Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents

زمانوں کی اُمنگ

 - Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First
    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents

    باب نمبر 29 - ”سبت“

    تخلیق کے وقت سے سبت کو مقدس ٹھہرایا گیااور یہ انسان کے لئے مخصوص کیا گیا۔ اس کا منبع ہم ایوب کی کتاب میں دیکھتے ہیں۔ “جب صبح کے ستارے مل کر گاتے تھے اور خدا کے سب بیٹے خوشی سے للکارتے تھے۔ “ایوب 7:38۔۔۔۔ چونکہ زمین آسمان کے ساتھ ہم آہنگ تھی اسلئے آسمان کو امن اور سلامتی نے پناہ دے رکھی تھی۔ “اور خدا نے سب پر جو اُس نے بنایا تھا نظر کی اور دیکھا کہ بہت اچھا ہے” پیدائش 13:1۔۔۔ اور اپنے کام کی تکمیل کی خوشی میں آرام فرمایا۔۔۔۔ چونکہ خدا وند خدا نے سبت کے دن آرام فرمایا اس لئے “خدا نے ساتویں دن کو برکت دی اور اُسے مقدس ٹھہرایا” پیدائش 3:2۔۔۔۔ خدا نے سبت کے دن کو دوسرے دنوں سے علیحدہ کیا تاکہ پاک مانا جائے۔ خدا نے اسے آدم کو دیا تاکہ اس دن آرام کرے۔ یہ تخلیق کی یاد میں خدا نے قائم کیا۔ یہی خدا کی قدرت اور محبت کا نشان ٹھہرا چنانچہ لکھا ہے “اُس نے اپنے عجائب کی یادگار قائم کی ہے۔ خداوند رحیم و کریم ہے۔ “زبور 4:111 “کیوں کہ اُس کی ان دیکھی صفتیں یعنی اُس کی ازلی قدرت اور الوہیت دُنیا کی پیدائش کے وقت سے بنائی ہوئی چیزوں کے ذریعہ سے معلوم ہر کر صاف نظر آتی ہیں۔ یہاں تک کہ اُن کو کچھ عذر باقی نہیں” رومیوں 20:1 ZU 337.1

    سب چیزیں خدا کے بیٹے نے تخلیق کیں۔ “ابتدا میں کلام تھا۔ کلام خدا کے ساتھ تھا۔۔۔ تمام چیزیں اُس کے وسیلہ سے پیدا ہوئیں اور جو کچھ پیدا ہوا ہے۔ اُس میں سے کوئی چیز بھی اُس کے بغیر پیدا نہیں ہوئی” یوحنا 1:1-3۔۔۔ چونکہ سبت تخلیق کی یادگاری میں ہے اسلئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ یسوع مسیح کی قدرت اور محبت کی بخشش ہے جو ہم انسانوں کو اُس نے عطا کر رکھی ہے۔ ZU 338.1

    سبت ہماری توجہ فطرت کی چیزوں کی طرف مبذول کراتا ہے۔ یوں ہماری رفاقت کائنات کے خالق سے ہو جاتی ہے۔ پرندوں کی راگنیوں میں ، درختوں کی سرسراہٹ اور سمندر کی موسیقی میں ابھی تک ہم خداون جو اُن سب کا خالق ہے دیکھ سکتے ہیں۔ ہم ان کے ذریعے ابھی تک خدا کی آواز سُن سکتے ہیں جو ٹھنڈے وقت میں آدم سے ہمکلام ہوتا تھا۔ جب ہم اُسکی قدرت کو فطرت میں دیکھتےہیں تو اس سے ہمیں عجیب تسلی ملتی ہے۔ کیونکہ جس کے ذریعے ہر ایک چیز وجود میں آئی، اُنہیں چیزوں کے ذریعے سے وہ ہماری روح سے کلام کرتا ہے۔ “اس لئے کہ خدا ہی ہے جس نے فرمایا کہ تاریکی میں سے نور چمکے اور وہی ہمارے دلوں میں چمکاتا کہ خدا کے جلال کی پہچان کو نور یسوع مسیح کے چہرے سے جلوہ گر ہو۔ “2 کرنتھیوں 6:4 ZU 338.2

    “کیونکہ اے خداوند، تو نے مجھے اپنے کام سے خوش کیا۔ میں تیری صنعت کاری کے سبب سے شادیانہ بجاوں گا۔ اے خداوند، تیری صنعتیں کیسی بڑی ہیں۔ تیرے خیال بہت عمیق ہیں۔ “زبور 4:92-5۔۔۔ روح القدس نے یسعیاہ نبی کے وسیلہ فرمایا “پس تم خدا کو کس سے تشیہہ دو گے؟ اور کون سی چیز اُس سے مشابہ ٹھہراو گے؟ تراشی ہوئی مورت، کاریگر نے اُسے ڈھالا اور سُنار اُس پر سونا مڑھتا ہے اور اُس کے لئے چاندی کی زنجیریں بناتا ہے۔ کیا تم نہیں جانتے؟ کیا تم نے نہیں سُنا کیا یہ بات ابتدا ہی سے تم کو بتائی نہیں گئی؟ کیا تم بنائی عالم سے نہیں سمجھے ؟ وہ محیط زمین پر بیٹھا ہے اور اُس کے باشندے ٹڈوں کی مانند ہیں۔ وہ آسمان کو پردہ کی مانند تانتا ہے۔ اور اُس کو سکونت کے لئے خیمہ کی مانند پھیلاتا ہے۔۔۔۔ وہ قدوس فرماتا ہے تم مجھے کس سے تشبیہ دو گے؟ اور میں کس چیز سے مشابہ ہوں گا۔ اپنی آنکھیں اُوپر اُٹھاو اور دیکھو کہ ان سب کا خالق کون ہے؟ وہی جو ان کے لشکر کو شمار کر کے نکالتا ہے اور اُن سب کو نام بنام بلاتا ہے۔ اُس کی قدرت کی عظمت اور اُس کے بازو کی توانائی کے سبب ایک بھی غیر حاضر نہیں رہتا” یسعیاہ۔ 18:40-26 ZU 338.3

    “پس اے یعقوب، تو کیوں یوں کہتا ہے کہ میری راہ خداوند سے پوشیدہ ہے اور میری عدالت میرے خدا سے گذر گئی؟ کیا تو نہیں جانتا؟ کیا تو نے نہیں سُنا کہ خداوند ابدی و تمام زمین کا خالق تھکتا نہیں اور ماندہ نہیں ہوتا؟ وہ تھکے ہوئے کو اور بخشتا ہے اور ناتواں کی توانائی کو زیادہ کرتا ہے۔ ” یسعیاہ 29:27 “تو مت ڈر کیوں کہ میں تیرے ساتھ ہوں۔ ہراساں نہ ہو کیوں کہ میں تیرا خدا ہوں میں تجھے زور بخشوں گا۔ میں یقیناً تیری مدد کروں گا اور میں اپنی صداقت کے دہنے ہاتھ سے تجھے سنبھالوں گا” یسعیاہ 10:41۔۔۔ اے انتہائی زمین کے سب رہنے والو، تم میر ی طرف متوجہ ہو اور نجات پاو کیوں کہ میں خدا ہوں اور میرے سوا کوئی نہیں” یسعیاہ 22:45۔۔۔ “میرے سبتوں کو مقدس جانو کہ وہ میرے اور تمہارے درمیان نشان ہوں تاکہ تم جانو کہ میں خداوند تمہرا خدا ہوں “حزقی ایل 20:20ZU 339.1

    کوہ سینا پر دی جانے والی شریعت اُس میں سبت بھی دیا گیا۔ مگر یاد رہے کہ بنی اسرائیل کوہ سینا پہنچنے سے پہلے ہی سبت کے آرام کے بارے جانتے تھے۔ بلکہ سفر کے دوران بھی وہ سبت مناتے رہے تھے۔ اور جب کوئی سبت کی بے حرمتی کرتا تو خدا اُسکو یہ کہہ کر تنبیہ کرتا “تم لوگ کب تک مریے حکموں اور شریعت کے ماننے سے انکار کرتے رہو گے؟ خروج 28:16ZU 339.2

    سبت محض بنی اسرائیل کے لئے ہی نہ تھا بلکہ پوری دُنیا کے لئے۔ باغ عدن میں سبت ابوالبشر کو دیا گیا۔ اور شریعت کے باقی احکام کی طرح یہ بھی لا تبدیل تھا ۔ شریعت ےکے بارے یسوع نے فرمایا “میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک آسمان اور زمین ٹل نہ جائیں ایک نقطہ یا ایک شوشہ توریت سے ہرگز نہ ٹلیگا۔ متی 18:5 سبت کے بارے چوتھا حکم اسی شریعت کا حصہ ہے۔ لہٰذا جب تک زمین و آسمان قائم ہیں سبت جو خدا کی محبت اور قدرت کا نشان ہے قائم رہے گا۔ اور جب عدن دوبارہ زمین پر قائم ہو گا تو تمام روئے زمین خداوند کے پاک دن پر آرام کرے گی۔ “خداوند فرماتا ہے جس طرح نیا آسمان اور نئی زمین جو میں بناوں گا میرے حضور قائم رہیں گے اُسی طرح تمہاری نسل اور تمہارا نام باقی رہے گا۔ اور یوں ہو گا کہ ایک نئے چاند سے دوسرے تک اور ایک سبت سے دوسرے تک ہر فرد بشر عبادت کے لئے میرے حضور آئے گا” یسعیاہ 22:66-23 ZU 340.1

    سبت کے علاوہ یہودیوں کو اتنی امتیازی حیثیت بخشنے کے لئے کوئی اور تہوار نہ دیا گیا۔ سبت اُنہیں دوسری قوموں میں امتیاز بخشتا۔ اس دن انہیں اپنے خداوند کی عبادت کرنا تھی۔ یوں وہ بت پرستی سے دور رہتے اور زندہ خدا کی رفاقت حاصل کرتے۔ مگر لازم ہے کہ خدا کے دن کو پاک ماننے کے لئے انسان پاک ہو۔ یہ بھی لازم ہے کہ اسنان ایمان کے ذریعے مسیح یسوع کی راستبازی کے وارث ہوں۔ یاد کر کے تو سبت کا دن پاک ماننا۔ تم میرے لئے پاک آدمی ہو خروج 8:20، 13:22۔۔۔ اسی طرح خدا کے بندوں کو بُت پرست قوموں کے درمیان طرہ امتیاز حاصل ہو سکتا تھا۔ ZU 340.2

    جب یہودی ایمان کے ذریعے مسیح کی راستبازی اپنانے میں ناکام ہو گئے تو سبت کی اہمیت بھی کھو گئی۔ ابلیس تو اپنی برتری چاہتا تھا اور اُس کا منشا تھا کہ لوگوں کو مسیح سے دور دھکیل دے۔ اُس نے سبت کو بدلنے کا عمل شروع کر دیا۔ چنانچہ یہودیوں نے ابلیس کا ساتھ دیا اور سبت کو مختلف مطالبات اور انسان کے بنائے ہوئے رسوم سے بوجھل کر دیا ۔ سبت جو خدا کا معظم اور راحت کا دن تھا یہودیوں کی خود غرضی کے سبت بوجھ بن کر رہ گیا۔ گو یہودیوں نے سبت کے بارے اپنی من مانی کر کے قوانین وضع کر رکھے تھے مگر عوام خیال کرتے تھے کہ یہ خدا کی طرف سے ہیں اور ان کے لئے ان کو ماننا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہو گیا تھا۔ یوں لوگ خدا کو جابر اور خود غرج جیسے القاب سے نوازتے اور سبت سے نفرت کرنے لگے۔ ZU 341.1

    ایک سبت کو مسیح یسوع اور اُس کے شاگرد کھیتوں میں سے ہو کر جارہے تھے۔ شاگرد بالیں توڑ توڑ کر اور مل مل کر کھانے لگے۔ اگر وہ یہی عمل کسی اور دن کرتے تو قابل معافی ہوتا مگر سبت کے دن یہ کام کرنا سبت کو توڑنے کے مترادف خیال کیا جاتا تھا۔ بالیں توڑنا اور اُن کو ملنا یہودیوں کے نزدیک ایسا ہی تھا جیسے فصل کو کاٹنا اور گاہنا۔ وہ ایسا فعل سبت کے دن ہرگز برداشت نہ کر سکتے تھے۔ شرع کے معلموں کی نظر میں مسیح کے شاگردوں نے دو چند قصور کیا۔ لہٰذا جاسوسوں نے فوراً اُس سے شکائت کی کہ تیرے شاگرد بست کے دن کیوں ایسا کام کرتے ہیں جو روا نہیں؟ ZU 341.2

    بیت حسدا کے مقام پر یسوع نے جب ایک مریض کو سبت کے دن شفا دی تو اُس وقت بھی اُس پر اعتراض کیا گیا۔ مگر اُس نے خود کو خدا کا فرزند قرار دیتے ہوئے اُن کو جواب دیا کہ میرا باپ اب تک کام کرتا ہے اور میں بھی اسی کے نقش قدم پر چلتا ہوں۔ اب اُس کے شاگردوں پر بھی وہی الزام تھا کہ وہ سبت کی بے حُرمتی کرتے ہیں۔ یہودی معلموں کو فخر تھا کہ وہ الہامی نسخوں کی تعلیم سے اچھی طرح واقف ہیں مگر یسوع نے اُنہیں جھڑکتے ہوئے کہا “کیا تم نے یہ بھی نہیں پڑھا کہ جب داود اور اُس کے ساتھی بھوکے تھے تو اُس نے کیا کیا؟ وہ کیوں کر خداوند کے گھر میں گیا اور نذر کی روٹیاں لے کر کھائیں جن کو کھانا کاہنوں کے سوا اور کسی کو روا نہیں اور اپنے ساتھیوں کو بھی دیں۔ “لوقا 3:6-4 اور اُس نے اُن سے کہا سبت آدمی کے لئے بنا ہے نہ آدمی سبت کے لئے۔ پس ابن آدم سبت کا بھی مالک ہے” مرقس 27:2-28” تم نے توریت میں نہیں پڑھا کہ کاہن سبت کے دن ہیکل میں سبت کی بے حُرمتی کرتے ہیں اور بے قصور رہتے ہیں۔ میں تم سے کہتا ہوں کہ یہاں وہ ہے جو ہیکل سے بھی بڑا ہے۔ “متی 5:12-6 ZU 342.1

    اگر داود کے لئے یہ روا تھا کہ نذر کی روٹیاں لے کر کھائے اور اپنے ساتھیوں کو بھی دے تاکہ سیر ہوں تو یہ بھی روا ہے کہ سبت کے دن شاگرد بالیں توڑ کر اور مل کر کھائیں تاکہ اپنی بھوک مٹائیں اور تسلی پذیر ہوں اور اسی طرح کاہن ہیکل میں بڑی خدمت انجام دیتے تھے۔ عام کاروبار اگر سبت کے دن کیا جائے تو گناہ گِنا جاتا تھا۔ مگر چونکہ کاہنوں کی خدمت خدا کے لئے ہوا کرتی تھی اسلئے وہ بے گناہ ٹھہرتے تھے۔ کیونکہ کاہن وہی رسوم ادا کرتے تھے جو یسوع کی نجات بخش قوت کی طرف اشارہ کرتی تھیں۔ اور اُن کی خدمت سبت کی روح سے ہم آہنگ تھی۔ مگر اب تو یسوع مسیح خود آ چکا تھا۔ شاگرد یسوع کی خدمت انجام دے رہے تھے۔ اور خدا کے کام کی بڑھتی کے لئے جو کچھ ضروری ہے اُسے سبت کے دن کرنا روا ہے۔ ZU 342.2

    یسوع مسیح اپنے شاگردوں اور دُشمنوں دونوں کو تعلیم دے رہا تھا کہ خدا کی خدمت کو اولیت حاصل ہونی چاہیئے۔ اور انسان کی نجات ہی خدا کا پہلا کام ہے۔ لہٰذا انسان کی نجات کے لئے جو کچھ درکار ہے اگر اُسے سبت کے دن کیا جائے تو یہ روا ہے۔ علاوہ ازیں یسوع نے اعلانیہ کہا کہ ابن آدم سبت کا بھی مالک ہے۔ اس سے دشمنوں کی آنکھیں کھل گئی ہوں گی؟ یسوع نے اُنہیں کہا “اگر تم اس کے معنی جانتے کہ میں قربانی نہیں بلکہ رحم پسند کرتا ہوں تو بے قصور وار نہ ٹھہراتے۔ متی 7:12 ZU 343.1

    ایک دفعہ پھر یسوع نے اُن پر حقائق آشکارہ کئے کہ قربانیاں بذات خود کوئی اہمیت نہ رکھتی تھیں ۔ بلکہ محض وسیلہ تھیں۔ جن کا کام انسان کی توجہ نجات دہندہ کی طرف مبذول کرانا اور اُنہیں خدا کے قدموں میں لانا تھا۔ محبت کی خدمت خداوند کو پسند آتی ہے۔ جس خدمت میں محبت نہ ہو اُس سے خداوند کی نفرت ہے۔ سبت کے بارے بھی یہی ہے۔ اسکا مقصد یہ تھا کہ بنی نوع انسان خدا کی حضوری میں آئیں۔ لیکن جب ذہن مختلف رسوم میں اُلجھ جاتے تو سبت کا مطلب مفقود ہو جاتا ہے۔ ZU 343.2

    ایک اور سبت کے موقع پر جب یسوع ہیکل میں داخل ہوا اُس نے وہاں ایک آدمی کو دیکھا جس کا ہاتھ سوکھا ہوا تھا۔ فریسی اُس کی تاک میں تھے کہ دیکھیں یہ کیا کرتا ہے؟ یسوع مسیح بخوبی جانتا تھا کہ اگر وہ سبت کے دن اسے شفا دے گا تو فریسی اسے گنہگار قرار دے دیں گے۔ مگر اُس نے اُن کی روایات کی پرواہ کئے بغیر اُس شخص کو جس کا ہاتھ سوکھا ہوا تھا حکم دیا کہ اپنا ہاتھ آگے بڑھا، اور فریسیوں سے پوچھا “سبت کے دن نیکی کرنا روا ہے یا بدی؟ جان بچانا یا قتل کرنا؟ وہ چپ رہ گئے اُس نے اُن کی سخت دلی کے سبب سے غمگین ہو کر اور چاروں طرف اُن پر غصہ سے نظر کر کے اُس آدمی سے کہا اپنا ہاتھ بڑھا۔ اُس نے بڑھا دیا اور اُس کا ہاتھ دُرست ہو گیا” مرقس 4:3-5 ZU 343.3

    اور جب یسوع سے یہ سوال پوچھا گیا کہ آیا سبت کے دن شفا دینا روا ہے تو اس کے جواب میں کہا تم میں ایسا کون ہے جس کی ایک ہی بھیڑ ہو اور سبت کے دن گڑھے میں گر جائے تو وہ اُسے پکڑ کر نہ نکالے۔ پس آدمی کی قدر تو بھیڑ سے بہت ہی زیادہ ہے۔ اس لئے سبت کے دن نیکی کرنا روا ہے “متی 10:12-12 ZU 344.1

    جاسوس بھیڑ کی موجودگی میں اُسے جواب نہیں دینا چاہتے تھے مبادا کسی بڑی مشکل میں پڑ جائیں۔ وہ جانتے تھے کہ اُس نے سچائی بیان کی ہے۔ مگر اُن کے نزدیک اگر کوئی دُکھی شخص سبت کے دن دُکھ اُٹھاتا ہے تو اُسے دُکھ اُٹھانے دو مگر روائتوں کو کسی حالت میں بھی باطل نہ کرو۔ مگر جانور کو ضرور گڑھے سے نکالو تاکہ مالی نقصان نہ ہو۔ دوسرے لفظوں میں اُن کی نظر میں حیوان کی قدر انسان سے زیادہ تھی جسے خدا نے اپنی شیبہ پر بنایا۔ ہر وہ مذہب جو خدا کی مطلق العنانی کے خلاف جنگ کرتا ہے وہ انسان کو اُس جلال سے محروم کرتا ہے۔ جو تخلیق کے وقت اُسے حاصل ہوا تھا۔ اور اُس جلال کی بحالی یسوع مسیح میں ہے۔ بنی نوع انسان کو مسیح نے اپنے بیش قیمت خون سے خرید رکھا ہے۔ اور اُسکی نظر میں انسان بیش قیمت ہے “میں آدمی کو خالص سونے سے بلکہ انسان کو اوفیر کے کندن سے بھی کامیاب بناوں گا” یسعیاہ 12:13ZU 344.2

    جب بھی مسیح یسوع نے فریسیوں سے پوچھا آیا سبت کے دن نیکی کرنا روا ہے یا بدی۔ جان بچانا یا قتل کرنا۔ اصل میں وہ اُن کے ارادوں کو بھانپ گیا تھا۔ اور اُن کے ناپاک عزم کو اُن پر عیاں کیا تھا۔ وہ نہ صرف یسوع سے نفرت کرتے تھے بلکہ اُس کی جان کے خواہاں تھے۔ مگر مسیح خود عوام کے لئے خوشی اور زندگی مہیا کرنا تھا۔ کیا سبت کے دن نفرت دکھانا روا ہے یا محبت۔ مسیح نے در پردہ اُنہیں سبت کے دن محبت ، رحم اور خوشیا ں بانٹنے کا درس دیا۔ سبت کے دن سوکھے ہاتھ والے شخص کو تندرستی بخش کر مسیح نے یہودیوں کے دستور کی ملامت کی۔ اور اعلانیہ بتایا کہ “سبت کے دن نیکی کرنا روا ہے ” یوں مسیح نے سبت کو عزت بخشی۔ ZU 345.1

    جو یہ کہتے ہیں کہ یسوع نے شریعت کو باطل کر دیا اصل میں وہ بھی یہودیوں کے ساتھ ملکر مسیح کی مخالفت کرتے ہیں۔ یوں وہ خداوند مسیح کی شہادت کو ٹھکراتے ہیں جو اُس نے خود دی۔ “اگر تم میرے حکموں پر عمل کرو گے تو میر محبت میں قائم رہو گے جیسے میں نے اپنے باپ کے حکموں پر عمل کرو گے تو میری محبت میں قائم رہو گے جیسے میں نے اپنے باپ کے حکموں پر عمل کیا ہے اور اُس کی محبت میں قائم ہوں۔ ” یوحنا 10:15۔۔۔ نہ مسیح خداوند نے سبت کو توڑا نہ اُس کے شاگردوں نے۔ مسیح یسوع شریعت کا چلتا پھرتا نمائندہ تھا۔ اُس نے اپنی زندگی میں کبھی بھی شریعت کی عدولی نہ کی۔ جو جاسوس اُس کے پیچھے لگے ہوئے تھے اُس نے اُن سب کو ببانگ دہل کہا” تم میں کون مجھ پر گناہ ثابت کرتا ہے؟ ” یوحنا 46:8۔۔۔ خداوند یسوع مسیح اس لئے نہ آیا کہ شریعت اور بنیوں کے کلام کو منسوخ کرے۔ کیونکہ اُس نے تو خود شریعت دینے والے خادموں کے ذریعے یہ کلام کیا تھا۔ نیز خدا کے کلام کی تمام سچائیاں تو مسیح یسوع سے صادر ہوئی تھیں۔ مگر ان سچائیوں کو غلط انداز میں پیش کیا جا رہا تھا۔ یسوع مسیح نے اُن سچائیوں کو صحیح مقام دیا جہاں سے وہ خدا کے جلال اور انسان کی نجات کے لئے استعمال ہو سکتی تھیں۔ ZU 345.2

    یسوع مسیح نے کہا سبت آدمی کے لئے بنا ہے نہ کہ آدمی سبت کے لئے۔ خداوند نے جو کچھ بنایا انسان کی بہتری کے لئے بنایا “سب چیزیں تمہارے واسطے ہیں تاکہ سبت سے لوگوں کے سبب سے فضل زیادہ ہو کر خدا کے جلال کے لئے شکر گذاری بھی بڑھائے۔ 2 کرنتھیوں 15:4۔۔۔ سب چیزیں تمہاری ہیں۔ خواہ پولس ہو خواہ پلوس۔ خواہ کیفا خواہ دنیا۔ خواہ زندگی خواہ موت۔ خواہ حال کی چیزیں خواہ مستقبل کی۔ سب تمہاری ہیں اور تم مسیح کے ہو اور مسیح خدا کا ہے” 1- کرنتھیوں 22:3-23۔۔۔ دس احکام کی شریعت جس میں چوتھا حکم سبت کے بارے ہے خدا نے اپنے لوگوں کو بطور بخشش دیا۔ موسیٰ کے ذریعے خداوند ہمیں فرماتا ہے “خداوند نے ہمکو ان سب احکام پر عمل کرنے اور ہمیشہ اپنی بھلائی کے لئے خداوند اپنے خدا کا خوف ماننے کا حکم دیا ہے تاکہ وہ ہمکو زندہ رکھے” استثنا 24:6 نیز زبور نویس کے ذریعے بنی اسرائیل کو پیغام دیا گیا۔ ZU 346.1

    “خوشی سے خداوند کی عبادت کرو۔ گاتے ہوئے اُس کے حضور حاضر ہو۔ جان رکھو کہ خداوند ہی خدا ہے۔ اُسی نے ہمکو بنایا اور ہم اُسکے ہیں۔ ہم اُس کے لوگ اور اُس کی چراگاہ کی بھیڑیں ہیں۔ شکر گذاری کرتے ہوئے اُس کے پھاٹکوں میں اور حمد کرتے ہوئے اُس کی بارگاہوں میں داخل ہو۔ اُس کا شکر کرو اور اُس کے نام کو مبارک کہو۔” زبور 2:100-4۔۔۔ اور تمام لوگ جو سبت کو معظم جانتے ہیں اُن کے لئے خداوند فرماتا ہے۔ “وہ سب جو سبت کو حفظ کرکے اُسے ناپاک نہ کریں اور میرے عہد پر قائم رہیں میں اُن کو بھی اپنے کوہ مقدس پر لاوں گا اور اپنی عبادت گاہ میں اُن کو شادمان کروں گا۔ “یسعیاہ 56-6-7 ZU 346.2

    “اس لئے ابن ادم سبت کا بھی مالک ہے” یہ کلام ہدائت اور اطمینان سے معمور ہے کیون کہ سبت آدمی کے لئے بنایا گیا۔ یہ خداوند کا دن ہے۔ جس کا مالک مسیح ہے کیونکہ سب چیزیں اُس کے وسیلہ سے پیدا ہوئیں” یوحنا 3:1 چونکہ اُس نے سب چیزوں کو تخلیق کیا لہٰذا سبت بھی اُس نے بنایا۔ اُس نے ہی تخلیق کی یاد میں اسے مخصوص کیا۔ اُس نے بنی اسرائیل سے فرمایا “میں نے اپنے سبت بھی اُن کو دئیے تاکہ وہ میرے اور اُن کے درمیان نشان ہوں تاکہ وہ جانیں کہ میں خداوند اُن کا مقدس کرنے والا ہوں” حزقی ایل 12:20۔۔۔ چنانچہ سبت خداوند یسوع کا وہ نشان ہے جو ہمیں مقدس ٹھہراتا ہے۔ اور سبت اُن سب کے لئے ہے جن کو یسوع مقدس کرتا ہے۔ اسی لئے خداوند فرماتا ہے “اگر تو سبت کے روز اپنا پاوں روک رکھے اور میرے مقدس دن میں اپنی خوشی کا طالب نہ ہوا ور سبت کو راحت اور خداوند کا مقدس اور معظم کہے اور اُس کی تعظیم کرے۔ اپنا کاروبار نہ کرے اور اپنی خوشی اور بے فائدہ باتوں سے دست بردار رہے تب تُو خداوند میں مسرور ہو گا۔ اور میں تجھے دُنیا کی بلندیوں پر لے چلوں گا” یسیعاہ 13:58-14۔۔۔ وہ سب جو سبت کو یسوع مسیح کی تخلیقی اور نجات بخش قوت مانتے ہیں اُن کے لئے یہ خوشی و خرمی اور راحت کا سبب ہو گا۔ ZU 347.1

    *****

    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents