سرگرم زندگی بسر کرنے کا عادی تھا مگر اب قید خانہ میں کیا کر سکتا تھا۔ یہ زندگی اُس پر بوجھ بن گئی۔ بوریت کی اس زندگی میں کوئی تبدیلی واقع نہ ہوئی بلکہ آئے روز اُلجھنوں میں اضافہ ہوتا گیا۔ لہٰذہ شک و شبہات نے اُسے گھیر لیا اس کے باوجود اس کے شاگردوں نے اسے ترک نہ کیا۔ قید خانہ میں اُنہیں اُس سے ملنے کی اجازت تھی۔ چنانچہ وہ بد ستور اُس کی خدمت میں حاضر ہوتے رہتے تھے۔ نیز مسیح یسوع کی خدمت کی خبریں اُس تک پہنچاتے رہتے تھے۔ اور اُسے یہ بھی بتایا کرتے تھے کہ لوگ جوق در جوق اُس کے پاس جمع ہو رہے ہیں۔ اور پھر وہ خود ہی سوال کرتے کہ اگر یہی مسیح ہے تو وہ تیری رہائی کے لئے کیوں کچھ نہیں کرتا؟ اُس نے کیوں اپنے وفادار خادم کو قید میں مرنے کے لئے تنہا چھوڑ دیا ہے؟ZU 255.1

    یہ سوالات بے تاثیر نہ تھے ۔ ان سوالات کی وجہ سے یوحنا کے دل میں بھی شک پیدا ہو گیا۔ ابلیس یوحنا کے شاگردوں کے کلام سے خوش ہوا۔ کیوں کہ ان کے کلام نے یوحنا کا دل توڑ دیا تھا۔ جس نے مسیح کی بادشاہی کی خوشخبری کی منادی کی تھی۔ جنہیں یوحنا کے دوست خیال کیا جات اتھا وہ ایسے خطرناک دشمن ثابت ہوئے کہ اُنہوں نے اُس کے ایمان کو تقویت دینے کی بجائے متزلزل کر دیا۔ZU 256.1

    یسوع مسیح کے شاگردوان کی طرح یوحنا بپتسمہ دینے والا بھی مسیح کی بادشاہی کی نوعیت اور کیفیت کے بارے نہ سمجھ پایا تھا۔ وہ خیا ل کرتا تھا کہ مسیح فوراً ہی داؤد کے تخت پر برا جمان ہو جائے گا۔ اور جب وقت گذرتا گیا اور یسوع نے بادشاہ ہونے کا اعلان نہ کیا تو اس سے یوحنا بڑا پریشان ہوا۔ اس نے لوگوں کو بتایا تھا کہ اس سے پہلے کہ بادشاہ آئے اس کی راہ تیار ہونا ضرور ہے۔ اور یہ کہ یسعیاہ نبی کی پیشنگوئی کی تکمیل ہونی چاہیے۔ ” ہر ایک نشیب اونچا کیا جائے اور ہر ایک پہاڑ اور ٹیلا پست کیا جائے اور ہر ایک ٹیڑھی چیز سیدھی اور ہر ایک ناہموار جگہ ہموار کی جائے۔ ” یسعیاہ 4:40 ZU 256.2

    یوحنا بپتسمہ دینے والے نے انسانی غرور اور اخیتار کی گھاٹیوں اور ٹیلوں کو دیکھا تھا جنہیں ہموار کرنے کی ضرورت تھی۔ اُس نے مسیح کے بارے بتایا تھا کہ اس کا چھاج اس کے ہاتھ میں ہے تاکہ وہ اپنے کھلیہان کو خوب صاف کرے اور گیہوں کو اپنے گھتے میں جمع کرے مگر بھوسی کو اس آگ میں جلائے گا جو بجھنے کی نہیں ” لوقا 17:3 ایلیاو نبی کی طرح جس کی روح اور قدرت میں یوحنا آیا تھا وہ ایسے خدا کا متلاشی تھا جو آگ سے جواب دے۔ ZU 257.1

    یوحنا بپتسمہ دینے والے نے اپنی خدمت چھوٹے بڑے ہر طبقے میں بڑی بے باکی سے انجام دی۔ ہیرودیس بادشاہ کو اس نے اس کے گناہ کی وجہ سے جھڑکا ۔ اس نے اپنی جان کی بھی فکر نہ کی اور جس کام کے لئے آیا تھا اسے بے دھڑک انجام دیا۔ اب وہ قید خانہ سے رہائی کے لئے یہودہ کے قبیلہ کے ببر کی طرف نظریں جمائے ہوئے تھا جو کُچلے ہوؤں کو آزاد کرنے کی قدرت رکھتا تھا۔ مگر اس نے دیکھا کہ مسیح تو تعلیم دینے بیماروں کو شفا بخشنے اور شاگرد بنانے پر ہی قانع ہے ۔ اس نے یہ بھی سُنا کہ وہ محصول لینے والوں کے ساتھ کھاتا پیتا ہے جبکہ رومیوں کا جُوا بنی اسرائیل پر ہر روز بھاری ہوتا جاتا ہے۔ ZU 257.2

    ہی سب کچھ یوحنا بپتسمہ دینے والی کی سمجھ سے بالاتر تھا۔ شیطانی قوتیں اس کی روح کو دُکھ دیتیں اور اُس پر ہولناک خوف طاری رہتا۔ بدیں وجہ وہ سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ آیا موعود مسیح یہی ہے جس کا ہم مدت سے انتظار کر رہے تھے؟ اسے یہ بھی خیال آیا کہ اگر یہ شخص مسیح موعود نہیں تو میری منادی کا کیا مطلب ٹھہرا؟ یوحنا اپنے مشن کے انجام پر سخت مایوس ہوا۔ZU 257.3

    یوحنا کو یہ بھی دیکھ کر دلی صدمہ ہوا کہ اس کے اپنے شاگرد مسیح کا یقین نہیں کرتے۔ کیا وہ کام جو ان نے ان کے لئے کیا تھا بے پھل رہا؟ کیا اس نے اپنے مشن سے بےوفائی کی جو اسے خدمت کرنے سے روک دیا گیا؟ اور اگر نجات دہندہ آیا ہے اور یوحنا نے اپنی بلاہٹ سے انصاف کیا ہے تو کیا مسیح یسوع ظالموں کو کچل کر اُسے آزاد نہ کرائے گا؟مگر یوحنا بپتسمہ دینے والے نے اپنا کُلی ایمان مسیح کے تابع نہ کیا تھا۔ آسمان سے آواز ، روح کا کبوتر کی صورت میں مسیح پر اُترنا، اور روح کی قدرت جو خود یوحنا پر ٹھہری یہ سب کچھ نجات دہندہ کی حضوری میں ہوا۔ اس کے علاوہ اُس نے سامنے نبیوں کی شہادتیں مو جود تھی جو ثابت کرتی تھیں کہ یسوع ناصری ہی موعود مسیح ہے۔ یوحنا نے اپنے یہ شکوک اور پریشانی کا اظہار اپنے ساتھیوں کے ساتھ نہ کیا۔ بلکہ اس نے فیصلہ کیا کہ کسی کو بھیجے جو اس سلسلے کی اچھی طرح چھان بین کر کے اُسے بتائے ۔ اس کام کی ذمہ داری اُس نے اپنے دو شاگردوں پر ڈالی تاکہ وہ آکر باقی بھائیوں کو صحیح صورت حال سے آگاہ کریں۔ اُس کی یہ بھی تمنا تھی کہ مسیح خود اپنی زبانی کوئی سندیسہ بھیجے تاکہ اُن کا ایمان جاتا نہ رہے۔ ZU 258.1

    شاگرد یہ پیغام لیکر یسوع کی پاس گئے ” آنے والا تو ہی ہے یا ہم کسی اور کی راہ دیکھیں” یہ کوئی زیادہ عرصے کی بات نہیں جب یوحنا بپتسمہ دینے والے نے خود پہ اعلان کیا تھا کی “دیکھو یہ خدا کا برہ ہے جو دنیا کے گناہ اُٹھا لے جاتا ہے “میرے بعد آنے والا جس کی جوتی کا تسمہ میں کھولنے کے لائق نہیں” یوحنا 27:1 -29 لیکن اب خوس ہی سوال پوچھ رہا ہے ” کیا آنے والا تو ہی ہے” انسانی فطرت کے لئے یہ سخت ناگوار اور مایوس کن ہے ۔ اگر یوحنا جیسا وفادار شخص مسیح کو پہچاننے میں ناکام رہا تو عوام سے کیا توقع کی جا سکتی ہے؟ ZU 258.2

    یسوع مسیح نے یوحنا کے شاگردوں کے سوال کا فوراً جواب نہ دیا لیکن جب وہ اس کی خاموشی پر حیران کھڑے تھے بیمار اور طرح طرح کی تکلیفوں میں مبتلا لوگ اس کے پاس شفا کے لئے آنا شروع ہو گئے۔ اندھے ٹٹولتے ٹٹولتے اُس کے پاس پہنچے ۔ بعض بیمار خود مسیح کے پاس آئے جبکہ بعض کو چارپائی پر ڈال کر لایا گیا۔ ہر ایک کی کوشش تھی کہ پہلے مسیح کے قریب پہنچ کر شفا پائے ۔ مسیح جو طبیبِ اعظم ہے اس کی آواز بہروں کے کانوں میں سرائت کر گئی اور وہ سننے لگے۔ اندھوںکی آنکھوں کو اس نے چھوا اور ان میں فوراً نور اگیا۔ اور فطرت کو دیکھنے لگے۔ نیز اپنے مہربان دوست اور رشتہداروں اور اپنے نجات دہندہ کہ پہچاننے لگے۔ مسیح نے ہر طرح کی بیماری اور بخار کو جھڑک کر ختم کر دیا ۔ جب اس کی آواز قریب المرگ بیماروں کے کانوں میں پڑی تو اُنہوں نے فوراً زندگی پائی۔ اپاہج اور بد روحوں کے ستائے ہوؤں کو اس نے چنگا کر دیا۔ اس کے کلام سے ان کی دیوانگی جاتی رہی اور وہ اس کے قدموں میں بیٹھ کر اس کی پرستش کرنے لگے۔ بیماریوں سے شفا دینے کے بعد اس نے انہیں ابدی زندگی کا کلام سنایا۔یہوہ لوگ تھے جنہیں کاہنوں اور ربیوں نے رد کر دیا تھا۔ یوں شفا اور تعلیم دینے میں سارا دن گذر گیا ۔ یہ سب کچھ یوحنا کے شاگردوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور سنا ہے وہ جا کر یوحنا کو بتاؤ۔ علاوہ ازیں فرمایا “مبارک ہے وہ جو میرے سبب سے ٹھوکر نہ کھائے“لوقا 23:7 انسانی دکھو ں کا مداوہ کرنا ہی اس کے الہیٰ ہونے کا مدلل ثبوت تھا۔ZU 259.1

    یوحنا کے شاگرد پیغام لے کر اپنے آقا کے پاس لوٹ آئے ۔ اُسے اُس کے سوال کا جواب مل گیا۔ تب یوحنا کو مسیح کے بارے یہ پیشنگوئی یاد آئی “خداوند خدا کی روح مجھ پر ہے کیونکہ اُس نے مجھے مسیح کیا تاکہ حلیموں کو خوشخبری سناؤں ۔ اُس نے مجھے بھیجا ہے کہ شکستہ دلوں کو تسلی دوں۔ قیدیوں کے لئے رہائی اور اسیروں کے لئے آزادی کا اعلان کروں۔تاکہ خداوند کے سال مقبول کا اور اپنے خدا کے انتقام کے کے رد کا اشتہار دوں اور سب غمگینوں کو دلاسا دوں” یسعیاہ 1:61 -2--- مسیح کے کام صرف اسے مسیح موعود ثابت کرنے کے لئے ہی نہ تھے بلکہ یہ بھی ظاہر کرتے تھے کہ اُس کی بادشاہی کس نوعیت کی ہو گی۔ یوحنا پر یہی سچائی کھلی جو بیا بان میں ایلیان پر کھلی۔اس نے کہا باہر نکل اور پہاڑ پر خداوند کے حضور کھڑا ہو۔ اور دیکھو خداوند گزرا اور ایک بڑی تند آندھی نے خداوند کے آگے پہاڑوں کو چیر ڈالا اور چٹانوں کے ٹکرے کر دیئے۔ پر خداوند آندھی میں نہ تھا۔ اور آندھی کے بعد زلزلہ آیا پر خداوند زلزلہ میں نہ تھا۔ اور زلزلہ کے بعد آگ آئی پر خداوند آگ میں بھی نہ تھا۔ اور آگ کے بعد ایک دبی ہوئی ہلکی آواز آئی۔” اسلاطین 11:19 -12 ZU 260.1

    پس یسوع تیروں ، کمانوں ، بھالوں یا برچھیوں کے ساتھ اپنی حکومت قائم کرنے نہ آیا تھا۔ بلکہ وہ مہر و محبت کے کلام کے ذریعے انسانی دلوں پر حکمرانی کرنےآیا تھا۔ ZU 260.2

    یوحنا کی اپنی خود انکاری اور جان نثاری کی زندگی بھی مسیح کی بادشاہی کے اصولوں کے مطابق تھی۔ یوحنا اچھی طرح جانتا تھا کہ یہ سب کچھ بنی اسرائیل کی توقعات کے متضاد ہے۔ اسے اچھی طرح معلوم تھا کہ مسیح کی الوہیت کے جو ثبوت اس کے لئے کافی ، معقول اور خاطر خواہ ہیں وہ بنی اسرائیل کے لئے کچھ حیثییت نہیں رکھتے ۔اس لئے یوحنا نے دیکھا کہ مسیح یسوع کے مشن سے بنی اسرئیل کو لعنت و نفرت کے سوا کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ZU 260.3

    اس لئے مسیح نے فرمایا کہ مبارک وہ ہے جو کسی موقع پر بھی میرے سبب سے ٹھوکر نہ کھائے۔ یہ یوحنا کے لئے نرم سی جھڑکی تھی۔ زندگی اور موت کی پرواہ کئے بغیر یسوع مسیح نے خود اپنے مشن کی تکمیل کے لئے اپنی مرضی خداوند کے تابع کر دی۔ ZU 261.1

    جب یوحنا کے شاگرد چلے گئے تو یسوع کے بارے کلام کرنے لگا۔ مسیح کا دل اپنے وفادار گواہ یوحنا کے لئے بھر آیا جو ہیرودیس کی قید میں تھا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس سے لوگ یہ نتیجہ اخذ کر لیں کہ خدا نے یوحنا کو ترک کر دیا ہے یا یہ کہ آزمائش کے وقت اس کا ایمان جاتا رہا ہے۔ چنانچہ اس نے بھیڑ سے پوچھا ” تم بیابان میں کیا دیکھنے گئے تھے؟ کیا ہوا سے ہلتے ہوئے سرکنڈے کو؟ZU 261.2

    یردن کے کنارے اونچے لمبے سر کنڈے جو ہر طرف سے آنے والی ہوا کے سامنے سر تسلیم خم کر دیتے تھے۔ یہ سرکنڈے شرع کے معلموں کی صحیح عکاسی کرتے تھے جویوحنا کے مشن پر نکتہ چینی پر آمادہ رہتے تھے۔ وہ عوام کی رائے کے سامنےکھڑے نہیں رہ سکتے تھے۔ انہوں نے خود کو حلیم نہ کیا تاکہ وہ اپنے دل کی جانچ کر کے یوحنا کے پیغام کو قبول کرتے۔ مگر لوگوں کے خوف سے وہ اعلانیہ اس کے کام کی مخالفت بھی نہ کرتے۔ جو لوگ مسیح کے پاس آئے وہ یوحنا کے کام کے گواہ تھے۔ اس نے گناہ کی بےخوف و خطر ملامت کی تھی۔ ہیرودیس بادشاہ اس کے درباریوں ، محصول لینے والوں ، سپاہیوں اور سادہ دیہاتیوں سے اس نے ایک جیسا مگر بڑی صفائی کے ساتھ کلام کیا۔ وہ ہوا کے سامنے جھکنے والا نہ تھا۔ نہ اُسے کسی کی تعریف کی ضرورت تھی نہ کسی کے تعصب کی پرواہ۔ جیل اور بیابان دونوں میں وہ خدا سے وفادار رہا۔ZU 261.3

    یسوع نے کلام جاری رکھتے ہوئے پھر پوچھا “تو پھر کیا دیکھنے گئے تھے؟ کیا مہین کپڑے پہنے ہوئے شخص کو؟ دیکھو جو چمکدار پوشاک پہنتے اور عیش و عشرت میں رہتے ہیں وہ بادشاہی محلوں میں ہوتے ہیں۔” یوحنا 25:7 --- یوحنا تو گناہ کی ملامت کے لئے بلایا گیا تھا اور اس کا سادہ لباس اس کے مشن کے عین مطابق تھا۔ مہین اور چمکدار کپڑے خدا کے خادموں کہ زیب نہیں دیتے بلکہ ان کو جو بادشاہوں لے محلوں میں رہتے ہیں۔ یا پھر حاکموں اور سرداروں کو جو مالدار ہیں ۔ یہاں مسیح خداوند یوحنا کے لباس اور کاہنوں کے لباس کا موازنہ کر رہا ہے۔ کیونکہ یہ لوگ اپنی ظاہری نمائش سے عوام کو مرعوب کرتے تھے ۔ وہ لوگوں سے تعریف کروانے کے متمنی رہتے تھے۔ اور دل کی پاکیزگی کا خیال نہیں کرتے تھے۔ مسیح نے پھر پوچھا تو کیا دیکھنے گئے تھے؟ کیا ایک نبی کو؟ ہاں میں تم سے کہتا ہوں بلکہ نبی سے بڑے کو۔ اسی کے بارے لکھا ہے کہ “دیکھ می اپنا پیغمبر تیرے آگے بھیجتا ہوں جو تیری راہ تیرے آگے تیار کرے گا” یوحنا 27:7 ZU 262.1

    “میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جو عورتوں سے پیدا ہوئے ہیں اُن میں یوحنا بپتسمہ دینے والے سے کوئی بڑا نہیں” یوحنا 28:7 یوحنا کی پیدائش سے پیشتر یوحنا کے باپ زکریاہ سے فرشتہ نے کہا “کیوں کہ وہ خداوند کے حضور میں بزرگ ہو گا” لوقا 15:1 خدا کی نظر میں بزرگی یا عظمت کیا ہے؟ یہ چیزیں بزرگی نہیں دیتیں جو دنیا سمجھتی ہے۔ مثلاً دولت حشمت، اعلےٰ حسب و نسب، علمیت یا اعلےٰ مراتب۔ اگر علمیت ، ادب یا دانشوری ہی ہمارے لئے سب کچھ ہے تو یہ عزت افزائی ابلیس کے حق میں جاتی ہے۔ یہ لعنت کے مترادف ہے ۔ یوحنا نے اپنے شاگردوں کے سامننے نہ عوان اور نیشنل کونسل کے سامنے اپنی بزرگی چاہی بلکہ اس نے یہ تمام عزت یسوع نام کو بخشی۔ اور اس کی یہ خود انکار ی اور ایثار پسندی اُس کے لئے بزرگی کا باعث بنی۔ZU 262.2

    وہ سب لوگ جنہوں نے اُس کے منہ سے یسوع کے بارے گواہی سُنی تھی تھی۔ اُنہوں نے اس کے مرنے ZU 263.1

    کے بعد کہا “یوحنا نے کوئی معجزہ نہیں دکھایا مگر جو کچھ یوحنا نے اس کے حق (مسیح) میں کہا تھا وہ سچ تھا” یوحنا 41:10 ZU 263.2

    یوحنا کو نہ تو ایلیاہ کی طرح یہ توفیق دی گئی کہ آسمان سے آگ نازل کرے یا مردوں کو جلائے اور نہ ہی اسے موسیٰ کے عصا کی سی کوئی قوت دی گئی جو خدا کے نام سے معجزہ دکھاتی ۔ اس کی بلاہٹ تو صرف مسیح کے آگے راہ تیار کرنااور اُس کی آمد کی منادی کرنا تھی۔ پاس اس نے بڑی وفاداری سے اپنے مشن کو پورا کیا۔ اسی لئے اس کے سامعین نے گواہی دی کہ جو کچھ اس نے مسیح کے بارے کہا تھا سچ تھا۔ مسیح یسوع کو ایسے ہی گواہوں کی ضرورت ہے جن کے بارے لوگ کہہ سکیں کہ جو کچھ اس نے کہا ہے وہ سچ ہے۔ZU 263.3

    یسوع نے فرمایا یوحنا بنیوں میں سب سے بڑا ہے۔ کیونکہ بنیوں نے تو یسوع کو بہت دُور سے ایمان کی نگاہ سے دیکھا تھا جبکہ یوحنا نے مسیح کو نفس نفیس دیکھا اور اس کی گواہی بھی دی۔ بیشک یوحنا بپتسمہ دینے والا آسمان کی بادشاہی میں اعلےٰ مقام رکھتا ہے۔ کیونکہ اس نے بنی اسرائیل کے سامنے موعود مسیح کی آمد کی منادی کی۔ مگر یسوع نے یہ بھی فرمایا کہ جو ” خدا کی بادشاہی میں چھوٹا ہے ہو اس سے بڑا ہے” لوقا 28:7 ZU 263.4

    یوحنا بپتسمہ دینے والا خدا اور نبیوں کا نمائندہ اور ذریعہ تھا۔ خدا کا نمائندہ ہوتے ہوئے اُسے شریعت کا ناطہ ظاہر کرنا تھا اور نبیوں کی نمائندگی کرتے ہوئے مسیحیوں کو شریعت اور مسیح کے بارے بتانا تھا۔ وہ مدہم سی روشنی تھی جس کے بعد عظیم روشنی نمودار ہونے کو تھی۔ روح القدس کی بدولت یوحنا کا ذہن منور ہو چکا تھا تاکہ یہ روشنی وہ اپنے لوگوں پر چمکائے۔ جیسا نور یسوع کی تعلیم اور نمونہ سے پھیلا ایسا نور نہ کبھی پھیلا نہ پھیلے گا۔ مسیح کا مشن اور خود مسیح رسمی قربانیوں کے زریعے ظاہر تو ہوا مگر بہت ہی کم۔ حتیٰ کہ یوحنا بھی پوری طرح سمجھ نہ پایا کہ کیسے مسیح کے ذریعہ غیر فانی زندگی حاصل ہوتی ہے؟ZU 264.1

    اس خوشی سے قطع نظر جو یوحنا کو اپنے مشن کی وجہ سے نصیب ہوئی ، یوحنا کی زندگی دُکھوں سے بھرپور تھی۔ اس کی آواز بیابان کے علاوہ کہیں سُنی نہ گئی۔ تنہائی کی زندگی اُس کا نصیبہ تھی۔ بلکہ اسے تو اتنا بھی نصیب نہ ہوا کہ اپنی خدمت کا نتیجہ بھی دیکھ سکے۔اُسے یہ بھی حق نہ ملا کہ یسوع مسیح جو عظیم نور تھا اُس کی خدمت کو دیکھ کر گواہی دے سکے۔ یہ اُس کی قسمت میں نہ تھا کہ اندھوں کو بینائی پاتے دیکھے۔ اُس نے بیماروں کو شفاپاتے ، مردوں کو زندہ ہوتے بھی نہ دیکھا۔ اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو یسوع کی تعلیم اور معجزات جس جس شاگرد نے دیکھے وہ یوحنا سے بہت ہی زیادہ خوش قسمت ہے اور یوحنا سے کہیں زیادہ عظیم۔ZU 264.2

    بڑے بڑے اجتماع کے ذریعے یوحنا کی منادی دُور دراز تک پہنچ گئی۔ بلکہ خود اُس کی تمام علاقے میں بہت مشہوری ہو گئی اور اُس کی قید کی خبر میں عوام نے بہت دلچسپی دکھائی۔ اُس کے بے الزام زندگی ، عوام سے محبت اور نیک جذبات کی وجہ سے خیال کیا جاتا تھا کہ اُس پر کوئی بڑی آفت نہیں آئے گی۔ ہیرودیس تہ مانتا تھا کہ یوحنا خدا کا نبی ہے اور وہ اُسے آزاد کرنے پر بھی راضی تھا۔ مگر ہیرودیاس کے خوف سے اُس نے اُسے آزاد کرنے میں دیری کی۔ ہیرودیاس بھی جانتی تھی کہ وہ یوحنا کو قتل نہیں کرواسکتی جب تک وہ کوئی ایسی چال نہ چلے جس میں فریب شامل ہو۔ ہیرودیس کے جنم دن پر سلطنت کے اُمرا اور درباریوں کو محفوظ کرنے کے لئے مدعو کیا جس میں کھانے پینے کی ضیافت کا بھی اہتمام کیا گیا۔ اس وقت ہیرودیس کے جنم دن پر پارٹی کا سار انتظام سنبھالا تھا۔ ZU 264.3

    جب ضیافت میں کھایا پیا جا رہا تھا ۔ تو ہیرودیا نے اپنی بیٹی کو مہمانوں کو محظوظ کرنے کے لئے بھیجا ۔ ہیرودیاس کی بیٹی کا نام سلومی تھا جو اُٹھتی جوانی میں تھی۔ اُس کے ناچ سے ساری محفل عش عش کر اُٹھی۔ZU 265.1

    ہیرودیس شراب کے نشے میں دھت تھا۔ اُسے تو صرف خوشیاں ہی خوشیان نظر آتی تھیں۔ شراب کےچھلکتے جام۔ جگمگ جگمگ کرتی روشنیاں ، انواع و اقسام کے کھانے اُس کی چاروں طرف تھے۔ اور اس پر طرہ یہ کہ ایک نوجوان خبرو دوشیزہ اُس کے سامنے ناچ رہی تھی۔ اُس لڑکی کی ادائیگی سے ہیرودیس اتنا خوش ہوا کہ اُس نے لڑکی کو کہا مانگ کیا مانگتی ہے۔ میں اپنی آدھی سلطنت تک تجھے دینے کی قسم کھاتاہوں۔ZU 265.2

    سلومی دوڑ کر اپنی ماں کے پاس پوچھنے گئی کہ میں کیا مانگوں؟ ماں کے پاس جواب تیار تھا ۔ اُس نے کہا بادشاہ سے یوحنا کا سر مانگ لے۔ سلومی نہیں سمجھتی تھی کہ اُس کی ماں کے دل میں یوحنا سے بدلہ لینے کی آگ اس قدر بھڑک رہی ہے پلے تو اُس نے پس و پیش کیا مگر بعد میں اپنی ماں ہیرودیاس کے دباؤ میان آ کر اُسے بادشاہ سے یوحنا بپتسمہ دینے والے کا سر مانگنا پڑا۔ZU 265.3

    ہیرودیس اس پر بڑا متعجب اور پریشان ہوا۔ بد مستی کی رنگ رلیاں احتتام پزیر ہوئیں ۔ اور عیاشی کے منظر پر منحوس خاموشی چھا گئی۔ کیوں کہ یوحنا کی جان لینے پر بادشاہ پر ہولناک خوف چھا گیا۔ اگر کوئی نبی کو بچانے کے لئے کہتا تو بادشاہ خوشی خوشی اُس کی جان بخشی کر دعتا۔ بلکہ اُس نے سب کو موقع دیا کہ یوحنا کے حق میں اگر کوئی کچھ کہنا چاہتا ہے تو کہے۔ وہ سب لوگ یوحنا کی مناندی سننے کے لئے دور دور سے آئے ہوئے تھے۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ یوحنا بے گناہ اور خدا کا خدم ہے۔ مگر لڑکی مطالبے پر وہ بول نہ سکے۔ کسی نے بھی ہیرودیاس کی مخالفت مول لینے کی جرات نہ کی کیونکہ اُنہیں اپنی جان سے ہاتھ دھونے کا خطرہ تھا۔ اس خطرے کے پیش نظر کسی نے بھی یوحنا کی جان بخشی کی سفارش نہ کی۔ یہ تمام لوگ اعلےٰ مراتب رکھتے تھے۔ اُن پر بڑی سنجیدہ ذمہ داریاں بھی تھیں، اس کے باوجود سب کھانے پینے ، ناچ رنگ اور نشے میں چُور تھے۔ اُن کی خاموشی سے پتہ چلتا تھا کہ وہ لڑکی کو نبی کا سر دینے پر راضی ہیں۔ZU 266.1

    ہیرودیس نے بے سود اُن کا انتظار کیا۔ آخر کار اُسے یوحنا کا سر قلم کرنے کا حکم دینا پڑا۔ یوحنا کا کٹا ہوا سر فوراً بادشاہ اور مہمانوں کے سامنے لایا گیا وہ ہونٹ ہمیشہ کے لئے بند ہو گئے جنہوں نے بڑی وفاداری سے ہیرودیس کو کہا تھا کہ گناہ کی زندگی سے باز آجاؤ۔ وہ آواز پھر سنائی نہ دی جس نے کہا “توبہ کرو” عیاشی کی ایک رات نے اس کی جان لےلی۔ جو نبیوں میں سب سے بڑا تھا۔ZU 266.2

    جو انصاف کے محافظ ہوتے ہیں اکثر اُن کے ذریعے بے گناہوں کی موت وارد ہو جاتی ہے۔ وہ جو شراب کا پیالہ اپنے ہونٹوں سے لگاتا ہے وہ عدل کو پسِ پشت ڈال دیتا ہے۔ وہ اُن غلط فیصلوں کے نتائج کا ذمہ دار ہے جو اُس نے نشہ کی حالت میں کئے۔ کیونکہ نشہ کی حالت میں وہ نیکی اور بدی ، راست اور ناراست میں امتیاز کرنے کا اہل نہیں رہتا۔ یوں ہیرودیس نے ابلیس کو موقع دیا کہ اُس کے ذریعہ معصوم کا خون کرے۔ ” مے مسخرا اور شراب ہنگامہ کرنے والی ہے اور جو کوئی ان سے فریب کھاتا ہے دانا نہیں۔” امثال 1:20 “عدالت ہٹائی گئی اور انصار دُور کھڑا رہا۔ صداقت بازار میں کر پڑی اور راستی داخل نہیں ہو سکتی ہاں راستی گم ہو گئی اور وہ جو بدی سے بھاگتا ہے وہ شکار ہو جاتا ہے۔ خداوند نے یہ دیکھا اور اُس کی نظر میں بُرا معلوم ہو کہ عدالت جاتی رہی ” یسعیاہ 14:59 -15 وہ لوگ جو نشہ کی حالت میں دوسروں کی زندگیوں سے کھیلتے اور بے انصافی کے مرتکب ہوتے ہیں اُنہیں معصوموں کی زندگیوں سے کھیلتے اور بےانصافی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ اُنہیں معصوموں کی زندگیوں کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے۔ وہ تمام لوگ جو قانون بناتے ہیں انہیں خود قانون کی پیروی کرنا چاہئے۔ اُنہیں خود پر پورا پورا ضبط ہونا چاہئے۔ اُنہیں پوری طرح اپنی جسمانی ، ذہنی اور اخلاقی قوأ پر ضبط حاصل ہو۔ کیونکہ وہ پڑے لکھے باشعور لوگ ہیں اور اُن کے ہاتھ میں انصا ف کی باگ دوڑ ہے۔ZU 266.3

    یوحنا بپتسمہ دینے والے کا سر ہیرودیاس کے پاس لایا گیا تو اُسکی شیطانی خصلت کو تسکین ملی۔ وہ یوحنا سے بدلہ لےکر پھولے نہ سماتی تھی۔ اُس نے سوچا کہ اب ہیرودیس کا ضمیر اُسے ملامت کرنا چھوڑ دے گا۔ مگر یاد رہے کہ ہیرودیاس کو اپنے اس گناہ سے کوئی خوشی نصیب نہ ہوئی۔ وہ بدقماشوں میں شامل ہوئی اور اُس کا نام نفرت سے لیا جانے لگا۔ ہیرودیس کا ضمیر اُسے مزید جھنجھوڑنے لگا۔ اُسے بار بار یاد پڑتا کہ نبی نے اُسے پہلے ہی آگاہ کر دیا تھا۔ یوحنا کی تعلیم کا اثر ختم نہ ہو بلکہ اُس کی تعلیم کا اثر رہتی دُنیا تک رہے گا۔ZU 267.1

    ہیرودیس کا گناہ ہمیشہ اُس کے سامنے رہتا تھا۔ اور اُس کا مجروح ضمیر ہمیشہ اُسے ملامت کرتا رہتا تھا۔ یوحنا بپتسمہ دینے والے کے اعتماد اور ایمان کو کوئی لرزہ نہ سکا۔ ہیرودیس کو جب اُس کی خود انکاری کی بے لوث خدمت ، پاکیزہ زندگی ، سنجیدہ اور پُر خلوص التماسات اور اُس کی موت یاد آتی تو وہ تڑپ اُٹھتا ۔ حکومتی معاملات میں مشغول جب وہ عوام سے عزت وتکریم پاتا، اپنے اُمرا سے ملتا تو اُس کے چہرے پر روائتی مسکراہٹ دیکھی جا سکتی تھی۔ مگر اُس کےاندر عجیب جنگ جاری تھی۔ وہ محسوس کرتا تھا کہ اُس پر خدا کی طرف سے لعنت اور خوف وارد ہو چکا ہے جو اُسے کُچلے جا رہا ہے۔ ZU 268.1

    ہیرودیس یوحنا کے اس کلام سے خاصہ متاثر تھا ۔ کہ “خدا کی نظروں سے کچھ بھی چھپ نہیہں سکتا۔” ہیرودیس اس بات کا بھی قائل تھا کہ خدا ہر جگہ حاضر و ناظر ہے۔ اور یہ کہ وہ اُس کمرہ میں بھی تھا جہاں ضیافت کا اپتمام کیا گیا تھا۔ وہ یہ بھی مانتا تھا کہ جب یوحنا کا سر قلم کرنے کا حکم دیا گیا اُس حکم کو خدا نے سُنا اور ہیرودیا س کی خباثت کو بھی دیکھا۔ اور خدا نے یوحنا کے کٹے ہوئے سر کی بےحُرمتی بھی دیکھی۔ اس کے علاوہ تمام منادی جو ہیرودیس نے یوحنا سے بیابان میں سُنی بڑی وضاحت سے اُس کی روح کے ساتھ مزاحمت کرتی رہی۔ZU 268.2

    اور جب ہیرودیس نے مسیح یسوع کے کاموں کے بارے سُنا تو اُسے مزید پریشانیوں نے گھیر لیا۔ وہ سوچتا تھا کہ یوحنا کو خدا نے مردوں میں سے زندہ کر دیا ہے اور اُسے یہ مسلسل خوف تھا کہ یوحنا اُس کے خاندان پر لعنت بھیج کر اُس سے بدلہ لے گا۔ ہیرودیس گناہ کا وہی پھل کاٹ رہا تھا جو اُس نے بویا تھا۔ اور یہ خدا ہی نے فرمایا ہے “اُن قوموں کے بیچ تجھ کو چین نصیب نہ ہو گا۔ اور نہ تیرے پاؤں کے تلوے کو آرام ملے گا۔ بلکہ خداوند تجھ کو وہاں دل لرزاں اور آنکھوں کی دھند لاہت اور جی کی کڑھن دے گا۔ اور تیری جان دُبدھے میں اٹکی رہے گی اور تورات دن ڈرتا رہے گا اور تیری زندگی کا کوئی ٹھکانہ نہ ہو گا۔ اور تو اپنے دلی خوف کے اور ان نظاروں کے سبب سے جن کو تو اپنی آنکھوں سے دیکھے گا صبح کو کہے کا کہ اے کاش کہ شام ہوتی اور شام کو کہے گا اےکاش کہ صبح ہوتی” استثنا 65:28 -67--- گنہگار کے اپنے خیالات ہی اُسے مجرم ٹھہراتے ہیں۔ اور قصور وار ضمیر سے کسی اور کا گہرا ڈنگ نہیں ہوتا جو دن رات بے چین رکھتا ہے۔ZU 268.3

    بہت سی روحوں کے لئے یہ سوال ابھی باقی ہے کہ خداوند نے یوحنا کو کیوں قید تنہائی میں مرنے کے لئے چھوڑ یا ۔ گو ہمارے انسانی ذہن اس بھید کو سمجھنے سے قاصر ہیں مگر اس سے خدا پر ہمار ایما ن یہ سوچ کر کم نہیں ہونا چاہیئے کہ یوحنا کی قسمت میں دُکھوں کے سوا کُچھ بھی نہیں تھ۔ تمام جو مسیح کی پیروی کرتے ہیں۔ اس قربانی کے عوض زندگی کا تاج پہنیں گے۔ZU 269.1

    یوحنا بپتسمہ دینے والے کی جوانی اور بچپن دونوں ہی مستقبل مزاجی اور اخلاقی قوت کا نمونہ تھے۔ جب اُس کی یہ آواز “خداوند کی راہ تیار کرو اور اس کے راستے سیدھے بناؤ۔” بیابان میں سُنی گئی تو اس سے ابلیس لرزاں ہوا۔ اور اُسے محسوس ہوا جیسے اس آواز سے اُس کی حکومت کو خدشہ لاحق ہو گیا ہے۔ یوحنا نے جب انسانوں پر گناہ کی صورت ظاہر کی تو وہ کانپ اُٹھے۔ بہتیروں نے جو ابلیس کے قبضہ میں تھے خود کو اُس سے آزاد کرالیا۔ ابلیس تو انتھک کوشش کر رہا تھا کی یوحنا کو خدا سے ور کر دے گر اُسے ہر بار منہ کی کھانا پڑی۔ مسیح نے بھی ابلیس کو بیابان میں شکست دی تھی جس سے وہ بڑا غضب ناک ہوا۔ اب اُس نے چاہا کہ یوحنا کو دُکھ پہنچا کر مسیح کو سوگوار کرے۔ZU 269.2

    مسیح نےاپنے خادم کو چھڑانے کے لئے مداخلت نہ کی۔ کیونکہ وہ جانتا تھا کہ یوحنا آزمائش میں سرخرو ہو گا۔ یسوع تو خود جیل میں آ کر یوحنا کی اُداسی کو خوشی میں تبدیل کر کے آزاد بھی کرا سکتا تھا۔ مگر اُن کی خاطر جو بعد میں یوحنا کی طرح موت کی قید برداشت کرنے کو تھے یوحنا کو جامِ شہادت نوش کرنے دیا۔ مسیح یسوع کے پیروکار خواہ تنہا حسرت و یاس میں پڑے ہوں یا تلوار سے مارے یا زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہوں یا شکنجے میں کسے ہوں یا خداوند اور انسان دونوں نے اُنہیں ترک کر دیا ہو، اُن کے لئے یوحنا کا تجربہ کتنا حوصلہ افزا ہو گا۔ جس کے بارے میں مسیح نے خود فرمایا کہ جتنے عورت سے پیدا ہوئے یوحنا اُن سب میں سب سے بڑا ہے۔ ZU 270.1

    ابلیس کو یہ اجازت دی گئی کہ وہ خدا کے خادم کی زمینی زندگی کم کر دے مگر وہ زندگی جو خدا میں چھپی ہوئی تھی و ہ اُس تک رسائی نہ کر سکتا تھا “کیونکہ تم مر گئے اور تمہاری زندگی مسیح کے ساتھ خدا میں پوشیدہ ہے” کلیسیوں 3:3 ZU 270.2

    ابلیس اس بات سے تو خوش تھا کہ وہ یوحنا پر آفت لا کر مسیح کو رنجیدہ کرنے میں کامیاب ہو گیاہے ۔ مگر وہ یوحنا پر غالب نہ آسکا۔ یوحنا کو موت نے ایسی جگہ پہنچا دیا جہاں وہ آزمائش کی قوت سے بالکل آزاد تھا۔ یعنی وہ آزمائش سے اتنی دور چلا گیا جہاں آزمائش کی رسائی نا ممکن تھی۔ اس جنگ میں ابلیس کی خصلت نمودار ہو گئی ۔ اُس نے ظاہر کر دیا کہ وہ خدا اور انسان کا دشمن ہے۔ ZU 270.3

    یوحنا کے لئے بیشک کوئی معجزہ نہ کیا گیا ۔ مگر یاد رہے کہ خدا نے اُسے کبھی بھی ترک نہ کیا۔ آسمانی فرشتے ہر وقت اُس کی صحبت میں رہتے تھے۔ وہی اُس کے سامنے مسیح موعود کی پیشنگوئیاں اور کلام مقدس کے قیمتی وعدے آشکار کرتے تھے ۔ یہی اُس کا سہارہ تھے اور آنے والے زمانے میں اُن کا سہارہ رہیں گے جو خدا کے سچے اور وفادار خادم ہیں۔ZU 270.4

    یوحنا اور اُس کے بعد آنے والوں کے لئے بھی یہ یقین دہانی ہے “دیکھو میں دُنیا کے آخر تک ہمیشہ تمہارے ساتھ ہوں” متی 20:29 ZU 271.1

    نہ ھنوک جسے خدا نے آسمان پر زندہ اُٹھا لیا اور نہ ہی ایلیاہ جسے خدا نے آگ کے ساتھ میں آسمان پر اُٹھا لیا یوحنا بپتسمہ دینے والے سے بزرگ تر ہے جس نے قید تنہائی میں جان دی ، ” کیونکہ مسیح کی خاطر تم پر یہ فضل ہوا کہ نہ فقط اُس پر ایمان لاؤ بلکہ اس کی خاطر دُکھ بھی سہو۔” فلپیوں 29:1 ZU 271.2

    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents