Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents

زمانوں کی اُمنگ

 - Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First
    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents

    باب نمبر ۱ - خدا ہمارے ساتھ

    اُس کا نام عما نوایل ہو گا۔ خدا ہمارے ساتھ ہے” خدا کے جلال کی خوشخبری کی روشنی مسیح خداوند کی صورت میں دیکھی گئی“۔ کرنتھیوں 4:4 ZU 11.1

    ابدیت سے ہی مسیح یسوع خدا کے ساتھ متحد تحا۔ وہ خدا کی شبیہ تھا۔ وہ خدا کی بڑائی اور اُسکی شان و شوکت کی شبیہ تھا۔اپنے جلال کی بے نہایت آب و تاب کو اُسے ہماری دُنیا پر آکر ظاہر کرنا تھا۔ وہ اس گناہ بھری اور باریک دنیا میں آیا تا کہ خدا کی محبت کی ضیا چمکائے۔ وہ آیا تاکہ خدا کی طرح ہمارے ساتھ ہو۔ اسی لئے اُس کے حق میں پیشنگوئی کی گئی تھی کہ اُس کا نام عما نوایل ہو گا”ZU 11.2

    آسمان سے آ کر ہمارے ساتھ بودوباش رکھنے کے وسیلہ اُسے دونوں انسان اور فرشتوں پر خدا کو آشکارہ کرنا تھا۔ وہ خدا کا کلام تھا۔ مسیح کے ذریعے خدا کے خیالات کا اظہار ہوا۔ مسیح خداوند نے اپنے شاگردوں کے لئے جو دُعا مانگی اُس میں اُس نے کہا “میں نے تیرے نام کو اُن پر ظاہر کیا” یعنی خداوند خدا ہی رحیم اور مہربان قہر کرنے میں دھیما اور شفقت اور وفا میں غنی۔ اور جس طرح کہ تو نے مجھ سے محبت رکھی اُن سے بھی محبت رکھی۔ جو محبت تجھ کو مجھ سے تھی وہ اُن میں ہو اور میں اُن میں ہوں ” یوحنا 26:17 ہماری یہ چھوٹی سی دنیا کُل کائنات کے لئے بطور کتاب ہے۔ خدا کے فضل کا حیرت انگیز سبب اور اُس کی نجات بخش محبت کے بھید کو فرشتے دیکھنے کے متمنی ہیں۔ نیز یہ کتاب تاحیات اُن کے زیر مطالعہ رہے گی۔ راستباز اور بدکاردونوں نجات یافتہ لوگ اور فرشتگان خداوند یسوع مسیح کی صلیب میں علم اور گیت پائیں گے۔ اور یہ دیکھا جائے گا کہ مسیح کے پہرے پر درخشاں جلال اُس کی محبت کا جلال ہے جو خود انکاری پر مبنی ہے۔ کلوری سے نکلنے والی روشنی میں دیکھا جائے گا کہ زمین اور آسمان پر خود انکاری کی محبت ہی زندگی کا اصول ہے۔ یعنی ایسی محبت جو اپنی بہتری نہیں چاہتی۔ اور یہ خدا سے صادر ہوتی ہے۔ اور یہ محبت اُس حلیم اور شکستہ دل میں بسیرا کرتی ہے جو نور میں رہتا ہے۔ ZU 11.3

    ابتدا میں خدا تمام تخلیق سے آشکارہوتا تھا۔ یہ یسوع مسیح تھا جس نے آسمان کو پھیلایا اور زمین کی بنیاد رکھی۔ یہ اُس کا ہی دست مبارک تھا جس نے دُنیاوں کو فضا میں لٹکایا اور کھیت کے پھولوں کو ترتیب دیا۔ اُس کی قوت نے پہاڑوں کو استحکام بخشا۔ سمندر اُس کے ہیں اور اُس نے اُن کو بنایا۔ زبور 6:65 ، زبور 5:95 ۔۔۔۔۔ اُس نے زمین کو خوبصورتی سے معمور کیا اور فضا کو نغموں سے بھر پور۔ اُس نے زمین کی تمام چیزوں پر آسمان اور فضا میں خدا کی محبت کا پیغام تحریر کر دیا۔ ZU 12.1

    گو گناہ نے خدا کی کامل صنعت گری کو مسخ کر دیا ہے پھر بھی اُس تحریر اُس کے ہاتھ کے بنائے ہوئے کاموں پر قائم ہے۔ اب بھی تمام تخلیق اُس کے جلال کی عظمت کا اعلان کرتی ہے۔ انسان کے خود غرض دل کے علاوہ تخلیق میں کوئی اور چیز ایسی نہیں جو دوسروں کے کام نہ آتی ہو۔ فضا میں اُڑنے والا یا زمیں پر چلنے والا کوئی بھی ایسا جانور نہیں جو دوسروں کی خدمت نہ کرتا ہو۔ ہر درخت ہر جھاڑی زندگی کا ایسا عنصر مہیا کرتی ہے جس کے بغیر کوئی انسان یا جاندار زندہ نہیں رہ سکتا۔ اس کے عوض انسان درختوں اور جھاڑیوں کے کام آتا ہے۔ پھول اپنی خوشبو اور خوبصورتی دُنیا کو عطا کرتے ہیں۔ سورج ہزاروں دنیاوں کو اپنی روشنی سے شاداں کرتا ہے۔ سمندر جو ہمارے تمام ندی نالوں کا منبع ہے وہ تمام سر زمیں کی ندیوں کا پانی صرف اس لئے حاصل کرتا ہے تاکہ پھر ہمیں چشموں اور سوتوں کی صورت میں واپس دے۔ کُہر جو زمین سے اُٹھتی ہے وہ بارش کی صورت میں واپس دھرتی پر آتی ہے تاکہ سبزیات برومند ہوں۔ ZU 12.2

    وہ روحیں جو گناہ میں گر کر نجس ہو چکی ہیں جلالی فرشتے اُن کی بے لوث اور ان تھک نگرانی کر کے بڑی خوشی محسوس کرتے ہیں۔ آسمانی مخلوق انسانی دل کو جیتنے کی کوشش کرتی ہے۔ وہ آسمانی بارگاہوں سے اس تاریک دنیا میں تور لاتی اور انسانی روح پر بڑی مخلص اور پُر اُمید خدمت بجا لاتی ہے۔ اور ہم انسان جو کھو چکے ہیں اُن کو مسیح کی رفاقت میں لانے کے لئے کوشاں ہیں۔ ایسا کرنے سے وہ ہم انسانوں کو خدا کے نہائت قریب لے آتے ہیں۔ ZU 13.1

    ان تمام چھوٹے موٹے نمائیندگان کو چھوڑ کر ہم مسیح میں خداوند کو دیکھتے ہیں۔ خداوند یسوع کی طرف تکنے سے ہم جانتے ہیں کہ دوسروں کی خدمت میں ہی خداوند کا جلال ہے۔ خداوند یسوع مسیح نے فرمایا میں اپنے تئیں کچھ نہیں کرتا، زندہ خداوند نے مجھے بھیجا ہے اور میں باپ میں زندہ ہوں۔ میں اپنا جلال نہیں چاہتا بلکہ اُس کا جلال جس نے مجھے بھیجا ہے۔ یوحنا 28:8 یوحنا 57:6یوحنا 50:8 یوحنا 18:7۔۔۔۔۔۔۔ اس کلام میں کائنات سے پایا تاکہ اصول اور ضابطے رکھ دئیے گئے ہیں۔ سب کچھ مسیح یسوع نے خداوند سے پایا تاکہ دوسروں کو دے۔ پس آسمانی بارگاہوں میں بیٹے کے ذریعےسے خدا کی زندگی تما مخلوق میں جاری و ساری رہتی ہے۔ اور اس کے عوض تمام کائنات خالق خداوند کی حمدو ثنا اور خدمت بجا لاتی ہے۔ یوں مسیح کی وساطت سے فلاح و بہبود کا دائرہ پایہ تکمیل کو پہنچتا ہے۔ ZU 13.2

    مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ آسمانی بارگاہوں میں اس اصول کی قانون شکنی ہوئی۔ خود غرضی گناہ کی ابتدا بنی۔ لو سفیر جو سایہ افگن کروبی تھا اُس کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ وہ ساری آسمانی مخلوق کا سردار ہو۔ پس اُس نے چاہا کہ تمام آسمانی مخلوق کو اُن کے خالق سے دور کر کے اپنی طرف کھینچ لے تاکہ وہ سب خدا کی بجائے اُس کے حضور جھکیں۔ لہذا اُس نے خداوند خدا کو آسمانی مخلوق کے سامنے غلط طور سے پیش کرتے ہوئے کہا کہ خداوند بڑا خود غرض ہے وہ صرف اپنی ہی بزرگی کا خواہاں ہے۔ اصل میں اس کی بدکار خصلت نے خالق خداوند کا مقام چھیننے کا منصوبہ بنایا۔ اس طرح اُس نے فرشتوں کو ورغلایا۔ اوراسی طرح انسانوں کو بھی خدا کے کلام اور اُس کی نیکی اور بھلائی پر شک کرنے کے لیے لوسفیر نے فرشتوں اور انسانوں کی رہنمائی کی۔ اُس نے اُن کو کہا کہ چونکہ خداوند انصاف کا خداوند ہے اور جابر حکمران اس لئے وہ گنہگار کو معاف نہ کرے گا۔ پس اُس نے انسانون کو خدا کے خلاف بغاوت میں اپنے ساتھ ملا لیا۔ اس طرح دُنیا پر گموں اور اُداسیوں کی رات چھا گئی۔ خداوند کو غلط انداز میں پیش کرنے کی وجہ سے دُنیا تاریک ہو گئی۔ غم واندوہ کے سایہ میں ڈھکی ہوئی دُنیا کو روشن کرنے اور اُسے خالق خداوند کے پاس واپس لانے کے لئے لازم ہے کہ لوسفیر کے دھوکوں کی طاقت کی ملیا میٹ کیا جائے۔ یہ سب کچھ تشدد کے ذریعے نہیں ہو سکتا تھا کیونکہ تشدد خدا کی حکومت کے ضابطوں کے خلاف ہے۔ وہ تو صرف محبت کی خدمت پسند کرتا ہے۔ اور محبت حکم یا جبر سے حاصل نہیں ہو سکتی۔ محبت صرف محبت کے ذریعہ ہی جیتی جا سکتی ہے۔ خدا کو جاننے کے لئے اُسے محبت دکھانا اور اپنے اندر ابلیس کی سیرت کے برعکس خداوند کی سیرت منعکس کرنا ضروری ہے۔ پوری کائنات میں صرف ایک ہی ہستی اس کام کو انجام دے سکتی ہے۔ وہی جو خدا کی مھبت کی گہرائی اور اُنچائی سے واقف ہے۔ دُنیا کی سیاہی پر راستبازی کے سورج کے سورج کو طلوع ہونا لازم ہے۔ کیونکہ لکھا ہے “آفتاب صداقت طالع ہو گا اور اُس کی کرنوں میں شفا ہو گی” ملاکی 2:4 ZU 14.1

    ہماری نجات کی تجویز آدم کے گناہ میں گرنے سے پہلے بنالی گءی تھی۔ مگر ازل سے پوشیدہ رہی۔ لکھا ہے “اب خدا جو تم کو یسوع مسیح کی منادی کے موافق مضبوط کر سکتا ہے اُس بھید کے مکاشفہ کے مطابق جوازل سے پوشیدہ رہا” رومیوں 26:16 ابدیت سے یہ مکاشفہ خداوند کے تخت کی بنیاد رہا ہے۔ خداوند اور یسوع دونوں ابتدا سے جانتے تھے کہ ابلیس برگشتہ ہو جائے گا اور اُس کے ذریعہ سے انسان بھٹک جائے گا۔ عالم الغیب ہوتے ہوئے خدا نے گناہ کی موجودگی کو بھانپ لیا تھا اور اس ہنگامی صورت حال سے نپٹنے کے لئے پیشتر انتظام بھی کر لیا تھا لہذا اُس کی محبت عظیم ہے کہ اُس نے گنہگار دُنیا کے لئے اپنا بیٹا دے دیا۔ “تاکہ جو کوئی اُس پر ایمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے” یوحنا 16:3 ZU 15.1

    لو سفیر نے تو کہا تھا کہ میں آسمان پر چڑھ جاوں گا۔ میں اپنے تخت کو ستاروں سے بھی اونچا کروں گا۔ میں خداوند تعالی کی مانند ہوں گا” یسعیاہ 14-13:14 ZU 15.2

    لیکن خداوند یسوع مسیح اگرچہ خدا کی صورت پر تھا خدا کے برابر ہونے کو قبضہ میں رکھنے کی چیز نہ سمجھا۔ بلکہ اپنے آپ کو خالی کر دیا اور خادم کی صورت اختیار کی اور انسانوں کے مشابہ ہو گیا۔ “فلپیوں 7-6:2 خداوند یسوع مسیح کی یہ رضاکارانہ قربانی تھی۔ وہ خدا کا جلال قائم رکھ کر فرشتوں کی خدمت قبول کر سکتا تھا۔ لیکن اُس نے شاہی عصا کو واپس اپنے باپ کو دینے کا انتخاب کیا۔ اور اپنے آپ کو پست کر لیا تا کہ تاریک دُنیا میں اپنا نور کمکائے اور تباہ ہونے والی مخلوق کو ابدی زندگی عطا کرے۔ کم و بیش دو ہزار سال کا عرصہ ہوا کہ آسمان سے ایک حیرت انگیز آواز خدا کے تخت سے سنائی دی۔ “تو نے قربانی اور نذر کو پسند نہ کیا۔ بلکہ میرے لئے ایک بدن تیار کیاوقت میں نے کہا کہ دیکھ، میں آیا ہوں ، کتابوں کے ورقوں میں میری نسبت لکھا ہوا ہے، تاکہ اے خداوند، تیری مرضی پوری کروں” عبرانیوں 7-5:10 ان الفاظ میں ازل سے جو بھید پوشیدہ تھا اس کی تکمیل کا اعلان ہوتا ہے۔ یعنی مسیح خداوند جو مجسم ہو کر ہماری دنیا میں آنے کو تھا وہ کہتا ہے کہ تو میرے لئے ایک بدن تیار کیا جو جلال اُسے شروع سے باپ کے ساتھ تھا تو ہم اُسکی حضوری کو برداشت نہ کر سکتے۔ دوسرے لفظوں میں اُسے دیکھ کر زندہ نہ رہ سکتے۔ اُسکی الوہیت بشریت میں چُھپ گئی اُس کا انوکھا جلال بشریت میں نمودار ہوا۔ ZU 15.3

    یہ عظیم مقصد بسا اوقات تمثیلوں، علامتوں اور تشیہوں کے ذریعہ دکھایا گیا تھا۔ جلتی جھاڑی جس کے ذریعہ مسیح موسے پر ظاہر ہوا خدا کی نمائندگی کرتا تھا۔ یہاں جو علامت ذات الہی کے لئے منتخب کی گئی وہ معمولی سی جھاڑی تھی جس میں کوئی خوبصورتی نہ تھی۔ تاہم اس معمولی سی جھاڑی نے الوہیت کو چھپا رکھا تھا۔ قادر مطلق نے خود کو اس حقیر سی جھاڑی میں اس لئے چھپا رکھا تھا تاکہ موسی اس پر نظر کر کے زندہ رہے۔ اور اس طرح دن کے وقت بادل اور رات کے وقت آگ کے ستونوں کے ذریعہ خداوند نے بنی اسرائیل کے ساتھ اپنا رابطہ اور ناطہ قائم رکھا۔ ان کے ذریعے خدا نے بنی اسرائیل پر اپنا منشا ظاہر کیا اور اپنا فضل عطا کیا۔ یوں خدا کا پورا جلال کم ہو کر پردے میں چلا گیا۔ تاکہ کمزور انسان اُس کا نظارہ کر سکے۔ اسی لئے مسیح خداوند کو انسانی بدن میں آنا پڑا۔ یعنی اُس نے ہماری پست حالی کے بدن کو اختیار کیا۔ دنیا کی نظر میں اُس میں کوئی خوبصورتی نہ پائی جاتی تھی کہ کوئی اُس کا مشتاق ہو پھر بھی وہ خدا سے مجسم ہوا تاکہ حلیموں اور کمزوروں دکھیوں اور آزمائش میں گھرے ہووں کو اپنی طرف کھینچ لے۔ ZU 16.1

    بنی اسرائیل کے لئے خداوند نے موسی کو فرمایا ” وہ میرے لئے ایک مقدس بنائیں تاکہ میں اُن کے درمیان سکونت کروں۔ وہ ہیکل میں اپنے لوگوں کے درمیان رہا۔ بیابان کے پریشان کن سفر کے دوران اُسکی موجودگی کی علامت اُن کے ساتھ تھی۔ پس یسوع مسیح نے ہم انسانوں کے درمیان اپنی مقدس ہیکل قائم کی۔ اُس نے اپنا خیمہ ہم انسانوں کے خیموں کے ساتھ خیمہ زن کیا تاکہ وہ ہمارے ساتح رہے۔ اور ہمین اپنی الہی سیرت سے روشناس کرائے۔ اور کلام مجسم ہوا اور فضل اور سچائی سے معمور ہو کر ہمارے درمیاں رہا اور ہم نے اُس کا ایسا جلال دیکھا جیسا باپ کے اکلوتے کا جلال“۔ ZU 17.1

    جب سے خداوند یسوع مسیح ہمارے ساتھ رہنے کے لیے آیا ہے ہم جانتے ہیں کہ اُس وقت سے خدا ہماری آزمائشوں سے واقف ہے اور ہمارے رنج و الم کے باعث ہم سے ہمدردی جتاتا ہے۔ آدم کے ہر بیٹے اور بیٹی کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہمارا خالق ہم گنہگاروں کا دوست ہے۔ کیوں کہ فضل کی تمام تعلیم ، خوشی و مسرت کا ہر وعدہ، محبت کا ہر عمل ہم مسیح کی زندگی میں بخوبی دیکھ سکتے ہیں۔ ZU 17.2

    ابلیس خدا کی محبت کی شریعت کو خود غرضی کی شریعت سے تعبیر کرتا ہے۔ وہ اعلانیہ کہتا ہے کہ اُس کی شریعت کو ماننا ہمارے لئے ناممکن ہے۔ ہمارے پہلے والدین کے گناہ کے نتیجہ میں جو دُنیا پر مصائب آئے اُسکا الزام ابلیس خدا کو دیتا ہے۔ وہ انسانوں کو کہتا ہے کہ خدا گناہ موت اور رنج و الم کا بانی ہے۔ یسوع مسیح آیا تاکہ اس گمراہی پر سے پردہ اُٹھائے۔ وہ تابع داری کا مونہ دینے آیا۔ اس کے لیے اُس نے اپنے اوپر فطر ت لی اور ہمارے تجربات میں سے گذرا” پس اُس کو سب باتوں میں اپنے بھائیوں کی مانند بننا لازم ہوا۔ “وہ سب باتوں میں ہماری طرح آزمایا گیا تو بھی بے گناہ رہا” جو آزمائش ہم پر آتی ہیں وہ ان سب میں آزمایا گیا اور جو مدد ہمیں میسر ہے اُس سے زیادہ کا اُس نے مطالبہ نہ کیا۔ عام انسان کی طرھ اُس نے آزمائش کا مقابلہ کیا اور اُس پر اُس طاقت سے غالب آیا جو اُسے خدا سے میسر تھی۔ “اے میرے خدا، میری خوشی تیری مرضی پوری کرنے میں ہے بلکہ تیری شریعت میرے دل میں ہے۔ زبور 8:40 جونہی وہ نیکی کرنے اور اُن سب کو شفا دینے گیا جو ابلیس کے ہاتھوں دُکھ اُٹھا رہے تھے تو اُس نے خدا کی شریعت کے اوصاف اور اپنی خدمت اُن پر ظاہر کی۔ اُس کی زندگی اس بات کی شاہد ہے کہ خدا کی شریعت کو ماننا ہمارے لئے بحی ممکن ہے۔ ZU 17.3

    اپنی بشریت کے ذریعے اُس نے بشریت یعنی بنی نوع انسان تک رسائی کی اور اپنی الوہیت سے وہ خدا کے تخت کو تھامے ہوئے تھا۔ ابن آدم ہونے کی حیثیت سے اُس نے ہمیں تابعداری کا نمونہ دیا۔ اور خدا کا بیٹا ہونے کی حیثیت سے وہ ہمیں تابعداری کرنے کی قوت عطا کرتا ہے۔ یہ خداوند یسوع مسیح ہی تھا جس نے جھاڑی میں سے موسی کو کہا “میں جو ہوں سو ہوں” پھر اُس نے ہی موسی سے فرمایا کہ تو بنی اسرائیل کو کہ “میں جو ہوں” نے تجھے اُن کے پاس بھیجا ہے۔ خروج 14:3 اور یہی بنی اسرائیل کی جنات کا عہد تھا۔ پس جب وہ “انسان کے روپ میں آیا” تو اُس نے بتایا کہ میں بیت الحم کا وہی بچہ ہوں جو نجات دہندہ ہو کر آیا ہوں اس میں کلام نہیں کہ دینداری کا بھید بڑا ہے۔ یعنی وہ جو جسم میں ظاہر ہوا اور روح میں راستباز ٹھہرا اور فرشتوں کو دکھائی دیا اور غیر قوموں میں اُس کی منادی ہوئی۔ اور دُنیا میں اُس پر ایمان لائے اور جلال میں اوپر اُٹھایا گیا۔ ZU 18.1

    آج وہ ہم سے کہتا ہے “میں اچھا چرواہا ہوں” “میں زندہ روٹی ہوں” میں راہ حق اور زندگی ہوں ” زمین اور آسمان کا کُل اختیار مجھے دیا گیا ہے۔ آج وہ ہم سے کہتا ہے کہ میں ہر وعدے کا ضامن ہوں۔ “میں ہوں” نہ ڈرو “خدا ہمارے ساتھ۔ گناہ سے ہماری رہائی کی ضمانت ہے اور وہ ہمیں آسمانی شریعت کو ماننے کی قوت کی ضمانت بھی دیتا ہے۔ ZU 19.1

    بشریت کو اپنے اوپر لینے سے مسیح یسوع نے ابلیس کی خصلت کے برعکس سیرت کا مظاہرہ کیا۔ تاہم اُس نے خود کو اتنا پست کر دیا کہ وہ ہم انسانوں کے برابر ہر گیا۔ اُس نے اپنے آپ کو خالی کر دیا اور خادم کی صورت اختیار کی اور انسانوں کے مشابہ ہو گیا۔ اور انسانی شکل میں ظاہر ہو کر اپنے آپ کو پست کر دیا اور یہاں تک فرمانبردار رہا کہ موت بلکی صلیبی موت گوارہ کی۔ فلپیوں 8-7:2 ZU 19.2

    جس طرح سردار کاہن کو اپنا چوغہ اُتار کر سفید لباس پہننا ہوتا تھا جو عام کاہن کا ہوا کرتا تھا اسی طرح مسیح کو بھی خادم کی صورت اختیار کرنا پڑی تاکہ قربانی گذرانے۔ مگر سردار اور مسیح میں یہ فرق ہے کہ خداوند مسیح خود ہی قربانی کا برہ بنا اور خود ہی سردار کاہن “وہ ہماری خطاوں کے سبب سے گھائل کیا اور ہماری بدکاری کے باعث کُچلا گیا۔ ہماری ہی سلامتی کے لئے اُس پر سیاست ہوئی تاکہ اُس کے مار کھانے سے ہم شفا پائیں” یسعیاہ 5:53 ZU 19.3

    جس سزا اور سلوک کے ہم مستحق تھے وہ یسوع کو برداشت کرنا پڑا تاکہ اُس کے استحقاق کو ہم استعمال کر سکیں۔ وہ ہمارے گناہوں کے سبب ملعون ٹھہرا تا کہ ہم اُس کی راستبازی ہو جائیں۔ اُ س نے ہماری ملعون موت اپنے اوپر لے لی تا کہ اُس زندگی ہم پائیں۔ اُس کے مار کھانے سے ہم نے شفا پائی۔ ZU 20.1

    اپنی زندگی اور موت کے ذریعے خداوند مسیح نے اُس نقصان سے کہیں زیادہ فائدہ حاصل کر لیا جو گناہ کے سبب سے ہوا تھا۔ ابلیس کا منشاء یہ تھا کہ ہم انسان خدا سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جُدا ہو جائیں۔ مگر ہم خداوند یسوع مسیح میں خدا کے بہت قریب ہو گئے۔ نجات دہندہ نے ہماری فطرت اپنے اوپر لینے سے بنی نوع انسان کے ساتھ اس قدر پختہ کر لیا ہے جو کبھی ٹوٹنے کا نہیں۔ کیونکہ خدا نے دُنیا سے ایسی محبت رکھی کہ اُس نے اپنا اکلوتا بیٹا بخش دیا یوحنا 16:3۔ خدا نے صرف ہمارے گناہ برداشت کرنے کے لیے ہک نہیں بلکہ پوری نسل انسانی کے لئے اُسے دے دیا ہے۔ اب سے ابد تک وہ انسانی جامہ میں رہے گا اور یہ خداوند کی طرف سے ہماری نجات کے لیے بہت بڑی ضمانت ہے کہ اُس کا بیٹا الوہیت کے جامہ کو اُتار کر بشریت کے جامہ میں آ گیا۔ اور یہی وہ عہد ہے جس کی خداوند ضرور ہی پاسداری کرے گا۔ “ہمارے لیے ایک لڑکا تولد ہوا اور ہم کو ایک بیٹا بخشا گیا اور سلطنت اُس کے کندھے پر ہو گی” خداوند نے اپنے بیٹے کے وسیلہ انسانی فطرت کو اپنایا ہے۔ یہ ابن آدم ہی ہے جو کائنات کے تخت کا حصہ دار ہے۔ یہ یہ ابن آدم ہی ہے جس کا نام عجیب مشیر خدائی قادر، ابدیت کا باپ سلامتی کا شہزادہ ہے“۔ یعیاہ 16:9 وہ خدا اور انسان کا درمیانی ہے وہ پاک، بے ضرر، گنہگاروں سے جُدا ہے۔ مگر ہمیں اپنے بھائی کہلانے سے نہیں شرماتا۔ عبرانیوں 26:7، عبرانیوں 11:2 مسیح یسوع میں زمینی اور آسمانی خاندانی متحد ہیں۔ ZU 20.2

    اپنے لوگوں کے بارے خداوند فرماتا ہے کہ وہ “تاج کے جواہر کی مانند ہوں گے۔ جو اُس کے ملک میں سرفراز ہوں گے۔ کیوں کہ اُن کی خوشحالی عظیم اور اُن کا جمال خوب ہے“۔ زکریاہ 17-16:9 نجات یافتگان کی بزرگی خداوند کے رحم کی مکمل گواہی ہو گی۔ تاکہ وہ اپنی اُس مہربانی سے جو مسیح یسوع میں ہم پر آنے والے زمانوں میں اپنے فضل کی بے نہائت دولت دکھاءے“افسیوں 7:2 “تاکہ اب کلیسیا کے وسیلہ سے خدا کی طرح طرح کی حکمت اُن حکومت والوں اور اختیار والوں کو جو آسمانی مقاموں میں ہیں معلوم ہو جائے۔ اُس ازلی ارادہ کے مطابق جو اُس نے ہمارے خداوند مسیح یسوع میں کیا تھا۔ “افسیوں 10:3-11 مسیح یسوع کے نجات بخش کام کی بدولت خدا کی بادشاہی راست ٹھہرتی ہے یوں قادر مطلق محبت کے خدا کے طور پر جانا جاتا ہے۔ ابلیس کے الزام غلط ثابت ہوتے ہیں اور اُس کی خصلت دنیا کے سامنے کھُل کر آ جاتی ہے۔ بغاوت پھر کبھی سر نہ اُٹھائے گی۔ پھر ابدیت تک کوئی برگشتہ نہ ہو گا۔ خود انکاری کی محبت کے ذریعہ زمینی اور آسمانی مخلوق نہ جُدا ہونے والے بندھن میں بندھ گئے ہیں۔ ZU 21.1

    مخلصی کا کام مکمل ہو جائے گا۔ گناہ کی جگہ خدا کا فضل افزوں ہو گا۔ یہ زمین جسکا ابلیس بڑا دعویدار ہے اُس کا نہ صرف کفارہ دیا جائے گا بلکہ اس کی بڑی بزرگی اور تکریم ہو گی۔ ہماری یہ چھوٹی سی دنیا جو گناہ کی لعنت تلے ہے اور ظلمت کدہ بن چکی ہے یہ خدا کے باقی تمام عالموں میں سب سے زیادہ عزت کی نگاہ سے دیکھی جائے گی۔ یہ دُنیا جہاں خدا کا بیٹا انسانوں کے ساتھ رہا۔ یہ دُنیا جہاں بادشاہوں کے بادشاہ نے دکھ اُٹھایا۔ اسی زمین پر جہاں وہ ہر چیز کو نیا بنا دے گا۔ وہ ہمارے ساتھ رہے گا اور خداوند ہو گا۔ ZU 21.2

    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents