Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents

زمانوں کی اُمنگ

 - Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First
    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents

    باب نمبر 14 - ”ہم کو مسیح مل گیا“

    “اب یوحنا بپتسمہ دینے والا یردن کے پار منادی کرتا اور بپتسمہ دیتا تھا۔ یہ اُس مقام سے زیادہ دور نہیں تھا جہاں سے بنی اسرائیل کے دریا میں سے گذر جانے تک خدا نے معجزہ کر کے دریا کے پانی کو دو حصے کر دیا تھا۔ یہیں سے تھوڑی دور ؟؟؟؟ تھا جس آسمانی فوجوں نے برباد کیا تھا۔ ایک بار پھر ان واقعات کی یاد تازہ ہو گئی جس سے یوحنا کی منادی کو بڑی تقویت ملی۔ جس نے ماضی میں حیرت انگیز معجزات دکھائے کیا وہ اب بنی اسرائیل کی رہائی کے لئے اپنی قدرت کا مظاہرہ نہ کر سکتا تھا؟ یہ تمام خیالات اُس بھیڑ کے دل میں گذرتے جو دریائے یردن کے کنارے یوحنا کی منادی سننے آتے۔ ZU 145.1

    یوحنا بپتسمہ دینے والے کی منادی کا اسقدر اثر ہوا کہ مذہبی پیشواوں کو اس کی فکر دامن گیر ہوئی۔ اتنے بڑے بڑے اجتماعات کو دیکھ کر رومی حکومت بھی اُسے شک کی نظر سے دیکھنے لگی۔ یہودی مذہبی رہنما تو اسے بڑا خطرہ سمجھنے لگے تھے۔ یوحنا بپتسمہ دینے والے نے اُن کی مجلس شورٰی سے اجازت لے کر خدا کی خدمت کا آغاز نہ کیا تھا۔ اس لئے اُسے اُن کی بالکل کوئی فکر نہ تھی۔ بلکہ اُس نے سردار، عوام اور فریسیوں کو جھڑکا تھا۔ اس کے باوجود لوگ جوق در جوق جہاں کہیں وہ ہوتا چلے آتے۔ لوگ اُس کی خدمت میں زیادہ سے زیادہ دلچسپی لیتے۔ اُسے تو کسی کی پرواہ نہ تھی مگر یہودیوں کی سب سے بڑی کونسل سنہیڈرن کا خیال تھا کہ یوحنا پر ہمار اختیار ہے۔ اُسے ہم سے اجازت لیکر منادی کرنی چاہیے۔ ZU 145.2

    سنہیڈرن کے ممبران کاہنوں، اعلٰے حاکموں اور قوم کے اساتذہ سے منتخب ہوتے تھے۔ سردار کاہن اس کونسل کا صدر ہوتا تھا۔ اس کونسل کے سب ممبران بزرگ اور پختہ عمر کے ہوتے تھے۔ اُن کے لئے لازم تھا کہ وہ پڑھے ہوں۔ مذہبی امور اور تاریخ ہی نہیں بلکہ باقی دُنیاوی علوم پر بھی دسترس رکھتے ہوں۔ لازم تھا کہ اُن کے بدن بے عیب ہوں۔ بیاہے ہوں۔ یہودی قوم جب مختار تھی اُس وقت یہ کونسل سب سے بڑی مانی جاتی تھی کیوں کہ اس کے پاس مذہبی اور دُنیاوی دونوں امور کے حقوق ہوتے تھے۔ گو اب یہ کونسل یہودی گورنر کے ماتحت کام کرتی تھی پھر بھی اس کے پاس مذہبی اور سول دونوں طرح کے اختیار موجود تھے۔ ZU 146.1

    سنہیڈرن تو یوحنا کے کام کی اچھی طرح تفتیش ہ کر سکتی تھی مگر وہاں کچھ لوگ ایسے تھے جنہیں یاد آیا کہ بزرگ زکریاہ کو ہیکل میں خدا کا مکاشفہ ہوا تھا۔ اور بزرگ زکریاہ نے مکاشفہ کے مطابق بتایا تھا کہ اُس کا بیٹا یوحنا موعودہ مسیح کی خوشخبری پھیلائے گا۔ ان تیس سالوں میں دنیا کی اونچ نیچ سے جو بہت سے لوگ ان باتوں کو بُھلا بیٹھے تھے۔ یوحنا بپتسمہ دینے والی کی خدمت سے اُن کے ذہن بھی بیدار ہو گئے اور زکریاہ کی پیشنگوئی اُنہیں یاد آنے لگی۔ ZU 146.2

    کافی عرصہ سے بنی اسرائیل میں کوئی نبی نہ تھا۔ جس قسم کی یوحنا بپتسمہ دینے والا اصلاح کا متمنی تھا یہ بذات خود ایک گواہی تھی۔ اُن کے لئے گناہ کے اقرار کا مطالبہ حیران کن تھا۔ بہت سے حاکم اور سردار یوحنا کی التماس سننے کے لئے تیار نہ تھے۔ اُنہیں معلوم تھا کہ جب تک وہ اپنی کمزوریاں اور پوشیدہ گناہوں کا اقرار نہ کریں گے اُنہیں بپتسمہ نہیں دیا جائے گا۔ اُنہیں اچھی طرح معلوم تھا کہ دانی ایل کی ستر (70) ہفتہ پیشنگوئی پوری ہونے کو تحی جب مسیح کا ظہور ہونا تھا۔ اُس جلالی وقت کے لئے سب کے سب تیار ہوناچاہتے تھے۔ اس خاص وجہ سے سنہیڈرن کو مجبور کیا گیا کہ یوحنا کے کام کی تصدیق کی جائے تاکہ سب اُس کی منادی سُنیں یا اُس کی خدمت کو فوراً رد کر دیں۔ مگر اُن کا اختیار پیشتر ہی لوگوں پر سے کم ہو چکا تھا۔ پھر بھی کسی نتیجہ پر پہنچنے کے لئے اُنہوں نے کاہنوں اور لاویوں کا ایک جتھا پہلے ہی بھیج دیا تاکہ اس نئے اُستاد یوحنا کے کام کے بارے گفتگو کر کے کچھ پیشگی مواد حاصل کر لیں۔ ZU 146.3

    جب یہ نمائیندگان وہاں پہنچے تو بھیڑ اُس کی منادی سن رہی تھی۔ اُنہوں نے بڑے تحکم سے اپنے لئے راستہ بنایا اور یوحنا کے پاس جا کر کہنے لگے۔ تم کون ہو؟ یہ جانتے ہوئے کہ اُن کے دماغ میں کیا ہے اور وہ میرے بارے کیا سوچ رہے ہیں؟ یوحنا نے کہا “میں تو مسیح نہیں ہوں” پھر تو کون ہے ؟ کیا تو ایلیاہ ہے؟ اُس نے کہا میں نہیں ہوں۔۔۔۔ کیا تو وہ نبی ہے؟ اُس نے جواب دیا نہیں، تو پھر تو کون ہے؟ تاکہ ہم اپنے بھیجنے والوں کو جواب دیں۔ تو اپنے حق میں کیا کہتا ہے؟ میں جیسا یسعیاہ نبی نے کہا ہے بیابان میں ایک پکارنے والے کی آواز ہوں کہ تم خداوند کی راہ کو سیدھا کرو۔ یہ کلام جو یوحنا نے فرمایا وہ مسیح کے بارے صدیوں پہلے خدا کے روح نے یسعیاہ نبی پر نازل کیا تھا۔ ZU 147.1

    تسلی دو تم میرے لوگوں کو تسلی دو۔ تمہار ا خدا فرماتا ہے یروشیلم کو دلاسا دو اور تم اُسے پکار کر کہو کہ اُس کی مصیبت کے دن جو جنگ و جدل کے تھے گذر گئے۔ اُس کے گناہ کا کفارہ ہوا اور اُسنے خداوند کے ہاتھ سے اپنے سب گناہوں کا بدلہ دو چند پایا۔ پکارنے والے کی آواز، بیابان میں خداوند کی راہ درست کرو۔ صحرا میں ہمارے خدا کے لئے شاہراہ ہموار کرو۔ ہر ایک نشیب اونچا کیا جائے اور ہر ایک پہاڑ اور ٹیلا پست کیا جائے اور ہر ایک ٹیڑھی چیز سیدھی اور ہر ایک ناہموار جگہ ہموار کی جائے۔ اور خداوند کا جلال آشکار ہو گا اور تمام بشر اُس کو دیکھے گا۔ کیونکہ خداوند نے اپنے منہ سے فرمایا ہے” یسعیاہ 1:40-5 ZU 147.2

    زمانہ قدیم میں ایسا ہوا کرتا تھا کہ جب کسی بادشاہ کو اپنی سلطنت کے ایسے علاقوں میں جانا ہوتا جہاں وہ پہلے نہ گیا ہو تو اس سے پہلے کہ وہ وہاں جائے اپنے آگے آگے کچھ لوگوں کو بھیج دیتا جو اُس کے دتھ کے لئے راہ ہموار کر دیتے تاکہ بادشاہ بغیر کسی رکاوٹ کے بہ آسانی سفر کر سکے۔ نبی نے خوشخبری کے کام کی تیاری کو اس رسم سے تشبیہ دے کر واضح کیا۔ “ہر ایک نشیب اونچا کیا جائے اور ہر ایک پہاڑ اور ٹیلا پست کیا جائے” جب خدا کا روح اپنی حیرت انگیز قوت سے روحوں کو چھوتا ہے تو انسانی گھمنڈ معدوم ہو جاتا ہے۔ اُس وقت دُنیاوی جاہ و حشمت کوڑا کرکٹ معلوم ہوتا ہے۔ “چنانچہ ہم تصورات اور ہر ایک اونچی چیز کو جو خدا کی پہچان کے برخلاف سر اُٹھائے ہوئے ہے ڈھا دیتے ہیں۔ اور ہر ایک خیال کو قید کر کے مسیح کا فرمانبردار بنا دیتے ہیں” 2 کرنتھیوں 5:10۔۔۔۔ پھر محبت، حلیمی اور خود انکاری کی قدر ہوتی ہے۔ یہی خوشخبری کا کام ہے جو یوحنا کی منادی کا ایک حصہ تھا۔ ربی پھر بھی مسلسل یوحنا سے سوالات پوچھتے رہے۔ “اگر نہ تُو مسیح ہے نہ ایلیاہ اور نہ وہ نبی یعنی موسٰی تو تجھے بپتسمہ دینے کا کیا حق پہنچتا ہے“؟ یہودیوں کا یہ خیال تھا کہ موسیٰ کو مردوں میں سے زندہ کر کے آسمان پر اُٹھایا جائے گا مگر اُنہیں یہ معلوم نہیں تھا کہ خداوند نے اُسے زندہ کر کے پیشتر ہی آسمان پر اُٹھایا جائے گا مگر اُنہیں یہ معلوم نہیں تھا کہ خداوند نے اُسے زندہ کر کے پیشتر ہی آسمان پر اُٹھالیا ہے۔ اسی لئے جب یوحنا بپتسمہ دینے والے نے اپنی خدمت کا آغاز کیا تو بہتیرے ایسے تھے جنکا یہ ایمان تھا کہ موسٰی مردوں میں سے زندہ ہو گیا ہے۔ اور یہ اُنہوں نے اسلئے گمان کیا کیونکہ یوحنا کو پیشنگوئیوں اور بنی اسرائیل کی تاریخ کا پورا پورا علم تھا۔ ZU 148.1

    یہ بھی مانا جاتا ہے کہ مسیح کے آنے سے پہلے ایلیاہ کا آنا لازم ہے۔ اسکا انکار کرکے یوحنا نے اُن کی توقع کا جواب دیا۔ مگر اُس کے کلام میں بڑی گہرائی پائی جاتی تھی۔ بعد میں یسوع نے یوحنا کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا “اور چاہو تو مانو ایلیاہ جو آنے والا تھا یہی ہے ” متی 14:11 ۔۔۔ یوحنا بپتسمہ دینے والا ایلیاہ کی روح اور قوت میں آیا تاکہ ایلیاہ جیسی خدمت کرے۔ اگر یہودی اُسے قبول کرتے تو یہ اُن کی فضیلت کا باعث ہوتا۔ چونکہ وہ اُس کے پیغام پر ایمان نہ لائے اسلئے وہ اُن کے لئے ایلیاہ نہ تھا۔ اسی لئے یوحنا بپتسمہ دینے والا اُن کے لئے جو کام کرنے آیا تھا نہ کرسکا۔ ZU 149.1

    دریائے یردن کے کنارے مسیح کے بپتسمہ کے وقت جو نشان دیا گیا وہ بہت کم لوگوں کے لئے تھا۔ یوحنا بپتسمہ دینے والے کی خدمت کے چند ماہ بعد جب یوحنا نے توبہ کے بپتسمہ کی منادی کی تو اُن میں سے زیادہ تر بپتسمہ پانے سے انکاری ہو گئے۔ یوں اُنہوں نے اپنے دل سخت کر لئے اور جان بوجھ کر اپنے ذہنوں کو ظلمت سے بھرپور کر لیا۔ جب یسوع کے بپتسمہ کے وقت آسمان سے گواہی دی گئی تو وہ اُسے نہ سمجھے۔ وہ آنکھیں جو ایمان کے ذریعے اُس پر نہ لگیں وہ خدا کے جلال کے مکاشفہ کو نہیں دیکھ سکتیں۔ وہ کان جو اُس کی آواز کے شنوا نہیں ہوتے وہ گواہی کے کلام کو بھی نہیں سُن سکتے۔ آج بھی یہی حال ہے۔ ہمارے درمیان یسوع مسیح اور اُسکے پاک فرشتوں کی حضوری ہوتی ہے۔ وہ ہمارے لئے خدمت کرتے ہیں۔ مگر پھر بھی ہم میں ایسے بہت سے ہوتے ہین جو اُن کو جانتے ہی نہیں۔ اُن کےلئے یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں۔ جبکہ بعض کے نزدیک خدا وند کا ظہور ہوتا ہے۔ وہ مسیح کی قربت حاصل کرتے ہیں۔ اُن کے دل تسلی اور خوشی سے معمور ہو جاتے ہیں۔ خداوند اُنہیں تسلی، حوصلہ اور اپنی برکات عطا کرتا ہے۔ ZU 149.2

    ربیوں کی نمائندہ جماعت نے یوحنا سے پوچھا پھر تو بپتسمہ کیوں دیتا ہے؟ اور جب وہ اُس سے جواب سننے کے منتظر تھے۔ اُسکا چہرہ خوشی سے تمتما اُٹھا۔ اُس کی آنکھیں خوشی سے و مسرت سے دمک اُٹھیں۔ اُس کے پورے بدن پر عجیت سی کیفیت طاری ہو گئی۔ اُس نے اپنے ہاتھوں کرتے ہوئے فرمایا “میں پانی سے بپتسمہ دیتا ہوں تمہارے درمیان ایک شخص کھڑا ہے۔ جسے تم نہیں جانتے۔ یعنی میرے بعد آنے والا جس کی جوتی کا تسمہ میں کھولنے کے لائق نہیں یوحنا 26:1 ZU 150.1

    پیغام تو بڑا واضح تھا تاکہ سنہیڈرن کی کونسل تک پہنچایا جائے۔ وہ اچھی طرح سمجھتے تھے کہ یوحنا بپتسمہ دینے والا مسیح موعودہ کے بارے کہہ رہا ہے ۔ بلکہ وہ کہہ رہا تھا کہ وہ تمہارے درمیان ہے۔ حیرانگی سے کاہنوں اور سرداروں نے اُسے پہچاننے کے لئے ادھر اُدھر دوڑائی تاکہ جس کے بارے یوحنا کہہ رہا ہے اُسے پہنچانیں۔ مگر وہ اُسے پہچان نہ سکے کیونکہ اُس میں اور عوام میں کوئی امتیازی فرق نہ تھا۔ZU 150.2

    جب یسوع کے بپتسمہ کے وقت یوحنا نے مسیح کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ یہ خدا کا برّہ ہے تو اس سے مسیح کے کام پر نئی روشنی پڑی یعنی اُس کی خدمت کا ایک نیا رُخ سامنے آیا۔ نبی کا اشارہ یسعیاہ نبی کے کلام کی جانب تھا۔ ZU 150.3

    “برّہ جسے ذبح کرنے کو لے جاتے ہیں” یسعیاہ 7:53 آنے والے ہفتوں میں یوحنا نے بڑی دلچسپی سے پیشنگوئیوں اور قربانیوں کی مذہبی رسوم کے بارے مطالعہ کیا۔ وہ مسیح کے کام کے دونوں رُخ اچھی طرح نہ سمجھ سکا۔ یعنی قربانی کا برّہ اور فاتح سلطان۔ مگر ایک بات وہ بخوبی جانتا تھا کہ جیسے کاہن اور قوم کے بزرگ مسیح کے کام کو سمجھتے ہیں ایسا نہیں۔ جب اُس نے بھیڑ میں مسیح کو دیکھا اُس کا خیال تھا کہ اب مسیح اپنے بارے اعلان کرے گا۔ اور وہ بڑی دیرتک بے خبری سے مسیح کے منہ سے سننے کا مشتاق رہا۔ مگر نہ تو اُس نے کوئی نشان دکھایا اور نہ کوئی اعلان کیا۔ اور جب یوحنا نے خود مسیح کے بارے اعلان کیا تو اُس وقت بھی مسیح خداوند یوحنا کے شاگردوں کے ساتھ گُھل مل گیا اور کسی نے اُسے بطور المسیح کے نہ پہچانا۔ ZU 150.4

    اگلے روز یوحنا نے مسیح کو آتے دیکھا۔ اُس کے اوپر خدا کے جلال کا نور ٹھہرا ہوا تھا۔ یہ دیکھ کر یوحنا نے اعلان کر دیا “دیکھو خدا کا برّہ جو دُنیا کے گناہ اُٹھالے جاتا ہے” یہ وہی ہے جس کے بارے میں نے کہا تھا کہ ایک شخص میرے بعد آتا ہے۔ جو مجھ سے مقدم ٹھہرا ہے کیونکہ وہ مجھ سے پہلے تھا۔ اور میں تو اُسے پہچانتا نہ تھا مگر اس لئے پانی سے بپتسمہ دیتا ہوا آیا کہ وہ اسرائیل پر ظاہر ہو جائے۔ اور یوحنا نے یہ گواہی دی کہ میں نے روح کو کبوتر کی طرح آسمان سے اُترتے دیکھا اور وہ اُس پر ٹھہر گیا۔ اور میں تو اُسے پہچانتا نہ تھا مگر اس لئے پانی سے بپتسمہ دیتا ہوا آیا کہ وہ اسرائیل پر ظاہر ہو جائے۔ اور یوحنا نے یہ گواہی دی کہ میں نے روھ کو کبوتر کی طرح آسمان سے اُتر تے دیکھ اور وہ اُس پر ٹھہر گیا۔ اور میں تو اُسے پہچانتا نہ تھا مگر جس نے مجھے پانی سے بپتسمہ دینے کو بھیجا اُسی نے مجھ سے کہا کہ جس پر تو روح کو اُترتے اور ٹھہرتے دیکھے وہی روح القدس سے بپتسمہ دینے والا ہے۔ چنانچہ میں دیکھا اور گواہی دی ہے کہ یہ خدا کا بیٹا ہے” یوحنا 29:1-34 ZU 151.1

    کیا یہ خدا کا بیٹا ہے؟ لوگوں نے حیرت اور دہشت کی حالت میں اُس پر نگاہ کی۔ یوحنا کے کلام کا اُن پر گہرا اثر ہوا۔ یہ سب کلام یوحنا نے خدا کے نام میں کیا۔ وہ آئے روز اُس کی منادی سنتے تھے جو اُنہیں اُن کے گناہ ترک کرنے کے لئے اُن کی تادیب کرتا تھا۔ چنانچہ وہ قائل ہوئے اور اُن کے ایمان کو تقویت ملی۔ مگر یہ کون ہے جو یوحنا بپتسمہ دینے والے سے بڑا ہے؟ اس کے لباس اور شکل شباہت میں کوئی نمایاں بات نہ تھی۔ جس کے باعث کوئی کہہ سکتا کہ یہی وہ شخص ہے جس کی گواہی یوحنا دے رہا ہے۔ وہ تو عام غریبوں کے لباس میں مُلبس تھا۔ ZU 151.2

    اُس بھیڑ میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو یسوع کے بپتسمہ کے وقت وہاں بھی حاضر تھے اور اُنہوں نے الہی جلال کو دیکھا تھا اور خداوند کی آواز بھی سنی تھی۔ مگر اُس وقت کی نسبت نجات دہندہ بہت تبدیل ہو چکا تھا۔ بپتسمہ کے وقت خدا کے جلال سے اُس کی صورت بدل چکی تھی اب وہ غریب نادار پیلی رنگت کا نوجوان تھا جسے صرف یوحنا بپتسمہ دینے والے نے ہی پہچانا۔ ZU 152.1

    مگر جونہی لوگوں نے اُس پر نگاہ کی تو اُنہوں نے دیکھا کہ اُسکے چہرے سے ہمدردی اور ہو شمندی نمودار ہو رہی ہے۔ اُس کی نگاہ اور ہر خط و خال سے حلیمی کا اظہار ہوتا ہے۔ اُس کے روآں روآں سے محبت چھلکتی تھی۔ ایسے معلوم ہوتا تھا جیسے الہی ماحول نے اُس کا احاطہ کر رکھا ہو۔ اُس نے عوام پر سحر کر رکھا تھا۔ قوت اُس میں مخفی تھی پھر بھی وہ اپنے خدشے کو مکمل طور پر چھپت نہ سکے اور کہنے لگے کہ کیا یہی وہ مسیحا ہے جس کا ہم مدتوں سے انتظار کر رہے تھے۔ ZU 152.2

    مسیح یسوع عُسرت و ناداری کی حالت میں آیا تاکہ ہمارا نمونہ اور نجات دہندہ بنے۔ اگر وہ شاہانہ جاہ و جلال میں نمودار ہوتا تو وہ کیونکر ہمیں انکساری کا سبق سکھا سکتا تھا؟ وہ سچائیاں جو پہاڑی وعظ میں مسیح خداوند نے پیش کیں وہ کیوں کر پیش کر سکتا تھا؟ اور اگر وہ شاہی محلوں میں جنم لیتا تو غریبوں اور ناداروں کو کون سہارا دیتا؟ اُس کے بارے یوحنا گواہی دے رہا تھا۔ بھیڑ میں سے کوئی بھی نہ سمجھ پایا کیونکہ اُنہوں نے مسیح سے بہت بڑی بڑی توقعات وابستہ کر رکھی تھیں مگر وہ تو اُن کی نظر میں عام سا شخص تھا۔ یوں وہ مایوسی اور اُلجھن کا شکار ہو گئے۔ ZU 152.3

    یسوع آکر بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بادشاہی کو بحال کر ے گا“۔ ربی اور کاہن اس طرح کا کلام سننے کی آرزو رکھتے تھے۔ مگر اس طرح کی کوئی بات نہ ہوئی۔ وہ بادشاہ جو بنی اسرائیل کی بادشاہی کو بحال کرتا یہ لوگ اس طرح کے بادشاہ کی سننے اور اُسے قبول کرنے کے لئے تیار تھے۔ لیکن وہ جو اُن کے دلوں میں راستبازی اور امن کی شاہی قائم کرنا چاہتا تھا وہ اُسے قبول کرنے کو ہرگز تیار نہ تھے۔ ZU 153.1

    اگلے روز یوحنا نے پھر یسوع مسیح کو دیکھا اُس وقت اُس کے قریب اُس کے دو شاگرد کھڑے تھے۔ اُسے دیکھتے ہی نبی کا چہرہ خدا کے جلال سے معمور ہو گیا اور وہ چلا کے کہنے لگا۔ “دیکھو خدا کا برّہ” اس کلام سے یوحنا کے شاگردوں کے دل انجانی خوشی سے معمور ہو گئے۔ وہ یہ تو نہ سمجھے کہ یوحنا نے جو اُسے “خدا کے برّے” کا نام دیا ہے۔ اُسکا کیا مطلب ہے۔ کیوں کہ یوحنا نے اُنہیں تفصیل سے کچھ بھی نہ بتایا تھا۔ مگر اُن کے دل خوشی سے معمور ہو گئے۔ ZU 153.2

    چنانچہ وہ یوحنا کو چھوڑ کر یسوع کے پیچھے ہو لئے۔ اُن میں سے ایک شمعون کا بھائی اندر یاس اور دوسرا مبشر یوحنا تھا۔ یہی یسوع کے پہلے شاگرد تھے۔ اُن کو روح القدس کی اتنی تحریک ہوئی کہ نہ جانتے ہوئے بھی وہ خود بخود یسوع کے پیچھے ہو لئے۔ کیا یہ مسیح موعود ہے؟ یہ خیالات اُن کے ذہنوں میں بار بار آتے تھے۔ مگر پھر بھی خاموشی اور حیرانی سے اُس کی پیروی کرتے رہے۔ ZU 153.3

    المسیح جانتا تھا کہ شاگرد اُسکی پیروی کر رہے ہیں۔ یہ اُسکی خدمت کا پہلا پھل تھا۔ جس کے باعث الہٰی معلم کے دل میں خوشی تھی۔ اور یہ اس لئے کہ ان روحوں نے اُس کےفضل کو قبول کیا ہے۔ پھر بھی اُن سے پوچھا “تم کیا ڈھونڈتے ہو” اس سے یسوع کی مراد تھی کہ اگر وہ چاہیں تو واپس جا سکتے ہیں۔ یا جو اُن کے دل میں ہے اُس کا اظہار کریں۔ اُنہوں نے پوچھا اے اُستاد تو کہاں رہتا ہے؟ راہ چلتے ہوئے۔ وہ تعارف جو اُنہوں نے یسوع مسیح کے بارے حاصل کیا تھا وہ اُن کے لئے کافی نہ تھا۔ وہ تو چاہتے تھے کہ مسیح یسوع کے ساتھ علیحدگی میں اُس کی سنیں، اُس کے قدموں میں بیٹھیں۔ اس پر اُس نے کہا آکر دیکھ لو کہ میں کہاں رہتا ہوں۔ چنانچہ وہ سارا دن اُس کے ساتھ رہے۔ اگر یوحنا اور اندر یاس کے دل میں کاہنوں اور فریسیوں کی سی بے اعتقادی پائی جاتی تو ممکن نہ تھا کہ وہ مسیح کے قدموں میں بیٹھ کر سیکھتے۔ یوحنا بپتسمہ دینے والے کی منادی پر اُنہوں نے روح القدس کی بلاہٹ کو قبول کیا تھا۔ اب وہ آسمانی معلم کی آواز جو پہچان سکتے تھے۔ مسیح خداوند کا کلام اُن کے لئے تازگی اور صداقت سے معمور تھا۔ عہد عتیق کا مکاشفہ اُن پر کھولا گیا۔ سچائی کا ہر پہلو اُن پر واضح ہوا۔ یہ تو دل کی شکستگی اور ایمان اور محبت ہی ہے جو روح کو اس قابل کرتی ہے کہ آسمانی حکمت پائے۔ وہ ایمان جو محبت کی روح سے کام کرتا ہے حکمت کی کنجی ہے۔ اور جو کوئی محبت رکھتا وہ خدا کو جانتا ہے کیونکہ خدا محبت ہے۔ یوحنا 14:1 ZU 153.4

    وہ خوشی جس سے اندریاس کا دل معمور ہوا اُسے دوسروں تک پہنچانے کے لئے اُس کے دل میں چاہت پیدا ہوئی۔ اور جونہی وہ اپنے بھائی شمعون کے پاس پہنچا اُس نے بڑی گرم جوشی سے اُسے بتایا کہ “ہم کو مسیح مل گیا ہے” شمعون نے بالکل انتظار نہ کیا کیونکہ اُس نے یوحنا کی منادی سن رکھی تھی۔ چنانچہ وہ بھی فوراً نجات دہندہ کے قدموں میں جاپہنچا۔ مسیح کی نظر اُس پر پڑی۔ مسیح نے فوراً اُس کی حیرت اور ماضی کو جان لیا۔ یعنی اُس کی جلد باز طبیعت، اُس کا ملنسار دل، اُس کی دلی خواہشات اور خود اعتمادی، اُس کی توبہ، اُس کی خدمت اور اُس کی شہادت یہ سب کچھ اور فوراً مسیح یسوع کے سامنے آگیا۔ لہٰذایہ سب کچھ دیکھنے کے بعد نجات دہندہ نے فرمایا تو یوحنا کا بیٹا شمعون ہے تو کیفا یعنی پطرس کہلائے گا۔ پطرس کا مطلب ہے پتھر۔ ZU 154.1

    دوسرے دن یسوع نے گلیل میں جانا چاہا اور فلپس سے مل کر کہا میرے پیچھے ہو لے۔ فلپس نے اُسکا حکم مانا اور وہ بھی اُس شاگرد بن گیا ۔ فلپس نے نتن ایل کو بُلایا جو اُسی بھیڑ میں تھا جس کو یوحنا نے یسوع کی طرف اشارہ کر کے بتایا تھا کہ یہ خدا کا برّہ ہے جو دُنیا کے گناہ اُٹھا لے جاتا ہے ۔ لیکن نتن ایل نے یسوع پر اچھی طرح نگاہ کر کے کہا کیا یہ شخص جو خود غریب اور مزدور نظر آتا ہے ہمارا نجات دہندہ ہو سکتا ہے؟ تاہم اُس نے مسیح کو رد نہ کیا بلکہ یوحنا کی منادی سے اُس کے دل میں قائلیت پیدا ہو گئی۔ ZU 155.1

    جب فلپس نے نتن ایل کو بلاہٹ دی وہ اُس منادی پر غور کرنے کے لئے تنہا درختوں کے نیچے بیٹھا ہوا تھا۔ وہ خاص کر المسیح کی آمد کی پیشنگوئیوں پر غورو خوض کر رہا تھا۔ اُس کی دُعا تھی کہ جس کا اعلان یوحنا نے کیا ہے اگر وہی نجات دہندہ ہے تو اے خداوند اُسے مجھ پر آشکار کر۔ خداوند کا روح فوراً اُس پر نازل ہوا جس نے اُسے قائلیت عطا فرمائی کہ یقیناً خداوند نے اپنے لوگوں پر نظر کر کے نجات دہندہ کو بھیج دیا ہے۔ نتن ایل کو معلوم تھا کہ اُس کے دوست و احباب مسیح کی آمد کی پیشنگوئی کی تلاش میں ہیں۔ وہ بھی انجیر کے درخت کے نیچے بیٹھ کر دُعا کر رہا تھا تاکہ اُسے بھی خدا سے جواب ملے۔ یہ پہلی بار نہیں تھی بلکہ وہ اکثر تنہائی میں مسیحا کے آنے کی دُعائیں مانگا کرتے تھے۔ پس فلپس نے نتن ایل سے مل کر اُس سے کہا کہ جس کا ذکر موسیٰ نے توریت میں نبیوں نے کیا ہے وہ ہم کو مل گیا۔ یہ نتن ایل کی دُعا کا براہ راست جواب تھا۔ فلپس نے کہا وہ یوسف کا بیٹا یسوع ناصری ہے۔ اس پر نتن ایل نے کہا “کیا ناصرت سے کوئی اچھی چیز نکل سکتی ہے؟ مگر فلپس اُس کے ساتھ بحث میں نہ اُلجھا بلکہ کہا کہ چل کر دیکھ لے۔ یسوع نے نتن ایل کو اپنی طرف آتے دیکھ کر اُس کے حق میں کہا دیکھو، یہ فی الحقیقت اسرائیل ہے۔ اس میں مکرنہیں۔ نتن ایل نے اُس سے کہا تو مجھے کہاں سے جاتنا ہے؟ یسوع نے اُس کے جواب میں کہا اس سے پہلے کہ فلپس نے تجھے بلایا جب تو انجیر کے درخت کے نیچے تھا میں نے تجھے دیکھا۔ یہ نتن ایل کے لئے کافی تھا کیوں کہ وہ الہی روح جو انجیر کے درخت کے نیچے دُعا کرتے وقت نتن ایل کے لئے گواہی کا باعث بنی تھی وہ خداوند مسیح کے کلام کے ذریعے اُس سے ہمکلام ہوئی۔ اب اُس کا ایمان فلپس سے بھی کہیں زیادہ بڑھ گیا۔ اور اُس نے یسوع کو جواب میں کہا” اے ربی، تو خدا کا بیٹا ہے۔ تو اسرائیل کا بادشاہ ہے۔ اگر نتن ایل شرع کے معلموں کی رہنمائی پر بھروسہ کر لیتا تو وہ نجات دہندہ کو کبھی بھی نہ پا سکتا۔ صرف مسیح یسوع کو بذات خود دیکھنے اور اسے پرکھنے کے بعد اُس کا شاگرد بنا۔ آج بھی بہتیروں کا حال ایسا ہی ہے۔ نتائج بہت فرق ہوں اگر ایسے تمام لوگ خود خداوند کے پاس آئیں اس کی محبت کو چکھیں اور بذات خود اُس کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں۔ ZU 155.2

    اگر آل آدم خدا کی بجائے انسان کی رہنمائی پر بھروسہ کرتے رہیں گے تو وہ کبھی بھی بچانے والی صداقت سے آشنا نہ ہو سکیں گے۔ نتن ایل کی طرح ہمیں خود خدا کا کلام پڑھنا اور روح القدس کے لئے دُعا کرنی چاہیے تاکہ خداوند ہمارے ذہنوں کو روشن کرے۔ وہ جس نے نتن ایل کو انجیر کے درخت کے نیچے دیکھ لیا وہ ہمیں اندرونی کوٹھڑی میں بھی دیکھ سکے گا۔ وہ جو الہٰی رہنمائی کے متلاشی ہیں نوری دُنیا کے فرشتے اُن کے بہت قریب ہیں۔ZU 156.1

    یوحنا اور اندریاس، شمعون اور فلپس اور نتن ایل کی بلاہٹ کے ساتھ ہی مسیح کلیسیا کی بنیاد رکھی گئی۔ یوحنا بپتسمہ دینے والے نے اپنے دو شاگردوں کو مسیح کی قربت میں بھیجا۔ اُن میں سے ایک اندریاس اپنے بھائی کو نجات دہندہ کے پاس لیکر آیا۔ آپ جانتے ہیں کہ جب فلپس کو بلایا گیا تو وہ نتن ایل کو مسیح کے قدموں میں لے آیا۔ یہ مثالیں ہمیں شخص کو شش کے بارے سکھاتی ہیں کہ ہم اپنے دوستوں، پڑوسیوں اور رشتہ داروں کو مسیح کے چرنوں میں لے کر آئیں۔ بعض کے بارے ہم جانتے ہیں کہ اُن کی تمام عمر مسیح کے حلقہ میں گذر گئی ہے مگر وہ ایک روح کو بھی مسیح کے پاس لے کر نہیں آتے۔ وہ اس کی ساری ذمہ داری پاسبان پر ڈالتے ہیں۔ بے شک پاسبان کا یہ فرض ہے کہ بہت سی روحوں کو اُس کے گلہ میں شامل کرے۔ مگر جو کام خداوند نے ہمارے ذمہ لگایا ہے وہ پاسبان کے کرنے کا نہیں بلکہ خداوند چاہتا ہے کہ ہم بذات خود اپسے پورا کریں۔ ZU 157.1

    اس دنیا میں کتنے ہی ایسے بے بس لوگ ہیں جو ہماری خدمت کے محتاج تھے۔ وہ برباد ہو گئے ہیں۔ اگر اُن کے پڑوسی، یا مسیحی مردو زن اُن کے لئے شخصی خدمت پیش کرتءے تو وہ بچ سکتے تھے۔ ابھی بھی بے شمار ایسے ہیں جو اس بات کے منتظر ہیں کہ کوئی آکر اُن کی صحیح سمت میں رہنمائی کرے یا اُن سے براہ راست مخاطب ہو۔ ہمارے آس پاس ہی مشنری کام ہے جو ہم انجام دے سکتے۔ اگر ہم حقیقت میں مسیحی ہیں تو ہمیں روحوں کو مسیح کے قدموں میں لا کر انتہائی خوشی ہو گی۔ جونہی کوئی روح مسیح یسوع کو قبول کر لیتی ہے اُس کے دل میں اُسی وقت یہ تمنا جاگزیں ہو جاتی کہ وہ مسیح یسوع کے بارے دوسروں کو بھی بتائے یعنی یہ کہ میں نے مسیح کو پالیا ہے “نجات کی صداقت اپس کے دل میں قید نہیں رہ سکتی۔ وہ تمام جو خدا کے لئے مخصوص ہو چکے ہیں اور تمام تقدیس شدہ ہیں خدا کا نور اُن کے ذریعے چمکتا ہے۔ اُس کا وعدہ ہے “اور میں اُن کو اور اُن جگہوں کو جو میرے پہاڑکے آس پاس ہیں برکت کا باعث بناوں گا اور میں بروقت مینہ برساوں گا۔ برکت کی بارش ہو گی۔ حزقی 26:34ZU 157.2

    فلپس نے نتن ایل کو کہا چل کر دیکھ لے اُس نے یہ نہیں کہا کہ دوسرے کی گواہی قبول کر بلکہ یہ کہ خود آکر دیکھ۔ خداوند مسیح آسمان پر صعود فرما گیا ہے۔ اُس کے شاگرد اس دنیا میں اُس کے نمائندے ہیں اس لئے روز مرہ ہمیں مسیح کی سیرت کو اُجاگر کرنا ہے۔ لوگوں پر ہمارے کلام کا نہیں بلکہ کردار کا گہرا اثر مرتب ہوتا ہے۔ لوگ ہمیں ہماری دلیل کا جواب دلیل سے دے سکتے ہیں یا ہماری التماس کو رد کر سکتے مگر نیک سیرت اور نیک نمونے کی کوئی مخالفت نہیں کر سکتا۔ بااصول زندگی جس میں مسیح یسوع کی حلیمی کا مرکب ہو اس دُنیا میں بہت بڑی قوت ہے۔ ZU 158.1

    مسیح یسوع کی تعلیم اُس کے ذاتی تجربے اور باطنی قائلیت پر مبنی تھی اور جنہوں نے اُس سے تعلیم حاصل کی وہ الہی طرز کے معلم بنے۔ جب وہ شخص خدا کا کلام کرتا ہے جس کی اپنی تقدیس کلام سے ہوئی ہو تو سامعین اُس کی طرف خود بخود چلے آتے ہیں۔ اُس کا کلام اُن میں قائلیت لانے کے علاوہ زندہ حقیقت بن جاتا ہے۔ جو شخص حقیقت اور کلام کی سچائی کو قبول کر لیتا ہے اُس کے بول چال اور طور و اطوار سے صداقت نمودار ہوتی ہے۔ جو کچھ اُس نے دیکھا یا سنا ہوتا ہے اور جو کچھ اُس نے زندگی کے کلام سے حاصل کیا ہوتا ہے وہی کچھ وہ دسروں تک پہنچاتا ہے۔ مذبح کے کوئلے کے ذریعے اُس کے لب پاک کئے جاتے ہیں۔ اس طرح اُس کی گواہی موثر ٹھہرتی ہے۔ یہ دل ہی ہے جو صداقت کو پاتا اور سیرت کی تقدیس کرنا ہے۔ ZU 158.2

    وہ جو دوسروں کو نور بخشنے کی جدوجہد کرتا ہے خدا اُسے برکت دیتا ہے۔ “رحمت کی بارش ہو گی اور جو سیراب کرنا ہے خود بھی سیراب ہو گا۔ امثال 25:11 ZU 159.1

    روحوں کو بچانے کا کام تو خداوند خود کر سکتا ہے۔ اُسے ہماری مدد کی ہرگز ضرورت نہیں۔ لیکن اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری سیرت ہمارے نجات دہندہ کی مانند ہو تو ہمارے لئے لازم ہو جاتا ہے کہ ہم اُس کے کام میں شریک ہوں۔ اُس کی خوشی میں شامل ہونے کے لئے یعنی نجات یافتہ روحوں کی خوشی کو دیکھنے کے لئے نجات کے کام میں شامل ہونا بہت ضروری ہے۔ ZU 159.2

    نتن ایل کے ایمان کا پہلا اظہار اتنا مخلص تھا کہ وہ مسیح یسوع کے کانوں میں موسیقی کی طرح خوش کن لگا۔ تبھی اس نے فرمایا “میں نے جو تجھ سے کہا تجھ کو انجیر کے درخت کے نیچے دیکھا تو اسی لئے ایمان لایا ہے؟ تو ان سے بھی بڑے بڑے ماجرے دیکھے گا” یوحنا 5:1 نجات دہندہ نے مستقبل میں جھانک کر بتایا کہ اس خوشخبری کا کلام علیموں، شکستہ دلوں اور اُن کو سنایا جائے گا جو ابلیس کی قید میں ہیں۔ پھر اُس نے کہا میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ تم آسمان کو کھلا اور خدا کے فرشتوں کو اوپر جاتے اورابن آدم پر اُترتے دیکھو گے۔ ZU 159.3

    اصل میں یہاں المسیح کا کہنا تھا کہ دریائے یردن کے کنارے آسمان کھل گیا اور روح کبوتر کی مانند میرے اُوپر آ ٹھہری۔ مگر وہ تو ایک نشان تھا کہ میں خدا کا بیٹا ہوں۔ اگر تم اس پر ایمان لاتے ہو تو تمہارے ایمان کو تروتازگی بخشی جائے گی۔ تم واقعی آسمان کو کھلا ہوا دیکھو گے۔ اور وہ آسمان پھر بند نہ کیا جائے گا۔ یہ آسمان میں نے تمہارے لئے کھول رکھا ہے۔ خدا کے فرشتے حاجت مندوں کی التجاوں کی خدا کے حضور لے جاتے ہیں اور اس کے جواب میں خدا کی برکات، اُمید حوصلہ مدد اور ابدی زندگی خدا کے بچوں کے لئے آسمان سے لیکر اُترتے ہیں۔ ZU 159.4

    خدا کے فرشتے آسمان سے زمین اور زمین سے آسمان پر آتے جاتے رہتے ہیں۔ فرشتوں کی خدمت کی بدولت ہی دُکھیوں اور لا چاروں کے لئے یسوع مسیح کے معجزات اور اُس کی قدرت ظہور میں آتی ہے۔ مسیح یسوع کی وساطت سے خدا کی ہر بخشش پاک فرشتوں کی خدمت کی بدولت ہم تک پہنچتی ہے۔ مسیح نے اپنے اوپر بشریت لینے سے گنہگار نسل انسانی کے ساتھ اپنا ملاپ کر رکھا ہے۔ اور دوسری طرف لینے سے گنہگار نسل انسانی کے ساتھ اپنا ملاپ کر رکھا ہے۔ اور دوسری طرف اپنی الوہیت کے ذریعے خدا وند کے ذریعے وہ خداوند کے تخت کو تھامے ہوئے ہے۔ یعنی ایک ہاتھ سے اُس نے خدا کے تخت کو اور دوسرے ہاتھ سے آل آدم کو تھام رکھا ہے اس طرح وہ خدا اور انسان کا درمیانی ہے ۔ ZU 160.1

    ****

    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents