Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents

زمانوں کی اُمنگ

 - Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First
    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents

    باب نمبر 27 - ”اگر تُو چاہے تو مجھے پاک صاف کر سکتا ہے“

    جتنی بھی بیماریوں سے مشرقی لوگ واقف ہیں کوڑھ کی بیماری اُن سب میں ہولناک بیماری ہے۔ یہ لا علاج ہونے کے ساتھ اپنے شکار پر خطر ناک اثرات چھوڑتی ہے۔ بہادر سے بہادر شخص بھی اس کے خوف سے لرز جاتا ہے۔ یہودع سوچتے تھے کہ کوڑھ کی بیماری کسی پر اُس کے گناہوں کے سبب سے آتی ہے۔ بلکہ وہ کہتے تھے کہ خدا نے خود اپے ہاتھ سے گنہگار شخص کو چھوا ہے اور کوڑھ کی بیماری کی صورت میں اُس پر عدالت لایا ہے۔ چونکہ یہ جلد کے نیچے ایسی خطرناک بیماری ہوتی تھی جسے ختم نہیں کیا جا سکتا تھا اس لئے اسے گناہ کی علامت قرار دیا جاتا تھا۔ رسمی شریعت کے مطابق کوڑھی کو ناپاک قرار دیا جاتا تھا۔ وہ تو مردہ شخص کی مانند ہوتا تھا جسے زندوں کی زمین سے کاٹ دیا گیا ہو۔ وہ جس چیز کو چھوتا ناپاک قرار دے دی جاتی۔ جس ہوا میں سانس لیتا وہ ہوا نجس خیال کی جاتی۔ جس شخص کے بارے شک گزرتا کہ اُسے کوڑھ کا مرض ہے اُس کے لئے لازم تھا کہ وہ کاہن کے پاس جائے اور وہ اُسکا اچھی طرح معائنہ کرکے بتائے کہ آیا اُسے کوڑھ کا مرض ہے یا نہیں۔ مرض تشخیص ہو جانے کی صورت میں اُسے خاندان چھوڑنا پڑتا اور اُسے بنی اسرائیل کی جماعت سے خارج کر دیا جاتا۔ مرض معلوم ہونے کے بعد وہ صرف دوسرے کوڑھیوں کے ساتھ زندگی کے دن پورے کر سکتا تھا جن کو معاشرے نے پیشتر ہی آبادی سے دور رہنے پر مجبور کر رکھا تھا۔یہ مرض خواہ بادشاہ کو لاحق ہوتا اُسے بھی عزیزو اقارب، تخت و تاج اور معاشرے کو چھوڑ کر ویرانوں میں پناہ لینی پڑتی تھی۔ کوڑھ کے بارے قانون لا تبدیل تھا۔ ZU 311.1

    اپنے دوست و احباب اور رشتہ داروں سے دور کوڑھی کو کوڑھ کی لعنت کے ساتھ گذر بسر کرنا پڑتی تھی۔ وہ اپنے کپڑے پھاڑے رکھتا تھا اور اپنی بیمای کے بارے چیخ چیخ کر “ناپاک، ناپاک، کا اعلان کرتا رہتا تھا۔ اس جلاوطن کا یہ اعلان بڑا دلدوز ہوتا جو وہ نوحہ کناں آواز میں کرتا تھا۔ کیونکہ یہ نوحہ بڑے دُکھ اور خوف کے ساتھ سُنا جاتا تھا ۔ جس علاقہ میں مسیح خدمت انجام دے رہا تھا بہت سے کوڑھی تھے۔ اُنہوں نے جب مسیح کے بارے سُنا کہ وہ ہمارے علاقے میں ہے تو اُن کے دلوں میں اُمید کی کرن پھوٹ پڑی۔ لیکن چونکہ الیشع کے دنوں کے بعد اُنہوں نے کسی کو بھی کوڑھ سے شفایاب ہوتے نہ سُنا تھا۔ اس لئے وہ کوڑھی مسیح سے شفا پانے کی درخواست کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کر رہے تھے۔ لیکن اُن میں ایک ایسا شخص تھا جس کے دل میں اُمید پیدا ہو گئی۔ مگر اُس شخص کو یہ معلوم نہ تھا کہ کس طرح مسیح تک رسائی کی جائے۔ معاشرے سے دھتکارا ہوا شخص کس طرح خود کو عظیم طبیب کی خدمت میں پیش کر سکتا ہے؟ اُس نے اپنے دل میں یہ بھی سوچا ہو گا کہ کیا مسیح مجھے شفا بخشنا چاہے گا؟ کیا وہ دوسرے طبیبوں اور فریسیوں کی طرح یہ نہ کہے گا کہ انسانی آبادی سے دور بھاگ جاو۔ تم پر گناہ کے سبب خدا کی لعنت ہے۔ اس کے باوجود اُسے وہ سب کچھ یاد آیا جو لوگوں نے اُسے یسوع مسیح کی بابت بتایا تھا۔ اُسے بار بار یہ بتایا گیا کہ جو کوئی اُس کے پاس آیا اُس نے اُنہیں شفا دی۔ پس اس بد نصیب شخص نے تہیہ کر لیا کہ وہ مسیح کو ضرور ملے گا۔ شہروں میں سے ہو کر وہ گذر نہیں سکتا تھا۔ لہٰذا وہ پہاڑوں کی گھاٹیوں سے گذرتا ہوا اپسے جا ملا۔ اُس وقت یسوع شہر کے باہر منادی کر رہا تھا۔ لوگ اُسے چاروں طرف سے گھیرے ہوئے تھے۔ کوڑھی نے دور کھڑے ہو کر اُسکا تھوڑ ا سا کلام سُنا۔ اُس نے اُسے بیماروں پر ہاتھ رکھتے دیکھا۔ اُس نے دیکھا کہ اُس کے کہنے سے لنگڑے چلنے لگے۔ اندھوں نے بینائی پائی۔ اپاہج چوکڑیاں بھرنے لگے۔ جو قریب المرگ تھے صحت یاب ہو گئے۔ اُس نے دیکھا کہ ہر طرح کے مریضوں نے شفا پائی۔ جس سے اُس کے دل میں ایمان اور بھی پختہ ہو گیا۔ وہ آہستہ آہستہ یسوع مسیح کے قریب سے قریب تر ہوتا گیا۔ اُس نے اُن تمام پابندیوں کو بالائے طاق رکھ دیا جو معاشرے نے اُس پر لگا رکھی تھیں۔ اور اُس کے سر پر شفا پانے کا بھوت سوار ہو گیا۔ ZU 312.1

    وہ دیکھنے میں کریہہ اور ہولناک تھا۔ اُس کے جسم کو دیکھ کر گھن آتی تھی۔ بیماری نے اُسکا ستیاناس کر رکھا تھا۔ دُور دُور تک اُس سے بدبو آتی تھی۔ اُسے دیکھتے ہی لوگ خوف سے پیچھے ہٹنے اور اُس سے بچنے کے لئے ایک دوسرے کے اوپر گرنے لگے۔ بعض نے کوشش کی کہ وہ یسوع تک پہنچنے نہ پائے مگر یہ سب کچھ بے سود رہا۔ اُسے یہ خیال ہی نہ رہا کہ کوئی اور بھی یہاں ہے۔ کیونکہ اُس کی نظریں صرف یسوع پر لگی تھیں۔ وہ تو صرف اُس کی آواز سن رہا تھا جو مردوں کو زندگی عطا کر رہا تھا۔ وہ آگے بڑھا اور یسوع کے قدموں میں گر کر کہنے لگا۔ اے خداوند اگر تو چاہے تو مجھے پاک صاف کر سکتا ہے ” یسوع نے جواب میں اُس سے کہا “میں چاہتا ہوں تو پاک صاف ہو جا” متی 2:8-3 ZU 313.1

    فوراً کوڑھی کے بدن میں تبدیلی واقع ہونا شروع ہو گئی۔ اُس کی جلد صحت مند ہو گئی۔ اور اُس کی نسوں میں محسوس کرنے کی قوت بیدار ہو گئی۔ اُسکے پٹھے پختہ اور مستحکم ہو گئے۔ اُسکا جسم جو خستہ خراب ہو چکا تھا کوڑھ سے پاک صاف ہر کر بچے کے بدن کی مانند ہو گیا۔ ZU 313.2

    جو کوڑھی شفا پا گیا تھا اُسے یسوع مسیح نے ہدائت کی کہ اس کام کے بارے کسی کو نہ بتانا بلکہ سیدھا ہیکل میں جا اور کاہن کے سامنے خود کو ہدیہ کے ساتھ پیش کرو اس طرح کا ہدیہ اُس وقت تک قبول نہیں کیا جاتا تھا جب تک کاہن پور ی طرح بیمار کا معائنہ کر کے اعلان نہ کردے کہ یہ شخص کوڑھ کے مرض سے پاک صاف ہو گیا ہے۔ “یسوع نے اُس سے کہا خبر دار کسی سے نہ کہنا بلکہ جا کر اپنے تئیں کاہن کو دکھا اور جو نذر موسیٰ نے مقرر کی ہے اُسے گذران تاکہ اُن کے لئے گواہی ہو“متی 4:8ZU 314.1

    اگر کاہن کوڑھی کے شفا پانے کے حقائق سے واقف ہو جاتے تو اُن کی نفرت یسوع کے لئے مزید بڑھ جاتی اور اُسے بے انصافی کا شکار بناتے۔ اس لئے یسوع نے چاہا کہ اس سے پہلے کہ اس معجزہ کی خبر ادھر اُدھر پھیلے وہ اپنے آپ کو کاہن کے سامنے پیش کرے۔ اور اُس کے معائنہ کرنے کے بعد یہ کوڑھی اپنے دوست و احباب اور عزیزوں سے ملاقت کرے۔ ZU 314.2

    بہت بڑی بھیڑ کوڑھی کے شفا پانے کے واقعہ کی گواہ تھی “جو کاہن کے فیصلے کا شدت سے انتظار کر رہی تھی۔ جب وہ شخص اپنے دوستوں کے پاس واپس آیا تو اُن میں بڑی خوشیاں منائی گئیں۔ تاہم مسیح کی ہدایات کے باوجود کوڑھی نے سب کو اس حقیقت سے آگاہ کیا کہ یسوع نے اُسے شفا بخشی ہے۔ وہ عظیم طبیب کی شفا بخش قدرت کی ہر جگہ گواہی دینے لگا۔ اُسے یہ معلوم نہ تھا کہ اُس کی اس طرح کی گواہی کاہنوں اور قوم کے بزرگوںکو یسوع کی جان لینے کے لئے اُکسا سکتی ہے۔ کوڑھی نے محسوس کیا کہ صحت تو خدا کی طرف سے بہت بڑی نعمت ہے۔ وہ اس بات پر شاداں تھا کہ وہ ایک توانا مرد ہے۔ اُسے خاندان اور سوسائٹی میں بحال کر دیا گیا ہے۔ وہ یہ سوچتا تھا کہ ایسے طبیب کا شکر گذار نہ ہونا بد اخلاقی ہے۔ مگر یہ یسوع کی خدمت میں رکاوٹ کا باعث بنا۔ اُس کی گواہی کے سبب اُسکے پاس چاروں طرف سے اتنے لوگ جوق در جوق آنے لگے کہ تھوڑی دیر کے لئے اُسے اپنی خدمت کے کام کو بند کرنا پڑا۔ ZU 314.3

    یسوع کے ظاہری کام کاج یا عمل میں بھی بڑی مصلحت پوشیدہ ہوتی تھی۔ یہی کوڑھی کے معاملہ میں ہوا۔ یسوع کے پاس جو کوئی آیا اُس نے اُنہیں نامراد واپس نہ لوٹایا۔ اُس کی تمنا تھی کہ اُن کو بھی برکات دے جو اُس کے پاس نہیں آئے۔ ZU 315.1

    جب اُس نے محصول لینے والوں، بُت پرستوں اور سامریوں کو اپنے پاس بُلایا اُسی دوران اُس نے کاہنوں اور قوم کے اساتذہ کو بھی اپنے پاس کھینچ لانے کا ہر حربہ استعمال کیا۔ فریسی گمان کرتے تھے کہ جو تعلیم یسوع مسیح دیتا ہے وہ خدا کی شریعت کے برعکس ہے جو اُس نے موسی کے ذریعے دی۔ مگر اُن کے اس الزام کی اُس وقت تردید ہو گئی جب اُس نے کوڑھی کو موسی ٰ کی شریعت کے مطابق کاہن کے پاس نذر لیکر جانے کی ہدائت کی۔ اور یہ اُن سب کے لئے جو قائلیت کی روھ رکھتے تھے واضح ثبوت تھا۔ ZU 315.2

    یروشیلم کے رہنماوں نے جاسوس بھیجے تاکہ یسوع کی تعلیم میں سے کوئی ایسی چیز ڈھونڈیں جس کی بنا پر اُسے موت کے گھاٹ اُتارا جائے۔ مگر مسیح نے یہاں اُنہیں ثبوت فراہم کیا کہ وہ بنی نوع انسان سے کس قدر محبت رکھتا ہے۔ نیز شریعت کا کس قدر احترام کرتا ہے۔ اُس کے باوجود وہ بدی پر تلے رہے۔ “اُنہوں نے نیکی کے بدے مجھ سے بدی کی اور میری محبت کے بدے عداوت” 5:109“لیکن میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ اپنے دُشمنوں سے محبت رکھو اور ستانے والوں کے لئے دُعا کرو “متی 44:5 بدی کے عوض بدی نہ کرو اور گالی کے بدلے گالی نہ دو بلکہ اس کے برعکس برکت چاہو کیونکہ تم برکت کے وارث ہو ، اس کے لئے بلائے گئے ہو ” پطرس 9:3ZU 315.3

    وہی کاہن جنہوں نے اُس پر پابندیاں لگائی تھیں اُنہوں نے ہی اُس کی شفا یابی تصدیق کی۔ یہ اعلان یسوع مسیح کے حق میں بڑی گواہی تھی کہ وہ ذات الہی ہے۔ وہ شخص جب خاندان اور کلیسیا میں بحال ہو گیا اور کاہنوں نے تصدیق کر دی کہ اُس کے بدن میں ذرا بھر بھی بیماری نہیں تو وہ مسیح کے لئے زندہ، چلتی پھرتی گواہی بن گیا۔ خوچی سے اُسنے نذر گذرانی اور یسوع نام کی بڑائی کی۔ کاہن الہی قدر ت کے قائل ہو گئے۔ اب اُن کے پاس موقع تھا کہ وہ سچائی کو قبول کر کے فائدہ اُٹھاتے ۔ رد کرنے کو صورت میں اُن سے یہ موقع ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چلا جاتا ۔ بہتوں نے نور کو ترک کر دیا۔ تاہم اُس وقت جنہوں نے کسی رد عمل کا اظہار نہ کیا بعد میں اُن کے دل اثر پذیر ہو گئے۔ بہت سے کاہنوں نے بھی بعد میں مسیح قبول کر لیا” یروشیلم میں شاگردوں کا شمار بہت ہی بڑھتا گیا اور کاہنوں کی بڑی گواہی اس دین کے تحت میں ہو گئی” اعمال 7:6 ZU 316.1

    مسیح یسوع کا کوڑھی کو ہولناک بیماری سے شفا دینے کا عمل روح کو گناہ سے پاک کرنے کی علامت ہے۔ وہ شخص جو یسوع مسیح کے پاس آیا کوڑھ سے بھرا پڑا تھا، کوڑھ کا زہر اس کے پورے بدن میں سرائت کر گیا تھا۔ یہاں تک کہ شاگرد یسوع کو روکنے کی کوشش میں تھے وہ کوڑھی کو نہ چھوئے کیونکہ وہ نجس تھا۔ مگر کوڑھی کو چھونے کے باوجود مسیح نجس نہ ہوا بلکہ اُس کے چھونے سے کوڑھی نے زندگی کی قوت پائی۔ گناہ کے کوڑھ کا بھی یہی حال ہے۔ انسان اسے اپنی قوت سے دُور نہیں کر سکتا۔ یہ بہت خطرنا ک اور گہرے گھاو کی مانند ہے۔ “تمام سر نیمار ہے اور دل بالکل سُست ہے۔ تلوے سے لیکر چاندی تک اُس میں کہیں صحت نہیں۔ زخم اور چوٹ اور سڑے ہوئے گھاو ہی ہیں جو نہ دبائے گئے نہ باندھے گئے نہ نرم کئے گئے۔ “یسعیاہ 5:1-6 مگر مسیح یسوع ہم انسانوں میں آیا تاکہ ہمارے درمیان سکونت کرے اور اُن سب کو شفا بخشے جو اُس کے پاس آکر کہے۔ اے خداوند اگر تو چاہے تو مجھے پاک صاف کر سکتا ہے۔ ایسا شخص اُس سے یہ جواب پائے گا۔ “میں چاہتا ہوں تو پاک صاف ہو جا” متی 2:8-3ZU 316.2

    شفا بخشنے کے بعض واقعات میں مسیح نے فوراً کرم نوازی نہ کی۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ کوڑھ کے مریض نے جس وقت گذارش کی اُس کی درخواست قبول ہو گئی۔ اسی طرح جب ہم اس دُنیا کی برکات کے لئے دُعا مانگتے ہیں تو دُعا کے مثبت جواب میں دیری ہو سکتی ہے۔ یا جو کچھ ہم نے دُعا میں مانگا ہے اُس کے عوض خدا ہمیں کچھ اور ہی دے دے۔ مگر گناہ کی معافی کے لئے ایسا نہیں۔ جب ہم گنا ہ سے رہائی کے لئے منت کرتے ہیں تو فوراً جواب دیتا ہے۔ یہ اُس کی مرضی ہے کہ ہم گناہ سے نجات پائیں۔ “اُسی نے ہمارے گناہوں کے لئے اپنے آپ کو دے دیا تاکہ ہمارےخدا اور باپ کی مرضی کے موافق ہمیں اس موجودہ جہان سے خلاصی بخشے” گلتیوں 4:1 “اور ہمیں جو اُس کے سامنے دلیری ہے اُس کا سبب یہ ہے کہ اگر اُس کی مرضی کے موافق کچھ مانگتے ہیں تو وہ ہماری سُنتا ہے۔ اور جب ہم جانتے ہیں کہ جو کچھ ہم مانگتے ہیں وہ ہمار سنتا ہے تو یہ بھی جانتے ہیں کہ جو کچھ ہم نے اُس سے مانگا وہ پایا ہے” 1 یوحنا 14:5-15 “اگر اپنے گناہوں کا اقرار کریں تو وہ ہمارے گناہوں کے معاف کرنے اور ہمیں ساری ناراستی سے پاک کرنے میں سچا اور عادل ہے۔ “1یوحنا 9:1 ZU 317.1

    کفر نحوم کے مفلوج کو شفا بخشنے میں یسوع نے دوبارہ وہی سچائی سکھاءی۔ یسوع نے اس معجزے کے ذریعے بھی گناہ کے معاف کرنے کی قدرت کو آشکار کیا۔ اس معجزے میں پور ی طرح اُمید اور حوصلے کا عنصر موجود تھا۔ کوڑھی کی طرح اس مفلوج کے لئے بھی تندرستی کی تمام راہیں اور اُمیدیں مسدود ہو گئیں تھیں۔ اُس کی بیماری گناہ کا نتیجہ تھا۔ اور گناہ کا پچھتاوا اُسے گھن کی طرح کھائے جارہا تھا۔ اُس نے فریسیوں اور حکیموں سے بارہا التجا کی تھی کہ اُسے جسمانی اور روحانی دکھوں سے نجات دلائین۔ مگر اُنہوں نے اُسے بار بار یہی بتایا کہ تیری بیماری لا علاج ہے۔ کیونکہ تیری گناہوں کے سبب خدا تجھ پر یہ بیماری لایا ہے۔ مگر فریسیوں میں بہت سے ایسےبھی موجود تھے جو اُس گنہگار سے کہیں زیادہ گنہگار تھے مگر خود کو مقدس خیال کرتے تھے۔ ZU 318.1

    مفلوج آدمی کلی طور پر بے بس تھا۔ وہ چاروں طرف سے مایوس ہو چکا تھا۔ تب اُسے خداوند یسوع کے عجیت کاموں کی خبر ملی۔ اُسے یہ بھی بتایا گیا کہ اُس نے گنہگاروں اور لا چاروں کو بھی شفا بخشی ہے۔ یہاں تک کہ اُس نے کوڑھیوں کو پاک صاف کیا ہے۔ اور وہ دوست جو یہ خبر لے کر اُس کے پاس حاضر ہوئے تھے اُنہوں نے اُس کی ہمت بندھائی کہ وہ بھی ایمان رکھے کہ یسوع اُسے شفا بخشنے پر قادر ہے۔ لیکن ایک دفعہ وہ پھر یہ سوچ کر بے دل ہو گیا کہ اُس کی یہ بیماری خود اُس کی غلط کاریوں اور گناہوں کے باعث اُس پر آئی ہے۔ وہ سوچتا تھا کہ مقدس طبیب مجھ نجس شخص کو اپنے حضور ٹھہر نے نہ دے گا۔ ZU 318.2

    مگر وہ جسمانی تندرستی کا اتنا متمنی نہ تھا جتنا گناہوں کی معافی کا۔ اب اُس کی صرف یہ خواہش تھی کہ وہ یسوع کو دیکھ لے اور اُس سے گناہوں کی معافی حاصل کرلے اس کےبعد خواہ مرے خواہ جئے۔ لہٰذا اس قریب المرگ شخص کی ایک ہی تمنا تھی کہ وہ فوراً یسوع کے حضور پہنچے۔ وہ مزید دیر نہیں کر سکتا تھا۔ اُس کے خستہ بدن سے پہلے ہی تعفن اُٹھ رہا تھا۔ اُسنے اپنے دوستوں کی منت کی کہ اُسے چارپائی پر ڈال کر یسوع کے حضور پہنچا دیں۔ دوستوں نے بخوشی اُس کی اس درخواست کو قبول کر لیا۔ مگر اُس گھر میں بہت زیادہ بھیڑ تھی۔ جس کے سبب سے مفلوج کو یسوع کے حضور پہنچانا ناممکن ہو گیا ۔ وہ اُسے اتنی نزدیک بھی نہ لے جاسکے جہاں سے وہ یسوع مسیح کی آواز سن سکتے۔ ZU 319.1

    یسوع پطرس کے گھر میں تعلیم دے رہا تھا۔ دستور کے مطابق اُس کے شاگرد اُس کے قدموں میں بیٹھے ہوئے تھے۔ “اور ایک دن ایسا ہوا کہ وہ تعلیم دے رہا تھا اور فریسی اور شرع کے معلم وہاں بیٹھے تھے جو گلیل کے ہر گاوں اور یہودیہ اور یروشیلم سے آئے تھَ “لوق 17:5۔۔۔ وہ سب اسلئے آئے تھے تاکہ جاسوسی کر کے یسوع پر کوئی الزام لگائیں۔ ان کے علاوہ ایسی بھیڑ تھی جو یسوع کا بڑا احترام کرتی تھی۔ وہں ہر قوم اور طبقے کا شخص موجود تھا۔ “اور خدا کی قدرت شفا بخشنے کو وہاں موجود تھی” روح نے اُ اجتماع پر اپنا سایہ کر رکھا تھا۔ تاہم فریسیوں اور شرع کے معلموں کو روح القدس کی موجودگی کا علم نہ ہوا۔ کیونکہ وہ روح القدس کی ضرورت محسوس نہ کرتے تھے۔ اس لئے شفا اُن کے لئے نہ تھی۔ “اُس نے بھوکوں کو اچھی چیزوں سے سیر کر دیا اور دولت مندوں کو خالی ہاتھ لوٹا دیا “لوقا 1-53 ZU 319.2

    مفلوج کو اُٹھا کر لانے والوں نے ہر طرح اور ہر جانت سے کوشش کی کہ مریض کو یسوع کے قدموں میں ڈال دیں مگر سب بے سود رہا۔ بیمار کی مایوسی دیکھئے کہ جس نے اُس کی زندگی کی اُمیدیں وابستہ تھیں وہ پاس ہی تھا مگر رسائی نا ممکن ہو گئی۔ اب اُس کی اُمید کیوں کربر آئے؟ آخر اُس نے کچھ سوچ کر دوستوں سے التجا کی کہ وہ اُسے گھر کی چھت پر لے جائیں۔ اور چھت کھول کر اُسے یسوع کے قدموں میں ڈال دیں۔ اُس کے دوستوں نے ایسا ہی کیا۔ یسوع نے خدمت سے دست کُش ہو کر مریض کے غمزدہ چہرے پر نگاہ کی اور اُس کی ملتجی آنکھوں میں جھانکا۔ یسوع فوراً سارا معاملہ بھانپ گیا۔ بلکہ جب مفلوج ابھی اپنے گھر میں ہی تھا نجات دہندہ نے اُسی وقت اُس کے ضمیر میں قائلیت کی روح بھیج دی تھی۔ اور جب اپس نے اپنے گناہوں کا اقرار کر کے یسوع کی شفا بخش قوت کا یقین کیا تو مسیح نے اُسے وہیں برکت دے دی۔ یسوع نے اُسے دیکھتے ہی کہا “بیٹا خاطر جمع رکھ تیرے گناہ معاف ہوئے “متی 9-2 ZU 320.1

    مایوسی کے بادل چھٹ گئے اور مفلوج کی روح پر یسوع کا اطمینان آٹھہرا کیونکہ کیونکہ اُس کے گناہ معاف ہو گئے تھے۔ خوشی سے اُس کا چہرہ دمکنے لگا۔ اُس کا جسمانی درد موقوف ہو گیا۔ مفلوج تندرست ہو گیا اور گنہگار شخص کو اُس کے گناہوں سے معافی مل گئی۔ سادہ ایمان کے ساتھ اُس نے مسیح کے کلام کو قبول کر لیا جو دوسرے لفظوں میں اُس کے لئے نئی زندگی تھی۔ اپس نے مزید کوئی درخواست نہ گذاری۔ بلکہ اتنا شادمان ہو گیا کہ اُس کی مسرت احاطہ تحریر میں لانا ناممکن ہے۔ اُس کے چہرے سے آسمانی نور چمک رہا تھا اور لوگ اس سارے منظر کو دیکھ کر دنگ رہ گئے۔ شرع کے معلم بڑی بے تابی سے انتظار کر رہے تھے۔ کہ یسوع مسیح مفلوج کے معاملہ میں کیا کرتا ہے۔ اُنہیں یہ سب کچھ یاد تھا کہ کس طرح اس شخص نے متعدد بار ان کے پاس آکر مدد کے لئے التجا کی تھی مگر اُنہوں نے نہ تو اُس کے ساتھ ہمدردی ظاہر کی اور نہ ہی کوئی اُمید دلائی۔ یہی نہیں بلکہ اُسے اُنہوں نے اعلانیہ کہا کہ گناہوں کی وجہ سے تجھ پر خدا کی لعنت ہے۔ اس بیمار شخص کو سامنے دیکھ کر یہ سب باتیں اُن کے ذہن میں تارہ ہو گئیں۔ اُنہوں نے غور کیا کہ سب لوگ اس منظر کو بڑی دلچسپی سے دیکھ رہے ہیں اور انہوں نے محسوس کیا کہ لوگوں کی نظروں میں اُن کی عزت ختم ہوتی جا رہی ہے۔ ZU 320.2

    گویہ با اختیار شخص آپس میں کوئی بات چیت نہیں کر رہے تھے مگر ایک دوسرے کے چہرے سے یہ تاثر ضرور لے رہے تھے کہ لوگوں کی توجہ کو حاصل کرنے کے لئے اب ہمیں ضرور کچھ نہ کچھ کرنا ہو گا۔ یسوع نے مفلوج سے کہا کہ تیرے گناہ معاف ہوئے۔ فریسیوں کے نزدیک یہ کہنا کفر کے مترادف تھا۔ چنانچہ اُنہوں نے ارادہ کیا کہ اس کفر کے عوض وہ اُسے موت کی سزا دلوائیں گے۔ یہ سب کچھ اُنہوں نے اپنے اپنے دل میں کہا “مگر وہان بعض فقیہ جو بیٹھے تھے وہ اپنے دلوں میں یہ باتیں سوچنے لگے کہ یہ کیوں کر ایسا کہتا ہے؟ کفر بکتا ہے۔ خدا کے سوا گناہ کون معاف کر سکتا ہے۔ مرقس 8:2-11 یسوع نے فی الفور اپنی روح سے معلوم کر کے کہ وہ اپنے دلوں میں یوں سوچتے ہیں۔ اُن سے کہا تم کیوں اپنے دلوں میں یہ باتیں سوچتے ہو۔ آسان کیا ہے؟ یہ کہنا کہ اُٹھ اور اپنی چارپائی اُٹھا کر چل پھر؟ لیکن اس لئے کہ تم جانو کہ ابن آدم کو زمین پر گناہ معاف کرنے کا اختیار ہے۔ اُس نے اُس مفلوج کو کہا میں تجھ سے کہتا ہوں اُٹھ اپنی چارپائی اُٹھا کر اپنے گھر چلا جا” مرقس 8:2-11 ۔۔۔ تب وہ شخص جسے چارپائی پر ڈال کر لایا گیا تھا اُٹھ کھڑا ہوا۔ اُس کی توانائی واپس آگئی۔ اُس کے بدن کا ہر عضو بسرعت کام کرنے لگا۔ “اور وہ اُٹھا اور فی الفور چارپائی اُٹھا کر اُن سب کے سامنے باہر چلا گیا۔ چنانچہ وہ سب حیران ہوگئے اور خدا کی تمجید کر کے کہنے لگے کہ ہم نے ایسا کبھی نہیں دیکھا ” مرقس 12:2 تخلیقی قوت سے کوئی بھی کم طاقت بیمار اور تباہ شدہ بدن کو بحال نہیں کر سکتی۔ جس آواز نے خاک سے تخلیق پانے والے شخص میں زندگی بخشی اُسی آواز نے مفلوج کو زندگی عطا کی۔ اور اُسی قوت نے جس کی بدولت بدن میں زندگی آئی اُسی نے دل کو ازسر نو تازہ کیا۔ وہ جس نے تخلیق کے وقت فرمایا اور ہوگیا۔ اُس نے حکم کیا اور واقع ہو گیا “زبور 9:33۔۔۔ اُسی نے گناہ میں مردہ شخص کو زندگی بخشی۔ مفلوج کو مسیح یسوع کی وساطت سے روح اور بدن دونوں کی شفا حاصل ہوئی۔ روحانی شفا کے بعد جسمانی شفا دی گئی۔ آج بھی ہزاروں جسمانی بیماریوں میں مبتلا ہیں جو مفلوج شخص کی مانند شفا کے متمنی ہیں۔ وہ بھی مفلوج کی طرح مسیح کی زبان مبارک سے یہ پیغام سننا چاہتے ہیں “جا تیرے گناہ معاف ہوئے” کیونکہ اُن کی بیماری کی بنیاد اُن کے گناہوں کا بوجھ ہے۔ جب تک وہ روح کی شفا کے طبیب کے پاس نہیں آتے وہ کیوں کر تسلی پذیر ہو سکتے ہیں۔ وہ سکون صرف وہی دے سکتا ہے جو اُن کے بدن ، ذہن اور روح کے لئے صحت اور تازگی ہے۔ ZU 321.1

    یسوع مسیح ابلیس کے کام برباد کرنے آیا۔ “اُس میں زندگی تھی“اُس نے فرمایا میں آیا ہوں تاکہ وہ زندگی پائیں اور کثرت کی زندگی پائیں۔ 1-یوحنا 8:3، یوحنا 4:1، 10:10، 1-کرنتھیوں 45:15۔ اب بھی اُس میں زندگی بخشنے کی قدرت موجود ہے۔ “وہ تیری تمام خطاوں کو بخش دے گا” وہ تجھے تمام بیماریوں سے شفا دے گا۔ زبور 3:103 فریسی ہکا بکا رہ گئے۔ وہ بُری طرح شکست کھا گئے۔ اُنہوں نے دیکھ لیا کہ اب یہاں بھیڑکو یسوع کے خلاف بھڑکانے کا کوئی موقع نہیں رہا۔ مفلوج شخص کے لئے یسوع نے حیرت انگیز معجزہ دکھایا تھا۔ اُنہوں نے دیکھا کہ یسوع میں خدا کی سی قدرت ہے۔ اس کے باوجود اُن کی کم اعتقادی میں اضافہ ہوتا گیا۔ ZU 322.1

    جب مفلوج اپنے گھر لوٹا وہاں بڑی خوشیاں منائی گئیں۔ اُس کے عزیز و اقارب اُس کے گرد جمع ہو گئے اُن کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو چھلک رہے تھے۔ مفلوج اُن کے سامنے بالکل تندرست توانا کھڑا تھا مگر اُنہیں اپنی آنکھوں پر یقین نہ آتا تھا۔ تاہم مفلوج اُس خداون کی تعریف کر رہا تھا جس نے اُسکے بدن اور روح دونوں کو شفا بخش دی تھی۔ یہ ‘مفلوج’ شخص اور اُس کے عزیزو اقارب یسوع کے لئے قربان ہونے کو بھی تیار تھے۔ کیونکہ وہی اُن کے اندھیرے گھر میں خوشیاں اور نور لایا تھا۔ اب کوئی چیز بھی اُنہیں یسوع پر ایمان لانے سے نہ رو سکتی تھی۔ ZU 323.1

    *****

    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents