Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents

زمانوں کی اُمنگ

 - Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First
    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents

    باب نمبر 41 - ”گلیل میں بحران“

    جب یسوع مسیح نے لوگوں کو روک دیا کہ اُسکو بادشاہ نہ بنائیں تو اُسے اچھی طرح معلوم تھا کہ اُس کا یہ عمل نقطہ تغیر ثابت ہوگا۔ یعنی وہ لوگ جو آج اُسے تاج پہنا کر اپنا بادشاہ بنانا چاہتے ہیں کل اُس کے دشمن بن جائیں گے۔ اُن کی محبت نفرت میں اور اُن کی حمد و ستائش لعنت میں بدل جائے گی۔ یہ جانتے ہوئے بھی اُس نے اس بحران کو بدلنے کی کوئی تدبیر نہ کی۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اُس نے اپنے حواریوں کو کوئی بھی مادی اُمید نہ دلائی اور نہ کسی قسم کے دُنیاوی اجر کا وعدہ کیا۔ ایک شخص جو اُس کے حلقئہ شاگردیت میں آنا چاہتا تھا اُسے یسوع مسیح نے یوں فرمایا” لومڑیوں کے بھٹ ہوتے ہیں اور ہوا کے پرندوں کے گھونسلے مگر ابن آدم کے لئے سر دھرنے کی بھی جگہ نہیں “متی 20:8۔۔۔۔ اگر یسوع مادی مفاد کا لالچ دیتا تو ہر کوئی اُس کی وفاداری کا دم بھر لیتا۔ مگر اُسے ایسی خدمت قبول نہ تھی۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اُس کے پیروکاروں میں بے شمارے ایسے لوگ تھے جو اُس کی دُنیاوی بادشاہی میں دلچسپی رکھتے تھے۔ روٹیوں کے معجزہ میں جو گہرہ روحانی سبق مضمر تھا وہ اُسے بھی سمجھنے سے قاصر رہے۔ ZU 467.1

    پانچ ہزار کو روٹی کھلانے کے معجزہ کی خبر جنگل کی آگ کی طرع دور و نزدیک پھیل گئی۔ بلکہ اگلی ہی صبح تمام اطراف سے لوگ بیت صیدا میں یسوع کو دیکھنے چلے آئے۔ یہ بہت بڑا ہجوم خشکی اور تری کا سفر کر کے یسوع کے دیدار کو پہنچے۔ اور جو گذری رات اُس سے ودع ہو کر چلے گئے تھے وہ بھی واپس اُسی جگہ آئے جہاں اُنہوں نے اسے چھوڑا تھا۔ وہ سو چتے تھے کہ وہ ابھی تک وہاں ہی ہو گا۔ کیوں کہ وہاں کوئی کشتی باقی نہ رہی تھی جس پر سوار ہو وہ دوسرے کنارے پہنچتا۔ مگر وہ ناکام اور مایوس ہو کر کفر نحوم میں اُسے ڈھونڈنے کو چلے گئے۔ کیونکہ ایک دن کے توقف کے بعد وہ گینسرت پہنچ گیا۔ جونہی اُنہیں پتہ چلا کہ وہ یہاں آپہنچا ہے تو لوگ “اُسے پہچان کر اُس سارے علاقے میں چاروں طر دوڑے اور بیماروں کو چار پائیوں پر ڈال کر جہاں کہیں سُنا کہ وہ ہے وہاں لئے پھرے “مرقس 55:6 ZU 467.2

    کچھ دیر کے بعد وہ ہیکل میں گیا اور وہاں جو بیت صیدا سے آئے تھے اُنہوں نے اُسے پا لیا۔ اور اس کے شاگردوں سے یہ خبر بھی سنی کہ یسوع نے کس طرح سمندر پارکیا۔ شاگردوں نے ان لوگوں کو سمندری طلاطم کی کہانی بھی سُنائی اور یہ بھی کہ اُن کا چپو وغیرہ چلانا کار گر ثابت نہ ہوا۔ نیز اُنہوں نے یسوع کے پانی پر چلنے کے واقعہ کے بارے بھی بتایا۔ اور پھر اُنہیں پطرس کا پانی پر چلنے اور ڈوبنے کی کہانی بھی بتائی۔ شاگردوں نے یہ بھی بتایا کہ کس طرح یسوع نے اُسے بچا یا اور طلاطم کو ساکن کیا۔ جس سے بھیڑ بڑی حیران ہوئی۔ بعض کو یہ سب کچھ سن کر یقین نہ آیا۔ اور وہ خود یسوع کے پاس آ کر پوچھنے لگے کہ “اے ربی تو کب یہاں آیا؟ کیوں کہ وہ اُس کی زبان مبارک سے اُس معجزے کے بارے مزید سننا چاہتے تھے۔ ZU 468.1

    مگر یسوع نے اُنہیں اُن کی توقع کے خلاف یہ جواب دیا میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ تم مجھے اس لئے نہیں ڈھونڈتے کہ معجزے دیکھے بلکہ اسلئے کہ تم روٹیاں کھا کر سیر ہوئے “یوحنا 26:6 چونکہ وہ مادی فائدہ ڈھونڈتے تھے اسلئے یسوع نے اُنہیں نصیحت کرتے ہوئے فرمایا ”فانی خوراک کے لئے محنت نہ کرو بلکہ اُس خوراک کے لئے جو ہمیشہ کی زندگی تک باقی رہتی ہے جسے ابن آدم تمہیں دے گا۔ کیوں کہ باپ یعنی خدا نے اُسی پر مہر کی ہے“ یوحنا 26:6-27 ZU 468.2

    جس لمحہ سامعین کی دلچسپی بیدار ہوئی اُنہوں نے پوچھنا شروع کیا ”ہم کیا کریں تاکہ خدا کے کام انجام دیں “ یوحنا 28:6۔ نجات پانے کے لئے وہ کئی مذہبی تکلیف دہ رسوم ادا کرتے رہے تھے تاکہ خدا کی خوشنودی حاصل کر سکیں۔ اور وہ بخوشی ہر نئی تعلیم کو سننے اور اپنانے کے لئے بدل و جان تیار تھے تاکہ نیکی کما سکیں۔ وہ پوچھ رہے تھے کہ ہم کیا کریں تاکہ نجات پائیں؟ وہ کیا قیمت ہے جو ہمیں آنے والی زندگی حاصل کرنے کے لئے چکانا ہے؟ ZU 469.1

    خداوند یسوع مسیح نے جواب میں اُن سے کہا ”خدا کا کام یہ ہے کہ جسے اُس نے بھیجا ہے اُس پر ایمان لاو“ یوحنا 29:6 یسوع مسیح کو اپنانا ہی نجات اور بہشت کو حاصل کرنا ہے ”خدا کے برّے میں ایمان رکھنا جو دُنیا کے گناہ اُٹھا لے جاتا ہے۔۔۔ نجات اور بہشت کی راہ ہے“ یوحنا 29:1 ZU 469.2

    مگر لوگوں نے اس الہٰی سچائی کو ماننے کا انتخاب نہ کیا۔ یسوع نے تو وہی کام کیا جو پیشنگوئی میں بتایا گیا تھا کہ ”مسیح موعود کرے گا“۔ مگر اُنہوں نے اپنی خودی اور لالچ کے زیر سایہ یہ خدمت تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ خداوند مسیح نے ایک دن بھیڑ کو روٹی کھلائی تھی مگر موسیٰ نے بیابان میں بنی اسرائیل کو چالیس سال تک آسمانی من سے سیر کیا اور اب لوگ مسیح موعود سے اُس سے بھی کہیں زیادہ کی توقع کرتے تھے۔ اُن کے غیر تسلی پذیر دلوں میں یہ سوال پیدا ہوتا تھا کہ اگر یسوع اتنے معجزات دکھا سکتا ہے کیا وہ اپنے تمام لوگوں کو صحت و قوت اور دولت بہم نہیں پہنچا سکتا؟ اور کیا وہ اپنے لوگوں کو اُن کے ہاتھ سے چھڑا نہیں سکتا جو اُن پر ظلم ڈھاتے ہیں؟ کیا یہ اپنے لوگوں کو عزت اور اختیار دینے سے قاصر ہے؟ وہ سوچتے تھے کہ جب یہ دعوے کرتا ہے کہ میں خدا کی طرف سے بھیجا گیا ہوں اور اس کے باوجود اسرائیل کا بادشاہ بننے سے انکار کرتا ہے تو اس میں بھید کیا ہے؟ بعض سوچتے تھے کہ جو کچھ اس نے دعوے ٰ کر رکھا ہے اُس پر اسے خود یقین نہیں یا اپنے دعوےٰ کے مطابق اسے اپنے الہٰی مشن کا صحیح فہم و فراست نہیں۔ یوں اُنہوں نے تذبذب کے لئے اپنے دل وا کر دیئے۔ اور ابلیس نے جو بے یقینی اور غلط فہمی کا بیج بویا تھا وہ رنگ لایا جس کی اُنہوں نے فصل کاٹی۔ ZU 469.3

    اب قریب قریب مزاحیّہ انداز میں ایک شرع کے معلم نے پوچھا ”پھر تُو کوں سا نشان دکھاتا ہے تاکہ ہم دیکھ کر تیرا یقین کریں“ یوحنا 30:6 ہمارے باپ دادا نے بیابان میں من کھایا۔ اُس نے انہیں کھانے کے لئے آسمان سے روٹی دی۔ یہودی جناب موسیٰ کی اس من کی وجہ سے بڑی عزت کرتے تھے کہ اپس نے من کھلایا، مگر وہ اُس کو نظر انداز کر رہے تھے جس نے اُن کے باپ دادا تو جناب موسیٰ کے خلاف بڑبڑاتے اور شکایت کرتے تھے۔ اور اُنہیں اُس کے مشن پر بھی شک تھا۔ وہ ہرگز یہ تسلیم نہیں کرتے تھے کہ یہ مشن خدا کی طرف سے ہے۔ وہی روح اُن پر پھر غالب ہوئی اور انہوں نے یسوع مسیح کے پیغام کو رد کر دیا۔ یسوع نے اُن سے کہا” میں تم سے سچ کہتا ہوں موسیٰ نے تو وہ روٹی آسمان سے تمہیں نہ دی لیکن میرا باپ تمہیں آسمان سے حقیقی روٹی دیتا ہے“ یوحنا 32:6۔۔۔۔ من برسانے والا اُن کے درمیان کھڑا تھا۔ یہ یسوع مسیح تھا جس نے ان عبرانیوں کی بیابان میں رہنمائی کی۔ اسی نے ان کو روزانہ آسمان سے کھانا کھلایا۔ وہ من حقیقی روٹی کی علامت تھا۔ حقیقی من وہی ہے جس سے زندگی بخش روح پیدا ہوتی ہے۔ یسوع مسیح نے فرمایا ”خدا کی روٹی وہ ہے جو آسمان سے اُتر کر دُنیا کو زندگی بخشتی ہے“ یوحنا 33:6۔۔۔ خداوند مسیح کے سامعین ابھی تک عارضی روٹی کے بارے سوچ رہے تھے۔ پس وہ یسوع سے کہنے لگے “اے خداوند، یہ روٹی ہم کو ہمیشہ دیا کر” یوحنا 34:6 ۔۔۔۔ اس یسوع نے کھلے اور سادہ الفاظ میں اُن کو جتا دیا کہ ”زندگی کی روٹی میں ہوں“ یہ علامت جو خداوند مسیح نے استعمال کی اُس سے یہودی قوم پیشتر ہی باخبر تھی کیونکہ روح نے جناب موسیٰ کے ذریعہ پہلے سے اُن کو یہ سکھا رکھا تھا“ انسان صرف روٹی ہی سے جیتا نہیں رہتا بلکہ ہر بات سے جو خداوند کے منہ سے نکلتی ہے وہ جیتا رہتا ہے“ استثنا 3:8” تیرا کلام ملا اور میں نے اُسے نوش کیا اور تیری باتیں میرے دل کی خوشی اور خرمی تھیں۔ “ یرمیاہ 16:15 ZU 470.1

    شرح کے معلموں میں پیشتر ہی یہ ضرب المثل مروج تھی کہ روٹی کھانے سے مراد خدا کے کلام کا مطالعہ اوربھلائی کے کام کرنا مقصود ہیں۔ اور اکثر یہ کہا جاتا تھا کہ مسیح موعود کے آنے پر تمام بنی اسرائیل کو سیر کیا جائے گا۔ ZU 471.1

    نبیوں کی تعلیم نے اُس عمیق روحانی سبق کو جو روٹیاں کھلانے کے معجزہ میں پایا جاتا تھا بڑا ہی سادہ اور آسان بنا دیا۔ خداوند یسوع مسیح چاہتا تھا کہ اس سبق کو اُس کے سامعین ہیکل کے اندر سُنیں۔ اگر وہ الہامی نسخوں کو جانتے اور سمجھتے تو جب خداوند یسوع مسیح نے یہ فرمایا تھا اسے بھی سمجھتے کہ ”میں زندگی کی روٹی ہوں “ ایک ن بھوک سے نڈھال بھیڑ کو خداوند مسیح نے روٹی کھلائی تھی جس سے اُنہوں نے جسمانی طاقت اور تازگی پائی۔ اُسی طرح وہ یسوع مسیح سے روحانی قوت، تازگی اور ابدی زندگی پا سکتے تھے۔ خداوند مسیح نے فرمایا” جو میرے پاس آئے وہ ہرگز بھوکا نہ ہوگا۔ اور جو مجھ پر ایمان لائے وہ کبھی پیاسا نہ ہوگا۔ اُسنے مزید فرمایا “تم نے مجھے دیکھ لیا ہے۔ پھر بھی ایمان نہیں لائے“ ZU 471.2

    روح القدس نے جو گواہی دی تھی اور خدا کا مکاشفہ جو اُن کی روحوں میں سرائیت کر گیا تھا اُس کے ذریعے انہوں نے یسوع کو دیکھا تھا۔ اُس کے زندہ و تابندہ ثبوت وہ آئے روز دیکھتے تھے۔ اس کے باوجود وہ ایک اور نشان طلب کرتے ہیں۔ اگر یسوع مسیح اُن کو ایک اور نشان دے دیتا تو وہ پھر بھی پہلے کی طرح کم اعتقاد ہی رہتے۔ جو کچھ اُنہوں نے دیکھا اور سُنا تھا اگر وہ اس سے قائل نہ ہوئے تو اس نسل کو مزید عجائب دکھانا عبث تھا۔ کم اعتقادی، شک و شبہات کی کوئی وجہ ڈھونڈ ہی لیتی اور مثبت اور معقول شواہد کو بھی ٹھکرا دیتی ہے۔ ZU 472.1

    اس کے باوجود ہٹ دھرم روحوں سے مسیح نے التماس کی ”جو کوئی میرے پاس آئے گا اُسے میں ہرگز نکال نہ دوں گا“ یوحنا 37:6۔۔۔۔ یسوع نے فرمایا جو ایمان لائے گا وہ ابدی زندگی پائے گا۔ ایک روح بھی برباد نہ ہوگی۔ فریسیوں اور صدوقیوں کو بحث کرنے کی ضرورت نہیں کہ آیا قیامت میں مرُدے جی اُٹھیں گے کہ نہیں۔ یسوع مسیح کی یقین دہانی کے بعد کسی کو نا اُمید ہونے اور غم کھانے کی ضرورت نہیں۔ کیوں کہ میرے باپ کی مرضی یہ ہے کہ جو کوئی بیٹے کو دیکھے اور اُس پر ایمان لائے ہمیشہ کی زندگی پائے اور میں اسے آخری دن پھر زندہ کروں “یوحنا 40:6 ZU 472.2

    مگر قوم کے رہنما بڑے برہم ہوئے اور کہنے لگے “کیا یہ یوسف کا بیٹا یسوع نہیں جس کے باپ اور ماں کو ہم جانتے ہیں؟ اب یہ کیوں کر کہتا ہے کہ میں آسمان سے اُترا ہوں؟ یوحنا 42:6۔۔۔ حقیقت میں وہ یسوع کا یہ کہہ کر مزاق اُڑا رہے تھے کہ یہ شخص تو غریب سے گھرانے سے تعلق رکھتا ہے۔ وہ اُسے گلیلی مزدور سے زیادہ وقعت نہ دیتے تھے۔ اور اُس کے خاندان کو بہت ہی چھوٹا اور معمولی خیال کرتے تھے۔ اُن کا کہنا تھا کہ یہ ان پڑھ بڑھئی کیوں کر اتنے بڑے دعوے کر سکتا ہے؟ ہم ہم اس کی باتوں پر کان نہیں دھر سکتے۔ بلکہ وہ تو اُسے ناجائز اولاد کہنے سے بھی گریز نہیں کرتے تھے۔ ZU 472.3

    مگر مسیح یسوع نے اپنی پیدائش کے راز کو کبھی کھولنے کی ضرورت محسوس نہ کی۔ اور جب اُس کے آسمان سے اترنے کے بارے میں سوال کئے گئے تو اُس نے اُنہیں کوئی جواب نہ دیا۔ اور جب اُس سے پوچھا گیا کہ بغیر کشتی کے تو کیوں کر دوسرے کنارے چلا گیا تو بھی اُس نے کوئی جواب نہ دیا۔ نہ ہی اُس نے لوگوں کی توجہ اُن معجزات کی طرف دلائی جو اُس کی زندگی میں بڑی اہمیت کے حامل تھے۔ اُس نے دُنیاوی جاہ و چشم کی کوئی پرواہ نہ کی بلکہ خادم کی صورت اختیار کی۔ اُس کے کام اور کلام دونوں اُس کی سیرت اور بصیرت کے آئینہ دار تھے۔ جن کے دل و دماغ کو ذات الہٰی نے روشن کر رکھا تھا اُنہوں نے اُس میں خدا کے بیٹے کو دیکھا اور کلام مجسم ہوا اور فضل اور سچائی سے معمور ہو کر ہمارے درمیان رہا اور ہم نے اُس کا ایسا جلال دیکھا جیسا باپ کے اکلوتے کا جلال۔ “یوحنا 14:1 ZU 473.1

    سوالات سے کہیں زیادہ فریسیوں کے دل میں یسوع کے خلاف تعصب تھا کیونکہ خداوند مسیح کے ہر عمل اور کلام سے اُن کے دلوں میں بغض نفرت اور دُشمنی پیدا ہوتی۔ بدیں وجہ یسوع نے اُن کے کسی سوال کے جواب دینے کی ضرورت محسوس نہ کی۔ “کوئی میرے پاس نہیں آ سکتا جب تک باپ جس نے مجھے بھیجا اُسے کھینچ نہ لے۔ اور میں اُسے آخری دن پھر زندہ کروں گا۔ نبیوں کے صحیفوں میں یہ لکھا ہے کہ وہ سب خدا سے تعلیم یافتہ ہوں گے۔ جس کسی نے باپ سے سُنا اور سیکھا ہے وہ میرے پاس آتا ہے۔ ”اور تیرے سب فرزند خداوند سے تعلیم پائیں گے اور تیرے فرزندوں کی سلامتی کامل ہو گی۔ “ یسعیاہ 13:54۔۔۔۔ اس پر یہودی بڑا فخر کرتے تھے کہ خداوند خدا خود اُن کا معلم ہے۔ مگر خداوند مسیح نے اُن پر واضح کیا کہ تمہارا یہ دعوے اور گمان بے معنی ہے۔ اُس نے کہا جس کسی نے باپ سے سُنا اور سیکھا ہے وہ میرے پاس آتاہے” صرف یسوع مسیح کے ذریعے ہی وہ خدا کے بارے جان سکتے تھے۔ بنی نوع انسان اُس کے جلال کو دیکھ کر زندہ نہیں رہ سکتا۔ جنہوں نے خدا کے بارے جاتا اُنہوں نے بیٹے کی معرفت سُنا۔ اور یسوع ناصری کے ذریعے ہی وہ اُسکو پہچان سکتے تھے جس نے فطرت اور مکاشفہ کے ذریعے باپ کو آشکارہ کیا۔ “میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جو ایمان لاتا ہے ہمیشہ کی زندگی اُس کی ہے“۔ یوحنا 47:6۔۔۔ پیارے یوحنا کی معرفت روح القدس کلیسیا کو فرماتا ہے “کہ خدا نے ہمیں ہمیشہ کی زندگی بخشی اور یہ زندگی اُس کے بیٹے میں ہے اور جس کے پاس نے فرمایا “میں اُسے آخری دن پھر زندہ کروں گا“۔ یسوع مسیح نےانسانی جامہ پہنا تاکہ ہم اُس کے ساتھ ایک ہو سکیں۔ اسی کی بدولت سے ہم قبر سے زندہ ہو سکیں گے۔ کیونکہ ایمان کے ذریعہ اُس کی زندگی ہماری زندگی بن جاتی ہے۔ وہ جو یسوع کو اپنے دل میں اُتار لیتے ہیں ہمیشہ کی زندگی اُن ہی کی ہے۔ روح کے ذریعے خداوند ہم میں سکونت کرتا ہے۔ اور خداوند کے روح کو ہم صرف ایمان کے ذریعے دلوں میں بساتے ہیں۔ جب ایمان سے روح ہمارے دلوں میں بستا ہے۔ اُسی وقت ہمیشہ کی زندگی کا آغاز ہو جاتا ہے۔ ZU 473.2

    لوگوں نے یسوع کو من کا حوالہ دیا جس کو اُن کے باپ دادا نے بیابان میں کھایا تھا۔ اصل میں وہ یہ کہنا چاہتے تھے کہ روٹیوں کا معجزہ تو نے دکھایا ہے۔ من کا معجزہ اس سے کہیں برتر تھا۔ مگر یسوع نے ان پر ظاہر کیا کہ جو برکت وہ دینے آیا ہے اُس کے مقابلہ میں من کا معجزہ نہائت ہی کم تر ہے۔ بیابان میں برسایا گیا من دُنیا تک محدود تھا۔ وہ ابدی زندگی نہ دے سکتا تھا۔ جبکہ وہ روٹی جو آسمان سے اُتری ہے یعنی یسوع مسیح وہ ابدی زندگی دینے پر قادر ہے۔ یسوع مسیح نے فرمایا” زندگی کی روٹی میں ہوں۔ تمہارے باپ دادا نے بیابان میں من کھایا اور مر گئے۔ یہ وہ روٹی ہے جو آسمان سے اُتری ہے تاکہ آدمی اُس میں سے کھائے اور نہ مرے۔ میں ہوں وہ زندگی کی روٹی جو آسمان سے اُتری۔ اگر کوئی اس روٹی میں سے کھائے تو ابد تک زندہ رہے گا۔ بلکہ جو روٹی میں جہاں کی زندگی کے لئے دوں گا وہ میرا گوشت ہے“ یوحنا 49:6-51 ZU 475.1

    یہ وہ وقت تھا جب یہودی یروشیلم میں مصر سے بنی اسرائیل کی رہائی کی یاد میں عید فسح منانے کو تھے۔ جب قتل کرنے والے فرشتہ نے مصریوں کے پہلوٹھے مار دئیے۔ اس عید کے موقع مسیح خداوند چاہتا تھا فسح کے برّے کی بنائے لوگ خدا کے حقیقی برّہ کو پہچانیں جو دُنیا کے گناہ اُٹھا لے جاتا ہے۔ مگر یہودی علامت کو ہی اہمیت دینے پر تُلے ہوئے تھے جبکہ حقیقی برّہ اُن میں موجود تھا۔ اُنہیں خداوند کے بدن کو پہچاننے کا بالکل امتیاز نہ تھا۔۔۔۔ شرع کے معلم غصے میں آ کر دریافت کرنے لگے۔ کہ یہ شخص اپنا گوشت ہمیں کیونکر کھانے کو دے سکتا ہے۔ “ان کا کلام کم و بیش نیکدُیمس سے ملتا جُلتا تھا جس نے یسوع سے پوچھا “آدمی جب بوڑھا ہو گیا تو کیوں کر پیدا ہو سکتا ہے۔ “؟ یوحنا 4:3 کسی حد تک وہ یسوع کی بات سمجھ گئے تھے مگر وہ اُس کے کلام کو تسلیم کرنے کے لئے ہرگز راضی نہ تھے۔ وہ اُسکے کلام کو موڑ توڑ کر لوگوں کو اُسکے خلاف اُبھارنا چاہتے تھے۔ مگر یسوع کسی طرح بھی اُن سے خائف نہ ہوا بلکہ سے کہیں زیادہ اختیار کے ساتھ صداقت کو بیان کیا۔ “یسوع نے اُن سے کہا میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک تم ابن آدم کا گوشت نہ کھاو اور اُس کا خون نہ پیو تم میں زندگی نہیں۔ جو میرا گوشت کھاتا اور میرا خون پیتا ہے۔ ہمیشہ کی زندگی اُس کی ہے۔ اور اُسے آخری دن پھر زندہ کروں گا۔ کیوں کہ میرا گوشت فی الحقیقت کھانے کی چیز اور میرا خون فی الحقیقت پینے کی چیز ہے۔ جو میرا گوشت کھاتا اور میرا خون پیتا ہے وہ مجھ میں قائم رہتا ہے اور میں اُس میں“ یوحنا 56:53:6 ۔۔۔۔ ZU 475.2

    مسیح کے گوشت کو کھانے اور اُس کے خون کو پینے سے مراد اُسے اپنا شخصی نجات دہندہ قبول کرنا اور یہ ایمان رکھنا کہ وہ ہمارے گناہ معاف کرتا ہے۔ نیز ہم اُس میں کامل ہوتے ہیں۔ اُس کی محبت کو دیکھنے، اُس میں قائم رہنے، اُس کے خون کو پینے اور اُس کے گوشت کو کھانے سے ہم اُسکی فطرت کا حصہ بن جاتے ہیں۔ بدن کی نشوونما کے لئے جو کام غذا کا ہے، روح کے لئے وہی کام یسوع مسیح کا ہے۔ جب تک ہم کھانا نہیں کھاتے وہ ہمیں فائدہ نہیں پہنچا سکتا اور جب تک وہ ہمارے جز بدن نہیں بن جاتا لا حاصل ہے۔ اسی طرح اگر ہم مسیح یسوع کو اپنا شخصی نجات دہندہ قبول نہیں کرتے ہمیں کچھ بھی فائدہ نہیں۔ صرف اُس کے بارے علم رکھنا کافی نہیں۔ ہمیں اُس کے گوشت کو کھانا، اُسے اپنے دل میں اُتارنا ہے تاکہ اُس کی زندگی ہماری زندگی بن سکے۔ اُس کی محبت اور فضل ہمارے اندر جذب ہونا لازم ہے۔ ZU 476.1

    یسوع نے فرمایا “جس طرح زندہ باپ نے مجھے بھیجا اور میں باپ کے سبب سے زندہ ہوں اُسی طرح وہ بھی جو مجھے کھائے گا میرے سبب سے زندہ رہے گا۔” یوحنا 57:6 جیسے یسوع مسیح ایمان کے ذریعہ باپ میں رہتا ہے اسی طرح ہمیں بھی ایمان کے وسیلہ یسوع میں زندہ رہنا ہے۔ خداوند مسیح نے خود کو کُلی طور پر خداوند خدا کے تابع کررکھا تھا یہاں تک کہ خدا کی مرضی یسوع کے وسیلہ پوری ہوتی تھی۔ خواہ وہ ہماری طرح آزمایا گیا پھر بھی وہ بے گناہ رہا۔ ہمیں بھی آزمائشوں پر اُسی طرح غالب آنا ہے جیسے یسوع مسیح آزمائشوں پر غالب آیا۔ZU 477.1

    کیا آپ مسیح کے پیروکار ہیں؟ اگر ایسا ہے تو روحانی زندگی کے بارے جو کچھ لکھا گیا ہے وہ آپ کےلئے ہے سے آپ یسوع کے ساتھ متحد ہونے کے ذریعے حاصل کر سکتے ہیں۔ کیا آپ کا جوش و جذبہ جاتا رہا ہے؟ کیا آپ کی پہلی محبت ٹھنڈی پڑ گئی ہیں؟ یسوع کی محبت کو قبول کیجیے۔ اُس کے گوشت کو کھائیے۔ اُس کے خون کو پیجئے۔ تو آپ خدا اور اُسکے بیٹے کے ساتھ ایک ہو جائیں گے۔ ZU 477.2

    بے ایمان یہودیوں کو “خون پینے” کے لغوع معنوں کے علاوہ کچھ نظر نہ آیا۔ کیونکہ رسمی شریعت میں لکھا ہے کہ تو خون نہ کھانا ۔ اس پر وہ آپس میں تکرار کرنے لگے۔ حتٰی کہ اُن کے ساتھ کچھ شاگرد بھی مل کر کہنے لگے” یہ کلام ناگوار ہے اسے کون سُن سکتا ہے؟ یوحنا 60:6 ۔۔۔ مگر یسوع نے جواب میں ان سے کہا “کیا تم اس بات سے ٹھوکر کھاتے ہو؟ اگر تم ابن آدم کو اوپر جاتے دیکھو گے جہاں وہ پہلے تھا تو کیا ہو گا؟ زندہ کرنے والی تو روح ہے۔ جسم سے کچھ فائدہ نہیں جو باتیں میں نے تم سے کہی ہیں وہ روح ہیں اور زندگی بھی ہیں۔ یوحنا 61:6-64 ZU 477.3

    یسوع مسیح کی زندگی اُس کے کلام میں ہے جو دُنیا کو زندگی بخشتی ہے۔ اُس نے اپنے کلام سے بیماروں کو شفا بخشی اور بد روحوں کو نکالا۔ اپنے کلام سے ہی متلاطم سمندر کو ساکن کر دیا اور مردوں کو زندہ کیا۔ اُس نے ویسے ہی خدا کا کلام کیا جیسے اس نے عہد عتیق کے نبیوں اور اساتذہ کے ذریعے کیا تھا۔ تما م کتاب مقدس یسوع مسیح کا ظہور ہے۔ اور وہ چاہتا تھا کہ اُس کے تمام پیرو کار اپس کلام کو صدق دل سے تسلیم کریں تاکہ جب وہ ان سے جدا ہو جائے تو یہ کلام اُن کی قوت کا منبع ہو۔ ”اُس نے جواب میں کہا لکھا ہے کہ آدمی صرف روٹی ہی سے جیتا نہ رہے گا بلکہ ہر بات سے جو خدا کے منہ سے نکلتی ہے“۔ متی 4:4ZU 478.1

    ہمرای جسمانی زندگی غذا کی بدولت ہی قائم وہ دائم رہتی ہے اسی طرح ہماری روحانی زندگی کلام ہی کی بدولت زندہ و جاوید رہتی ہے۔ ہر روح کو بذات خود خدا کے کلام سے زندگی پانا ہے۔ جیسے قوت حاصل کرنے کے لئے ہمیں غذا کی ضرورت ہے اسی طرح روحانی زندگی کی قوت کے لئے ہمیں کلام خدا سے قوت پانا ہے۔ دوسروں کے ذریعے سے ہمیں یہ قوت نصیب نہیں ہو سکتی۔ ہمیں کلام مقدس کا مطالعہ روح القدس کی مدد سے کرنا ہے تاکہ ہم اسے اچھی طرح سمجھ سکیں۔ ہمیں ایک آیت کو لیکر اُس پر اچھی طرح غوروخوض کرنا ہے اور دیکھنا ہے کہ اس آیت کے ذریعے خداوند خدا ہمیں کیا ہدایت یا تنبیہ کرنا چاہتا ہے۔ ZU 478.2

    ایمان کی آنکھ سے یسوع کو مسلسل تکتے رہنے سے ہمیں قوت نصیب ہوتی ہے۔ خداوند اپنے بچوں پر جو راستبازی کے بھوکے اور پیاسے ہیں اپنے بہت ہی قیمتی مکاشفات کو کھولے گا۔ تاکہ وہ مسیح کو اپنا ذاتی نجات دہندہ کے طور پا لیں۔ جب وہ اُس کے کلام کوپڑھیں گے تو اُن کو معلوم ہو گا کہ یہ زندگی ہے۔ اُس کاکلام دنیاوی اور جسمانی نیت کو دور کر کے مسیح میں نئی زندگی بخشتاہے۔ روح القدس بطور مدد گار کے وارد ہوتی ہے۔ خدا کے فضل سے مسیح یسوع کے شاگرد کے اندر خدا کی شبیہ بحال ہوتی ہے چنانچہ وہ نیا انسان بن جاتا ہے۔ نفرت کی جگہ محبت لے لیتی ہے اور انسان کا دل خدا کی شبیہ پا لیتا ہے۔ یہی اسکا مطلب ہے کہ انسان صرف روٹی سے ہی جیتا نہ رہے گا بلکہ ہر اُس بات سے جو خدا کے منہ سے صادر ہوتی ہے۔ ZU 478.3

    خدا وند یسوع مسیح نے اپنے اور اپنے شاگردوں کے تعلق کو ایک مقدس اور ابدی صداقت بتایا۔ وہ جو اُس کے حواری ہونے کا دعوےٰ کرتے ہیں وہ ان کی بصیرت اور سیرت کو جانتا ہے اور اُسکا کلام اُن کے ایمان کی جانچ ہے۔ اُس نے فرمایا کہ وہ میرے کلام کو جانیں گے اور اُس پر عمل بھی کریں گے۔ وہ جو اُسے مانتے ہیں وہ اسکی سیرت کو اپناتے اور اُس میں ڈھلتے چلے جاتے ہیں مگر اس کے لئے انہیں دل کے حلیم اور فروتن اور یسوع کے تابع ہونا لازم ہے۔ اُنہیں تنگ راستہ پر چلنا ہو گا تاکہ یسوع کی زندگی کے وارث ہو سکیں۔ ZU 479.1

    شاگردوں کا امتحان نہائت کڑّا تھا۔ جن لوگوں نے یسوع کو زبردستی بادشاہ بنانے کی کوشش کی اُن کا جوش و خروش پڑ چکا تھا اور جو کلام یسوع نے ہیکل میں کیا اُس سے اُں کی آنکھیں کھل گئیں۔ اب اُن کو حقیقت معلوم ہو گئی۔ اُس کے کلام سے اُن پر واضح ہو گیا کہ اُنہیں اس سے کوئی مادی فائدہ نہیں پہنچ سکتا۔ بے شک اُنہوں نے اس کے معجزات کو خوش آمدید کہا تھا۔ وہ راضی تھے کہ اس نے ان کے مریضوں کو شفا بخشی ہے۔ مگر وہ اسکی خود انکاری اور جانثاری کی زندگی سے بالکل خو ش نہ تھے۔ انہیں اس روحانی حیران کن بادشاہی کی کوئی پرواہ نہیں تھی۔ غیر مخلص، خود غرضی لوگ جو پہلے اسکو بہت چاہتے تھے متنفر ہو گئے۔ ان کی ایک ہی خواہش تھی یعنی “رومی حکومت سے گلو خلاصی” وہ اعلانیہ کہتے تھے کہ اگر یسوع انہیں رومی حکومت کی غلامی سے رہائی نہیں بخشتا تو ہمارا اس کے ساتھ کوئی واسطہ نہیں۔ ZU 479.2

    مگر یسوع مسیح نے انہیں بڑی صفائی سے بیان کیا کہ تم میں ایسے بھی ہیں جو ایمان نہیں لاتے مزید فرمایا “کوئی میرے پاس نہیں آسکتا جب تک باپ جس نے مجھے بھیجا ہے اسے کھینچ نہ لے۔ وہ انہیں بتانا چاہتا تھا کہ اگر وہ اسکی طرف نہیں کھینچے گئے تو اسکا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے اپنے دل روح القدس کے لئے نہیں کھولے” مگر نفسانی آدمی خدا کے روح کی باتیں قبول نہیں کرتا کیوں کہ وہ اس کے نزدیک بیوقوفی کی باتیں ہیں اور نہ وہ اسے سمجھ سکتا ہے کیوںکہ وہ روحانی طور پر پرکھی جاتی ہیں۔ اکر نتھیوں 14:2۔۔۔۔ ایمان سے ہی ہم مسیح کے جلال کو دیکھتے ہیں۔ یہ جلال پوشیدہ ہے اور روح القدس کے ذریعہ ایمان ہی سے انسان کی روح میں جلوہ گر ہوتا ہے۔ جب یسوع نے شاگردوں کو ان کی کم اعتقادی کے سبب عوام میں جھڑکا تو بعض اس سے مزید دور چلے گئے۔ وہ سخت ناراض ہو کر اور یسوع سے منہ موڑ کر فریسیوں کے ارادوں کی تکمیل میں سر گرم عمل ہو گئے اور یسوع کو نقصان پہنچانا چاہا۔ انہوں نے اپنا چناو کر لیا انہوں نے بدن کو روح پر اور بھوسی کو اناج پر ترجیح دی۔ چنانچہ انہوں نے مسیح یسوع کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ترک کر دیا۔ ZU 480.1

    ”اس کا چھاج اسکے ہاتھ میں ہے اور وہ اپنے کھلیان کو خوب صاف کرے گا۔ اور اپنے گیہوں کو توکھتے میں جمع کرے گا مگر بُھوسی کو اس آگ میں جلائے گا جو بجھنے گی نہیں“ ۔ 12:3ZU 480.2

    گیہوں کو کھتے میں جمع کرنے کا یہ ایک وقت تھا۔ سچائی کے کلام سے گیہوں بُھوسی سے علیحدہ ہو گیا۔ کیونکہ وہ اناج کے مقابلہ میں نہائت ہی ہلکی تھی۔ وہ انی ہی راستبازی پر تکیہ کر نے والے لوگ تھے۔ دنیا ان کی تھی اور وہ دنیا کے تھے۔ اسلئے وہ یسوع سے دور چلے گئے۔ آج بھی بہت سے لوگ ویسا ہی فیصلہ کر رہے ہیں۔ آج بھی روحوں کا اسی طرح امتحان ہو رہا ہے جیسے شاگردوں کا کفر نحوم کی ہیکل میں ہوا تھا۔ جب سچائی ان تک پہنچتی ہے تو وہ معلوم کرتے ہیں کہ ان کی زندگیاں خداوند کی مرضی کے مطابق نہیں ہیں۔ وہ صداقت کی روشنی میں دیکھتے ہیں کہ انہیں مکمل تبدیلی کی ضرورت ہے۔ مگر وہ خود انکاری کی خدمت اپنانا نہیں چاہتے۔ چنانچہ وہ ان گناہوں کو دریافت کر کے جو ان کی زندگیوں میں پائے جاتے ہیں سخت ناراض ہو کر چلے جاتے ہیں۔ وہ یسوع کے شاگردوں کی طرح یہ کہتے ہوئے اس سے منہ موڑ لیتے ہیں” یہ کلام ناگوار ہے اسے کون سن سکتا ہے“؟ ZU 481.1

    یہ لوگ خوشامد سننا تو بہت پسند کرتے تھے مگر صداقت کو سننے کے لئے تیار نہ تھے۔ جب ان لوگوں نے روٹیاں کھائیں تو یسوع کی تعریف میں ان کی آوازیں سب سے بلند تھیں لیکن جب روح القدس نے ان کے گناہوں کو ان پر واضح کیا اور انہیں ترک کرنے کی ہدایت فرمائی تو اُنہوں نے یسوع سے منہ موڑ لیا۔ ZU 481.2

    جیسے ہی کچھ لوگ یسوع سے دور ہوئے ان پر ایک دوسری روح نے قبضہ کر لیا۔ یسوع میں اب انہیں کوئی دلچسپی نہ رہی جس کو وہ پہلے بہت ہی سراہتے تھے۔ وہ یسوع کے دشمنوں سے جا ملے کیوں کہ ان کے کام عین ان کے کاموں کے مطابق تھے۔ اب انہوں نے یسوع کے کلام کی غلط تفسیر کر کے لوگوں کو اکسانا چاہا اور یسوع کے خلاف جو کچھ کرسکتے تھے کیا۔ حتٰی کہ ان کی غلط بیان بازیوں کے سبب یسوع کی جان خطرے میں پڑ گئی۔ ZU 481.3

    یوں یہ خبر آناً فاناً جنگل کی آگ کی طرح ہر جا دور و نزدیک پھیل گئی کہ یسوع ناصری نے خود اقرار کیا ہے کہ وہ مسیح موعود نہیں۔ تو جیسے ایک سال بیشتر یہودیہ میں لوگ یسوع کے خلاف ہو گئے تھے اسی طرح تمام گلیل میں لوگ یسوع ناصری کے خلاف ہو گئے تھے اسی طرح تمام گلیل میں لوگ یسوع ناصری کے خلاف ہو گئے۔ بنی اسرائیل پر افسوس کہ انہوں نے اپنے نجات دہندہ کو اس لئے رد کر دیا کہ وہ ایک ایسے فاتح کی تمنا کرتے تھے جو انہیں عارضی حکومت و اختیار عطا کرے۔ وہ اس غذا کے متمنی تھے جو عارضی ہے نہ کہ ابدی۔ گو ان بے ایمان شاگردوں کے چلے جانے کا مسیح یسوع کو دلی صدمہ ہوا مگر اس نے انہیں روکنے کی ذرا بھر ضرورت محسوس نہ کی کیونکہ یہ ان کا اپنا چناو تھا۔ ازاں بعد یسوع باقی بارہ شاگردوں سے مخاطب ہو کر یہ پوچھنے لگا ” کیا تم بھی چلا جانا چاہتے ہو“؟ یوحنا 67:6 ZU 482.1

    “شمعون پطرس نے جواب دیا اے خداوند ہم کس کے پاس جائیں؟ ہمیشہ کی زندگی کی کی باتیں تو تیرے ہی پاس ہیں اور ہم ایمان لائے اور جان گئے ہیں کہ خدا کا قدوس توہی ہے۔ “۔ یوحنا 68:6-69 ZU 482.2

    “ہم کس کے پاس جائیں؟“اسرائیلی معلم تو روائتوں اور مذہبی رسوم کے غلام تھے۔ فریسی اور صدوقی مسلسل تکرار کا شکار رہتے تھے۔ یسوع کو چھوڑنے کا مطلب ایسے لوگوں میں جانا تھا جو رسم و رواج روایات اور حکایات پر جیتے اور دُنیاوی جاہ و چشم پر جان دیتے تھے۔ شاگردوں نے یسوع مسیح کو قبول کر کے ابدی اطمینان پا لیا تھا وہ کیسے اُن لوگوں کے پاس واپس جا سکتے تھے جو گنہگاروں کے دوست کو لعن طعن کرتے اور اذیت پہنچاتے تھے۔ “ہم کس کے پاس جائیں“؟ ہم یسوع مسیح کی تعلیم اُس کی رحمت اور محبت کے اسباق کو چھوڑ کر بد کار، تاریک اور بے ایمان دُنیا کا رُخ کریں؟ جب بہتیروں نے یسوع کو باوجود معجزات دیکھنے کے چھوڑ دیا اُس وقت شمعون پطرس نے شاگردوں کی نمائندگی کرتے ہوئے شاگردوں کے یمان کا یوں اظہار کیا۔ “خداوند کا قدوس تو ہی ہے”ZU 482.3

    خداوند یسوع مسیح نے سچائی کا کلام پیش کیا جس کی وجہ سے اُس کے اپنے بہت سے شاگرد واپس لوٹ گئے۔ اس کا علم مسیح یسوع کو پیشتر ہی تھا۔ اُسے پہلے سے معلوم تھا کہ آزمائش کی گھڑی میں اُس کے ہر ایک شاگرد کا کڑا امتحان ہو گا۔ اسے معلوم تھا کہ گتسمنی اور صلیب کی اذیت اُن کے لئے صبر آزما گھڑی ہو گی۔ اگر اُن کی پہلے آزمائش نہ کی جاتی تو آخری دم تک اُس کے شاگردوںمیں بہت سے کم اعتقاد اور خود غرض لوگوں کی موجودگی قائم رہتی۔ اور یہ ممکن تھا کہ جب مستقبل میں خداوند مسیح کی عدالت میں پیشی ہوتی اور بھیڑ اُسے تاج پہنا کر اُسکا ٹھٹھا اُڑاتی تھی۔ بار بار پکارتی کہ “اسے صلیب دو۔ اے صلیب دو” تو ایسے لوگ جن کی خواہشوں کی تکمیل نہیں ہوئی تھی ایسے وقت میں یسوع کا انکار کر کے بھیڑ کے ساتھ مل جاتے اور یوں شاگردوں کا دل توڑ دیتے۔ اُس تاریک وقت میں یہ بھی ممکن تھا کہ جھوٹے شاگردوں کے نمونے کو اپناتے ہوئے کئی اور اُن کے ساتھ مل جاتے۔ اسلئے اُن جھوٹے شاگردوں کا اُس وقت یسوع کے حلقہ میں سے نکل جانا وفادار شاگردوں کے حق میں بہتر رہا۔ علاوہ ازیں جب بے وفاشاگرد چلے گئے تو یسوع نے اپنی موجودگی سے وفادار شاگردوں کے ایمان کو تقویت پہنچائی۔ اور اُنہیں آخری امتحان کے لئے تیار کیا۔ ZU 483.1

    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents