Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents

زمانوں کی اُمنگ

 - Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First
    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents

    باب نمبر 10 - بیابان میں آواز

    ایمانداروں میں سے جو عرصہ سے مسیح موعود کا انتظار کر رہے تھے اُس کی راہ تیار کرنے والا پیدا ہوا۔ زکریاہ کاہن اور اُس کی بیوی الیشبع بانجھ تھی۔ “وہ دونوں خدا کے حضور استباز تھے” اُن برے دنوں میں اُن کی مقدس اور پرسکون زندگی میں ایمان کا ایسا نور چمکا جیسے اندھیری رات میں ستارا۔ اس خدا ترس جوڑے کو اُس فرزند نرینہ کی نوید سُنائی گئی جو “خداوند کے آگےآگے چلے گا اور اُس کی راہ تیار کرے گا۔”ZU 96.1

    زکریا ہ یہودیہ کےپہاڑی علاقہ میں رہتا تھا۔ مگر وہ یروشلم اپنی کہانت کی باری کے لئے ایک ہفتہ کے لئے ہیکل میں آیا تھا۔ کیونکہ سال میں دو بار ہر کاہن کو خدمت کے لئے آنا ضرور تھا۔ “اور جب وہ خدا کے حضور اپنے فریق کی باری پر کہانت کا کام انجام دیتا تھا تو ایسا ہوا کہ کہانت کے دستور کے موافق اُس کے نام کا قرعہ نکلا کہ خدا کے مقدس میں جا کر خوشبو جلائے۔” لوقا 8:1 -9 ZU 96.2

    اور وہ پاک مقام میں سونے کے مذبح کے سامنے کھڑا تھا ۔ بخور کا دھواں بنی اسرائیل کی دُعاؤں کے ساتھ خداوند کے حضور پہچا۔ اُسے اچانک خداوند کی حضوری محسوس ہوئی اور اُس نے نے دیکھا کہ خدا کا فرشتہ خوشبو کے مذبح کی دہنی طرف کھڑا ہے۔ فرشتہ کا وہاں ہونا زکریاہ کے حق میں نیک شگون تھا۔ مگر زکریاہ نے اُس کی طرف زیادہ توجہ نہ دی ۔ کئی سالوں سے وہ نجات دہندہ کے آنے کی دعائیں مانگ رہا تھا اور اب خداوند نے اپنا فرشتہ بھیجا کہ زکریاہ کو بتائے کہ تیری دُعائیں خداوند کے حضور قبول ہوئی ہیں مگر خداوند کی حضوری سے وہ گھبرایا اور اُس پر دہشت چھا گئی۔ZU 96.3

    اُسے خوشی کی بشارت دی گئی “اے زکریاہ خوف نہ کر کیونکہ تیری دُعا سُن لی گئی اور تیرے لئے تیری بیوی الیشبع کے بیٹا ہو گا تو اُس کا نام یوحنا رکھنا۔ اور تجھے خوشی و غرمی ہو گی اور بہت سے لوگ اُس کی پیدائش کے سبب سے خوش ہوں گے۔ کیونکہ وہ خدا کے حضور میں بزرگ ہو گا۔ اور ہر گز مے نہ کوئی اور شراب پئیگا اور اپنے ماں کے بطن ہی سے روح القدس سے بھر جائیگا اور بہت سے بنی اسرائیل کو خداوند کی طرف پھیرے گا اور وہ ایلیاء کی روح اور قوت میں اُس کے آگے آگے چلےگا کہ والدوں کے دل اولاد کی طرف اور نافرمانوں کو راستبازوں کی دانائی پر چلنے کی طرف پھیرے اور خداوند کے لئے ایک مستعد قوم تیار کرے۔ زکریاہ نے فرشتے سے کہا میں اس بات کو کس طرح جانوں؟ کیوں کہ میں بوڑھا ہوں اور میری بیوی عمر رسیدہ ہے۔ ZU 97.1

    زکریاہ اچھی طرح جانتا تھا کہ خداوند نے بزرگ ابرہام کو اُس کے بڑھاپے میں بیٹا بخشا تھا کیونکہ اُس نے خدا کےوعدوں کو سچ مان لیا تھا۔ مگر کچھ دیر کے لئے بزرگ زکریاہ میں انسانی کمزوری نے غلبہ پا لیا۔ وہ بھول گیا کہ جو کچھ خدا وعدہ کرتا ہے اُسے ضرورپورا کرتا ہے۔ مقدسہ مریم اور زکریاہ کے ایمان میں تضاد ہے ۔ مقدسہ مریم نے فرشتہ کی باتوں کا بالکل شک نہ کیا یقین کر کے کہا ۔ “دیکھ میں تیری بندی ہوں میرے لئے تیرے قول کے موافق ہو گا۔” لوقا 38:1 ZU 97.2

    زکریاہ ابرہام اور مقدسہ مریم کے بیٹے کی پیدائش سے بڑی گہری سچائی کے اسباق ملتے ہیں جو بہت دھیرے دھیرے سیکھے مگر جلد بھلا دیئے جاتے ہیں۔ ہم کوئی نیکی کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے مگر جو ایمان رکھتا ہے خدا اُس کے لئے سب کچھ کرتا ہے۔ ایمان کے ذریعہ سے ہی وعدہ کا فرزند دیا گیا۔ ایمان کےذریعہ ہی روحانی زندگی نصیب ہوتی ہے۔ ZU 97.3

    جناب زکریاہ کے سوال کی جواب میں فرشتہ نے فرمایا ” میں جبرائیل ہوں جو خدا کے حضور کھڑا رہتا ہوں اور اس لئے بھیجا گیا ہوان کہ تجھ سے کلام کروں اور تجھے اِن باتوں کی خوشخبری دوں۔” لوقا 19:1 --- پانچ سو سال پہلے اسی جبرائیل فرشتہ نے بزرگ دانی ایل کو پیشنگوئی بتائی تھی جو المسیح کی پہلی آمد تک محیط تھی۔ چونکہ مسیح موعود کی آمد نہائت قریب تھی اسلۓ روح نے بزرگ زکریاہ کو تحریک دی تاکہ وہ مسیح کی جلد آمد کےلئے خدا سےالتجا کرے۔ جس فرشتہ نے پیشنگوئی کی تھی اُسی کے وسیلہ سے اب تکمیل کی خوشخبری کا سندیسہ دیا گیا۔ ZU 98.1

    “اور میکائیل (مسیح) کے سوا اس میں میرا کوئی مدد گار نہیں” دانی ایل 21:10 مکاشفہ میں نجات دہندہ جبرائیل کے بارے فرماتا ہے “اُس نے فرشتہ کو بھیج کر اُس کی معرفت اُنہیں اپنے بندے یوحنا پرظاہر کیا” مکاشفہ 1:1 اور یوحنا عارف کو اُس نے بتایا “میں بھی تیرا اور تیرے بھائی نبیوں اور اس کتاب کی باتوں پر عمل کرنے والوں کا ہمحدمت ہوں۔ مکاشفہ 9:22 ---- یہ کتنا اعلٰے خیال ہے کہ وہ فرشتہ جو خداوند کے بیٹے کے دوسرے درجے پر ہے اور خدا کے بیٹے کو بعد اُسی کی آسمان میں زیادہ عزت و بزرگی ہے وہ خدا کا مقصد ہم گہنگار انسانوں پر ظاہر کرتا ہے۔ZU 98.2

    بزرگ زکریاہ نے فرشتہ کے کلام کا شک کیا ۔ لیکن اِس کی سزا اُسے یہ ملی کہ جب تک جو کچھ فرشتہ نے فرمایا ہے پورا نہ لے چپکا رہے گا اور بول نہ سکے گا۔ “اور دیکھ جس دن تک یہ باتیں واقع نہ ہو لیں تو چپکا رہے گا اور بول نہ سکے گا۔ اسلئے تو نے میری باتوں کا جو اپنے وقت پر پوری ہوں کی یقین نہ کیا۔” لوقا 20:1 ZU 99.1

    یہ خدمت جو بزرگ زکریاہ انجام دے رہا تھا اس میں قوم کے گناہوں کی معافی اور المسیح کی آمد کی دُعا شامل تھی۔ لیکن جب بزرگ زکریاہ نے چاہا کہ دُعا مانگے تو وہ بول نہ سکا۔“جب وہ باہر آیا تو اُن سے بول نہ سکا۔” لوقا 22:1 چونکہ اُسے ہیکل کے اندر متوقع وقت سے زیادہ دیر لگ گئی اس لیے لوگ گھبرا گئے ور سوچنے لگے کہ شائد خداوند نے اُسے مار دیا ہے۔ لیکن جب وہ ہیکل سے باہر آیا اُس کا چہرا خدا کے جلال سے چمک رہا تھا “پس اُنہوں نے معلوم کیا کہ اُس نے مقدس میں رہیا دیکھی ہے۔ اور وہ اُن سے اشارے کرتا تھا اور گونگا ہی رہا ۔ پھر ایسا ہوا کہ جب اُس کی خدمت کی دن پورے ہو گئے تو وہ اپنے گھر گیا” لوقا22:1 -23 ZU 99.2

    اور جب فرشتہ کی پیشنگوئی پوری ہوئی اور بزرگ زکریاہ کو خدا نے بیٹا دیا تب وہ بولنے اور خدا کی حمد کرنے لگا۔ ان کے آس پاس کے سب رہنے والوں پر دہشت چھا گئی۔ اور یہودیہ کے تمام پہاڑئ ملک میں ین سب باتوں کا چرچا پھیل گیا اور سب سننے والوں نے ان کو دل میں سوچ کر کہا تو یہ لڑکا کیسا ہونے والا ہے؟ یہ سب کچھ المسیح کی آمس کی طرف اشارہ کرتا تھا اور یوحنا بپستمہ دینے والا آیا تاکہ اُس کی راہ تیار کرے۔ اور بزرگ زکریاہ روح القدس سے بھر گیا اور نبوت کی راہ سے کہنے لگا کہ “اے لڑکے تو خدا تعالٰی کا نبی کہلائے گا۔ کیونکہ تو خداوند کی راہیں تیار کرنے کو اُس کے آگے آگے چلے گا۔ تاکہ اُس کی اُمت کو نجات کا علم بخشے، جو اُن کو گناہوں کی معافی سے حاصل ہو یہ ہمارے خدا کی عین رحمت سے ہو گا۔ جس کے سبب سے عالم بالا کا آفتاب ہم پر طلوع کرے گا تاکہ اُن کو جو اندھیرے اور موت کے سایہ میں بیٹھے ہیں روشنی بخشے اور ہمارے قدموں کو سلامتی کی راہ پر ڈالے۔ZU 99.3

    اور وہ لڑکا بڑھتا اور روح میں قوت پاتا گیا اور اسرائیل پر ظاہر ہونے کے دن تک جنگلوں میں رہا۔ لوقا 76:1 -80 ZU 100.1

    یوحنا کی پیدائش سے پہلے فرشتہ نے کہا تھا۔ “وہ خداوند کے حضور بزرگ ہو گا اور ہر گز نہ مے نہ کوئی شراب پئے گا اور اپنی ماں کے بطن ہی سے روح القدس سے بھر جائے گا۔ لوقا 15:1 خدا وند خدا نے بزرگ زکریاہ کے بیٹے یوحنا کو عظیم کام کے لئے بلایا تھا۔ اتنی بڑی خدمت اس سے پہلے کسی انسان کو نہ سونپی گئی تھی۔ اس کام میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے اُسے خداوند تعالٰی کے ساتھ مل کر کام کرنا تھا، اور اگر فرشتہ کی ہدایات پر عمال کرے گا تو ضرور خداوند کا روح اُس کے ساتھ رہے گا۔ یوحنا کو خدا کے خادم کے طور پر اُس کے آگے آگے چلنا تھا کہ بنی نوع انسان کو خدا کے نور لائے۔ اُسے اُن کے خیالات کو نئی سمت دینی تھی۔ اُسے لازم تھا کی خدا کی پاکیزگی اور راستبازی سے دنیا کو متاثر کرے اور انہیں محسوس کرائے کہ انہیں خداوند خدا کی راستبازی کی ضرورت ھے۔ اُسے خود خدا کی ہیکل بننا تھا جہاں خدا کا روح سکونت کرتا ہے۔ اس بڑے مقصد کو پورا کرنے کے لئے لازم تھا کہ اُس کی اپنی جسمانی صحت نہائت اعلٰے ہو۔ اور اس کی ذہنی اور روحانی حالت ہر لحاظ سے اُستوار ہو۔ بدیں وجہ اُسے اپنی اشتہا ، جذبات ہر قابو پانا از حد ضروری تھا ۔ اُسے اپنی تمام روحانی اور جسمانی قوا پر کامل احتیار حاصل ہونا ضروری تھا کہ وہ انسانوں کے درمیان مضبوط چٹان کی طرح کھڑا ہو سکے۔ یوحنا بپتسمہ دینے والے کے زمانہ میں لوگ ظاہری نمائش، دولت اور عیش و نشاط کے رسیا تھے۔ جنسی روابط، شراب نوشی اور دوسری قباحتوں نے اُنہیں جسمانی بیماریوں، اخلاقی انحطاط میں مبتلا کر رکھا تھا۔ روحانی طور پروہ بے حس ہو چکے تھے۔ گناہ کو وہ گناہ ہی نہ سمجھتے تھے۔ جو کسی کے جی میں آتا بلا خوف کرتا۔ یوحنا آیا تا کہ اُن سب بُرائیوں کی اصلاح کرے جو انسان کو ابدی زندگی سے محروم کر رہی تھیں۔ اُسکا سادہ لباس اور سادہ غذا اُسکے زمانے کے منہ پر طمانچہ تھا۔ تاہم پرہیز گاری کا جو سبق فرشتوں نے یوحنا کے والدین کو دیا وہ بروہ راست خدا کے تخت سے جاری ہوا تھا۔ ZU 100.2

    بچپن اور جوانی میں سیرت کی اہمیت ہر چیز پر فضیلت رکھتی ہے۔ اس دوران ضبط کا مطالبہ کیا جانا چاہیے۔ اس کی تعلیم گھر میں جتی زیادہ دی جائے گی اُس کا اثر اُتنا ہی دیر پا ہو گا۔ اسی دوران پتہ چل جاتا ہے کہ یہ بچہ یا بچی زندگی میں فتح مند ہو گا یا برباد ہو جائے گا۔ جوانی ایسا وقت ہے جس میں بیج بویا جاتا ہے اور اس بیج سے سیرت کی فصل تیار ہوتی ہے۔ اور یہ فصل اس دنیا اور آنے والی دنیا کے لئے ہوتی ہے۔ ZU 101.1

    یوحنا بپتسمہ دینے والا نبی ہونے کی حیثیت سے والدینوں کے دل اولاد کی طرف اور نافرمانوں کو راستبازوں کی دانائی پر چلنے کی طرف اور خداوند کےلئے ایک مستعد قوم تیار کرنے کو تھا۔ مسیح کی پہلی آمد کے لئے راہ تیار کرنے کے لحاظ سے وہ اُن کی نمائندگی کرتا تھا جو اب خداون یسوع مسیح کی دوسری آمد کے لئے لوگوں کو تیار کرتے ہیں۔ یہ دُنیا تو اپنی بزرگی کی خواہاں ہے۔ ہر طرف آزمائشیں اور گناہ کے جال بچھے ہوئے ہیں۔ وہ جو یہ چاہتے ہیں کہ خدا کی پاکیزگی اور راستبازی حاصل کریں اُن سب کے لئے یہ لازم ہے کہ وہ ابھی سے خود ضبطی اور پرہیز گاری کا مظاہرہ کریں۔ جذبات اور اشتہا انسان کے تابع ہوں۔ خود ضبطی نہائت ہی ضروری ہے تاکہ ہم خدا کے کلام کی سچائیوں کی جان کر اُن پر عمل پیرا ہو سکیں۔ ZU 101.2

    ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو بزرگ زکریاہ کے بیٹے کو کہانت کی خدمت کے لئے تعلیم و تربیت دی گئی۔ اگر وہ ربیوں کے سکول سے تربیت پاتا تو وہ اُسے خدا کے کام کے نااہل بنا دیتے اسی لئے خدا نے اُسے اُن اُستادوں کے پاس نہ بھیجا کہ خدا کے کلام کی تفسیر اُن کی دانش کے مطابق سیکھنے بلکہ اُس نے اُسے بیابان میں بلایا تاکہ وہ فطرت اور فطرت کے خدا سے حکمت حاصل کرے۔ ZU 102.1

    اُس کا گھر دُور افتادہ پہاڑی علاقے میں تھا۔ جہاں کئی اور پہاڑی غاریں موجود تھیں۔ مگر اُس نے بیابان سے نظم و ضبط سیکھنے کے لئے ہر طرح کی عیش و نشاط کی زندگی سے پرہیز کیا۔ یہاں حالات اُس کے موافق تھے تاکہ خود انکاری اور سادگی کی عادات اپنائے۔ دنیا سے بے نیاز ہو کر اُس نے فطرت سے اسباق سیکھے۔ یہیں اُس نے خداوند خدا اور اُس کے مکاشفہ کا علم حاصل کیا۔ وہ کلام جو فرشتہ نے زکریاہ کاہن سے کیا تھا، وہ کلام اکثر یوحنا کے لئے دہرایا جاتا۔ بچپن سے ہی اُسے معلوم تھا کہ اُسے کیا خدمت انجام دینی ہے۔ اسی لئے اُس نے اس مقدس امانت کو قبول کیا۔ تنہائی میں وہ معاشرے کے شک و شبہات ، کم اعتقادی اور نا راستی سے اچھی طرگ محفوظ تھا۔ اُسے بخوبی معلوم تھا کہ وہ اکیلا آزمائش کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ وہ بدستور گناہ سے دُور رہتا مبادہ وہ گنا ہ کے شکنجہ میں پھنس جائے۔ ZU 102.2

    خدا کا نذیر ہونے کے ناطے میں اُس نے عمر بھر کےلئے خود کو خدا کے لئے مخصوص کرنے کی قسم کھا رکھی تھی۔ اُس کا لباس قدیم نبیوں کی طرز پر اونٹ کے بالوں کا تھا اور وہ کمرے چمڑے کا پٹکا باندھے رہتا اور وہ ٹڈیاں اور شہد کھاتا جو اُسے جنگل سے ملتا اور پہاڑی چشموں کا صاف شفاف پانی پیتا۔ ZU 102.3

    ان سب امور کے باوجود یوحنا بیکار زندگی بسر نہ کرتا اور نہ ہی وہ مغموم رہتا۔ اکثر وہ عوام سے بھی ملتا جُلتا اور جو کچھ دنیا میں ہو رہا تھا اُس کا اچھی طرح مشاہدہ کرتا۔ تنہائیوں میں خدا اُس پر مکاشفے کھولتا اور وہیں اُسے سکھایا جاتا کہ کس طرگ آسمانی پیغام بنی نوع انسان تک پہنچانا ہے۔ اپنی خدمت کی لگن اُس کے دل میں موجود تھی۔ وہ دعا اور گیان دھیان کے ذریعے اپنی روح کو مستعد رکھتا تاکہ اُس خدمت کو پوری جانفشانی سے نبھا سکے جو اُس کے سامنے ہے۔ بے شک بیابان میں بھی وہ آزمائشوں سے مستثنیٰ نہ تھا۔ مگر یوحنا بپتسمہ دینے والے نے حتٰی الوسع کوشش کی کہ ابلیس کے داخلہ کا ہر راستہ بند کر دے۔ روح القدس کی مدد سے وہ ابلیس کے حربوں سے واقف ہو جاتا اور اسکا مقابلہ کرتا۔ ZU 103.1

    یوحنا نے بیابان میں اپنا سکول اور مقدس دونوں قائم کر رکھے تھے۔ بزرگ موسٰی کی طرح مدیان کی پہاڑیوں میں وہ خدا کی حضوری میں تھا جہاں وہ اُسکی قدرت کے کرشمے دیکھتا۔ اسرائیل کے عظیم لیڈروں کی طرح شان و شوکت سے رہنا اُس کی قسمت میں نہ تھا ۔ وہ تو اونچے اونچے دیو ہیکل پربتوں میں نہ رہتا تھا، اُس کے سامنے تو موآب کے ٹیلے اور اُس کے پیچھے یردن تھا جو خدا کے ذکر و فکر میں ثنا کناں تھے جس نے بڑے بڑے پہاڑوں کو اُستوار کیا اور اُنہیں اپنی قدرت سے اُن کے بکتر باندھے۔ بیابان کی اُداسی اور بد حالی حقیقت میں بنی اسرائیل کی حالت زار کی صحیح عکاسی کرتی تھی۔ خداوند کا تاکستان ویرانے میں تبدیل ہو چکا تھا۔ پھر بھی بیابان کے سر پر نیلا آسمان اُس کی پناہ گاہ تھا۔ نیلا اور خوبصورت آسمان بیابان پر جھک کر اُس کی ڈھال اور سپر کا کام دیتا تھا۔ بادل جو گرد سے آلود ظلمت اور طوفان برپا کرتے تھے وہ خدا وند کے وعدہ کی قوس قزح کی یاد تازہ کرتے تھے۔ اسی طرح بنی اسرائیل کے اوپر مسیح موعود کے جلال کا نور چمکنے والا تھا۔ اُس کے غضب کے بادل اُس کے رحم کے عہد کی قوس قزح کی بدولت چُھٹنے کو تھے۔ ZU 103.2

    جب وہ اکیلا رات کی تنہائیوں میں ہوتا تو خدا کے اُس وعدہ کو پڑھتا جو اُس نے بزرگ ابرہام کے ساتھ کیا تھا کہ میں تیر ی اولاد کو آسمان کے ستاروں کی مانند بڑھاوں گا۔ نور کے تڑکے سے موآب کے پربت جگمگا اُٹھتے اور اُسے بتاتے کہ صبح کا نور کسے ہونا چاہیے۔ “وہ صبح کی مانند ہو گا جب سورج نکلتا ہے ایسی صبح جس میں بادل نہ ہوں ” 2 سیموایل 4:23۔ اسی طرح اُس نے دوپہر کی تیز روشنی میں اُس کی شان و شکوہ کو دیکھا “خداوند کا جلال آشکارہ ہو گا اور تمام بشر اُس کو دیکھیں گے” یسعیاہ 5:40ZU 104.1

    یوحنا نے بڑی جانفشانی اور نیک نیتی سے طوماروں میں سے موعودہ مسیح کی آمد کے بارے تلاش کیا۔ اُس کی تلاش کی جو شانپ کے سر کو کچلے گا۔ “اطمینان دینے والا” اور اُسے اُس وقت دُنیا میں آنا تھا جب داود کے تخت پر حکمرانی کرنے والے نہ رہیں گے۔ اب وہ وقت آگیا تھا۔ رومی حکمران نے صیّون کے پہاڑ پر اپنا تخت قائم کر لیا تھا۔ اور خداوند کے لا تبدیل کلام کے مطابق اس دوران مسیح خداوند پیدا ہو چکا تھا۔ ZU 104.2

    یسعیاہ بنی کا صحیفہ جس میں مسیح موعود کے وعدے مرقوم تھے دن اور رات اُس کے زیر مطالعہ رہتے تھے۔ “وہ راستی سے مسکینوں کا انصاف کرے گا” ایک شخص آندھی سے پناہ گاہ کی مانند ہو گا اور طوفان سے چھیننے کی جگہ اور خشک زمین میں پانی کی ندیوں کی مانند اور ماندگی کی زمین میں بڑی چٹان کے سایہ کی مانند ہو گا۔ لوُ آکے کو متروکہ نہ کہلائے گی اور تیرے ملک کا نام پھر کبھی خرابہ نہ ہو گا بلکہ تو پیاری اور تیری سر زمین سہاگن کہلائے گی کیونکہ خداوند تُجھ سے خوش ہے تیری زمین خاوند والی ہو گی” یسعیاہ 4:14، 2:32، 4:62 بیابان میں یوحنا بپتسمہ دینے والے کا دل جلالی مکاشفہ سے بھر گیا۔ ZU 104.3

    اُس نے بادشاہ کو اُسکے جلال میں دیکھا اور اپنے بارےبھول گیا۔ اُس نے اُس کی پاکیزگی دیکھی اور جانا کہ میں نکما ہوں۔ چونکہ اُس نے الٰہی ذات کے جاہ و جلال کو دیکھ لیا تھا اسلئے وہ بے خوف و خطر اُس کے خادم کے طور پر انسانوں میں جا کر منادی کر سکتا تھا۔ وہ بادشاہوں کے درباروں میں بے باکی کے ساتھ سینہ تان کر کھڑا ہو سکتا تھا کیونکہ وہ شہنشاہوں کے شہنشاہ کے حضور سر بسجود ہو چکا تھا۔ یوحنا مسیح کی بادشاہی کے بارے اچھی طرح نہ جانتا تھا کہ وہ کس طرح کی ہو گی۔ وہ بھی دوسروں کی طرح خیال کرتا تھا کہ وہ آکر اپنی قوم کو دُشمنوں سے رہائی بخشے گا۔ مگر آنے والا بادشاہ راستبازی میں آنے کو تھا تاکہ اسرائیل کو مقدس قوم بنائے۔ اور یہی اُس کے آنے کا بڑا مقصد تھا۔ اور وہ سمجھتا تھا کہ یہ سب کچھ اُس کی پیدائش کے موقع پر بنی اسرائیل کو حاصل ہو جائے گا۔ اُس نے دیکھا کہ اُسکے لوگوں کو دھوکا دیا گیا ہے۔ وہ اپنے گناہوں میں مدہوش ہیں۔ اور ہر طرح تسلی پذیر ہیں۔ اُس نے اُنہیں اُن کی اس گناہ بھری زندگی سے جگانا چاہا اور اُسے آرزو تھی کہ پاکیزہ زندگی کی طرف گامزن ہوں۔ وہ پیغام جو خدا نے اُسے دیا تھا اُس کا مقصد تھا کہ اُن کی بدی کو اُن پر عیاں کر کے اُنہیں غمزدہ کرے۔ اس سے پہلے کہ خوشخبری کا بیج بڑھے اور نشوونما پائے لازم ہے کہ دل کی زمین اُسکے قبول کرنے کے لئے تیار ہو۔ اس سے پیشتر کہ وہ خدا وند خدا سے شفا پائیں لازم تھا کہ وہ اُن خطرناک زخموں سے واقف ہوں جو گناہ نے اُن کے بدن پر لگائے تھے۔ ZU 105.1

    خدا کبھی بھی اپنے پیامبروں کو گناہ گاروں کی خوشامد کرنے نہیں بھیجتا۔ وہ ناپاک نجس لوگوں کے پاس امن امان کا پیغام نہیں بھیجتا۔ بلکہ خطا کاروں کے ضمیر پر وہ بھاری بوجھ رکھتا ہے۔ اور قائلیت کے یتر سے اُن کے دل چھلنی چھلنی کر دیتا ہے۔ خدمت گذار فرشتے اُس سے اوپر خدا کے غضب کی عدالت لاتے ہیں جس کے باعث وہ یہ محسوس کرتا ہے کہ مجھے خدا کی ضرورت ہے۔ اور وہ اچانک چلا اُٹھتا ہے ۔ “میں کیا کروں کہ نجات پاوں” پھر خداوند کا ہاتھ اُسے خاک سے اُٹھاتا ہے۔ اور وہی آواز جس نے اُسے جھڑکا تھا اپنی محبت میں اُس سے پوچھتی ہے۔ تُو کیا چاہتا ہے کہ میں تیرے لئے کروں” ZU 106.1

    جس وقت یوحنا نے اپنی خدمت کا آغاز کیا اُس وقت بنی اسرئیل پریشانی اور بے قناعتی کا شکار تھے۔ وہ کسی بڑے انقلاب کی توقع رکھتے تھے۔ ارخلاوس کی معزولی کے بعد یہودیہ براہ راست روم کے زیر سایہ آ چکا تھا۔ روی گورنروں کے ظلم و تشدد کے علاوہ بت پرستی کی تعلیم اور رسم و رواج نے کئی غیرت مند اور بہادری اسرائیلی نوجوانوں کی جان لے لی جو رومی ان پر تھوپنا چاہتے تھے۔ اس بر بریت نے یہودیوں کے خلاف اسرائیلیوں کے سینوں میں نفرت کی آگ بھڑکا دی اور اُن کے دل میں رومیوں سے آزادی حاصل کرنے کی تمنا افزوں ہو گئی۔ ZU 106.2

    اس تمام کشمکش اور لڑائی بھرائی میں بیابان سے ایک آواز آئی جس نے سب کو چونکا دیا۔ مگر یہ آواز اُمید آواز اُمید سے بھر پور تھی جس نے لوگوں میں نئی جان ڈال دی۔ نبی نے مسیح موعود کے آنے کی پیشنگوئی کر رکھی تھی۔ مگر اب یوحنا یہ اعلان کر رہا تھا کہ وہ بہت جلد ظاہر ہونے والا ہے۔ اس اعلان کو سن کر اسکے سامعین کا ذہن قدیم کی پیشنگوئیوں کی طرف راغب ہوا۔ یوحنا نے اپنے لباس اور طورو اطوار سے ایلیاہ کی یاد تازہ کر دی۔ ایلیاہ کی روح اور قدرت میں اُس نے قوم کو اُن کی بدکاری کے باعث سخت جھڑکا۔ اُس کا کلام بڑا سادہ موثر اور قائلیت سے بھر پور تھا۔ بعض تو یہاں تک سوچنے لگے کہ یہ قدیم نبیوں میں سے کوئی زندہ ہو گیا۔ تمام اسرائیلی قوم میں ہلچل مچ گئی۔ لوگ جوق در جوق بیابان میں اُسکے پاس آنے لگے۔ ZU 106.3

    یوحنا نے مسیح کا اعلان کیا اور لوگوں کو توبہ کی منادی کی۔ گناہ سے پاکیزگی کی علامت کے طور پر اُس نے اُنہیں دریائے یردن میں بیتسمہ دیا۔ یوں اُس نے لوگوں پر واضح کیا کہ گناہ نے ہمیں نجس کر دیا تھا اور جب تک ہماری زندگی میں پاکیزگی نہ آئے ہم خدا کی بادشاہی کے لائق نہیں۔ ZU 107.1

    شہزادے، شرع کے معلم، محصول لینے والے اور کسان سبھی نبی کا پیغام سننے آئے۔ خدا کی آگاہی ان تک پہنچائی گئی۔ جتنوں نے توبہ کی یوحنا نے انہیں بپتسمہ دیا۔ جو توبہ کرتا اُس کے لئے لازم تھا کہ وہ بپتسمہ لے۔ خواہ وہ کسی بھی طبقے سے تعلق کیوں نہ رکھتا ہو۔ ZU 107.2

    کئی فقیہہ فریسی آئے اور اُنہوں نے اپنے گناہوں کا اقرار کر کے بپتسمہ پایا۔ یہ وہی لوگ تھے جو خود کو دوسروں سے برتر خیال کرتے تھے۔ اور وہ ریاکاری کرتے تھے کہ لوگ اُن کو حقیقی اور پرہیزگار سمجھیں۔ لیکن اُن کے پوشیدہ گناہ اُس وقت عیاں ہو گئے جب اُنہوں نے اپنی خطاوں کا اقرار کر کے بپتسمہ پایا۔ مگر یوحنا خوش تھا کہ بہتُوں نے روح القدس کے زیر سایہ حقیقی قائلیت پائی ہے۔ جبکہ بہت سے ایسے تھے جو جو صرف دکھاوے کے لئے بپتسمہ پا رہے تھے۔ اُن کی قائلیت عارضی تھی۔ یوحنا کے دوست ہونے کے ناطے وہ سوچتے تھے کہ آنے والے بادشاہ کے ساتھ اُن کے دوسروں کی نسبت بہتر مراسم ہوں گے۔ علاوہ ازیں لوگوں پر ہمارا تاثر بہت اچھا ہو گا۔ ZU 107.3

    مگر یوحنا اُن سے بڑی سختی سے پیش آیا” اے سانپ کے بچو، تمہیں کس نے جتا دیا کہ آنے والے غضب سے بھاگو؟ اسلیے توبہ کے موافق پھل لاو اور اپنے دلوں میں سوچنا شروع نہ کرو کہ ابرہام ہمارا باپ ہے۔ میں تمہیں جتا دیتا ہوں کہ خدا اگر چاہے تو ان پتھروں سے ابرہام کے لئے اولاد پیدا کر سکتا ہے”ZU 108.1

    یہودیوں نے خدا کے وعدے کی غلط تفسیر کی کہ خواہ ہم کچھ بھی کرتے رہیں اُس کے وعدے ہمارے ہی لئے ہیں اور ابدی ہیں۔ ZU 108.2

    “خداوند جس نے دن کی روشنی کے لئے سورج کو مقرر کیا اور جس نے رات کی روشنی کے لیے چاند اور ستاروں کا نظام قائم کیا۔ جو سمندر موجزن کرتا ہے جس سے اُس کی لہریں شور کرتی ہیں یوں فرماتا ہے۔ اُس کا نام رب الافواج ہے۔ خداوند فرماتا ہے اگر یہ نظام میرے حضور سے موقوف ہو جائے تو اسرائیل کی نسل بھی میرے سامنے سے جاتی رہے گی کہ ہمیشہ تک پھر قوم نہ ہو۔ خداوند یوں فرماتا ہے کہ اگر کوئی اوپر آسمان کو ناپ سکے اور نیچے زمین کی بنیاد کا پتہ لگا ئے تو میں بھی اسرائیل کو اُن کے سب اعمال کے سبب سے رد کر دونگا۔ یرمیاہ 35:31-37 یہودی بزرگ ابرہام کی نسل ہونے کے سبب سوچتے تھے کہ وعدہ اُن ہی کے لئے ہے۔ مگر خداوند نے جو وعدے کی تکمیل کے لئے شرط قائم کی تھی وہ اُسے نظر انداز کر گئے کیونکہ مذکورہ بالا وعدہ کرنے سے پہلے اس نے یوں فرمایا تھا “بلکہ یہ وہ عہد ہے جو میں ان دنوں کے بعد اسرائیل کے گھرانے سے باندھوں گا۔ خداوند فرماتا ہے میں اپنی شریعت اُن کے باطن میں رکھوں گا اور اُن کے دل پر اُسے لکھوں گا اور میں اُن کا خدا ہوں گا اور وہ میرے لوگ ہوں گے۔ اور وہ پھر اپنے اپنے پڑوسی اور اپنے اپنے بھائی کو یہ کہہ کر تعلیم نہیں دیں گے کہ خداوند کو پہچانو کیوں کہ چھوٹے سے بڑے تک وہ سب مجھے جانیں گے فرماتا ہے اس لئے کہ میں اُن کی بد کرداری کو بخش دوں گا اور اُس کے گناہ کو یاد نہ کروں گا” یرمیاہ 33:31-34 ZU 108.3

    وہ لوگ جن کے دل میں اُسکے قوانین لکھے ہوئے ہیں خداوند اُن کی طرف داری کرتا ہے۔ وہ اُس کے ساتھ ایک ہیں۔ مگر دیکھتے ہیں کہ یہودیوں نے خود کو خداوند سے علیحدہ کر رکھا تھا۔ اسی لیے اپنے گناہوں کے سبب وہ دکھ اُٹھا رہے تھے اور یہی وجہ تھی کہ وہ بت پرست قوم کی غلامی میں تھے۔ خطاوں کے باعث اُن کے ذہنوں پر اندھیرا چھا گیا تھا۔ اور چونکہ ماضی میں خداوند نے اُن کی بے حد طرفداری کی تھی اسلیے وہ فخر سے کہتے تھے کہ ہم دوسری قوموں سے ارفع و اعلٰے ہیں۔ مگر وہ اپنے گناہوں کو نہ دیکھتے تھے۔ اس کے باوجود اس بات کا دعوے ضرور کرتے تھے کہ خداوند کی ہر برکت ہمارے لیے ہے۔ یہ باتیں ہماری نصیحت کے لیے لکھی گئی ہیں۔ اگر نتھیوں 11:10ZU 109.1

    اکثر ہم بھی خدا کی بخششوں کی غلط تفسیر کرتے ہیں۔ اور سوچتے ہیں کہ خداوند ہم پر اس لئے اپنی برکتیں نچھاور کر رہا ہے کیونکہ ہم میں کوئی نیکی یا بھلائی پائی جاتی ہے۔ ZU 109.2

    یوحنا نے اسرائیلی اساتذہ کو اعلانیہ فرمایا کہ تمہارے فخرو گھمنڈ، خود غرضی اور ظلم نے قوم کو افعی بنادیا ہے جبکہ اُنہیں بزرگ ابر ہام کے وفادار اور منصف بچے بننا چاہیئے تھا۔ وہ روشنی جو اُنہوں نے خدا سے پائی تھی اُس کے زیر سایہ تو اُنہیں نیک بننا چاہیئے تھا مگر وہ تو بُت پرستوں سے بھی گئے گذرے تھے۔ وہ اُس چٹان کو بھول گئے جس میں سے وہ تراشے گئے تھے۔ اور وہ اس گڑھے کو بھول گئے جس میں سے انہیں کھود کر نکالا گیا تھا۔ خدا تو اُن کے لئے اپنے وعدوں کو پورا کرنے کے لئے مستعد تھا۔ جیسے اُس نے بزرگ ابراہام کو بت پرستوں میں سے باہر اپنی خدمت کے لئے بُلا لیا۔ اسی طرح وہ دوسروں کو بھی اپنی خدمت کے لیے بُلا سکتا ہے۔ بیشک اُن کے دل صحرا کے پتھر کی طرح بے جان نظر آتے ہوں پھر بھی اُس کی روح اُنہیں اپنی خدمت کے لئے زندہ کر سکتی ہے۔ وہ اپنا وعدہ بھی اُن کے ذریعہ پورا کر سکتا ہے۔ ZU 110.1

    نبی لنے یہ بھی فرمایا، اب درختوں کی جڑ پر کلہاڑہ رکھا ہواہے ۔ پس جو درخت اچھا پھل نہیں لاتا وہ کاٹا اور آگ میں ڈالا جاتا ہے۔ متی 10:3۔۔۔ درخت کے نام سے نہیں بلکہ اُس کے پھل کی بدولت اُس کی قدرومنزلت ہوتی ہے۔ اگر پھل فضول اور نکما ہے تو یہ درخت کو تباہی سے نہیں بچا سکتا۔ یہودیوں کو یوحنا نے جتا دیا کہ آپ صرف اپنی زندگی اور سیرت کی وجہ سے ہی خدا کے سامنے ٹھہر سکتے ہو۔ جن کی زندگی اور سیرت خدا کی شریعت کے ہم آہنگ نہیں، وہ خدا کے لوگ بھی نہیں۔ ZU 110.2

    اُس کا سنجیدہ کلام سُن کر لوگ قائل ہوتے گئے۔ اُنہوں نے اپنے دل کو جانچا اور آکر اُسے کہنے لگے پھر ہم کیا کریں؟ اُس نے جواب میں اُن سے کہا جس کے پاس دو کُرتے ہوں وہ اس کو جسکے پاس نہ ہو بانٹ دے اور جس کے پاس کھانا ہو وہ بھی ایسا ہی کرے اور محصول لینے والے بھی بپتسمہ لینے کو آئے اور اُس سے پوچھا اے اُستاد ہم کیا کریں؟ اُس نے اُن سے کہا جو تمہارے لئے مقرر ہے اُس سے زیادہ نہ لینا۔ اور سپاہیوں نے بھی اُن سے پوچھا کہ ہم کیا کریں؟ اُس نے اُن سے کہا نہ کسی پر ظلم کرو اور نہ کسی سے ناحق کچھ لو اور اپنی تنخواہ پر کفایت کرو ” لوقا 14:10ZU 110.3

    اُس نے کہا جو خداوند کی بادشاہی کے وارث ہوئے ہیں اُنہیں ایمان اور توبہ کا ثبوت دینا ہو گا۔ اُن کی زندگیوں سے ایمانداری، مہر و محبت اور فیاضی آشکارہ ہونی چاہیئے۔ اُنہیں خداوند کے حضور ہدیے اور غربا کی مدد کرنا چاہیئے۔ اُنہیں چاہیئےکہ بے سہارا کو پناہ دیں اور دوسروں کے سامنے نیکی اور مہر و محبت کا نمونہ چھوڑیں۔ اسی طرح نجات دہندہ کے پیرو کاروں کے لئے لازم ہے کہ جو تبدیلی روح القدس اُن کی زندگیوں میں لایا ہے اُسکا ثبوت فراہم کریں۔ روزمرہ کی زندگی میں خدا کا رحم، محبت اور انصاف دیکھا جانا چاہیئےورنہ وہ اُس بھوسے کی مانند ہونگے جو آگ میں ڈالا گیا ہے ۔ دیگر یوحنا بپتسمہ دیتا ہوں لیکن جو میرے بعد آتا ہے وہ مجھ سے زور آور ہے میں اُس کی جوتیاں اُٹھانے کے لائق نہیں۔ وہ تم کو روح القدس اور آگ سے بپتسمہ دے گا۔ متی 11:3 اسی طرح یسعیاہ نبی نے اعلان کیا تھا کہ خداوند صیون کی بیٹیوں کی گندگی دور کرے گا اور یروشیلم کا خون روح عدل اور روح سوزاں کے ذریعے دھو ڈالیگا۔ اور میں تجھ پر اپنا ہاتھ بڑھاوں گا اور تیری میل بالکل دُور کر وں گا اور اُس رانگے کو جو تجھ میں ملا ہے جدا کر دونگا” یسعیاہ 4:4، 25:1 گناہ کے لئے ہمارا خداوند بھسم کرنے والی آگ ہے۔ عبرانیوں 29:12 وہ سب جو خود کو خداوند کے تابع کرتے ہیں اُن سب کے گناہوں کو روح القدس بھسم کر دیتا ہے۔ لیکن اگر انسان گناہوں سے چمٹے رہیں تو وہ گناہ کا حصہ بن جاتے ہیں جنہیں روح القدس جلا دیتا ہے۔ بُزرگ یعقوب رات بھر فرشتہ کے ساتھ کشتی کرتا رہا اور جب اُسے یہ معلوم ہوا کہ وہ کسی انسان کے ساتھ نہیں بلکہ فرشتہ سے زور آزما تھا تو پکار اُٹھا میں نے خدا کو رُوبرو دیکھا تو بھی میری جان بچی رہی” پیدائش 30:32 آپ جانتے ہیں کہ بزرگ یعقوب نے اپنے بھائی عیسو کے خلاف گناہ کیا تھا مگر اب وہ تائب ہو چکا تھا اُس نے اپنے گناہ کا اقرار کر کے خداوند سے معافی طلب کی تھی۔ اُسکے گناہ دھو دئیے گئے تھے اور اُسے خداوند نے معاف فرما دیا تھا اسی وجہ سے وہ خدا کو رو برو دیکھنے کے باوجود زندہ رہا لیکن یاد رکھئے جہاں انسانوں میں بے باکی کا گناہ پایا جاتا ہے اور وہ جانتے ہوئے بھی ترک کرنے پر راضی نہیں ہوتے خداوند کا روح اُنہیں بھسم کر دیتا ہے۔ مسیح یسوع کی آمد ثانی پر بھی بدکار بھسم کر دیے جائیں گے۔ اُس وقت وہ بے دین ظاہر ہو گا جسے خداوند یسوع اپنے منہ کی پھونک سے ہلاک اور اپنی آمد کی تجلی سے نیست کرے گا۔ 2 تھسلنیکیوں 8:2 خداوند کے جلال کی تجلی جو راستبازوں کوعطا کرتی ہے وہی تجلی بدکاروں کو جلا کر راکھ کر دے گی۔ ZU 111.1

    یوحنا بپتسمہ دینے والے کے ایام میں مسیح یسوع آکر خدا کی سیرت دُنیا پر آشکارہ کرنے کو تھا۔ اُس کی حضوری میں نسل انسانی اپنی خطاوں کو دیکھنے کو تھے۔ اور اپنے گناہوں کو ترک کرنے کی بدولت ہی وہ خداوند مسیح کی صحبت اور رفاقت میں رہ سکتے تھے۔ کیونکہ صرف پاک دل ہی اُس کی حضوری میں ٹھہر سکتے تھے۔ یوں یوحنا بپتسمہ دینے والے نے بنی اسرائیل تک خداوند کا پیغام پہنچایا۔ بہتیروں نے اُس کی ہدایات پر عمل کیا۔ اُنہیں بڑی بڑی قربانیاں دینی پڑیں۔ بھیڑ جگہ جگہ ZU 112.1

    اس نئے کے پیچھے ہو لیتی۔ بعض سمجھ رہے تھے کہ یہی مسیح موعود ہے مگر یوحنا نے ہر موقع پر اُنہیں اُس کی طرف تکنے اور ایمان لانے کے لئے ہدائت فرمائی جو آنے والا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ZU 113.1

    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents