Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents

زمانوں کی اُمنگ

 - Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First
    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents

    باب نمبر 15 - شادی کی ضیافت

    “خداوند یسوع مسیح نے اپنی خدمت کا آغاز یروشیلم میں کوئی بڑا حیرت انگیز کام دکھا کر نہ کی۔ بلکہ گلیل کے چھوٹے سے گاوں میں شادی کے موقع پر شادی کی خوشیوں کو دوبالا کرنے کے لئے اُس نے معجزہ دکھایا۔ یوں اُس نے ظاہر کیا کہ اُس کی ناداروں کی مدد کرنے میں ہے ۔ بیابان میں سے آزمائش کے ناگوار پیالے کو چکھنا پڑا تاکہ وہ بنی نوع انسان کو اپنی برکات سے لبریز پیالہ پیش کر سکے۔ ZU 161.1

    یردن سے یسوع گلیل کو چلا گیا۔ وہاں قانامی گلیل میں ایک شادی کی ضیافت ہو رہی تھی۔ یہ گاوں ناصرت سے زیادہ دُور نہ تھا۔ دُلہا اور دُلہن کے عزیزو اقارب مقدسہ مریم اور یوسف کے رشتہ داروں میں سے تھے۔ پس یسوع اور اُس کے شاگرد اس شادی میں شامل ہوئے۔ کچھ عرصہ گھر سے دور رہنے کے بعد اس شادی میں یسوع اپنی ماں سے ملا۔ مقدسہ مریم نے اُس ظہور کے بارے جو دریائے یردین کے کنارے یسوع کے بپتسمہ پانے کے وقت ہوا اُس کے بارے سن رکھا تھا جس سے اُس کے ایمان کو تقویت ملی۔ اور جو باتیں فرشتہ کے ذریعے اُسے بتائی گئیں تھیں اُسے پوری ہوتی نظر آئیں۔ مقدسہ مریم تمام اسرائیل سے زیادہ یوحنا بپتسمہ دینے والے کے مشن سے پریشان تھی۔ اُس کی پیدائش کے موقع پر جو پیشنگوئی کی گئی تھی وہ اُس سے بھی بخوبی واقف تھی۔ یوحنا نے جو اپنا تعلق یسوع کے ساتھ بتایا اُس سے بھی وہ بہت خوشی ہوئی یعنی “میں اُس کی راہ تیار کرنے والا ہوں” آپ اُس کی اُمیدوں میں نئی جان آگئی۔ مگر اُسے یہ بھی خبر ملی کہ یسوع بیابان میں چلا گیا ہے جس سے اُس دل بیٹھ گیا۔ جس روز سے ناصرت میں فرشتے کا پیغام سنا تھا۔ اُسی روز سے اُس نے مسیح کے بارے اُن تمام شواہد کو اپنے دل میں قیمتی خزانے کے طور جمع کر لیا تھا جو اُسے مسیح موعود ثابت کرتے تھے۔ یسوع کی پاکیزگی اور بے لوث زندگی سے اُسے پورا پورا یقین ہو چکا تھا کہ اُسے خدا ہی نے بھیجا ہے۔ اس کے باوجود شکوک اور مایوسیوں نے اُسے گھیر رکھا تھا۔ اس لئے وہ بڑی شدت سے اُس کے جلال کے ظہور کے لئے منتظر تھی۔ مقدسہ مریم کے خاوند یوسف کا انتقال ہو چکا تھا۔ جو یسوع مسیح کی پیدائش کے بھید سے واقف تھا۔ اب کوئی اور اتنا قریبی نہیں تھا جسے وہ راز دار بنا کر اپنی اُمید اور خوف و ہراس کا اظہار کر سکتی۔ گذشتہ دو ماہ بڑی مایوسیوں اور اُداسیوں کے تھے۔ وہ یسوع مسیح سے بھی جُدا ہو گئی تھی جو اُس کے لئے ہمدردی اور تسلی و تشفی کا باعث تھا۔ اس دوران اُس نے بزرگ شمعوں کے اس کلام پر کافی غوروخوض کیا۔ “بلکہ خود تیری جان بھی تلوار سے چھد جائے گی تاکہ بہت لوگوں کے دلوں کے خیال کھل جائیں “لوقا 35:2 اُسے اُن تین دنوں کی اذیت یاد آئی جب یسوع عید فسح کے موقع پر اُن سے بچھڑ گیا تھا کیوں کہ اُس موقع پر بزرگ یوسف اور مقدسہ مریم کو گمان ہوا کہ شائد یسوع اب اُن سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بچھڑ گیا ہے۔ ZU 161.2

    مقدسہ مریم اس شادی کے موقع پر اپنے وفادار، فرض شناس اور حساس بیٹے سے ملی۔ مگر اب وہ پہلے والا بیٹا نہ تھا۔ اُس کا چہرہ بدل چکا تھا۔ بیابان میں جو سختیاں جھیلی تھیں اُن کے آثار چہرے سے نمایاں تھے۔ اس کے علاوہ تحمل، رواداری اور خود اعتمادی جیسے وصف اُس کے آسمانی مشن کی عکاسی کر رہے تھے۔ اُس کے ہمراہ نوجوانوں کی ٹولی تھی جو بڑی عقیدت سے اُس کی پیروی کر رہی تھی۔ اُن نوجوانوں کی محبت اور عقیدت کا یہ عالم تھا کہ وہ اُسے آقا کہہ کر پکارتے تھے اور مقدسہ مریم کو تمام واقعات تفصیلاً بتا رہے تھے۔ اور یہ بھی کہ اُنہوں نے بپتسمہ کے وقت کیا دیکھا اور کیا سنا۔ آخر میں اُنہوں نے اعلانیہ کہا “جسکا ذکر موسیٰ نے اور نبیوں نے کیا وہ ہم کو مل گیا ہے۔ “یوحنا 45:1ZU 162.1

    آسمانوں کی آمد پر ہر طرف گہما گہمی تھی۔ مختلف طریقوں سے خوشی کا اظہار ہو رہا تھا۔ موقع محل کے مطابق اُن کی گفتگو کے موضوع بڑے دلچسپ تھے۔ جن میں ہر کوئی مگن دکھائی دیتا تھا۔ چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں لوگ خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ اُن میں سے بعض حیرت سے ابن مریم کی طرف گاہے گاہے دیکھ لیتے اور زیرو لب اُس کے بارے کچھ اظہار خیال کرتے۔ جب کہ شاگردوں کی زبانی مقدسہ مریم نے یسوع کے بارے گواہی سنی تو اُس کی خوشیاں بیاں سے باہر ہو گئیں۔ اب اُسے یقین ہو گیا کہ اُس کی اُمید بے سود نہ تھی۔ جب مقدسہ مریم نے دیکھا کہ اس مجمع میں کوئی ایسا نہیں جس کی آنکھیں ابن مریم پر نہ لگی ہوں تو اُس کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ کاش یسوع یہاں ثابت کر دکھائے کہ وہ خدا کا ستودہ ہے۔ یقیناً وہ کسی بڑے معجزات کی اُمید کرتی تھی۔ ZU 163.1

    ان دنوں میں دستور کے مطابق شادی کا عرصہ کئی دنوں پر محیط ہوتا تھا۔ اس سے پہلے کہ شادی کے دن پورے ہوتے مے تمام ہو گئی۔ جس کی وجہ سے دُلہا کے گھر والوں کو بڑی شرمساری کا سامنا تھا۔ کیونکہ دستور کے مطابق مے کے بغیر ضیافت ادھوری خیال کی جاتی تھی اور اگر مے ختم ہو جاتی تو مہمان نوازی پر حرف آتا تھا۔ مقدسہ مریم نے اس نازک صورت حال سے مسیح یسوع کو آگاہ کیا کہ “اُن کے پاس مے نہیں رہی” حقیقت میں مقدسہ مریم المسیح کو مشورہ دے رہی تھی کہ تو ان کی ضرورت پوری کر مگر مسیح نے جواب میں کہا” اے عورت مجھے تجھ سے کیا کام ہے؟ ابھی میرا وقت نہیں آیا” ZU 163.2

    ایسے معلوم ہوتا ہے کہ المسیح کے دل میں اپنی ماں کے لئے کوئی عزت نہیں تھی۔ مگر ایسی کوئی بات نہیں اُس زمانہ کے مطابق “اے عورت” اُس خاتون کے لئے استعمال ہوتا تھا جس کی تابعداری کرنا مقصود ہوتا تھا۔ کیونکہ خداوند مسیح کا ہر عمل اُس شریعت کے مطابق تھا جو اُس نے دس احکام کی صورت میں ہمیں دے رکھی ہے۔ لکھا ہے “تو اپنے باپ اور اپنی ماں کی عزت کرنا تاکہ تیری عمر اُس ملُک میں جو خداوند تیرا خدا تجھے دیتا ہے دراز ہو” خروج 12:20۔۔۔ آپ دیکھیں کہ صلیب پر بھی مسیح اپنی ماں کو نہ بھولا۔ اور جب اس نے اپنی مقدس ماں کو اپنے ایک عزیز شاگرد کے سپرد کیا تو پھر بھی انہی الفاظ میں اپنی ماں کو مخاطب ہوا۔ اس طرح کے لب و لہجہ سے اُس زمانہ کے مطابق عزت و تکریم اور عقیدت کی عکاسی ہوتی تھی۔ ZU 164.1

    بچپن میں جب مسیح یسوع یروشیلم کی ہیکل میں گیا تو خداوند نے اُس پر اُس کے مشن کا مکاشفہ کھولا۔ پس مسیح نے مقدسہ مریم سے کہا “کیا تم کو معلوم نہ تھا کہ مجھے اپنے باپ کے ہاں ہونا ضرور ہے؟ لوقا 49:2۔۔۔ ان الفاظ میں اُس کی تمام زندگی کی خدمت کا لُب لباب پایا جاتا ہے۔ خصوصاً اس میں نجات کا کام سر فہرست تھا۔ جس کے لئے وہ اس دنیا میں مجسم ہو کر آیا تھا۔ حقیقت میں خداوند مقدسہ مریم کو اشارہ دے رہا تھا کہ خدا کا مجھ پر آپ کی نسبت زیادہ حق اور اختیار ہے۔ تیس سال تک اُس نے کمال وفاداری سے اپنی ماں کی خدمت کی۔ مگر اب وقت آگیا تھا کہ وہ اپنے باپ کے کام کی تکمیل کرے جس کے لئے وہ بھیجا گیا تھا۔ دُنیا کا نجات دہندہ اور خدا کا بیٹا ہونے کی حیثیت سے کسی زمینی رشتہ کو اُس کے مشن میں باعث رکاوٹ نہیں ہونا تھا۔ اسی طرح کسی بحی دُنیا کی لُبھانے والی چیز کو ہمارے اُس راستے میں رکاوٹ کا باعث نہ بننا چاہیئے جس پر اُس نے ہمیں چلنے کی ہدائت فرمائی ہے۔ ZU 164.2

    گناہ میں گری ہوئی نسل انسانی کی واحد اُمید مسیح یسوع میں ہی ہے۔ مقدسہ مریم بھی صرف خدا کے برّے کے ذریعے ہی نجات پا سکتی تھی۔ بذات خود اُس میں نجات پانے کا کوئی وصف موجود نہ تھا۔ وہ بھی عام انسانوں کی مانند تھی۔ مسیح کے ساتھ اُس کا رشتہ کسی لحاظ سے بھی دوسرے انسانوں پر روحانی فضیلت نہیں بخشا۔ ZU 165.1

    یہ کلام کہ “میرا ابھی وقت نہیں آیا” سے ظاہر ہے کہ اُسکا ہر لمحہ اُس تجویز کی کڑی تھی جو بنامی عالم سے پیشتر موجود تھی۔ نیز اُس تجویز کے تمام جزیات مکمل تھے۔ اور جب وہ انسانوں میں چلتا پھرتا تھا تو خداوند کی مرضی کے مطابق اپس کی ہر قدم پر رہنمائی ہوتی تھی۔ اسی لئے وہ ہر لمحہ مقررہ وقت کی انتظار میں رہتا۔ ZU 165.2

    مسیح یسوع کا مقدمہ مریم کو یہ جواب دینا کہ “میرا ابھی وقت نہیں آیا” مقدسہ مریم کے اُس سوال کا جواب تھا جو ابھی تک اپس کے ذہن میں تھا کہ کوئی معجزہ دکھاتاکہ یہ لوگ جان جائیں کہ تجھے کسی اور نے نہیں بلکہ خود خداوند نے بھیجا ہے۔ اُسے پور ی پوری اُمید تھی کہ مسیح یسوع یہاں موعودہ مسیح ہونے کا اعلان کر کے بنی اسرائیل کے تخت پر براجمان ہو جائے گا۔ مگر ابھی اُس کے بادشاہ بننے کا وقت نہیں آیا تھا برعکس اس کے یہ اُسکا وقت بطور “مرد غم ناک اور رنج کے آشنا” کے تھا۔ کیونکہ آل آدم کو بچانے کے لئے اُس نے خود بہ رضا اور رغبت مجسم ہونا قبول کیا تھا۔ اس کے باوجود مسیح خداوند نے مقدسہ مریم اور شاگردوں کے ایمان کو تقویت دینے کے لئے قانامی گلیل میں پہلا معجزہ دکھایا۔ شاگردوں کو تو ابھی بہت سی آزمائشوں کا مقابلہ کرنا تھا۔ اُنہیں اب کوئی شک نہیں تھا کہ پیشنگوئیوں کے مطابق یہی آنے والا مسیح ہے۔ اب تو اُن کی صرف ایک ہی خواہش تھی کہ مذہبی رہنما بھی اُس پر ایمان لے آئیں۔ چنانچہ اُنہوں نے اُس کے اُن حیرت انگیز کاموں کا چرچا کیا جو اُس سے سرزد ہوئے۔ مگر اُنہیں یہ دیکھ کر بڑا صدمہ ہوا کہ شرع کے معلم اور فقیہ اُن کی گواہی سُن کر مسیح کو قبول کرنے کے بجائے اُس سے بُغض رکھنے لگے۔ مگر ابتدائی معجزات کی بدولت شاگردوں کے حوصلے اتنے بلند ہو گئے کہ اس کے بعد اُنہوں نے ہر طرح کی مخالفت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ ZU 165.3

    جونہی مقدسہ مریم نے یسوع کا جواب سنا اُس نے خادموں کو کہا کہ جو کچھ یہ تم سے کہے وہ کرو۔ وہاں یہودیوں کی طہارت کے دستور کے موافق پتھر کے چھ مٹکے رکھے تھے۔ اور اُن میں دو دو تین تین من کی گنجائش تھی۔ یسوع نے کہا ان میں پانی بھر دو۔ خادموں نے اُس کے کہنے کے مطابق اُن میں پانی بھر دیا۔ چونکہ مے فوراً درکار تھی۔ چنانچہ مسیح نے اُنہیں فرمایا کہ اب نکال کر میر مجلس کے پاس لے جاو۔ جب اُنہوں نے نکالا تو پانی کی بجائے اُن مٹکوں سے مے نکلی۔ یوں کسی کو یہ اندازہ نہ ہوا کہ مے ختم ہو چکی تھی۔ اور جب میر مجلس نے اُسے چکھا ت کہنے لگ کہ جو ہم نے پہلے بی تھی اُس کی نسبت یہ مے کہیں بہتر ہے۔ اس پر وہ دُلہا کو بلا کر کہنے لگا کہ ہر شخص پہلے اچھی مے پیش کرتا ہے اور ناقص اُس وقت جب پی کر چھک گئے۔ مگر تو نے اچھی مے اب تک رکھ چھوڑی ہے۔ ZU 166.1

    شادی کی ضیافت میں جو بخشش یسوع مسیح نے عطا فرمائی وہ بطور ایک علامت کے تھی۔ پانی اُس کی موت میں شامل ہونے یعنی بپتسمہ کی علامت ہے اور “مے” اُس کے خون کی علامت ہے جو دُنیا کے گناہوں کے لئے بہایا جاتا ہے۔ بیشک مٹکوں میں پانی انسانوں نے بھر ا مگر صرف مسیح کے کلام سے وہ سادہ پانی مے میں تبدیل ہو گیا۔ اسی طرح ہیکل میں ادا کی جانے والی تمام رسوم جو یسوع کی موت کی طرف اشارہ کرتی تھیں اور اب بھی کرتی ہیں صرف ایمان کے ذریعے ہی “مسیح یسوع کی قدرت سے” روح کی نشوونما کرتی ہیں۔ ZU 167.1

    یسوع مسیح کے کلام سے ضیافت کی مے میں کمی واقع نہ ہوئی۔ اسی طرح اُس کا فضل ہماری خطائیں معاف کرنے میں کافی اور شافی ہے۔ اور وہی ہماری روح کی بحالی کرتا اور اُسے قائم رکھتا ہے۔ ZU 167.2

    پہلی ہی ضیافت کے موقع پر جس میں وہ اپنے شاگردوں کے ساتھ شامل ہوا اُنہیں پیالا دیا۔ جو اُن کی نجات کے لئے اُس کے کام کی علامت تھا۔ اسی طرح اُس نے عشائے ربانی کے موقع پر اُنہیں پیالا دیا۔ جس کے ذریعے اُس نے اُنہیں اپنی موت کے بارے آگاہ کیا۔ اکرنتھیوں 26:11 اور پھر اُس نے اُنہیں دلاسا دیتے ہوئے فرمایا۔ ZU 167.3

    “میں تم سے کہتا ہوں کہ انگور کا یہ شیرہ پھر کبھی نہ پیئوں گا۔ متی 29:26ZU 167.4

    وہ مے جو یسوع مسیح نے شادی کی ضیافت میں مہیا کی اور جو اُس نے اپنے شاگردوں کو اپنے خون کی علامت کے طور پیش کی وہ انگوروں کا خالص رس تھا۔ یسعیاہ نبی اس نئی مے کے بارے یوں گویا ہوتا ہے “خدا وند یوں فرماتا ہے کہ جس طرح شیرہ خوشئہ انگور میں موجود ہے۔ اور کوئی کہے اُسے خراب نہ کیوں کہ اُس میں برکت ہے” یسعیاہ 8:65 یہ خداوند مسیح ہی تھا جس نے بنی اسرائیل کو خبردار کیا کہ “مے مسخرہ اور شراب ہنگامہ کرنے والی ہے اور جو شراب تیار نہ کی۔ یہ کام تو صرف ابلیس کا ہے۔ وہ انسانوں کو اس طرف راغب کرتا ہے تاکہ وہ شراب پی کر متوالے ہوں۔ اُن کے ذہن راست سوچ سے دُور چلے جائیں اور روحانی طور پر وہ بے حس ہو جائیں۔ مگر اس طرح کی شرپسند فطرت کو خداوند کے تابع کرنا ہے۔ یہی اُس کا منشا ہے۔ یسوع کی پوری زندگی خود انکاری کی زندگی تھی۔ اشتہا کی رغبت کو ختم کرنے کے لئےاُس نے وہ مصائب جھیلے جو ہمیں جھیلنے تھے۔ یہ خداوند یسوع مسیح ہی تھا جس نے یوحنا بپتسمہ دینے والے کے والدین کو ہدائت فرمائی کہ نہ وہ مے پئے اور نہ ہی شراب۔ بلکہ مسیح نے یہی پابندی منوحہ کی بیوی پر بھی لگائی۔ بلکہ اُس نے یہاں تک کہا کہ ملعون ہے وہ شخص جو اپنے پڑوسی کو شراب پلا کر متوالا کرنا ہے۔ جو لوگ یہ سوچتے ہیں کہ قانامی گلیل میں شادی کی ضیافت میں مسیح نے شراب تیار کی اُنہیں علم ہونا چاہئے کہ مندرجہ بالا اقتباسات کی روشنی میں مسیح کیونکہ اپنے کلام کی نفی کر سکتا ہے۔ وہ مے جو اُس نے ضیافت کے موقع پر تیار کی وہ انگوروں کیا تازہ رس تھا جو جسمانی بالیدگی کا سبب ہوا۔ ZU 167.5

    جب مے پینے والوں نے اس مے کی تعریف کی اور جس نے مے بنائی تھی اُسے دیکھنا چاہا تو وہ وہاں سے فوراً خاموشی سے ٹل گیا۔ بلکہ اُس کے شاگردوں کو بھی معلوم نہ ہوا کہ وہ وہاں سے کب چلا گیا۔ ZU 168.1

    اب اُن تمام لوگوں کی توجہ کا مرکز اُس کے شاگرد بن گئے۔ کیونکہ اُنہیں پہلی بار معلوم ہوا کہ یہ لوگ اُسے موعودہ مسیح تسلیم کرتے ہیں۔ شاگردوں نے کردن کے کنارے جو کچھ دیکھا اور سنا تھا اُسکی گواہی دی۔ اس گواہی سے بہتوں کے دلوں میں امید کی کرن جگمگا اٹھی اور اُنہیں یقین ہو گیا کہ خدا نے نجات دہندہ کو اس دنیا میں بھیج دیا ہے۔ ZU 168.2

    اس معجزے کی خبر تمام علاقے میں پھیل گئی۔ حتٰی کہ یہ خبر یروشیلم میں بھی پہنچی۔ اس پر فریسیوں اور شرع کے معلموں اور کاہنوں نے نئی لگن سے موعودہ مسیح کے آنے کی پیشنگوئیوں کا مطالع شروع کر دیا۔ اُن میں سے زیادہ تر تو یہ جاننے کے خواہاں تھے کہ اس نئے اُستاد کا کیا مشن ہے؟ZU 169.1

    مسیح یسوع کی خدمت یہودی قیادت کے بالکل برعکس تھی۔ اُن کی روایات نے خیال اور عمل دونوں کی آزادی سلب کر رکھی تھی۔ یہودی رہنما غیر اقوام سے ہی نہیں بلکہ اپنی قوم کے بھی بہت سے لوگوں سے الگ رہتے تھے۔ وہ کسی طرح بھی اُن سے دوستی کرنا نہ چاہتے۔ یوں وہ بہت تنگ نظر واقع ہوئے تھے۔ بلکہ وہ تمام طبقوں کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ ZU 169.2

    چونکہ خداوند مسیح گری ہوئی نسل انسانی میں بحالی لانے کے لئے آیا تھا پس اُس نے اُن کے ساتھ غمگساری کی۔ اُس نے شریعت کی دل سے قدر کی اور فریسیوں کو انکی ریاکاری پر جھڑکا۔ اور کوشش کی کہ اُن تمام فضول قوانین سے عوام کو رہائی لائے جو فریسیوں نے اُن پر اپنی طرف سے لاگو کر رکھے تھے۔ اُس نے اُن رکاوٹوں کو بھی توڑنے کے لئے جدو جہد کی جو معاشرے کو مختلف طبقوں میں تقسیم کا باعث بنی ہوئی تھیں تاکہ وہ تمام آل آدم کو ایک ہی خاندان میں ضم کر لے۔ شادی کی ضیافت میں اس غرض کی تکمیل کے لئے اُس کا یہ پہلا قدم تھا۔ خداوند نے یوحنا بپتسمہ دینے والے کو فرمایا کہ وہ بیابان میں چلا جائے تاکہ وہ ربیوں اور کاہنوں کے اثر سے محفوظ رہے اور جس کام کے لئے اُسے بلایا ہے اُس کی تیاری کرے۔ مگر اُس کی اس تنہائی کا اطلاق عوام پر نہ ہوتا تھا۔ حتٰی کہ یوحنا نے خود بھی کسی کو یہ نہ کہا کہ جو جو فرائض تم ادا کر رہے ہو انہیں ترک کرکے یہاں میرے پاس آو اور میری منادی سنو۔ مگر اُنہیں یہ ضرور کہا کہ توبہ کے موافق پھل لاو۔ ZU 169.3

    مسیح یسوع ہر طرح کی خود ستائی اور مغروری کی حوصلہ شکنی کرتا تھا۔ تاہم وہ ملنسار تھا۔ جو کوئی اُسے دعوت دیتا وہ اُن کے ہاں بلا امتیاز چلا جاتا۔ وہ امیروں اور غریبوں دونوں کے گھروں میں جاتا، عالموں اور جاہلوں سے ملتا اور اُن کی توجہ روحانی اور ابدی چیزوں کی طرف لگا کر اُنہیں اعلٰے مرتبہ بخشا۔ ان تمام صحبتوں میں اُس نے بے حیائی کو پسپا کیا اور اپنی سیرت کو داغدار ہونے سے محفوظ رکھا۔ تاہم اُس نے بھولی بھالی اور معصوم خوشیوں سے خط اُٹھایا۔ اُسکی رفاقت سے ہمجولی بھی لطف اندوز ہوتے۔ یہودی شادی ایک بڑا اہم اور موثر موقع تھا جس سے ابن آدم کی بالکل دل آزاری نہ ہوئی۔ بلکہ شادی میں شرکت کر کے مسیح یسوع نے اُسے عزت بخشی۔ جس سے یہ ثابت ہوا کہ یہ خود خداوند کی طرف سے مقرر کردہ پاک رسم ہے۔ شادی ایک ایسا مقدس رشتہ ہے جو مسیح اور کلیسیا کی علامت ہے۔ اور یہ دونوں عہد عتیق اور عہد جدید سے واضح ہے۔ اس شادی کی خوشیوں سے مسیح یسوع اپنے ذہن میں تصور کر رہا تھا کہ وہ دن دُور نہیں جب میں اپنی دُلہن ‘کلیسا’ کو اپنے باپ ‘خدا’ کے گھر لاوں گا۔ اور تمام نجات یافتہ برہ کی ضیافت میں شرکت کر کے کہیں گے “کیوں کہ جس طرح جو ان مرد کنواری عورت کو بیاہ لاتا ہے۔ اور جس طرح دُلہا دُلہن میں راحت پاتا ہے اُسی طرح تیرا خدا تجھ میں مسرور ہو گا۔ خداوند تیرا خدا جو تجھ میں ہے قادر ہے وہی بچا لے گا۔ وہ تیرے سبب سے شادمان ہو کر خوشی کرے گا۔ وہ اپنی محبت میں مسرور رہے گا۔ وہ گاتے ہوئے تیرے لئے شادمانی کرے گا” یسعیاہ 4:62-5 ، صغنیاہ 17:3 جب یوحنا عارف کو آسمانی مکاشفہ دیا گیا تو اُس نے لکھا “پھر میں نے بڑی جماعت کی سی آواز اور زور کے پانی کی سی آواز اور سخت گرجوں کی سی آواز سنی کہ ہیلیلویاہ، اس لئے کہ خداوند ہمارا خدا قادر مطلق بادشاہی کرتا ہے۔ آو ہم خوشی کریں اور نہائت شادمان ہوں اور اُس کی تمجید کریں۔ اس لئے کہ برہ کی شادی آپہنچی اور اُس کی بیوی نے اپنے آپ کو تیار کر لیا اور اُس نے مجھ سے کہا لکھ۔ مبارک ہیں وہ جو برّہ کی شادی کی ضیافت میں بلائے گئے ہیں” مکاشفہ 6:19-7، 9 ZU 170.1

    خداوند یسوع مسیح نے ہر ایک فرد میں خدا کی بادشاہی کی تڑپ دیکھی اور بھلائی کے ذریعے اُس نے اُن کے دلوں تک رسائی کر لی۔ گلیوں، بازاروں ، کشتیوں مندروں اور دریا کے کناروں اور شادی کی ضیافتوں میں اُن سے ملاقاتیں کیں۔ وہ وہاں بھی پہنچا جہاں جہاں لوگ روزی کمانے کے لئے گھر سے باہر گئے تھے۔ اُس نے اپن کے گھروں میں جا کر اُن سے ملاقاتیں کیں اور اپنی الہی رفاقت سے اپن خاندانوں کو اپنے زیر اثر لے آیا۔ لوگوں کے ساتھ ہمدردی اور غمگساری دکھانے سے اُس نے اُن کے دلوں کو جیت لیا۔ وہ اکثر پہاڑوں پر تنہائی میں دُعا کرنے کے لئے چلا جاتا یہ تو وہ تیاری تھی جس کے ذریعے وہ بنی نوع انسان کی خدمت اور بھی سرگرمی سے کرتا۔ کیوں کہ دُعا کے مقام سے لوٹ کر اُس نے بیماروں کو شفا اور چین بخشا، انجان اجنبی لوگوں کو ہدایات اور ابلیس کے اسیروں کو رہائی دلائی۔ اپنی شخصی ملاقت اور رفاقت کے ذریعے سے مسیح خداوند نے اپنے شاگردوں کی ترییت کی۔ اُس اُنہیں پہاڑوں کے دامن میں اور ساحل سمندر اور کبھی کبھی راہ چلتے ہوئے بھی سکھایا۔ اُس نے اُن پر خدا کی بادشاہی کے بھید کو آشکارہ کیا۔ اُس نے حالیہ زمانے کی طرح تقریریں نہ کیں۔ سچائی پانے کے لئے جہاں بھی اُس نے دلوں کو واپایا وہیں اُس نے نجات کی صداقت عیاں کر دی۔ اُس نے اپنے شاگردوں کو کبھی حکم نہ دیا کہ یہ یا وہ کرو بلکہ صرف یہ کہ “میری پیروی کرو” خواہ اُس نے دیہاتوں کا سفر کیا یا شہروں کا اُس نے اُنہیں اپنے ہمراہ دکھا تاکہ وہ دیکھیں کہ المسیح نے لوگوں کو کس طرح تعلیم دی۔ اُس نے اُن میں اپنی دلچسپی دکھائی۔ اسی لئے وہ اُس کے ساتھ متحد ہو کر اُس کے کام میں ہاتھ بٹانے لگے۔ ZU 171.1

    وہ سب لوگ جو اُس کے کلام کی منادی کرتے ہیں اور جنہوں نے اُس کے فضل کی خوشخبری پالی ہے چاہیے کہ وہ سب اُس کے نمونہ کی پیروی کریں۔ ہمیں معاشرتی صحبتوں سے پہلوتہی نہیں کرنا ہے۔ نہ ہمیں دوسروں سے الگ تھلگ زندگی بسر کرنی ہے۔ تمام طبقوں تک رسائی کرنے کے لئے جہاں وہ مقیم ہیں جانا ہو گا۔ صرف منبر سے پیغام اور الہی سچائی دلوں کو اثر پذیر نہیں کر سکتی۔ اور بھی خدمت کرنے کی جگہیں ہیں گو وہ حقیر سی ہیں مگر وہ بہت ہی اُمید افزا ہیں۔ یہ خدمت معمول گھروں ، بڑے بڑے عالی شان محلوں اور دوسرے اجتماعات میں کی جا سکتی ہے۔ ZU 172.1

    مسیح کے شاگرد ہوتے ہوئے ہمیں محض دُنیاوی خط اُٹھانے کے لئے لوگوں سے ملنا جُلنا ضروری نہیں۔ ایسی بے ہودہ خوشیوں سے دور رہنا ہو گا جو صرف نقصان کا باعث ہیں۔ اپنے کام اور کلام کی وجہ سے ہرگز گناہ کو دعوت نہ دیں۔ جہاں کہیں بھی جائیں یسوع کو ساتھ لیکر جائیں اور دوسروں پر اُسے ظاہر کریں کہ وہ آپ کو کتنا عزیز ہے۔ لیکن وہ لوگ جو اپنے مذہب کو چھپا رکھتے ہیں وہ اپنے گرد پتھروں کا حصار کھڑا کر لیتے ہیں جس سے نیکی و بھلائی کرنے کے مواقع مفقود ہو جاتے ہیں۔ لوگوں کے ساتھ میل جول رکھنے سے ہی مسیحیت دنیا میں آسکتی ہے۔ جنہیں مسیح کا مکاشفہ اور اُس کا نور حاصل ہو چکا ہے اُن پر لازم ہے کہ وہ اُن لوگوں کی راہیں منور کر یں جو ابھی تک آفتاب صداقت سے بے بہرہ ہیں۔ ZU 172.2

    ہم سب کو یسوع کے گواہ بننا ہے۔ مسیح یسوع کے فضل سے پاک شدہ سماجی قوت یسوع کے لئے روحیں جیتنے کے لئے استعمال کی جانی چاہیئے۔ دُنیا کو معلوم ہو جائے کہ ہم صرف اپنے آپ میں ہی دلچسپی نہیں رکھتے بلکہ ہماری دلی تمنا ہے کہ دوسرے بھی ہماری برکات میں شامل ہوں۔ دنیا کو دیکھتے دیں کہ ہم لا تعلق، ظالم اور ہمدردی سے خالی مذہب سے منسلک لوگ نہیں۔ وہ تمام لوگ جو مسیح پر ایمان رکھتے ہیں لوگوں کی اُسی طرح خدمت کریں جس طرح اُس نے کی۔ ZU 173.1

    ہمیں دُنیا کو کبھی بھی یہ تاثر نہ دینا چاہیئے کہ مسیح خشک ، مغموم اور خوشیوں سے دور رہنے والے لوگ ہیں۔ اگر ہم مسیح پر نظریں جمائے رکھیں گے تو ہم ضرور مہربان نجات دہندہ کو دیکھیں گے جس کے چہرے سے نور منعکس ہو کر ہم تک پہنچے گا۔ جس جگہ اُس کی روح کی حکمرانی ہوتی ہے وہاں امن ٹھکانہ ہوتا ہے۔ وہیں خوشی اور سکون ہوتا ہے۔ ZU 173.2

    خدا وند مسیح اپنے پیروکاروں سے اُس وقت نہائت خوش ہوتا ہے جب وہ انسان ہونے کے باوجود یہ ثابت کرتے ہیں کہ وہ بھی ذات الہی کا حصہ ہیں۔ وہ صرف مجسمے نہیں بلکہ جیتے جاگتے مردوزن ہیں۔ اُن کے دل الہی فضل کی شبنم سے تازگی پاتے ہیں جب وہ اپنے دلوں کو راستبازی کے آفتاب کے لئے بے پردہ کر دیتے ہیں۔ وہ نور جو اُن پر چمکتا ہے اُن کے کاموں کے ذریعے منعکس ہو کر دوسروں کو تابان و روشن کرتا ہے۔ ZU 173.3

    ****

    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents