Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents

زمانوں کی اُمنگ

 - Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First
    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents

    باب نمبر 37 - ”پہلے مُبشرین“

    تمام رسول یسوع مسیح کے خاندان کے افراد تھے۔ اور جب وہ گلیل کے علاقہ میں پیدل ادھر اُدھر جاتا آتا تھا وہ اُس کے ہمراہ ہوا کرتے تھے۔ وہ اپنے تمام مسائل اُس کے سامنے پیش کرتے تھے جو اُنہیں دبا لیتے تھے۔ وہ خدا کے بیٹے کے ساتھ چلتے پھرتے، گفتگو کرتے اور اُس کے مشن کے متعلق اُس سے سیکھتے تھے۔ نیز اُس کی روزانہ ہدایات سے اُنہوں نے سیکھا کہ کس طرح انسانیت کو فضیلت دی جا سکتی ہے۔ جب یسوع اُس بھیڑ کی خدمت کرتا تھا جو اُسے گھیرے رکھتی تھی تو یہ رسول یسوع کا ہاتھ بٹا کر اُسکے کام میں آسانی پیدا کرتے تھے۔ وہ بیماروں کو باری باری یسوع کے قدموں میں لاتے اور عوام سے تسلی بخش کلام کرتے۔ وہ اُن سامعین کو بھی بغور ذہن میں رکھتے جو یسوع کی تعلیم میں دلچسپی لیتے، اُن کے لئے کلام کی وضاحت کرتے اور اُن کے روحانی فوائد کے لئے خدمت انجام دیتے۔ بلکہ یوں کہنا زیادہ مناست ہو گا کہ جو کچھ وہ یسوع سے سیکھتے اُسکی تعلیم دیتے۔ یوں وہ گہرا تجربہ حاصل کرتے۔ مگر اُنہیں اکیلے کام کرنے کا تجربہ حاصل کرنا بھی ضروری تھا۔ اس لئے ابھی اُنہیں کافی ہدایات حاصل کرنے اور اپنے اندر صبر اور شفقت پیدا کرنے کی ضرورت تھی۔ اب چونکہ یسوع ذاتی طور پر اُن کے ساتھ تھا اسلئے اُن کی غلطیاں اُن پر عیاں کرتا رہتا تھا۔ جب ضروری ہدایات دے چکا تو اُنہیں اپنے نمائندوں کے طور پر خدمت کے لئے بھیجا۔ ZU 424.1

    رسول، کاہنوں اور فریسیوں کی تعلیم سے متحیر ہو جایا کرتے تھے اور اپنی پریشانی یسوع کے پاس لیکر آتے تھے۔ اُس نے روایات اور حکایات کے برعکس الہامی نسخہ جات کی صداقتیں رسولوں کے سامنے پیش کیں۔ یوں اُس نے خدا کے کلام میں اُن کا ایمان مستحکم کیا اور بڑی حد تک اُس نے اُن کو شرع کے معلموں کے خوف اور روایات کی غلامی سے آزادی بخشی۔ اُن کی تربیت کے دوران یسوع کا اپنا نمونہ اُن کے لئے ہر طرح کی تعلیم سے زیادہ موثر تھا۔ اور جب وہ خدمت کرنے کے لئے اُس سے علیحدہ ہوئے تو اُنہیں اُسکی بتائی ہوئی ہر بات، کلام کرنے کا لب و لہجہ اور دوسری ہدایات یاد آئیں۔ جب کبھی انجیل کے دشمنوں سے اُن کا سامنا ہوتا تو وہ اکثر یسوع کےکلام کو دہراتے جو اُس نے اُن کے ساتھ رہ کر کیا تھا۔ اور جب اُنہوں نے اُس کلام کا اثر لوگوں پر دیکھا تو بڑی خوشی منائی۔ ZU 425.1

    یسوع نے بارہ رسولوں کو بُلا کر گلیل کے شہروں ، قصبوں اور دیہاتوں میں دو دو کر کے بھیجا۔ اُس نے کسی کو بھی اکیلا جانے کی اجازت نہ دی بلکہ اُس نے بھائی کو بھائی کے ساتھ اور دوست کو دوست کے ساتھ روانہ کیا۔ یوں وہ ایک دوسرے کی مدد اور ہمت افزائی کر سکتے تھے۔ اکٹھے ملکر دُعا کر سکتے اور ایک دوسرے کے مشورے سے مسفید ہو سکتے تھے۔ نیز ایک کی قوت اور حوصلہ دوسرے کی کمزوری میں تقویت کا باعث بن جاتی۔ اسی طریقہ کار کو اپناتے ہوئے بعد میں اُس نے ستر کو منادی کی مدد کریں۔ آج کے زمانہ میں بھی اگر یسوع مسیح کے بتائے ہوئے طریقہ کار کو اپنایا جائے تو منادی کا کام زیادہ کامرانیاں حاصل کرے گا۔ جو منادی یوحنا ‘بپتسمہ دینے والا’ اور خود یسوع مسیح نے کی اُس کا پرچار شاگردوں نے کیا۔ ۔ یعنی “خدا کی بادشاہی نزدیک آ گئی ہے“اُنہیں لازماً اس متنازعہ فیہ مسلہ کا سامنا تھا کہ آیا یسوع ناصریہی موعودہ مسیح ہے یا نہیں؟ تاہم اُنہیں اُس کے نام وہی کام کرنے تھے جووہ اپنے رحم میں کیا کرتا تھا۔ اُس نے اُنہیں یہ اختیار دے کر بھیجا” بد روحوں کو نکالیں اور ہر طرح کی بیماری اور ہر طرح کی کمزوری کو دُور کریں۔ تم نے مفت پایا مفت دینا۔”ZU 425.2

    اپنی خدمت کے دوران یسوع نے تعلیم دینے کی نسبت زیادہ وقت بیماروں کو شفا دینے کے لئے وقف کر رکھا تھا۔ اُس کے معجزات اُس کے اس کلام کی صداقت کے گواہ تھے کہ وہ ہلاک کرنے نہیں بلکہ بچانے آیا ہے۔ اُس کی راستبازی اُس کے آگے آگے چلتی تھی اور خداوند کا جلال پیچھے سے اُس پر سایہ افگن رہتا تھا۔ جہاں کہیں وہ گیا اپس کے رحم کی خوشخبری اُس کے پہنچنے سے پیشتر وہاں جا پہنچی۔ جہاں کہیں وہ گیا وہاں اُس کے رحم کے چرچے پھیل گئے۔ بیماروں نے شفا پائی۔ ایسے مریضوں کو بھیڑ روک روک کر اُن عجیب کاموں کے بارے سنتی جو خداوند خدا نے اُن کے لئے کئے تھے۔ بہتیرے ایسے تھے جنہوں نے زندگی میں پہلی بار اُس کی آواز اپنے کانوں سے سُنی تھی۔ ‘کیونکہ جنم کے بہرے تھے۔’ اور بعض ایسے تھے جنہوں نے پہلی بار اپنی زبان سے اُس کا نام پکارا تھا۔ ‘کیونکہ وہ جنم کے گونگے تھے’ اور بعض اُن مریضوں میں ایسے تھے جنہوں نے زندگی میں پہلی بار اپنی آنکھوں سے یسوع کا مبارک چہرہ دیکھا تھا ‘کیوں کہ وہ جنم کے اندھے تھے۔’ کیون نہ اس طرح کے تمام لوگ یسوع کو پیار کرتے؟ وہ زندگی اور محبت کا منبع تھا۔ جس شہر گاوں یا قصبے سے گذرا خوشیاں بانٹتا گیا۔ مرُدوں کو زندگی اور بیماروں کو شفا بخشتا چلا گیا۔ ZU 426.1

    خدا کے کار گذاروں کو بھی اُسی طرح خدمت انجام دینا ہے جیسے وہ انجام دیتا تھا۔ ہمیں بھوکوں کو کھانا کھلانا، ننگوں کو کپڑا، بیمارون اور دکھیوں کو آرام پہنچانا ہے۔ جو بیدل اور مایوس ہو چکے ہیں اُنہیں ہمت اور اُمید دلانا ہے۔ تب ہی ہم اس وعدہ کے مالک ٹھہریں گئے۔ “تب تیری روشنی کی مانند پھوٹ نکلے گی۔ اور تیری صحت کی ترقی جلد ظاہر ہو گی۔ تیری صداقت تیری ہر اول ہو گی۔ اور خداوند کا جلال تیرا چنداول ہو گا۔ یسعیاہ 8:58 ZU 427.1

    مسیح یسوع کی بے لوث محبت نے عدالت اور تلوار سے بھی زیادہ بد کارون کی اصلاح کا کام انجام دیا۔ تلوار اور عدالت قانون توڑنے والوں کے لئے ضروری تو ہیں مگر محبت سے معمور مشنری اُن سے بھی بڑھ کر کام کر سکتا ہے۔ اکثر تنبیہ کرنے سے دل سخت ہو جاتا ہے مگر یسوع کی محبت کے زیر اثر یہی دل نرم ہو جاتا ہے۔ مسیحی مشنری صرف جسمانی تکالیف سے ہی آرام نہیں بخشتا بلکہ گناہ کے مریضوں کو عظیم طبیب کے قدموں میں لے آتا ہے جو گناہ کے مریض کی روح کو شفا بخشتا ہے۔ خداوند چاہتا ہے کہ اُس کے خادموں کے ذریعے بیمار، بد نصیب اور ابلیس کے جال میں پھنسے ہوئے لوگ اُس کی آواز سُنیں اور ایسا اطمینان پائیں جو دُنیا نہیں دے سکتی۔ ZU 427.2

    رسولوں کو پہلی بار بطور مشنری صرف “اسرائیل کی کھوئی بھیڑوں” کے پاس جانے کا حکم تھا۔ اگر وہ پہلی بار غیر قوموں اور سامریوں میں منادی کرتے تو یقیناً یہودیوں پر اپنا اثر کھو بیٹھتے۔ فریسی اُن کے مخالف ہو جاتے اور اُن کے کام میں رکاوت پیدا ہو جاتی۔ رسول ابھی یہ بھی نہیں سمجھتے تھے کہ خوشخبری کے اس کلام کو دُنیا بھر میں جانا ہے۔ لہذا جب تک وہ خود اس سچائی کو اپنے دل میں نہ اتارنے وہ غیر قوموں کے لئے کیوں کر کام کر سکتے تھے کیونکہ وہ اس کے لئے پوری طرح تیار نہ تھے۔ اور اگر یہودی خوشخبری کو قبول کر لیتے تو خدا وند اُنہیں غیر قوموں میں خوشخبری سنانے کے لئے بھیج سکتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ یہودیوں کو پہلے خوشخبری سنائی گئی۔ ZU 427.3

    مسیح کے باغ میں ہر جگہ جہاں مزدور کام کرنے گئے اُنہیں ایسی روحیں ملیں جو سچائی کی بھوکی اور پیاسی تھیں۔ اب وقت آ گیا تھا کہ چاہنے والے دلوں میں اُس کی محبت کی خوشخبری پہنچائی جائے۔ ان سب روحوں کے پاس شاگردوں کو بطور مسیح کے نمائندگان پہنچنا تھا۔ نیز ایمانداروں کو اُنہیں اپنے روحانی اساتذہ کے طور قبول کرنا تھا۔ اور یسوع کے آسمان پر صعود فرمانے سے پیشتر اُن کو معلوم ہونا چاپئے تھا کی یسوع نے اُنہیں رہنما کے بغیر نہیں چھوڑا۔ ZU 428.1

    شاگردوں کو پہلی بار صرف اُن اُن جگہوں پر ہی جانا تھا۔ جہاں جہاں یسوع پہلے جا چکا تھا اور جہاں اُس کے کچھ دوست بھی تھے۔ اُن کی سفر کی تیاری بڑی سادہ سی تھی۔ اُنہیں کوئی ایسی چیز ساتھ نہ لے جانا تھی جو اُن کی توجہ کو اصل کام سے ہٹا دے یا دُشمنوں کو بھڑکا دے۔ اور یہ اس لئے تاکہ آئندہ وہاں ان پر کام کے دروازے بند نہ ہو جائیں۔ اُنہیں مذہبی معلموں کا سا لباس بھی نہ پہننا تھا نہ کوئی ایسا ظاہری نشان اپنا نا تھا جس کی وجہ سے وہ عام لوگوں سے مختلف نظر آئیں۔ اور نہ ہی اُنہیں ہیکل میں داخل ہو کر لوگوں کو عبادت کے لئے بلانا تھا۔ بلکہ اُنہیں گھر گھر جا کر منادی کرنے کا حکم تھا۔ اُنہیں ہرگز وقت ضائع نہیں کرنا تھا۔ بلکہ جو لائق پائے جاتے کھانا بھی صرف اُن کے ہاں سے کھانے کا حکم تھا۔ “اور جس گھر میں داخل ہو پہلے کہو کہ اس گھر کی سلامتی ہو۔ اگر وہاں کوئی سلامتی کا فرزند ہو گا تو تمہارا سلام اُس پر ٹھہرے گا نہیں تو تم پر لوٹ آے گا۔ اسی گھر میں رہو اور جو کچھ اُن سے ملے کھاو پیئو کیونکہ مزدور اپنی مزدوری کا حقدار ہے۔ “لوقا 5:10-7 ان کےساتھ ملکر خدا کا کلام پڑھو اور اُسکی حمد کے ملکر گیت گاو تو وہ گھر آپ کی دعاوں سے برکت پائے گا۔ ZU 428.2

    ان شاگردوں کو خوشخبری پھلانا اور اپنے آقا کی آمد کے لئے راہ تیار کرنا تھا۔ اُنہیں ابدی زندگی کا پیغام سنانا تھا جس پر ہر انسان کی زندگی کا انحصار ہے۔ اسے قبول کرنا یا رد کرنا اُن کی اپنی صوابدید تھی۔ اس پیغام کی حرمت اور سنجیدگی کے پیش نظر یسوع نے فرمایا “لیکن جس شہر میں داخل ہو اور وہاں کے لوگ تمہیں قبول نہ کریں تو اُس کے بازاروں میں جا کر کہو کہ ہم اس گرد کو بھی جو تمہارے شہر سے ہمارے پاوں کو لگی ہے تمہارے سامنے جھاڑے دیتے ہیں مگر یہ جان لو کہ خدا کی بادشاہی نزدیک آ پہنچی ہے۔ میں تم سے کہتا ہوں کہ عدالت کے دن سدوم کا حال اُس شہر کے حال سے زیادہ برداشت کے لائق ہو گا۔” ZU 429.1

    اب خداوند یسوع مسیح کی نگاہ مستقبل میں چلی گئی۔ اُس نے اُس وسیع کھیت کو دیکھا جس میں یسوع کے شاگرد اُس کی موت کے بعد گواہی دینے کو تھے۔ اُس نے اپنی آمد ثانی تک تمام خادموں کو نبیانہ نگاہ سے دیکھا۔ اُس نے اپنے پیروکاروں پر ظاہر کیا کہ اُنہیں کس طرح کی کشمکش سے دو چار ہونا پڑے گا۔ وہ ان پر جنت کا طریقہ اور نوعیت آشکارہ کرتا ہے۔ وہ اُن پر یہ بھی آشکارہ کرتا ہے کہ تم پر کون سی تکالیف متوقع ہیں۔ اُن سے خود انکاری کا بھی مطالبہ کیا گیا۔ انہیں بتایا گیا کہ دشمن سے غافل نہ رہیں کیونکہ تمہاری جنگ خون اور گوشت کے خلاف نہیں بلکہ حکومت والوں اور اختیار والوں اور اس دُنیا کی تاریکی کے حاکموں اور شرارت کی اُن روحانی فوجوں سے ہے جو آسمانی مقاموں میں ہیں۔ ” افسیوں 12:6 اُنہیں مافوق الفطرت طاقتوں کا سامنا تھا اُنہیں یقین دلایا گیا کہ تمہاری مدد کو بھی مافوق الفطرت قوتیں یعنی پاک فرشتے، روح القدس اور خود خدا وند آئے گا۔ آسمان کی تمام ذی شعور ہستیاں اس فوج میں شامل ہیں۔ روح القدس رب الافواج کی نمائندگی کرتی ہے جو براہ راست آسمان سے آکر ہمارے حق میں جنگ لڑتی ہے۔ خواہ ہماری کمزوریاں کتنی ہی کیوں نہ ہوں جو خداوند خدا کو شکستہ دل کے ساتھ ڈھونڈتے ہیں اُن پر خداوند کا فضل ہوتا ہے۔ خداوند کی قدرت اُن سب کے لئے ہے جو اُس میں بھروسہ رکھتے ہیں۔ “دیکھو میں تم کو بھیجتا ہوں گویا بھیڑوں کو بھیڑیوں کے بیچ میں۔ پس سانپوں کی مانند ہوشیار اور کبوتروں کی مانند بے آزار بنو۔ “متی 16:10 خداوند یسوع مسیح نے سچائی کے کلام کو خود بھی کبھی دُرشتی سے نہیں بلکہ محبت کی روح سے پیش کیا۔ لوگوں کے ساتھ کام کرنے کے دوران خداوند مسیح نے بڑی حکمت، مردم شناشی دلجوئی اور خاطر و مدارت کا مظاہرہ کیا۔ کسی ذی حس روح کو رنجیدہ کیا نہ کسی کے ساتھ بے ادبی اور ترش کلامی کی۔ بلکی اُس نے کسی زود رنج روح کو بھی رنجیدہ نہ کیا۔ کسی کی کمزوری کو دیکھتے ہوئے کبھی اُس نے کسی کو ڈانٹ نہ پلائی۔ بیشک اُس نے ریاکاری، کم اعتقادی کی سرزنش کی مگر وہ بھی محبت کی روح سے۔ جب وہ کسی کو جھڑکتا تھا تو دُکھ سے اُسکی اپنی آنکھوں میں آنسو آ جاتے تھے اور آواز بھر ا جاتی تھی۔ وہ یروشیلم شہر پر رویا جسے وہ پیار کرتا تھا۔ کیونکہ اُس نے راہ حق اور زندگی کو ٹھکرا دیا تھا۔ بیشک یروشیلم کے باشندوں نے اُسے رد کردیا تھا۔ مگر اُسے اُن کے لئے دلی محبت تھی۔ اُن کے غم میں اُس کا دل پاش پاش ہو گیا۔ یروشیلم کا ہر بشر اُس کی نظر میں گراں قدر تھا۔ ذات الہٰی رکھتے ہوئے بھی وہ خدا کے خاندان کے ہر بشر کی قدر کرتا تھا۔ اُس نے ہر انسان میں گناہ میں گرتی ہوئی روح کو دیکھا جسکو بچانا ہی اُس کا مشن تھا۔ ZU 429.2

    یسوع مسیح کے خادموں کو بھی اپنے دل کے ارادوں کی مطابقت میں کام نہیں کرنا۔ بلکہ اُن کا زندہ رابطہ خداوند خدا کے ساتھ ہونا لازم ہے مبادا وہ خود غرض ہو کر بھول جائیں اور اُن کے منہ سے نامناسب کلام نکلے۔ جو مرجھائے پودوں کے لئے بارش کا کام نہ دے۔ یہی ابلیس چاہتا ہے کہ وہ کریں کیوں کہ یہ اُس کے کامیاب حربے ہیں۔ یہی حیوان غضب ناک ہوتا اور بھائیوں پر الزام لگاتا ہے۔ مگر خدا کے خادموں کو خدا کی ہی نمائندگی کرنا ہے ۔ وہ چاہتا ہے کہ اُس کے خادم اُس صداقت سے انحراف نہ کریں جو اُس سے متعلق ہے۔ جس قوت سے وہ اُس بدی پر غالب آسکتے ہیں وہ صرف یسوع سے حاصل ہوتی ہے۔ خداوند کا جلال اُن کی قوت ہے۔ اُنہیں صرف اپس کی پاکیزگی پر نگاہ کرنا ہے۔ پھر وہ نہایت ہی موثر انداز میں خداوند کی خدمت اور ابلیس کا مقابلہ کر سکیں گے۔ ZU 431.1

    جنہیں صداقت کے دُشمنوں کا مقابلہ کرنا ہے اُنہیں صرف انسانوں سے ہی نہیں بلکہ ابلیس اور اُس کے حواریوں سے بھی دُو بدُو ہونا ہے۔ اُنہیں خداوند یسوع مسیح کا یہ کلام یاد ہونا چاہئے۔ “دیکھو میں تم کو گویا بّروں کو بھیڑیوں کے بیچ میں بھیجتا ہوں ۔ “لوقا 3:10۔۔۔ اُنہیں خداوند کی محبت میں اطمینان حاصل ہوا۔ اور جب لوگ اپن پر لعن طعن کریں گے اُس وقت بھی وہ بے دل نہ ہوں گے۔ کیوں کہ خداوند اُن کو اپنی زرہ بکتر سے ملبوس کرے گا جو اُنہیں بھیڑیوں سے محفوظ رکھے گی۔ تواتر سے ہدایت کرتے ہوئے خداوند مسیح نے اپنے شاگردوں سے فرمایا “آدمیوں سے خبر دار رہو” اُنہیں ایسے آدمیوں میں اعتماد نہ رکھنے کے لئے فرمایا گیا جو خدا کو نہیں جانتے اگر ایسا کریں گے تو ابلیس کے حواریوں کو فائدہ پہنچے گا۔ انسان کی اپنی تجاویز اکثر خدا کی تجایز کے برعکس ہوتی ہیں۔ جو خدا کی ہیکل تعمیر کرتے ہیں چاہئے کہ اُس کے بتائے ہوئے نمونہ کے مطابق تعمیر کریں جو خداوند نے پہاڑ پر دکھایا تھا۔ جب خداوند کے خادم اُن لوگوں کے مشورے پر چلتے ہیں جو روح القدس کی ہدایت کے مطابق نہیں چلتے تو خداوند خدا کی اور اُسکی انجیل کی تحقیر و تکفیر ہوتی ہے۔ دُنیا کی حکمت خدا کے نزدیک بیوقوفی کے مترادف ہے۔ جو لوگ دُنیوی فہم و فراست پر تکیہ کرتے ہیں وہ ضرور دھوکا کھائیں گے۔ مگر آدمیوں سے خبردار رہو کیونکہ وہ تم کو عدالتوں کے حوالہ کریں گے۔ “اور میرے سبب سے حاکموں اور بادشاہوں کے سامنے حاضر کئے جاو گے تاکہ اُن کے اور غیر قوموں کے لئے گواہی ہو” متی 16:10-18۔۔۔۔ ایذا رسانی سے نور چمکے گا۔ خدا کے خدام اختیار والوں کے سامنے پیش کئے جائیں گے تاکہ یہ دُنیا دار لوگ بھی انجیل کی منادی سُن سکیں۔ ایسے لوگوں تک سچائی غلط رنگ میں پہنچائی گئی تھی۔ اُنہوں نے شاگردوں کے خلاف جھوٹے الزامات سُن رکھے تھے۔ چنانچہ جن ایمانداروں کو ان اختیار والوں کے حضور تفتیش کے لئے لایا جاتا تھا وہی ان کو انجیل کی خوشخبری سنانے کا واحد ذریعہ ہوتے تھَ۔ حاکم وقت اُن سے سوال پوچھتے تھے چنانچہ اُن کے جواب میں ایمانداروں کو اپنے ایمان کی گواہی دینا ہوتی تھی۔ یوں غیر قومیں اور اختیار والے صداقت سے واقف ہوتے جاتے تھے۔ اگر کوئی ہنگامی صورت پیش آ جائے تو خداوند کافضل اپنے خادموں کے ساتھ ہو گا۔ “لیکن جب وہ تم کو پکڑوائیں تو فکر نہ کرنا کہ ہم کس طرح کہیں یا کیا کہیں کیوں کہ جو کچھ کہنا ہو گا اُسی گھڑی تم کو بتایا جائے گا۔ کیوں کہ بولنے والے تم نہیں بلکہ تمہارے باپ کا روح ہے جو تم میں بولتا ہے۔ “متی 19:10-20۔۔۔۔ جب خداوند کا روح ذہنوں کو روشن کرتا ہے تو الہٰی قوت صداقتوں کو نہائت ہی موثر انداز میں پیش کر دیتی ہے۔ وہ جو سچائی کو رد کرتے ہیں شاگردوں پر الزام لگاتے اور ڈراتے دھمکاتے ہیں۔ اس کے باوجود خداوند کے خادم دُکھ تکلیف حتٰی کہ موت میں بھی یسوع کا نمونہ اپنائے رکھتے ہیں۔ اور یہی چیز یسوع مسیح اور ابلیس کے نمائندوں میں باعث امتیاز ہے۔ اسی وجہ سے عوام اور اختیار والوں کے سامنے نجات دہندہ کی بزرگی ہو گی۔ اُس وقت تک شاگردوں کو شہادت پانے کے لئے حوصلہ اور جرات کی بخشش نصیب نہ ہوئی جب تک اس فضل کی اُن کو ضرورت نہ پڑی۔ اور جب حقیقت میں ان کو ضرورت تھی یسوع نے اپنا وعدہ پورا کیا۔ جب پطرس اور یوحنا نے سنہیڈرن ‘نیشنل کونسل’ کے سامنے یسوع کی گواہی دی تو معلوم کیا کہ یہ ان پڑھ اور ناواقف آدمی ہیں تو تعجب کیا۔ پھر اُنہوں نے پہچانا کہ یہ یسوع کے ساتھ رہے ہیں۔ “اعمال 13:4۔۔۔۔ بلکہ ستفنس کے بارے لکھا ہے۔ “اور اُن سب نے جو عدالت میں بیٹھے تھے اُس پر غور سے نظر کی تو دیکھا کہ اُس کا چہرہ فرشتہ کا سا ہے۔ اعمال 15:8 اور وہ اس دانائی اور روح کا جس وے وہ کلام کرتا تھا مقابلہ نہ کر سکے ۔ “اعمال 10:8۔۔۔۔ اور پولس رسول کا کہنا ہے کہ “میری جواب دہی کے وقت کسی نے میرا ساتھ نہ دیا بلکہ سب نے مجھے چھوڑ دیا کاش کہ اُنہیں اسکا حساب دینا نہ پڑے۔ مگر خداوند میرا مدد گار تھا اور اُس نے مجھے طاقت بخشی تاکہ میر معرفت پیغام کی پوری منادی ہو جائے اور سب غیر قومیں سُن لیں۔ اور میں شیر کے منہ سے چھڑایا گیا۔ ” 2 تیمتھس 16:4-17 ZU 431.2

    خدا کے خادموں کو اپنی آزمائشوں کے وقت پہلے سے کوئی تقریر تیار کر کے رکھنے کی ضرورت نہ تھی۔ بلکہ جو کچھ اُنہیں کہنا تھا وہ ہر روز خدا کے کلام سے اپنے ذہن میں جمع کرتے رہتے تھے۔ اسی طرح دُعا کے ذریعے اُن کا ایمان مستحکم ہوتا رہتا تھا۔ اور جب اُن کی پیشی ہوتی تھی تو روح القدس اُن سچائیوں کو اُنہیں یاد دلاتا تھا جن کی اُنہیں ضرورت ہوا کرتی تھی۔ خداوند مسیح نے فرمایا “میرے نام کے سبب سے سب لوگ تم سے عداوت رکھیں گے مگر جو آخر تک برداشت کرے گا وہ نجا ت پائے گا” اس کے باوجود یسوع مسیح نے حکم دیا کہ غیر ضروری طور پر مصیبتوں کو دعوت نہ دو۔ وہ خود ایک جگہ سے دوسرے جگہ چلا جایا کرتا تھا جب دشمن اُس کی جان کے خواہاں ہوتے تھے۔ جب ناصرت کے لوگوں نے اُسے رد کرکے اُسکی جان لینا چاہی تو وہ کفر نحوم کو چلا گیا۔ وہاں لوگ اُس کی تعلیم سے حیران ہوئے۔ “کیونکہ اُس کا کلام اختیار کے ساتھ تھا۔ “لوقا 32:4 ۔۔۔۔ لہذا اُس کے شاگردوں کو بھی ایذا رسانیوں سے ڈرنا یا گھبرانا نہ تھا۔ بلکہ خطرات والی جگہوں کو چھوڑ کر محفوظ جگہوں میں روحوں کی نجات کے لئے خدا کا کلام پھیلانا تھا۔ ZU 434.1

    نوکر اپنے مالک سے بڑا نہیں ہوتا۔ آسمانی شہزادے کو بعلز بول کہا گیا۔ اُس کے شاگردوں کو بھی غلط رنگ میں پیش کیا جا سکتا ہے۔ خواہ کیسا ہی خطرہ در پیش کیوں نہ ہو خداوند مسیح کے پیرو کاروں کو اصول سے انحراف نہیں کرنا چاہیئے۔ چھپ کر تو رہ نہیں سکتے۔ بلکہ خدا نے اُن کو پہرے دار مقرر کیا ہے تاکہ بنی نوع انسان کو خطرے سے آگاہ کریں۔ پس جو سچائیاں یسوع سے پائی ہیں دُنیا کو مفت اور برملا سکھانا ہے۔ یسوع مسیح نے فرمایا “جو کچھ میں تم سے اندھیرے میں کہتا ہوں اُجالے میں کہو اور جو کچھ تم کان میں سنتے ہو کوٹھوں پر اُسکی منادی کرو” متی 27:10ZU 434.2

    یسوع نے خود محض امن کی خاطر اصولوں پر سودا بازی نہ کی۔ تمام نسل انسانی کے لئے اُس کا جی بھر آتا تھا مگر وہ اُن کے گناہوں میں کبھی بھی شامل و شریک نہ ہوا۔ جب وہ اپنے گناہو ں میں مزید غلطاں ہو کر اپنی روح کو برباد کرنے پر تل جاتے تو وہ ان کی دوستی کا پاس رکھتے ہوئے اُن کے معاملہ میں بالکل لب کشائی نہ کرتا۔ وہ اُس روح کو جسے اُس نے اپنے خون سے خرید رکھا تھا ابدی زندگی کے چناو کا حق بخشتا۔ ابدی زندگی چننے کے لئے اُسے مجبور نہ کرتا خداوند کے خادموں کے سُپرد بھی ایسا ہی کام ہے۔ اسلئے وہ خبردار رہیں مبادا اُن کے ذریعے سچائی مغلوب ہو جائے۔ اُنہیں تو “اُن باتوں کے طالب رہنا ہے جن سے میل ملاپ اور باہمی ترقی ہوتی ہے۔ “رومیوں 19:14۔۔۔۔ کیونکہ اصولوں پر سمجھوتہ کرنے سے کبھی امن نہیں ہو سکتا۔ نیز مخالفت خریدے بغیر کوئی بھی اصولوں کی پابندی نہیں کر سکتا۔ مسیحیت جس میں روحانیت ہے لازم ہے کہ نافرمانی کے فرزند اُس کی مخالفت کریں۔ مگر یسوع نے شاگردوں کو کہا جو بدن کو قتل کرتے ہیں اور روح کو قتل نہیں کر سکتے اُن سے نہ ڈرو۔ بلکہ اُسی سے ڈرو جو روح اور بدن دونوں کو جہنم میں ہلاک کر سکتا ہے۔ “متی 28:10۔۔۔ جو خداوند سے وفادار ہیں اُنہیں انسانی اختیار اور ابلیس کی دُشمنی کی فکر نہ کرنا چاہیے۔ مسیح یسوع میں ابدی زندگی پائی جاتی ہے۔ اگر اُنہیں ڈرنا چاہیئے تو صرف اس بات سے کہ مبادہ اُن کی وجہ سے سچائی مغلوب ہو جائے۔ ابلیس کا تو یہی کام ہے کہ انسان کے دل کو شک و شبہات سے بھر دے۔ وہ لوگوں کو خدا کے خلاف اکساتا ہے کہ وہ یہ مان لیں کہ خدا جابر منصف ہے۔ وہ اُنہیں گناہ کرنے پر اُبھارتا ہے۔ پھر وہ اُن کو احساس دلاتا ہے کہ وہ سخت نجس ہیں اور خدا اتنا پاکیزہ ہے کہ وہ اُس کے حضور کھڑے بھی نہیں ہو سکتے۔ خداوند خدا یہ سب کچھ سمجھتا ہے۔ یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں کو خداوند کی رحمدلی اور ہمدردی کے بارے بتایا جو اُنہیں بوقت ضرورت اور بوقت کمزوری درکار ہے۔ کتاب مقدس سے ظاہر ہے کہ خداوند کے حضور ہزاروں ہزار اور لاکھوں لاکھ فرشتے اُس کی مرضی کو بجا لانے کے لئے ہر وقت تیار کھڑے رہتے ہیں۔ اس کی آنکھیں اپنی تمام رعایا پر ہیں۔ کل کائنات کی نسبت ہماری دھرتی ایک چھوٹے سے ذرّے کے مشابہ ہے۔ مگر اس دھرتی کے باسیوں کو بچانے کے لئے خداوند خدا نے اپنے اکلوتے بیٹے کو قربان ہونے کے لیے دے دیا۔ جس سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہم گنہگار انسانوں میں کتنی دلچسپی رکھتا ہے۔ خداوند خدا اپنے تخت سے ہم دکھیوں کی فریاد سننے کے لئے اپنا کان ہماری طرف جھکائے رکھتا ہے۔ ہر مخلص دُعا کا جواب دیتے ہوئے وہ فرمایا ہے کہ “میں یہاں ہوں” وہ کُچلے ہووں کو بحال کرتا ہے۔ ہمارے دُکھوں سے اُسے رنج پہنچتا ہے اور اُسکے لئے ہمارے قریب ہی رہتے ہیں۔ حتٰی کہ ایک چڑیا بھی ہمارے آسمانی باپ کی مرضی کے بغیر زمین پر نہیں گرتی۔ جو کچھ خدا کی پناہ میں ہے ابلیس اسے نفرت انگیز نگاہوں سے دیکھتا ہے۔ وہ خدا کی صنعت گری کو مسخ کرنے پر تُلا ہوا ہے۔ حتٰی کہ بے زبان جانوروں کو ہلاک کرکے بھی اُسے راحت ملتی ہے۔ یہ تو خدا کی حفاظت ہی ہے جس نے پرندوں کو بچائے رکھا ہے جو اپنی راگنیوں سے ہمیں مسرور کرتے ہیں۔ اسی لئے وہ چڑیوں کی بھی فکر کرتا ہے۔ وہ فرماتا ہے۔۔۔۔۔۔ “ڈرو نہیں تمہاری قدر تو چڑیوں سے کہیں زیادہ ہے” خدا وند یسوع مسیح نے فرمایا اگر تم آدمیوں کے سامنے میرا اقرار کرو گے تو میں بھی خدا اور اُس کے پاک فرشتوں کے سامنے تمہارا اقرار کروں گا۔ تم میرے گواہ ہو اور میرا فضل تمہارے ذریعے دُنیا کو شفا بخشے گا۔ اور میں تمہارا آسمان پر نمائیندہ ہوں گا۔ خداوند خدا تمہاری ناراستی نہیں دیکھتا بلکہ وہ تمہیں میری کاملیت میں ملبوس پاتا ہے۔ میرے ذریعہ سے تمام آسمانی برکات آپ کو ملیں گی۔ ZU 435.1

    جو یسوع کا اقرار کرتے ہیں لازم ہے کہ یسوع اُن میں سکونت کرے۔ کیوں کہ جو کچھ کسی کے پاس ہے ہی نہیں وہ دوسروں کو کیوں کر دے سکتا ہے؟ ” شاگرد تعلیم کو بے شک اچھی طرح جانتے اور بیان کر سکتے تھے۔ وہ یسوع کی تعلیم کوبھی دہرا سکتے تھے۔ لیکن جب تک اُن میں یسوع کی محبت اور حلیمی نہ پائی جاتی وہ کیوں کر اُس کا اقرار کر سکتے تھے۔ یسوع مسیح کی روح کے متضاد روح اصل میں یسوع کا انکار ہے۔ ہم بے وقوفی، بدی اور احمقانہ کلام کرکے یسوع کا انکار کر سکتے ہیں۔ اسی طرح گناہ کو جاری رکھتے ہوئے اور بے ہودہ گفتگو اور ظالمانہ نہ عمل دکھا کر بھی اُسکا انکار کر سکتے ہیں۔ مگرخبردار یسوع نے پیشتر ہی آگاہ کر دیا ہے کہ “جو کوئی آدمیوں کے سامنے میرا انکار کرے گا میں بھی اپنے باپ کے سامنے جو آسمان پر ہے اُس کا انکار کروں گا۔ “متی 33:10 ZU 437.1

    خدا وند مسیح نے شاگردوں کو جتا دیا کہ انجیل کی خوشخبری کے خلاف دُشمنی جاری رہے گی اور کبھی یہ اُمید نہ کرنا کہ یہ دُشمنی موقوف ہو جائے گی۔ “یہ نہ سمجھو کہ میں زمین پر صلح کرانے آیا ہوں۔ صلح کرانے نہیں بلکہ تلوار چلانے آیا ہوں۔ “متی 34:10۔۔۔۔۔ یہ انجیل کی منادی کے نتیجہ میں لڑائی نہیں ہو گی بلکہ مخالفت کے نتیجہ میں اور یہ جنگ یا لڑائی دوست و احباب اور گھر والوں کے درمیان پائی جائے گی۔ اسی لئے خداوند نے جتا دیا۔ “اور آدمی کے دشمن اُس کے گھر ہی کے لوگ ہوں گے۔ جو کوئی باپ یا ماں کو مجھ سے زیادہ عزیز رکھتا ہے۔ وہ میرے لائق نہیں اور جو کوئی بیٹے یا بیٹی کو مجھ سے زیادہ عزیز رکھتا ہے وہ میرے لائق نہیں۔ جو کوئی اپنی صلیب نہ اُٹھائے اور میرے پیچھے نہ چلے وہ میرے لائق نہیں۔ “متی 36:10-38 ZU 437.2

    خدا وند یسوع مسیح کے خدام ککا مشن بڑی عزت کا حامل ہے۔ خداوند نے فرمایا “جو تم کو قبول کرتا ہے وہ مجھے قبول کرتا ہے۔ اور جو مجھے قبول کرتا ہے وہ میرے بھیجنے والے کو قبول کرتا ہے۔۔۔۔ یسوع مسیح کے لئے چھوٹی سے چھوٹی خدمت بھی بغیر اجر کے نہیں۔ “اور جو کوئی شاگرد کے نام سے ان چھوٹوں میں سے کسی کو صرف ایک پیالہ ٹھنڈا پانی ہی پلائے گا میں تم سے سچ کہتا ہوں وہ اپنا اجر ہرگز نہ کھوئے گا۔ ‘متی 42:10ZU 438.1

    یوں خداوند مسیح کی ہدایات جو وہ بارہ شاگردوں کو دے رہا تھا اختتام پذیر ہوئیں۔ چنانچہ یسوع کے نام میںوہ بارہ انجیل کی منادی کو نکلے۔ اور اُنہوں نے بھی وہی خدمت انجام دی جو اُن کے آقا نے انجا دی تھی۔ یعنی “غریبوں کو خوشخبری، قیدیوں کو رہائی اندھوں کو بینائی اور کچلے ہووں کو آزاد کیا۔ “لوقا 18:4-19 ZU 438.2

    ****

    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents