Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents

زمانوں کی اُمنگ

 - Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First
    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents

    باب نمبر 3 -“جب وقت پورا ہو گیا”

    “لیکن جب وقت پورا ہو گیا تو خدا نے اپنے بیٹے کو بھیجا۔۔۔۔ تاکہ شریعت کے ماتحتوں کو مول لیکر چھُڑائے اور ہم کو لے پالک ہونے کا درجہ ملے“۔ گلتیوں 4:4-5 ZU 29.1

    باغ عدن میں ہی نجات دہندہ کے بارے پیشینگوئی کی گئی تھی ۔ بزرگ آدم اور حوا نے جب اس وعدے کو سُنا تو خیال کیا کہ یہ پیشنگوئی بہت جلد پوری ہونے والی ہے۔ اُنہوں نے اپنے پہلے بیٹے کو نجات دہندہ خیال کرتے ہوئے پُرتپاک خوش آمدید کہا۔ مگر وعدہ کی تکمیل میں دیر ہوئی۔ اور وہ اس کی تکمیل دیکھے بغیر خداوند میں سو گئے۔ حنوک کے زمانہ سے لیکر تمام قدیم آباو بزرگ و انبیاء کے ذریعے یہ وعدہ دُہرایا جاتا رہا۔ یوں اُس کے آنے کی اُمید کو ہر زمانہ میں زندہ و جاوید رکھا گیا۔ مگر وہ نہ آیا۔ جناب دانی ایل کی پیشنگوئی میں اُس کی آمد کے زمانہ کا تعین کیا گیا تھا مگر اُسے بھی صحیح طرح نہ سمجھا گیا۔ صدیاں گذر گئیں۔ نبیوں کی صدائیں خاموش ہو گئیں۔ بنی اسرائیل پر ظلم و تشدد کا ہاتھ مزید بھاری ہو گیا۔ بلکہ اُن میں سے بہتیرے یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ “وقت گذرتا جاتا ہے اور کسی رویا کا کچھ انجام نہیں ہوتا” حزقی ایل 22:12 خداوند خدا نے جناب ابرہام پر مصر میں بنی اسرائیل کی غلامی کی مہلت کے بارے آشکاہ کیا فرمایا کہ یہ مُدت چار سو سال تک ہو گی۔ اس کے بعد وہ بڑی دولت لیکر وہاں سے نکل آئیں گے۔ پیدائش 13:15 -14 خدا کے اس کلام کے خلاف فرعون بے بس ہو گیا۔ لکھا ہے “اور ان برسوں کے گذر جانے کے بعد ٹھیک اُسی روز خداوند کا سارا لشکر مُلک مصر سے نکل گیا“۔ خروج 14:12 ZU 29.2

    لہذا آسمانی بارگاہوں میں مسیح کی آمد کا وقت مقرر تھا۔ اور جب وقت پورا ہو گیا تو یسوع نے بیت الحم میں جنم لیا ۔ “لیکن جب وقت پورا ہو گیا تو خدا نے اپنے بیٹے کو بھیجا” رب العزت نے قوموں کی تحریکوں کو اس طرح اپنے ہاتھ میں لیکر چلایا کہ دُنیا جنات دہندہ کے لئے تیار ہو گئی۔ قومیں ایک سلطنت کے جھنڈے تلے جمع ہو گئیں۔ ایک ہی ادبی زبان دورو نزدیک بولی اور سمجھی جانے لگی۔ اس وقت یہودی دنیا کے تمام کونوں سے یروشیلم میں سالانہ عیدیں منانے کے لئے جمع ہو گئے۔ اور جب وہ واپس اپنے اپنے علاقون میں گئے جہاں وہ رہتے تھے تو اُن کے پاس دُنیا کو سنانے کے لئے نجات دہندہ کی خوشخبری موجود تھی۔ ZU 30.1

    اس بت پرستوں کے نظام عبادت سے بھی عوام کا جی اُچاٹ ہو چکا تھا۔ وہ اُن کی روائتوں اور من گھڑت قصے کہانیوں سے تنگ آ چکے تھے۔ اب وہ ایسے مذہب کی چاہت رکھتے تھے جو اُن کے دل کو تسلی پذیر کرے۔ سچائی کا نور جب انسانوں میں سے ختم ہوتا ہوا نظر آرہا تھا تو اُن میں بعض روحیں ابھی بھی ایسی تھیں جو نور کی تلاش میں تھیں۔ وہ ایسی کیفیت سے سخت اُداس اور پریشان تھیں۔ وہ زندہ خدا کی تعلیم کی پیاسی تھیں۔ اُنہیں قبر کے بعد کی زندگی کی یقین دہانی چاہیے تھی۔ جیسے یہودی خداوند سے دور ہوتے گئے بے اعتقادی اُن میں بڑھتی گئی۔ روشن مستقبل کی اُمید جاتی رہی۔ نبیوں کا کلام سمجھ سے بالا ہو گیا۔ عوام موت اور قبر کو آخری ٹھکانہ سمجھنے لگے۔ آنے والی زندگی میں اُن کے کوئی امید نہ رہی۔ یہ آہ و نالہ ہر جگہ سُنا جا سکتا تھا کیوں کہ نبی نے ہزاروں سال پہلے بطور پیشنگوئی فرما دیا تھا” کہ رامہ میں آواز سنائی دی۔ رونا اور بڑا ماتم راخل اپنے بچوں کو رو رہی ہے۔ اور تسلی قبول نہیں کرتی اس لئے کہ وہ نہیں ہیں۔۔ “متی 18:2 ۔۔۔۔ موت کے سایہ کی وادی میں انسان بغیر تسلی کے بیٹھے ہوئے ہیں اور نجات دہندہ کے متمنی ہیں وہ انتظار کر رہے ہیں کہ کب تاریکی چھٹے اور مستقبل کا راز درخشاں ہو۔ یہودی قوم کے علاوہ کچھ ایسے لوگ موجود تھے جنہوں نے الہی نجات دہندہ کے ظاہر ہونے کے بارے پیشنگوئی کی تھی۔ یہ اشخاص صداقت کے متلاشی تھے اُن کو خداوند کی طرف سے مکاشفہ کی روح عنائت ہوئی۔ ابر آلود آسمان میں جیسے گا ہے بگاہے ستارے نمودار ہوتے ہیں اسی طرح سچائی سکھانے والے اساتذہ نمودار ہوتے رہے۔ غیر قوم کے ہزاروں لوگوں کے دل میں اُن کی پیشنگوئی کے کلام کے وسیلہ سے اُمید کی کرن پھوٹ نکلی۔ ZU 30.2

    ہزاروں سالوں تک الہامی نسخوں کا ترجمہ یونانی زبان میں ہوتا رہا جو رومی حکومت میں دور و نزدیک بولی اور سمجھی جاتی تھی۔ یہودی قوم ہر جگہ پراگندہ ہو چکی تھی۔ اس لئے المسیح کی آمد کی اُمید کسی حد تک غیر قوموں تک بھی پہنچ چکی تھی۔ ZU 31.1

    بدیں وجہ بعض یہودی مائل غیر قوم کے باشندے الہامی نسخوں کو اسرائیل اساتذہ سے کہیں بہتر سمجھتے تھے۔ اُن میں ہی کچھ ایسے تھے جو اُمید رکھتے تھے کہ وہ آ کر ہمیں گناہوں سے مخلصی عطا کرے گا۔ مگر یہودیوں کی ہٹ دھرمی اور تعصب اس روشنی کی راہ میں حائل ہو گیا۔ یہودیوں نے غیر اقوام سے علیحدہ رہنے کی اس لئے دیوار حائل کر رکھی تھی تاکہ وہ اُس علم کو جو اُن تک علامتوں، تشیہوں، فطرت اور آبائی بزرگ و انبیاء کے ذریعہ پہنچتا تھا غیر اقوام تک پہنچنے نہ دیں۔ اس لئے لازم تھا کہ مسیح آ کر سچائی کو انسانوں کی باطل اور لغو تفسیر سے پاک کرے۔ خدا کی بادشاہت کے اصول اور ضابطے واضح طور پر بیان کرے نیز عہد عتیق کے اسباق کھول کر انسانوں کے سامنے پیش کرے۔ ZU 31.2

    یہودیوں میں بھی راست اور پختہ کار روحیں موجود تھیں جنہوں نے سچائی کو محفوظ کر رکھا تھا۔ اور جو وعدے اُن کے بزرگوں سے کئے گئے تھے وہ ابھی تک اُن میں پوری پوری اُمید رکھتے تھے۔ جناب موسی کی وساطت سے جن وعدوں کی یقین دہانی کرائی گئی تھی اُن پر اُن کا ایمان ابھی تک قائم تھا ۔ “چنانچہ موسی نے کہا کہ خداوند خدا تمہارے بھائیوں میں سے تمہارے لئے مجھ سا ایک نبی پیدا کرے گا جو کچھ وہ تم سے کہے اُس کی سُننا” اعمال 22:3۔۔۔ اور انہوں نے یہ بھی پڑھا کہ جس کو خداوند مسح کرے گا وہ اس طرح کا ہو گا۔ اور اس طرح کی عدالت کرے گا۔ ZU 32.1

    “وہ حلیموں کو خوشخبری سنائے گا۔ شکستہ دلوں کو تسلی دے گا۔ قیدیوں کو رہائی اور اسیروں کے لئے آزادی کا اعلان کرے گا۔ اور خدا کے سال مقبول کا اشتہار دے گا۔ وہ راستی سے عدالت کو زمین پر قائم کرے گا۔ قومیں اُس کی روشنی کی طرف آئیں گی اور سلاطین اُس کے طلوع کی تجلی میں چلینگے” ZU 32.2

    یسعیاہ 1:61 -2، یسعیاہ 4:42، 3:60 ZU 32.3

    اسی طرح بزرگ یعقوب کا وہ کلام جو اُس نے بستر مرگ پر کیا اُن کی اُمید اور حوصلے کا سبب بنا۔ “یہودہ سے سلطنت نہیں چھوٹے گی اور نہ اُس کی نسل سے حکومت کا عصا موقوف ہو گا۔ جب تک شیلوہ نہ آئے۔ پیدائش 10:49۔۔۔۔۔ بنی اسرائیل کی زوال پذیر حکومت اس بات کی دلیل تھی کہ المسیح بہت جلد آنے والا ہے۔ جناب دانی ایل کی پیشنگوئی اُس کی سلطنت کے پر شکوہ جلال کی نقشہ کشی کرتی ہوئی کہتی ہے کہ جتنی اس سے پہلے سلطنتیں ہوئیں وہ اس کے سامنے ہیچ ہیں۔ اور یہ کہ وہ سلطنتیں تو جاتی رہی ہیں مگر یہ تا ابد قائم رہے گی۔ دانی ایل 44:2 مسیح خداوند کے کام کی نوعیت اور کیفیت کو بہت کم لوگ سمجھتے تھے۔ زیادہ تر تو یہ توقع کرتے تھے کہ وہ نہائت ہی طاقتور شہزادہ ہو گا جو اسرائیل میں اپنی حکومت قائم کر کے قوموں کو نجات بخشے گا۔ ZU 32.4

    وقت پورا ہو چکا تھا۔ انسانیت گناہ کے سبب انحطاط پذیر ہو چکی تھی۔ ہر آنے والا وقت بد سے بد تر تھا۔ ابلیس آسمان اور زمین کے درمیان نہ عبور ہونے والی خلیج حائل کرنے میں مشغول تھا۔ اپنے مکرو فریب سے اُس نے انسانوں کو گناہ میں ڈبو دیا تھا۔ اُس کی زیادہ سے زیادہ کوشش یہ تھی کہ خدا صبرو تحمل اور محبت جو انسان کے لیے رکھتا ہے اُسے ترک کر دے اور یوں وہ خود تمام دُنیا کو اپنی عملداری میں لے لے۔ ابلیس کی یہ بھی کوشش تھی کہ وہ بنی نوع انسان تک خدا کا علم پہنچنے سے روکے نیز انسانوں کی نظریں خدا کی ہیکل سے ہٹا کر اپنی سلطنت کی طرف لگائے۔ اس میں وہ تقریباً کامیاب ہو گیا تھا۔ یہ بھی سچ ہے کہ ہر زمانہ میں خداوند کے نمائندگان موجود رہے ہیں۔ حتی کہ بُت پرستوں کے درمیان بھی کچھ لوگ موجود تھے جن کے ذریعے مسیح خداوند گنہگاروں کو آگاہی پہنچاتا تھا کہ وہ گناہ کی حالت کو ترک کر دیں۔ مگر ان آدمیوں کی حقارت کی گئی۔ بعض ایک کو تو موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا۔ وہ تاریک سائے جو ابلیس نے دُنیا پر ڈالے تھے گہرے سے گہرے ہوتے گئے۔ صدیوں تک ابلیس بت پرستوں کے ذریعہ سے انسانوں کو خدا سے دُور کرتا رہا لیکن سب سے بڑی کامیابی اُسے اُس وقت حاصل ہوئی جب اُس نے بنی اسرائیل کو خدا سے منحرف کر دیا۔ اپنے وہم و گمان کے مطابق عبادت کرنے کے ذریعے بت پرست قومیں خدا کے علم سے محروم ہو گئیں یوں اُن میں ہر طرح کی بے راہروی قائم ہو گئی۔ یہی حال بنی اسرائیل کا ہوا۔ ہر بت پرست مذہب کی بنیاد اس نظریہ پر قائم ہے کہ انسان اپنے کاموں کی بدولت نجات پا سکتا ہے۔ اور یہی نظریہ یہودی قوم نے اپنا لیا اور یہ اصول اور نظریات ابلیس نے اُن کے ذہن و دماغ میں ڈالے تھے۔ جہاں ان نظریات کی پیروی کی جاتی ہے۔ وہاں گناہ کو روکنے کے لیے کسی قسم کی باڑ موجود نہیں۔ ZU 33.1

    نجات کا پیغام انسانون کے ذریعے بنی نوع انسان تک پہنچایا جاتا ہے۔ مگر یہودیوں نے سچائی اور ابدی زندگی پر اپنی اجارہ داری قائم کرنا چاہی۔ انہوں نے زندگی کے “من” کو ذخیرہ کر رکھا اس لئے کیڑے پڑ گئے۔ وہ مذہب جسے انہوں نے اپنے تک محدود رکھنے کی کوشش کی وہ اُن کے لئے باعث نقصان ثابت ہوا۔ اُنہوں نے خدا کے جلال کو ٹھگا اور دُنیا کی جعلی خوشخبری دے کر دھوکا دیا۔ اُنہوں نے دُنیا کی نجات کے لئے خود کو خداوند کے تابع کرنے سے انکار کر دیا۔ اور وہ اپنی تباہی کے لئے ابلیس کے نمائندے بن گئے۔ ZU 34.1

    وہ لوگ جنہیں خداوند نے ستون اور سچائی کی بنیاد ہونے کے لئے بُلایا وہ ابلیس کی نمائندگی کرنے لگے۔ اُنہوں نے خدا کی سیرت کو توڑ موڑ کر پیش کیا۔ اور دُنیا کو بتایا کہ وہ جا بر خدا ہے۔ کاہن جو خدا کے گھر مِن کہانت کی خدمت پر معمور تھے وہ بھی حقیقی خدمت کی بصیرت سے نا آشنا ہو گئے ۔ اُنہوں نے صرف شبیہ اور علامت کو ہی سب کچھ سمجھ لیا۔ اور جس چیز یا ہستی کیا طرف یہ شبیہ یا علامت اشارہ کرتی تھی اُس کی طرف غور نہ کیا۔ وہ احکام اور ضابطے جو خدا نے اُن کو دے رکھے تھے وہ اُن کے اذہان کو کنُد اور دلوں کو سخت کرنے کا ذریعہ بن گئے۔ خدا انسان کے لیے اس سے زیادہ کیا کر سکتا ہے۔ اب تو اُس کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھاکہ پورے نظام کو یکسر بدل دے۔ گناہ کا فریب اپنے عروج تک پہنچ گیا۔ انسان کو رُسوا کرنے والی سب ابلیسی ایجنسیاں سر گرم عمل ہو گئیں۔ خدا کا بیٹا جب دنیا پر نگاہ کرتا تو اُس کا دل ٹوٹ جاتا۔ جو قتل ہو گئے۔ لوُٹے گئے یا بے راہروی کا شکار ہوئے وہ ان پر آٹھ آٹھ آنسو بہاتا۔ گو اُنہوں نے اپنے لئے ایسے آقا کا انتخاب کیا تھا جو اُن سے غلاموں کا سا سلوک کرتا اور اُنہیں اپنی گاڑی کے آگے جوتتا۔ غموں سے رنجور یہ بے بس لوگ ٹوٹے ہوئے دل سے بربادی کی طرف بڑھے چلے جاتے تھے۔ جہاں اُن کے لئے زندگی کی کوئی اُمید نہیں۔ وہ ایسی رات کی طرف رواں دواں تھے جس کی کوئی صبح نہیں۔ انسانی بدن خداوند نے اپنی رہائش کے لئے بنایا مگر اُس میں بد روحیں مقیم ہیں۔ اسلیے اُن کے حواس، جذبات، اعصابی نظام اور ہر انسانی عضو بدی کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ انسانوں کی پیشانی پر ابلیس کی مہر ثبت ہو گئی ہے۔ اور اُن کے چہرے سے شیطانیت ٹپکتی ہے۔ یہ وہ ہولناک نظارہ تھا جس پر نجات دہندہ نے بڑے رنج اور دُکھ سے نگاہ کی۔ ZU 34.2

    گناہ ایک علم کے طور پر تسلیم ہوا جبکہ بدکاری مذہب کا مخصوص حصہ بن گئی۔ بغاوت نے اپنی جڑیں گہری کر لیں اور انسان دشمنی خدا کے ساتھ انتہا کو پہنچ گئی۔ تاہم دُنیا کے سامنے پور طرح اس بات کی نمائش کی گئی کہ خدا سے علیحدہ رہ کر انسانیت سرفرازی حاصل نہیں کر سکتی۔ اسے سر فراز کرنے کے لیے لازم ہے کہ جس نے دُنیا بنائی ہے وہ اس میں نیا عنصراور قوت ڈالے۔ ZU 35.1

    وہ دُنیائیں جو گناہ میں نہیں گری تھیں وہ بڑی حیرت اور دلچسپی سے دیکھ رہی تھی کہ خداوند اُٹھا ہے اور اُس نے زمین کے باشندوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا ہے۔ اور اگر خداوند ایسا کرتا ہے تو لو سیفر تیار تھا تاکہ آسمانی مخلوق اپنی تابعداری کے لئے محفوظ کر لے۔ کیونکہ اُس نے اعلان کیا تھا کہ خدا کے لئے معاف کرنا نا ممکن ہے۔ اگر ہماری دُنیا برباد کر دی جاتی تو وہ فوراً کہہ دیتا کہ خدا کے خلاف میں نے جو الزامات لگائے تھے وہ سچے ثابت ہوئے۔ یوں وہ آسمانی دُنیا میں بغاوت کا جھنڈا کھڑا کر دیتا۔ مگر ہماری دُنیا کو برباد کرنے کی بجائے خداوند خدا نے اسے بچانے کے لئے اپنے بیٹے کو بھیج دیا۔ گو اس دُنیا کے ہر کونے میں بد کاری دیکھی جا سکتی تھی مگر اس کی اصلاح کے لیے علاج بھی دریافت کر لیا گیا۔ عنقریب جب ابلیس فتح پانے کو تھا توخدا کا بیٹا الہی فضل لے کر اس دُنیا میں آ گیا۔ انسانی خود سری کے باوجود رحم کا اعلان بدستور جاری رہا۔ اور جب وقت پورا ہو گیا تو خداوند کے گونا گوں فضل نے اس دُنیا کو گھیر لیا اور اُس وقت تک گھیرے رہے گا جب تک نجات کی تجویز پایہ تکمیل کو نہ پہنچ جائے۔ ZU 36.1

    بے شک ابلیس اس بات پر غرور کرتا ہے کہ اُس نے خدا کی شبیہ کو جو انسان کے اندر تھی اُسے مسخ کر کے رکھ دیا ہے۔ مگر خداوند یسوع مسیح خدا کی اُسی شبیہ کو انسان میں بحال کرنے آگیا۔ وہ سیرت جو تباہ ہو چکہ تھی اُسے صرف خداوند مسیح ہی بحال کر سکتا ہے۔ وہ اُن بد روحوں کو انسان میں سے نکالنے آیا جو ہمارے ذہیں و دماغ پر قابض تھیں۔ وہ آیا تاکہ ہمیں پستی سے اُٹھا کر اپنی سیرت پر بحال کرے اور اپنے جلال سے اُس میں حسن و جمال پیدا کرے۔ ZU 36.2

    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents