Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents

زمانوں کی اُمنگ

 - Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First
    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents

    باب نمبر 4 - “تمہارے لئے ایک منجی پیدا ہوا”

    جلال کا بادشاہ اسقدر حلیم ہو گیا کہ اُس نے بشریت اپنالی۔ اُس کا زمینی گردوپیش غیر مہذب اور کریہہ النظر تھا۔ اُس کا اپنا جلال بشریت میں چھپا دیا گیا تھا تاکہ اُسکی ظاہری شکل و صورت دلکشی کا باعث نہ بنے۔ اُس نے ظاہری نمائش کو بالکل دُور رکھا۔ دولت، دُنیاوی عزت و تکریم اور انسانی بڑائی کسی روح کو موت سے بچا نہیں سکتی۔ مسیح یسوع نے فرمایا کہ کوئی دُنیاوی لالچ یا دلکشی کسی انسان کو اُس کے پاس نہ لانے نہ پائے۔ بلکہ اگر کسی نے اُن کی پیروی کرنی ہے تو صرف آسمانی سچائی کے سبب اُس کے پیچھے ہولے۔ مسیح یسوع کی فطرت اور سیرت کے بارے پیشتر پیشنگوئیوں میں بتا رکھا تھا۔ اس لئے وہ چاہتا تھا کہ جو کوئی انسان اُسے قبول کرنا چاہتا ہے وہ اُسے کلام مقدس کی گواہی پر قبول کرے۔ ZU 37.1

    فرشتے نجات کے جلالی منصوبے پر حیران تھے۔ وہ دیکھ رہے تھے کہ خدا کے بیٹے کو انسانی جامے میں ملبوس نسل آدم کس طرح قبول کرے گی۔ فرشتے چُنیدہ لوگوں کی سر زمیں میں آئے۔ دوسری قومیں جھوٹے دیوتاوں کی پرستش کرتی تھیں۔ جس سرزمین میں خدا کا جلال ظاہر ہوا اور جہاں پیشنگوئی کا نور چمکا فرشتے وہاں آئے۔ وہ یروشیلم میں اُن کے پاس آئے جو شریعت کے مفسر تھے۔ وہ اُن کے پاس آئے جو خدا کے گھر کے خادم تھے۔ اس سے پہلے وہ زکریاہ کاہن کے پاس آئے جب وہ اپنی باری پر کہانت کی خدمت انجام دے رہا تھا۔ المسیح کے جلد آنے ZU 37.2

    کا اشتہار دیا جا چکا تھا۔ مسیح کے آگے آگے راہ تیار کرنے والا پہلے ہی پیدا ہو چکا تھا۔ اُس کے آنے کے مُدعا اور مقصد کی جانچ پڑتال معجزے اور پیشنگوئی کے ذریعہ ہو چکی تھی۔ اس کے باوجود یروشیلم نجات دہندہ کو خوش آمدید کہنے کے لئے تیار نہ تھا۔ ZU 38.1

    آسمانی پیامبر بڑی حیرانگی سے اُن لوگوں کی بے اعتنائی کو دیکھ رہے تھے جن کو خدا نے مقدس سچائی دوسروں تک پہنچانے کے لیے بُلایا تھا۔ یہودی قوم کو خداوند نے مسیح خداوند کی گواہی دینے کے لیے وقف کر رکھا تھا اور اُنہیں آگاہ کر رکھا تھا کہ امسیح ابرہام کی نسل اور داود کے گھرانے سے ہو گا۔ پھر بھی وہ نہ جانتے تھے کہ اُس کی آمد بہت قریب ہے۔ ہیکل میں صبح، شام کی قربانی خدا کے برے کی طرف اشارہ کرتی تھی۔ ہیکل میں بھی اُسے قبول کرنے کے لئے کوئی تیاری نہ تھی۔ قول کے سردار کاہنوں اور ربیوں میں سے کوئی بھی نہیں جانتا تھا کہ یہاں بہت بڑا واقعہ وقوع میں آنے والا ہے۔ وہ اپنی بے معنی دعاوں کو دُہراتے اور آدمیوں کو دکھانے کے لیے رسمی عبادتوں کو طول دیتے رہے مگر دنیا کے جاہ و حشمت اور دھن دولت کی فکروں میں گم ہو کر مسیح خداوند کو قبول کرنے کی تیاری سے غافل ہو چکے تھے ۔ یہی بے اعتنائی بنی اسرائیل کی سر زمیں میں سرائت کر گئی۔ ZU 38.2

    خود غرض دلوں پر اُس خوشی و مسرت کا بالکل اثر نہ ہواجس سے آسمان جھوم گیا۔ بہت کم لوگ تھے جو آنے والے مہمان کو خوش آمدید کہنے کے لئے تیار تھے۔ انہی کی خاطر خداوند نے آسمان کے ایلچیوں کو بھیجا۔ ZU 38.3

    پاک فرشتگان مریم اور یوسف کے ہمراہ تھے جب وہ داود کے شہر ناصرت کا سفر کر رہے تھے۔ رومی حکومت کی طرف سے حکم جاری ہوا کہ تمام لوگ اپنے اپنے آبائی شہروں، گاوں اور قصبوں میں جا کر اسم نویسی کے لئے حاضر ہوں۔ یہ حکم گلیل کی پہاڑیوں تک بھی پہنچا۔ قدیم میں خورس کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ قیدیوں کو رہوئی بخشے گا۔ خداوند کے اس مقصد کی تکمیل کے لیے قیصر اوکو ستس خدا کا نمائندہ بنا جس کے حکم سے مقدسہ مریم کو بیت الحم لایا گیا۔ وہ داود کی نسل سے تھی۔ اور لازم تھا کہ ابن داود اُس کے شہر میں پیدا ہو۔ کیونکہ نبی نے کہہ دیا تھا “لیکن اے بیت الحم افراتاہ اگرچہ تُو یہودہ کے ہزاروں میں شامل ہونے کے لئے چھوٹا ہے تو بھی تُجھ میں سےایک شخص نکلے گا اور میرے حضور اسرائیل کا حاکم ہو گا۔ اور اُس کا مصدر زمانہ سابق ہاں قدیم الایام سے ہے” میکاہ 2:5۔۔۔۔ لیکن صد افسوس کہ اپنے آباو اجداد کے شہر میں جہاں اُن کی حکمرانی تھی مقدسہ مریم اور جناب یوسف اجنبیوں کی طرح تھے۔ وہ سارا دن تھکے ماندے بیت الحم کی گلیوں میں مارے مارے پھرتے رہے۔ سرائے میں بھی اُن کے لیے جگہ نہ تھی۔ گندے غلیظ اصطبل میں جہاں چوپائے بندھے ہوتے تھے۔ وہاں ان دونوں کو رہنے کی جگہ نصیب ہوئی۔ اسی جگہ دنیا کے نجات دہندہ نے جنم لیا۔ ZU 38.4

    انسان تو اتنی بڑی خوشخبری سے بے خبر ہی تھے مگر پورا آسمان خوشیوں سے جھوم رہا تھا۔ آسمانی نُوری مخلوق اس دھرتی پر آ گئی۔ اُس کی موجودگی سے تمام جہاں بقعہ نور بن گیا۔ بیت الحم کی پہاڑیوں پر ان گنت فرشتے آ جمع ہوئے۔ وہ دُنیا کو نجات دہندہ کی خوشخبری سنانے کے منتظر کھڑے تھے۔ اگر بنی اسرائیل خداوند سے وفادار رہتے تو اُن کے ساتھ یہ خوشیاں بانٹی جاتیں۔ لیکن اب اُن کو خداوند نے چھوڑ دیا۔ خداوند نے فرمایا ” میں پیاسی زمیں پر پانی اُنڈیلوں گا اور خشک زمین میں ندیاں جاری کروں گا” یسعیاہ 3:44۔۔۔۔ “راستبازوں کے لئے تاریکی میں نور چمکتا ہے” زبور 4:112۔۔۔ وہ تمام جو نور کی تلاش کرتے ہیں اور جو نور کو صدق دل سے تسلیم کرتے ہیں اُن پر خداوند کے تخت سے ضرور نور چمکے گا۔ ZU 39.1

    اُن میدانوں میں جہاں بزرگ داود اپنی بھیڑوں کی نگہبانی کیا کرتا تھا اُن میں ابھی بھی کچُھ چروا ہے رات کے وقت اپنی بھیڑوں کی رکھوالی کر رہے اور موعودہ مسیح کے بارے سوچ رہے تھے۔ بلکہ وہ خداوند تعالی سے دُعا کر رہے تھے کہہ داود کے تخت پر آنے والے بادشاہ کو بھیج۔ اور دیکھو “خداوند کا فرشتہ اُن کے پاس آ کھڑا ہوا اور خداوند کا جلال اُن کے چو گرد چمکا اور وہ نہایت ڈر گئے۔ مگر فرشتہ نے اُن سے کہا ڈرو مت کیونکہ دیکھو میں تمہیں بڑی خوشی کی بشارت دیتا ہوں جو ساری امت کے واسطے ہو گی۔ کہ آج داود کے شہر میں تمہارے لئے ایک منجی پیدا ہوا ہے یعنی مسیح خداوند ” لوقا 8:2 -11ZU 40.1

    اس جلالی رویا سے سننے والے چرواہوں کے ذہن بھر پور ہو گئے کہ بنی اسرائیل کے لیے نجات دہندہ آ گیا ہے۔ اب خداوند اسرائیل کو عزت ، فتح اور حکمرانی عطا کر دے گا۔ لیکن اس سے پہلے کہ چرواہے یہ سب کچھ سوچیں فرشتوں نے اُنہیں ایسی خبر دی جس کے ذریعے وہ اپنے نجات دہندہ کو قبول کرنے کے لیے تیار ہو گئے۔ لہذا نجات دہندہ کو پہچاننے کے لیے انہیں بتایا گیا۔ ZU 40.2

    “اُس کا تمہارے لیے یہ نشان ہے کہ تم ایک بچہ کو کپڑے میں لپٹا اور چرنی میں پڑا ہوا پاو گے “لوقا 12:2 ZU 40.3

    فرشتہ نے اُن کے خوف کو بھانپتے ہوئے اُنہیں تسلی پذیر کیا۔ اور پھر اُن کو وہ خوشخبری دی جس کو وہ چھپا نہ سکتا تھا۔ وہ میدان چکا چوندھ روشنی سے منور ہو گیا۔ زمین و آسمان دونوں یہ گیت سننے کے لئے ہمہ تن گوش ہو گئے۔ “عالم بالا پر خدا کی تمجید ہو۔ اور زمیں پر اُن آدمیوں میں جن سے وہ راضی ہے صلح” لوقا 14:2ZU 40.4

    یہ گیت رہتی دُنیا تک قائم رہے گا۔ اور جب راستبازی کا سورج طلوع ہو گا جس کے پروں میں شفا ہو گی تو اس گیت کو سب ہمارے خدا کی حمد کے لئے گائیں گے۔ “پھر میں نے بڑی جماعت کی سی آواز اور زور کے سے پانی کی آواز اور سخت گرجوں کی سی آواز سنی کہ ہیلیلویاہ۱ اس لئے کہ خداوند ہمارا خدا قادر مطلق بادشاہی کرتا ہے۔ مکاشفہ 6:19ZU 41.1

    جب فرشتگان چلے گئے۔ روشنی مدہم پڑ گئی۔ بیت الحم کی پہاڑیوں پر رات کے سناٹے دوبارہ چھا گئے۔ لیکن اُس نظارہ کی جھلک جو چرواہوں نے دیکھی تھی اُن کی یادداشت سے محو نہ ہو سکی۔ “اور جب فرشتے اُن کے پاس سے آسمان پر چلے گئے تو ایسا ہوا کہ چرواہوں نے آپس میں کہا آو بیت الحم تک چلیں اور یہ بات جو ہوئی ہے اور جس کی خداوند نے ہم کو خبر دی ہے دیکھیں۔ پس انہوں لنے جلدی سے جا کر مریم اور یوسف کو دیکھا اور اُس بچہ کو چرنی میں پڑا ہو پایا۔ اور انہیں دیکھ کر وہ بات جو اُس لڑکے کے حق میں اُن سے کہی گئی تھی مشہور کی۔ اور سب سننے والوں نے ان باتوں پر جو چرواہوں نے اُن سے کہیں تعجب کیا۔ مگر مریم ان سب باتوں کو اپنے دل میں رکھ کر غور کرتی رہی اور چرواہے جیسا اُن سے کہا گیا تھا ویسا ہی سب کچھ سن کر اور دیکھ کر خدا کی تمجید اور حمد کرتے ہوئے لوٹ گئے ” لوقا 15:2 -20 ZU 41.2

    آسمانی مخلوق سے ملکر آج بھی زمینی مخلوق گبھراہٹ اور پریشانی کا شکار ہو جاتی ہے۔ جیسے چرواہے بہت ہی ڈر گئے تھے۔ آج بھی اگر کسی کو آسمانی مخلوق دوپہر کے وقت کسی کھیت یا باغ میں مل جائے تو ضرور سراسیمہ ہو جائے گا۔ لیکن وہ جو خدا کے احکام کی پیروی کرتے ہیں فرشتگان اُن کی نگرانی اور حفاظت کرتے ہیں۔ ZU 42.1

    بیت الحم کی کہانی لازوال کہانی ہے۔ اس کی اتھاہ میں خدا کی حکمت اور علم اور دولت پوشیدہ ہیں۔ رومیوں 33:11 ۔۔۔۔ ہم مسیح خداوند کی اس قربانی پر حیران ہوتے ہیں کہ اُس نے کس طرح آسمانی تخت کے عوض چرنی کو قبول کر لیا۔ اور فرشتوں کی حمدہ ثنا کی جگہ اصطبل کے جانور۔ مگر خداوند کو پسند آیا کہ وہ بشریت کا جامہ پہن لے۔ ہزاروں سالوں سے انسانیت گناہ کی چکی میں پس رہی تھی۔ پس اُس نے ہر انسانی بچے کے گناہ کے نتائج کو قبول کر لیا جو اُنہیں بزرگ آدم سے وراثت میں ملا تھا۔ وہ ہمارے غموں اور آزمائشوں میں شریک ہونے اور ہمیں اپنی بے گناہ زندگی کا نمونہ دینے کے لیے اس دھرتی پر آیا۔ ZU 42.2

    ابلیس نے آسمان پر مسیح کے مرتبہ کو حسد اور نفرت سے دیکھا تھا اور جب ابلیس کو بالکل بیدخل کر دیا گیا تو اُس وقت اُس کی نفرت مسیح کے لئے اور بھی بڑھ گئی۔ جس نے گنہگار نسل کو مخلصی بخشنے کا عہد کر لیا تھا۔ تاہم خداوند نے اپنے بیٹے کو اُس دُنیا میں بھیجا جس پر ابلیس اپنی سلطنت کا دعوہ کرتا ہے۔ وہ ایک چھوٹا بچہ بن کر آیا۔ خدا نے اُسے عام انسانوں کی طرح آزمائشوں کا مقابلہ کرنے کے لیے بھیجا۔ اس میں ابدی ناکامی اور نقصان کا بھی خدشہ شامل تھا۔ خدا نے اپنے بیٹے کو اس لئے دے دیا تاکہ وہ ہمارے بچوں کے لیے زندگی کی راہ تیار کرے۔ خدا کی ایسی محبت پر آسمان اور زمین حیرت کناں ہیں۔ ZU 42.3

    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents