Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents

زمانوں کی اُمنگ

 - Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First
    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents

    باب نمبر 35 - ”تھم جا“

    یہ سرگزشت خداوند یسوع مسیح کی زندگی میں اہم مقام رکھتی ہے۔ گلیل کی جھیل کے کنارے یسوع نے پہلی تمثیل بیان کی تھی۔ اُس نے ایک جانی پہچانی مثال کے ذریعے بیان کیا کہ اُس کی بادشاہی کس نوعیت کی ہو گی۔ اُس بیج بونے والے کی تمثیل میں فرمایا کہ بیج بونے والا میں ہوں۔ اور اپنی بادشاہی کو رائی کے دانے اور خمیر سے تشبیہ دی۔ اخیر وقت میں راستبازوں اور ناراستوں کو علیحدہ علیحدہ کرنے کی تمثیل اچھے اور کڑوے دانے اور مچھلیاں پکڑنے والے جال سے دی۔ اسی طرح بیش قیمت سچائی کو چھپے خزانے اور قیمتی موتی کی تمثیل دے کر بیان کیا۔ پھر اچھے مختار اور خادم کے بارے میں اپنے شاگردوں کو سکھایا کہ وہ کس طرح اُس کے اچھے نمائندے بن سکتے ہیں۔ ZU 405.1

    سارا دن وہ سیکھاتا اور اُن کو شفا دیتا رہا۔ شام ہونے پر بھی بھیڑ اُس پر گری پڑتی تھی۔ وہ ہر روز اُن کی خدمت میں بہت ہی مصروف دن گذارتا۔ حتٰی کہ اُس کے پاس کھانا کھانے اور آرام کرنے کا بمشکل وقت ہوتا تھا۔ اُس کے حاسد اور نکتہ چین فقیہ فریسی ہر وقت اُس کے پیچھے لگے رہتے تھے۔ اور جب اُن کو موقع ملتا اُسے اور اُس کی تعلیم کی بھر پور مخالفت کرتے۔ پس ان تمام باتوں سے بچنے کے لئے اُس نے چاہا کہ جھیل کے پار تنہائی میں آرام فرمائے۔ جھیل گنیسرت کا مشرقی کنارہ غیر آباد نہ تھا بلکہ کوئی قصبہ یہاں اور کوئی وہاں آباد تھا۔ مگر مغربی کنارے کی نسبت اسے غیر آباد ہی سمجھئے۔ ZU 405.2

    یہاں بت پرست قومیں یہودیوں کی آبادی سے کہیں زیادہ تھی۔ اسی وجہ سے اُن کا گلیل کے ساتھ بہت ہی کم واسطہ تھا۔ یہیں اُس نے آرام کرنا چاہا اور اپنے شاگردوں کو حکم دیا کہ اُس کے ساتھ چلیں۔ بھیڑ کو رُخصت کرنے کے بعد شاگردوں نے اُس کو جلدی سے کشتی میں بٹھایا اور چل پڑے۔ مگر اُنہیں تنہا نہیں جانا تھا۔ وہاں اور بھی مچھلیاں پکڑنے والی کشتیاں کنارے لگی کھڑی تھیں۔ اور جو لوگ یسوع کی پیروی کر رہے تھے وہ اُن میں بیٹھ گئے؟ اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ آدمیوں سے بھر گئیں کیونکہ وہ مزید یسوع کو دیکھنے اور اُس سے سننے کے مشتاق تھے۔ آخر کار یسوع بھیڑ کے دباو سے آزاد ہوا۔ سخت مشقت اور بھوک پیاس سے ماندہ ہو کر وہ کشتی میں لیٹ گیا۔ اُسے فوراً نیند آگئی۔ یہ شام بڑی سہانی اور پُر سکون تھی۔ جھیل پر خوشگوار آسمان چھایا ہوا تھا۔ مگر دیکھتے ہی دیکھتے آسمان پر کالی گھٹاوں نے قبضہ جما لیا۔ گھن گرج کے ساتھ بڑی بھیانک آندھی شروع ہو گئی جو پہاڑیوں سے ٹکراتی ہوئی مشرقی کنارے پر تباہی مچانے لگی۔ اور آن کی آن میں اُس نے جھیل میں تندو تیز تلاطم برپا کر دیا۔ ZU 406.1

    سورج غروب ہو چکا تھا۔ اور لیلٰی شب نے متلاطم سمندر پر ڈیرہ جما لیا۔ لہریں ساحلوں سے ٹکرا کر کشتیوں پر حملہ آور ہوئیں۔ ایسے معلوم ہوتا تھا کہ پل بھر میں مرُ لیا باجے گی۔ ماہی گیروں نے بڑا جتن کیا مگر وہ کشتیوں کو ڈوبنے سے بچانے میں بے بس دکھائی دے رہے تھے۔ اُن کی کشتیوں میں پانی بھر چکا تھا اور وہ سوچتے تھے کہ یہ جھکڑ ہمیں ڈبو کر رہے گا۔ اپنے آپ کو بچانے کی کوشش میں وہ بھول ہی گئے کہ یسوع بھی کشتی میں ہے کچھ دیر کی تگ و دو کے بعد معلوم ہو گیا کہ موت اُن کے سامنے کھڑی ہے اور اچھی بات یہ کہ اُنہیں یاد پڑا کہ کس کے کہنے پر وہ سمندر پار کر رہے ہیں۔ اُن کی اُمید صرف یسوع میں تھی۔ لہٰذا اپنی مایوسی اور پریشانی کی حالت میں وہ پکار اُٹھے “آقا، آقا” مگر تاریکی کے باعث وہ اُسے دیکھنے سے قاصر تھے۔ آندھی کے جھکڑ میں اُن کی آوازیں گم ہو کر رہ گئیں۔ اسلئے اُنہیں کوئی جواب نہ ملا۔ خوف اور شک نے اُنہیں گھیر لیا۔ وہ سوچنے لگے کہ کیا یسوع نے اُنہیں چھوڑ دیا ہے ؟ کیا یہ وہی ہے جس نے ابلیس، موت اور ہر طرح کی بیماری پر فتح پائی ہے؟ کیا اب وہ اپنے شاگردوں کی مدد کرنے کے لئے بے بس ہے؟ کیا اُسے خبر نہیں کہ ہم سخت مصیبت میں ہیں؟ ZU 406.2

    انہوں نے پھر پکارا۔ مگر زور دار آندھی اور طلاطم کے شور کے علاوہ اُنہیں کچھ سنائی نہ دیا۔ اُن کی کشتی پیشتر ہی ڈوب رہی تھی ۔ پل بھر میں اُن کی قبریں سمندر میں بننے کو تھیں۔ پانی کی بھوکی لہریں اُنہیں ہڑپ کرنے کو منہ کھولے کھڑی تھیں۔ اچانک بجلی کی چمک نے ظلمت کو چیر کر رکھ دیا اور اُنہوں نے اس روشنی میں یسوع کو اطمینان کی گہری نیند سوتے پایا۔ خونی طلاطم اُس کی نیند میں ہرگز مخمل نہ ہوا۔ چنانچہ اُنہوں نے مایوسی اور حیرانی کے عالم میں پوچھا۔ آقا، کیا تجھے فکر نہیں کہ ہم ہلاک ہوئے جاتے ہیں؟ وہ اس بات پر تعجب کرتے تھے کہ وہ کیوں کر اتنی میٹھی نیند سو سکتا ہے جبکہ ہم خطرے اور موت کے ساتھ جدوجہد کر رہے ہیں؟ZU 407.1

    ان کی چیخوں سے یسوع بیدار ہو گیا۔ اور بجلی کی روشنی میں اُنہوں نے اُس کا پرسکوں چہرہ دیکھا۔ اور اُسکے چہرے پر خود انکاری، ایثار پسندی، محبت اور کمال کا رحم پایا۔ ان تمام وصف کو دیکھ کر اُن کے دل اُس کی طرف مائل ہوئے۔ اور اُس سے التجا کرنے لگے کہ خداوند ہمکو بچا کیونکہ ہم تو برباد ہوئے جاتے ہیں۔ ZU 407.2

    جب بھی کوئی روح خداوند سے مدد کے لئے پکارتی ہے وہ اُسے نظر انداز نہیں کرتا جب شاگرد چپو چلانے کی آخری کوشش کر رہے تھے۔ یسوع جاگ اُٹھا اور شاگردوں کے درمیان آکھڑا ہوا۔ جھکڑ کے چلنے سے لہریں اُچھل اُچھل کر اُن کے اوپر سے گذری جاتی تھیں۔ بجلی کی چمک میں وہ اُس کا چہرہ دیکھ سکتے تھے۔ اُس نے اپنے ہاتھ اوپر اُٹھا کر بپھرئے سمندر کو حکم دیا۔ “تھم جا” ZU 408.1

    طلاطم موقوف ہو گیا موجیں پُر امن ہو گئیں۔ بادل فیل بے مہار کی طرح ادھر اُدھر پراگندہ ہو گئے۔ نیلے آسمان پر ستارے ٹمٹمانے لگے۔ ہچکولے کھاتی ہوئی کشتی پُرسکون پانی پر تیرنے لگی۔ پھر یسوع شاگردوں کی طرف مڑا اور مغموم ہو کر کہنے لگا۔ “اے کم اعتقادو ڈرتے کیوں ہو؟ کا ابھی تک تم میں ایمان نہیں۔۔۔۔۔۔ZU 408.2

    شاگردوں پر خوف چھا گیا۔ حتٰی کہ پطرس بھی بیان نہ کر سکا کہ اُس کے دل پر کیا گذری ہے۔ دوسری کشتیوں کا بھی یہی حال ہوا جو یسوع کی کشتی کے ساتھ ہولی تھیں۔ مگر اُن سب نے معجزہ دیکھا۔ جب سکون ہو گیا تو سب کے دلوں سے خوف جاتا رہا۔ پھر وہ آپس میں تعجب کر کے کہنے لگے۔ “یہ کس طرح کا آدمی ہے کہ ہوا اور پانی بھی اس کا حکم مانتے ہیں۔ ‘متی 27:8 ZU 408.3

    جب یسوع کو اُٹھا یا گیا وہ پُر سکون تھا۔ اُس کے کلام میں نہ اُس کے چہرے اور دل میں خوف کا شائبہ تھا۔ وہ قادر مطلق زمین و آسمان کے خالق کی حیثیت سے لینا؟؟؟؟ تھا۔ بلکہ اُس قدرت کو اُس نے ایک طرف رکھ دیا تھا۔ اُسکا کہنا ہے” میں اپنے آپ سے کچھ نہیں کر سکتا ” یوحنا 30:5۔۔۔ وہ خدا میں مکمل بھروسہ رکھتا تھا۔ اور خداوند کی قدرت میں ہی اُس نے سمندر کو ساکن کیا۔ ZU 408.4

    جیسے یسوع اپنے باپ میں مکمل اعتماد کر کے آرام پاتا تھا۔ ہمیں بھی اپنے نجات دہندہ میں مکمل بھروسہ رکھ کر آرام و سکون حاصل کرنا چاہئے۔ اگر شاگرد یسوع میں مکمل بھروسہ رکھتے تو پریشان نہ ہوتے۔ خطرے کے وقت اُن کی بے اعتقادی ظاہر ہو گئی۔ اپنی کوشش میں وہ یسوع کو بھول گئے۔ اور یہ اُس وقت ہوتا ہے جب ہم اپنے آپ پر بھروسہ کرنے لگتے ہیں۔ اور سوچتے ہیں کہ ہمیں اب کسی اور کی کیا ضرورت۔ تاہم شاگردوں نے ناکام ہونے کے بعد یسوع کو مدد کے لئے پکارا۔ ZU 409.1

    بسا اوقات ہمارا تجربہ بھی شاگردوں کے تجربہ سے مختلف نہیں ہوتا۔ جب آزمائشوں کے جھکڑ چلتے، بجلیاں کڑکتی اور لہریں ہمارے سروں سے گذرتی ہیں اُس وقت ہم اکیلے ہی ان طوفانوں کے مقابل آجاتے ہیں۔ اور اُس وقت تک تگ و دو کرتے رہتے ہیں جب تک ہماری اُمید جاتی نہیں رہتی۔ اور ہمیں معلوم ہو جاتا ہے کہ اب ہم تباہی کے کنارے پہنچ گئے ہیں۔ تب ہمیں یسوع یاد آتا ہے۔ اب بھی اگر اُسے پکاریں گئے تو بے سود نہ ہوگا۔ بیشک وہ ہماری کم اعتقادی اور خود اعتمادی پر ہمیں بڑے رنج سے جھڑکے گا مگر وہ ہمیں ضروری مدد فراہم کرنے سے گریز نہیں کرے گا۔ خواہ ہم سمندر میں ہوں یا خشکی پر ، اگر نجات دہندہ ہمارے دل میں ہے تو خوف کی ہرگز ضرورت نہیں۔ نجات دہندہ میں زندہ ایمان زندگی کے طوفان کو موقوف کر کے ہمیں خطرے سے بچا لے گا۔۔۔۔ZU 409.2

    طوفان کو ساکن کرنے کے معجزے میں ایک اور روحانی سبق ہے۔ لیکن شریر تو سمندر کی مانند ہیں جو ہمیشہ موجزن اور بے قرار ہے۔ جس کا پانی کیچ اور گندگی اُچھالتا ہے۔ میرا خدا فرماتا ہے کہ شریروں کے لئے سلامتی نہیں” یسعیاہ 20:57-21 گناہ نے ہمارا چین برباد کر دیا ہے۔ اور ہماری خودی خدا کے طابع ہونے سے گریز کرتی ہے اسلئے ہمیں سکون نصیب نہیں۔ کوئی شخص بھی دل کی نفسانی خواہشات پر قابو نہیں پا سکتا۔ جیسے طلاطم کے سامنے شاگرد بے بس تھے اسی طرح دل کے ہاتھوں ہم بھی بے بس ہیں۔ مگر یاد رہے کہ جس نے گلیل کی متلاطم لہروں کو پر سکون کر دیا وہی ہر روح کو چین بخشے گا۔ اس میں کلام نہیں کہ طوفان کس قدر تندو تیز اور خطر ناک ہے جو کوئی بھی مدد کے لئے پکارے گا خداوند ضرور اُسے رہائی بخشے گا۔ اُس کافضل جو روح کو خدا وند خدا سے ملا دیتا ہے۔ انسان کے جذبات کے طلاطم کو پر سکون کر سکتا ہے۔ پھر اُسکی محبت میں دل آرام پاتا ہے۔ “وہ آندھی کو تھما دیتا ہے۔ اور لہریں موقوف ہو جاتی ہیں۔ تب وہ اُس کے تھم جانے سے خوش ہوتے ہیں۔ یوں وہ اُن کو بندرگاہ مقصود پر پہنچا دیتا ہے۔ ” زبور 29:107-30 “پس جب ہم ایمان سے راستباز ٹھہرے تو خداوند کے ساتھ اپنے خداوند یسوع مسیح کے وسیلہ صلح رکھیں۔ “رومیوں 1:5 “اور صداقت کا انجام صلح ہو گا اور صداقت کا پھل ابدی آرام و اطمینان ہو گا۔ “یسعیاہ 17:32 ZU 409.3

    صبح سویرے نجات دہندہ اور اُس کے ساتھی کنارے لگے۔ طلوع آفتاب سے زمین اور سمندر بُقعہ نور بن گیا۔ مگر جلد ہی اُن کی آنکھیں ایک ایسے منظر سے دو چار ہوئیں جو سمندری طلاطم سے بھی بھیانک تھا۔ قبروں میں سے دو دیوانے اُن کی طرف اس طرح دوڑے آئے جیسے اُن کو چیر پھاڑ دیں گے۔ جن زنجیروں سے اُنہیں باندھا گیا تھا وہ ٹوٹ چکی تھیں۔ مگر ابھی تک ٹوٹی ہوئی ہاتھوں اور پاوں کے ساتھ لٹک رہی تھیں۔ جگہ جگہ اُن کے بدن سے خون بہہ رہا تھا۔ کیونکہ اُنہوں نے تیز پتھروں سے خود کو زخمی کر رکھا تھا۔ اُن کے اُلجھے ہوئے بالوں کو دیکھ کر گھبراہٹ ہوتی تھی۔ اُن کی آنکھیں غیض و غضب سے آگ برسا رہی تھیں۔ انسان سے زیادہ وہ بیچارے حیوان دکھائی دیتے تھے کیونکہ عرصہ سے وہ ابلیس کے قبضہ میں تھے۔ ZU 410.1

    شاگرد اور اُن کے ساتھی خوف سے تتر بتر ہو گئے۔ مگر اُنہیں جلد معلوم ہو گیا کہ یسوع اُن کے ساتھ نہیں ہے۔ پس وہ اُسے دیکھنے کے لئے واپس لوٹے۔ اُنہوں نے دیکھا کہ وہ وہیں کھڑا ہے جہاں وہ اپسے چھوڑ کر بھاگے تھے۔ وہ جس نے آندھی اور جھکڑ کو موقوف کر دیا تھا جس نے ابلیس پر فتح پائی تھی وہ ان آسیب زدہ پاگلوں سے بھی ڈر کر نہ بھاگا۔ جب وہ شخص، جن میں بد روحیں تھیں اُس پر غصے سے دانت پیس رہے تھے تو اُن کے منہ سے جھاگ بہہ رہا تھا۔ اور وہ یسوع کی طرف بڑھتے چلے جاتے تھے۔ یسوع نے اپنا وہ ہاتھ اوپر اُٹھایا جس سے اُس نے سمندر کو ساکن کیا تھا تو وہ آدمی وہیں رُک گئے۔ اور مزید اُس کے نزدیک آنے کی جسارت نہ کی۔ گو وہ غصے سے بھرے تھے مگر اُس کے سامنے بے بس تھے۔ ZU 411.1

    پھر اُس نے بڑے اختیار سے بد روحوں کو حکم دیا کہ ان میں سے نکل جاو۔ اُس کا کلام اُن کے تاریک اذہان میں سرائت کر گیا۔ وہ محسوس کرنے لگے کہ وہ جس کی حضوری میں ہیں وہ اُنہیں ابلیس کے چنگل سے رہائی دے سکتا ہے۔ وہ یسوع کے قدموں میں سجدے کے لئے گر گئے۔ لیکن جب اُنہوں نے رحم کے لئے لب کشائی کی تو ابلیس اُن کے ذریعے کلام کر کے کہنے لگا “اے خدا کے بیٹے ہمیں تجھ سے کیا کام؟ کیا تو اس لئے یہاں آیا ہے کہ وقت سے پہلے ہمیں عذاب میں ڈالے؟ZU 411.2

    یسوع نے اُن سے پوچھا تمہارا کیا نام ہے؟ اُنہوں نے کہا ہمارا نام لشکر ہے۔ کیونکہ ہم بہت ہیں۔ اُن شخصوں کو استعمال کر کے بد روحوں نے یسوع سے منت کی کہ ہمیں ان سرحدوں سے باہر نہ بھیج۔ وہاں سے کچھ دور پہاڑ پر سُوروں کا غول چر رہا تھا۔ پس بد روحوں نے اس کی منت کر کے کہا ہمیں سُوروں کے غول میں بھیج دے ۔ اُس نے اُن سے کہا جاو اُن میں داخل ہو جاو۔ وہ نکل کر سُوروں کے اندر چلی گئیں۔ اور سارا غول کڑاڑے پر سے جھپٹ کر جھیل میں ڈوب مرا۔ ZU 411.3

    اس دوران جن میں بد روحیں تھیں اُن میں عجیب و غریب تبدیلی آگئی۔ اُن کے ذہن روشن ہو گئے۔ آنکھیں ذہانت سے چمکنے لگیں۔ اُن کے کرخت چہرے اچانک شفقت سے معمور ہو گئے۔ نیز اپنی رہائی پر خدا کی تمجید کرنے لگے۔ یہ تمام ماجرہ سُورچرانے والوں نے پہاڑی کی چوٹی سے دیکھا۔ وہ بھاگے تا کہ جو ماجرہ ہوا تھا اُ س کی خبر سُوروں کے مالکوں کو اور دوسرے لوگوں کو دیں۔ خوف اور حیرت سے معمور لوگ یسوع کی ملنے آئے۔ یہ دونوں شخص جن میں بد روحیں تھیں علاقے کے لئے مسلسل خطرہ بنے ہوئے تھے۔ جہاں یہ رہتے تھے وہاں سے کوئی گذرنے کی جرات نہیں کرتا تھا۔ کیوں کہ اُس راستہ سے گذرنے والے ہر مسافر پر بد روحیں حملہ آور ہو جاتی تھیں۔ مگر اب لوگوں نے دیکھا کہ یہ دونوں شخص کپڑے پہنے اور پورے ہوش و حواس میں یسوع کے قدموں میں بیٹھ کر خدا کا کلام سن رہے ہیں۔ اور جس نے اُنہیں شفا بخشی تھی اُس کی تمجید میں رطب للسان ہیں۔ مگر وہ لوگ جن کے سُور ڈوب کر مر گئے تھے وہ اس شاندار اور حیرت انگیز منظر کو دیکھ کر ہرگز شاداں نہ ہوئے۔ اُن کے نزدیک سُوروں کا نقصان ان دو شخصوں کو نجات دلانے سے کہیں زیادہ تھا۔ یہ لوگ روحانی چیزوں کی نسبت مادی چیزوں میں زیادہ دلچسپی رکھتے تھے۔ خداوند یسوع مسیح خود غرضی کے اس جادو کو توڑنا چاہتا تھا۔ مگر عارضی دُنیاوی نقصان نے اُن کی آنکھیں اندھی کر رکھی تھیں۔ اسلئے وہ نجات دہندہ کے رحم کو دیکھ نہیں سکتے تھے۔ZU 412.1

    مسیح یسوع کی مافوق الفطرت قوت نے لوگوں کی اوہام پرستی اور خوف کو جنم دیا۔ اُنہوں نے سوچا اگر اس اجنبی کو مزید یہاں رہنے کی اجازت دی تو بہت ممکن ہے کہ ہم پر اس سے بھی بڑی مصیبتیں نازل ہوں۔ اُنہوں نے مالی اور مادی نقصان کا تخمینہ لگایا جو سُوروں کے ڈوبنے سے اُنہیں پہنچا تھا۔ اسلئے انہوں نے مل کر تہیہ کیا کہ اس اجنبی کو درخواست کریں کہ وہ ہماری سرحدوں سے نکل جائے۔ ZU 413.1

    شاگردوں کے علاوہ دوسرے لوگ جو یسوع کے ساتھ جھیل کے دوسرے کنارے گئے تھے انہوں نے جھیل میں آنے والے طوفان اور اُسے ساکن کرنے کے تمام واقعہ کو تفصیل سے ان بت پرست لوگوں کو بتایا مگر اُن کی باتوں کا اُن پر کوئی اثر نہ ہوا۔ بلکہ سب جمع ہو کر اُس کے پاس آئے اور منت کرنے لگے کہ ہمارے پاس سے چلا جا۔ یسوع نے اُن کی درخواست تسلیم کرلی اور کشتی پر چڑھ کر پار چلا گیا۔ ZU 413.2

    گرامینیوں کیلئے یسوع کی محبت، رحم اور قدرت کا زندہ ثبوت تھا۔ اُن کے پاس تندرست سلامت دو نوجواں اپنے پورے ہوش و حواس میں بیٹھے ہوئے تھے جو عرصہ سے بد روحوں کی قید میں تھے۔ مگر اُنہیں اقتصادی نقصان منظور نہ تھا ۔ دُنیاوی اور مادی لالچ نے اُن کی آنکھیں اندھی کر دیں۔ بدیں وجہ اُنہوں نے آسمانی بخشش کو جو اُن کے پاس آچکی تھی ٹھکرا دیا۔ شائد گراسینیوں کی طرح ہم نے کبھی بھی یسوع کو گھر سے نہ نکالا ہو۔ مگر ہم میں بہتیرے ایسے ہیں جو خدا کا کلام ماننے سے ڈرتے ہیں مبادہ اُنہیں مادی نقصان ہو۔ اصل میں ہم یسوع کو کہتے ہیں کہ ہمارے ہاں سے چلا جا۔ یوں ہم اُس کے فضل اور روح القدس کو اپنے ہاں سے دور کر دیتے ہیں۔ ZU 413.3

    مگر وہ دو اشخاص جو شف پا گئے تھے۔ اُن کی خواہشات اور محسوسات بالکل متفرق تھیں۔ وہ تو ہمیشہ اپنے نجات دہندہ کے ساتھ رہنے کے متمنی تھے۔ وہ یسوع کی قربت میں ابلیس سے محفوظ تھے جس نے اُن کی جوانی اور انسانیت کو برباد کر کے رکھ دیا تھا۔ جب یسوع کشتی میں داخل ہونے لگا تو وہ اُس کے مزید قریب ہو گئے اور گھٹنے ٹیک کر یہ التجا کرنے لگے “کہ ہمیں اپنے ساتھ رہنے دے تاکہ اُس سے کلام سنیں۔ “مگر خداوند نے اُن کو حکم دیا کہ اپنے گحروں کو لوٹ جاو اور لوگوں سے کلام بیان کرو کہ خدا نے تمہارے لئے کیسے بڑے کام کئے ہیں۔ یہ کام تھا جو اُنہیں کرنا تھا۔ یعنی بت پرستوں میں کا کر اُن برکات کا ذکر کرنا جو اُنہوں نے یسوع سے پائی تھیں۔ مگر اُن کے لئے انتہائی مشکل کام تھا کہ یسوع سے علیحدہ ہوں۔ بت پرستوں کے ساتھ صحبت رکھنے سے اُنہیں کئی مشکلات کا سامنا ہو سکتا تھا۔ چونکہ وہ معاشرے سے کاف عرصہ کٹے رہے تھے۔ اسلئے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جو کام یسوع مسیح نے اُنہیں اُن کے فرائض سے آگاہ کیا وہ اُسے بلا چون وچراں ماننے کے لئے تیار پائے گئے۔ اُنہوں نے نہ صرف اپنے گھر اور پروس میں یسوع کی منادی کی بلکہ سارے دکپلس میں اُنہوں نے یسوع کی بچانے والی قدرت کی منادی کی۔ اور اپنی زندہ گواہی دی کہ اُس نے کس ابلیس کے چنگل سے اُنہیں رہائی دی ہے۔ اور اگر وہ محض اپنے فائدہ کی خاطر یسوع کی حضوری میں ہی رہتے اور دوسروں کو نجات کی خوشخبری نہ سناتے تو اُن نعمتوں سے محروم رہتے جو یسوع مسیح اُن کو اُن کی خدمت کے عوض دینا چاہتا تھا۔ نجات کی خوشخبری پھیلانے سے ہی ہم نجات دہندہ کے قریب آتے ہیں۔ ابلیس سے خلاصی پانے والے یہ دو اشخاص پہلے مشنری تھے جن کو یسوع مسیح نے دکپلس کے علاقہ میں انجیل کی منادی کے لئے بھیجا۔ ان اشخاص نے صرف چند لمحات کے لئے یسوع سے تعلیم پائی تھی۔ یسوع سے اُنہوں نے کبھی ایک وعظ تک نہ سنا تھا۔ وہ شاگردوں کی طرح لوگوں کو بہتر انداز میں ہدایات نہیں دے سکتےتھے۔ مگر اُنہیں یہ ذاتی تجربہ تھا کہ یسوع ہی مسیح ہے۔ جو کچھ اُنہوں نے دوسروں کو بتا سکتے تھے۔ جو کچھ اُنہوں نے دیکھا اور سنا وہی کچھ اُنہوں نے دوسروں تک پہنچایا۔ اور یسوع مسیح کی جیسی قدرت اُنہوں نے محسوس کی اُسی کی اُنہوں نے منادی کی۔ وہ سب لوگ جن کے دل فضل سے متاثر ہوئے ہیں۔ یہی کچھ کر سکتے ہیں جو ان دو اشخاص نے کیا۔ ZU 414.1

    پیارا یوحنا خدا کے روح سے لکھتا ہے “اُس زندگی کے کلام کی بابت جو ابتدا سے تھا اور جسے ہم نے سنا اور اپنی آنکھوں سے دیکھا بلکہ غور سے دیکھا اور اپنے ہاتھوں سے چھوا۔ جو کچھ ہم نے دیکھا اور سنا ہے تمہیں بھی اُس کی خبر دیتے ہیں۔ ” 1-یوحنا 1:1-3۔۔۔۔۔ یسوع مسیح کے گواہ ہوتے ہوئے جو کچھ ہمیں معلوم ہے بتائیں۔ جو کچھ ہم نے سنا، دیکھا یا محسوس کیا ہے اُس کی منادی کریں۔ اور جس طرح وہ ماضی میں ہماری رہنمائی کرتا رہا ہے اُس کی گواہی دیں۔ ہم بتا سکتے ہیں کہ کس طرح ہم نے اُس کے وعدوں کو آزمایا اور اُنہیں سچ پایا۔ جو کچھ ہم یسوع کے فضل کے بارے جانتے ہیں اُسکی گواہی دے سکتے ہیں۔ ZU 415.1

    اسی گواہی کے لئے ہمارا آقا ہمیں بلاتا ہے۔ اسی کی کمی کے باعث دُنیا برباد ہو رہی ہے۔ بیشک گراسینیوں کے باشندوں نے یسوع کو قبول نہ کیا، اس کے باوجود یسوع نے اُنہیں اُس اندھیرے میں نہ رہنے دیا جسکا اُنہوں نے انتخاب کیا تھا۔ جب انہوں نے یسوع کو اپنے علاقہ سے نکل جانے کے لئے کہا اُس وقت اُنہوں نے یسوع کا کلام نہ سنا تھا، وہ پوری طرح غافل اور بے سمجھ تھے۔ اس لئے یسوع نےاُن کے پاس دوبارہ نور بھیجا۔ اور نور بھی اُن کے ذریعہ بھیجا جن کی سننے سےوہ انکار نہ کر سکتے تھے۔ ZU 415.2

    سُوروں کی تباہی کرنے سے ابلیس چاہتا تھا کہ لوگ یسوع سے دور چلے جائیں۔ اور اس علاقے میں انجیل کی منادی رُک جائے۔ مگر اس واقعہ کی وجہ سے تمام علاقہ میں یسوع کی خبر پہنچ گئی۔ شائد کسی اور واقعہ سے تمام لوگوں کی توجہ یسوع کی طرف مبدول نہ ہوتی۔ بیشک یسوع وہاں سے چلا گیا مگر اُس علاقہ کے جن لوگوں کو اُس نے شفا دی تھی۔ اُسی علاقے سے ہزاروں ہزار نجات کا پیغام سننے کے لئے یسوع کے گرد گرد جمع ہو گئے۔ ZU 416.1

    ان دو اشخاص کی اتفاقی ملاقات میں شاگردوں کے لئَ ایک بڑا سبق پنہاں تھا۔ اس سارے واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ شیطان نسل انسانی کو کتنا ذلیل کرنا چاہتا ہے اور خداوند یسوع مسیح کا مشن یہ ہے کہ ابلیس کی قدرت سے ہر انسان کو رہائی دلائے۔ وہ بد بخت اشخاص جن ڈیرہ بسیرہ قبروں میں تھا، اُن پر بدروحوں نے قبضہ کر رکھا تھا۔ وہ ہر بُری خواہش اور جذبات کے تابع ہو چکے تھے۔ یہ دو اشخاص اُن لوگوں کی نمائندگی کرتے ہیں جو ابلیس کو اپنے اوپر قبضہ کرنے دیتے ہیں۔ ابلیس کی حتی الوسع کوشش ہے کہ انسان کے ذہن و دماغ کو اپنے قبضہ میں لے کر بدی، دہشت گردی اور جرائم کے لئے استعمال کرے۔ ZU 416.2

    ابلیس بدن کو کمزور، شعور کو تاریک اور روح کو تحقیر کرتا ہے۔ جب کبھی بھی انسان خدا کی دعوت کو رد کر دیتے ہیں تو حقیقت میں وہ خود کو ابلیس کے قبضہ میں دے دیتے ہیں۔ گھروں میں، کاروبار میں، حتی کہ کلیسیا میں بھی آج ہزاروں لوگ یہی کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری دھرتی پر دہشت گردی اور جرائم بڑھتے جا رہے ہیں۔ بد اخلاقی اور موت نے انسانی آبادی میں ڈیرہ ڈال رکھا ہے۔ شیطان انسان کے سامنے اپنی بڑی بڑی آزمائشیں رکھ کر اُسے بد ترین بدی کی طرف مائل کر رہا ہے اور اُس وقت تک نہیں چھوڑتا جب تک انسان مکمل طور پر تباہ نہیں ہو جاتا۔ اُس سے بچنے کا واحد راستہ یسوع مسیح کی قربت ہی ہے۔ ابلیس انسان کا جانی دشمن ہے جبکہ یسوع مسیح انسان کا دوست اور نجات دہندہ ہے۔ اُس کا روح انسان میں اعلےٰ سیرت پیدا کر سکتا ہے۔ یسوع کی روح انسان کو خدا کے جلال کے لئے اُستوار کر سکتی ہے۔ “کیونکہ خدا نے ہمیں دہشت کی روح نہیں بلکہ قدرت اور محبت اور تربیت کی روح دی ہے “2- تیمتھیس 7:1 اُس نے ہمیں بُلایا ہے تاکہ ہم یسوع مسیح کا جلال حاصل کریں۔ اُس نےہمیں بلایا ہے تاکہ ہم اُس کے بیٹے کے ہمشکل ہوں۔ “2- تھسلنیکیوں 4:2، رومیوں 29:8۔۔۔۔ وہ روحیں جنہیں ابلیس نے ذلت کے گڑھے میں گرا دیا ہے ابھی بھی یسوع کی قدرت سے تبدیل ہو کر راستبازی کی پیامبر بن سکتی ہیں۔ اُنہیں خدا کا بیٹا یہ منادی کرنے کے لئے بھیج سکتا ہے کہ “اُن کے لئے خدا نے کتنے بڑے کام کئے ہیں۔ ”ZU 416.3

    ****

    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents