Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents

زمانوں کی اُمنگ

 - Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First
    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents

    باب نمبر 33 - ”میرے بھائی کون ہیں“

    جناب یوسف کے بیٹوں کو یسوع کے کام سے کوئی ہمدردی نہ تھی۔ اُسکی خدمت اور زندگی کے بارے جو اُنہیں خبریں پہنچتیں اُن کو سن کر وہ حیران اور مایوس ہو جاتے۔ اُنہوں نے سنا کہ اُس نے تمام راتیں دُعا میں گذارنے کا عہد کر رکھا ہے۔ جبکہ دن کے وقت اُسے بھیڑ گھیرے رکھتی ہے۔ اور اُسے کھانے پینے کا بھی وقت نہیں ملتا۔ اُس کے دوستوں کا خیال تھا کہ وہ دن رات سخت مشقت کی وجہ سے اپنی صحت برباد کر رہا ہے۔ جو اُسکا روکہ فریسیوں کے متعلق تھا اُسے وہ سمجھنے سے قاصر تھے۔ اور اُن کو ڈر تھا کہ یسوع اپنی دلیل اور اعتقاد کو قائم نہ کر سکے گا۔ ZU 388.1

    اُس کے بھائیوں نے ان سب باتوں کے بارے سنا اور یہ بھی کہ فریسی اُس پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ یہ بد روحوں کو ابلیس کی مدد سے نکالتا ہے۔ یسوع کی وجہ سے جو اُنہیں بدنامی ملی تھی اُس سے اُنہیں ہزیمت اُٹھانا پڑی۔ وہ جانتے تھے کہ اُس کے کام اور کلام سے کس قدر اضطراب پھیلا ہے۔ اُنہوں نے فیصلہ کر لیا کہ وہ اُسے اس طرز کی خدمت سے باز رکھیں۔ اُنہوں نے مقدسہ مریم کو بھی یہ سوچ کر اپنے ساتھ ملا لیا ہے کہ اُس کی محبت کے ذریعے وہ ضرور اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائیں گے۔ ZU 388.2

    اور یہ سب کچھ اُس وقت پیش آیا جب یسوع نے ایک شخص میں سے بدروح کو نکالا جو اندھا اور بہرہ بھی تھا۔ فریسیوں نے یسوع پر الزام لگایا “یہ تو بدروحوں کے سردار کی مدد سے بدروحوں کو نکالتا ہے” متی 34:9۔۔۔۔ مگر یسوع نے اُنہیں بتایا کہ روح القدس کے وصف کو تم ابلیس سے منسوب کرتے ہو لہٰذا تم جان بوجھ کر اپنے آپ کو برکت کے چشمے سے جدا کر رہے ہو۔ وہ لوگ جنہوں نے مسیح یسوع کو پہنچانتے ہوئے اُس کے خلاف کچھ کہا اُن کو تو شائد معاف کیا جائے گا کیوں کہ روح القدس کے ذریعے وہ شائد اپنی غلطی کو دیکھ لیں اور توبہ کریں۔ کیونکہ خطا خواہ کسی قسم کی بھی کیوں نہ ہو جب کوئی روح اُس کا اقرار کر کے توبہ کرتی ہے تو یسوع کا خون اُس گناہ کو دھو کر صاف کر دیتا ہے۔ مگر جو روح القدس کے کام کو رد کر دیتا ہے وہ جان بوجھ کر خود کو ایسے مقام پر رکھ دیتا ہے جہاں ایمان اور توبہ کی رسائی نہیں۔ روح کے ذریعہ ہی خدا ہمارے دلوں پر کام کرتا ہے لیکن جب کوئی شخص جان بوجھ کر روح کو ترک کر دیتا اور یہ اعلان کرتا ہے کہ یہ ابلیس سے ہے تو وہ اپنا رابطہ خدا سے منقطع کر لیتا ہے۔ روح القدس کو رد کرنے کا مطلب یہ ہوا کہ روح القدس کو رد کرنے والے کے لئے اب خدا کچھ نہیں کر سکتا۔ ZU 389.1

    فریسی جن کو یسوع مسیح نے یہ آگاہی دی خود اُس الزام میں ایمان نہیں رکھتے تھے۔ اُنہوں نے مسیح یسوع کے خلاف لگایا۔ اُن میں ایک بھی ایسا معتبر فریسی بزرگ تھا جو محسوس نہ کرتا ہو کہ وہ یسوع کی طرف کھنچا جا رہا ہے۔ اُنہوں نے اپنے دل میں یسوع کے بارے روح القدس کی آواز سنی تھی جو یہ بتا رہی تھی کہ یہی اسرائیل اقدوس ہے اور روح القدس اُنہیں ترغیب دے رہا تھا کہ وہ بھی یسوع کے شاگردوں میں شامل ہو جائیں۔ روح القدس کی موجودگی میں اُنہوں نے اپنی نجس بات کو پہچانا اور راستبازی کی خواہش ظاہر کی جو وہ خود پیدا نہیں کر سکتے تھے۔ لیکن اُسے رد کرنے کے بعد اُن کے لئے یہ بڑی بے عزتی اور شرم کا مقام تھا اگر وہ اپسے مسیح موعود قبول کر لیتے۔ اُنہوں نے بے اعتقادی کی راہ پر اپنے قدم رکھ لئے تھے۔ اور اب اُن کے لئے نہائت مشکل تھا کہ اپنی خطا کا اعتراف کریں۔ چنانچہ سچائی کو نظر انداز کرنے کے لئے اُنہوں نے یسوع کی تعلیم پر جھگڑا کرنے کا تہیہ کر لیا ، اُس کی قدرت اور رحم کے ثبوت پر وہ برہم ہو گئے۔ وہ یسوع کو معجزات دکھانے اور منادی کرنے سے بھی باز نہیں رکھ سکتے تھے۔ تاہم اُنہوں نے اُسے اور اُسکے کلام کو غلط رنگ دینے کی حتی الوسع کوشش کی۔ اس کے باوجود خداوند کی روح نے ‘جو قائلیت بخشی ہے’ اُنکا پیچھا کیا۔ گو اُنہوں نے اُس کی التماس پر کان نہ دھرا۔ ZU 389.2

    یہ خدا نہیں جو لوگوں کی آنکھیں بند اور دل سخت کر دیتا ہے۔ وہ تو اُنہیں نور بخشتا ہے تاکہ وہ اپنی غلطیوں کی دُرستی کر لیں۔ وہ محفوظ پر اُن کی راہنمائی کرتا ہے۔ لیکن اُن کی آنکھیں اُس وقت اندھی اور دل سخت ہو جاتا ہے جب وہ روح القدس کو رد کر دیتے ہیں۔ خدا کے کلام سے انسانی روح میں نور چمکتا ہے۔ لیکن جب ایک شعاع کی تحقیر کی جاتی ہے تو روحانی سُوجھ جزوی طور پر بے حس ہو جاتی ہے۔ یوں نور کی دوسری شعاع جب ظاہر ہوتی ہے تو اُس کی طرف انسان شاذو نادر ہی توجہ کرتا ہے۔ لہٰذا تاریکی بڑھتی رہتی ہے یہاں تک کہ روح رات کی مکمل عملداری میں آجاتی ہے۔ یہی کچھ یہودی بزرگان کے ساتھ ہوا۔ اس بات کے تو وہ قائل تھےکہ الہٰی قوت یسوع کے ہمراہ ہے مگر صداقت کی مزاحمت کرنے کے لئے اُنہوں نے روح القدس کی خصوصیت کو ابلیس سے منسوب کر دیا۔ ایسا کرنے سے اُنہوں نے کھلم کھلا گمراہی کا انتخاب کیا۔ یوں اس کے بعد ابلیس نے اُن کو اپنی مرضی سے استعمال کیا۔ جہاں روح القدس کے خلاف گناہ کے بارے یسوع نے آگاہی دی وہاں اُس نے فضول گفتگو کے بارے بھی فرمایا کہ “کیوں کہ جو دل میں بھرا ہے وہی منہ پر آتا ہے ” متی 34:12۔۔۔ کلام ہمارے چالچلن کی عکاسی کرتا ہے۔ کیونکہ جسطرح کا ہم کلام کرتے ہیں اُس کا ہم پر اثر ہوتا ہے۔ بعض اوقات ابلیس کے اُکسانے پر حسد اور بدی کا کلام کرتے ہیں بیشک ایسے کلام کے ہم قائل نہیں ہوتے۔ مگر یاد رہے کہ ایسے کلام کے اظہار کا ہمارے خیالات پر ضرور اثر پڑتا ہے۔ اس لئے الہٰی کلام کے متعلق نکتہ چینی، سوال یا شک و شبہات بہت ہی خطرناک ثابت ہوتے ہیں۔ غیر محتاط، غیر مہذب اور گستاخانہ کلام اور نکتہ چینی یہ سب کے سب ہمارے چالچلن پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ بہت سے لوگ اس طرح کے خطرے سے دو چار ہیں اور ایک وقت آتا ہے جب وہ روح القدس کو رد دیتے ہیں۔ یسوع مسیح نے فرمایا “جو نکمی بات لوگ کہیں گے عدالت کے دن اُس کا حساب دیں گے۔ کیونکہ تو اپنی باتوں کے سبب سے راستباز ٹھہرایا جائے گا اور اپنی باتوں کے سبب سے قصوروار ٹھہرایا جائے۔ “متی 36:12-37 ZU 390.1

    خداوند یسوع مسیح نے اُن کے لئے بھی آگاہی چھوڑی جو اُس کے کلام سے بہت متاثر تھے، جنہوں نے بڑی خوشی سے اُسے سنا تھا مگر اُنہوں نے خود کو روح القدس کے تابع نہیں کیا تھا۔ کیونکہ روح القدس سے مزاحمت ہی نہیں بلکہ اُس سے غفلت برتنے سے بھی روح برباد ہو جاتی ہے۔ ZU 391.1

    یسوع نے فرمایا “جب ناپاک روح آدمی میں سے نکلتی ہے تو سوکھے مقاموں میں آرام ڈھونڈتی پھرتی ہے اور نہیں پاتی۔ تب کہتی ہے میں اپنے اُس گھر میں پھر جاوں گی جس سے نکلی تھی اور آکر اُسےخالی اور جھڑا ہوا اور آراستہ پاتی ہے۔ پھر جا کر اور سات روحیں اپنے سے بُری ہمراہ لے آتی ہے اور وہ داخل ہو کر وہاں بستی ہیں اور اُس آدمی کا پچھلا حال پہلے سے بھی بدتر ہو جاتا ہے “متی 48:12-45 ZU 391.2

    یسوع کے زمانہ میں اور آج بھی کچھ لوگ ایسے پائے جاتے ہیں جن کو وقتی طور ابلیس کی عملداری سے آزادی مل جاتی ہے۔ وہ خدا کی محبت نہیں رکھتے۔ وہ اپنی روز مرہ زندگی یسوع کے تابع نہیں کرتے اور جب بُری روح واپس آتی ہے تو اپنے ساتھ سات اور بُری روحیں لے آتی ہے جو اُس شخص کو پوری طرح اپنے قبضہ میں کر لیتی ہیں۔ ZU 392.1

    جب کوئی روح یسوع کے زیر سایہ آجاتی ہے تو اُسکا نئی قوت کے تسلط میں آ جاتا ہے۔ اس سبب سے اُس میں وہ تبدیلی واقع ہوتی ہے جو انسان کی فطرت میں فوق الفطرت عنصر پیدا کر دیتا ہے۔ جو روح خود کو یسوع کے سُپرد کر دیتی ہے یسوع اُس کے لئے محکم قلعہ بن جاتا ہے جو دُنیا کے ہر حملے کو پسپا کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ جو روح یسوع سے مدد کی طالب ہے اُس پر یسوع کے علاوہ کسی اور قوت کا قبضہ نہ ہو۔ ہم یسوع یا ابلیس ان دونوں میں سے کسی ایک کے زیر اثر ہوتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ ہم تاریکی کا چناو کریں۔ مگر یہ اُس وقت خود بخود وقوع میں آجائے گا جب ہم نور کی بادشاہی کو نظر انداز کریں گے۔ اگر ہم آسمانی نمائند گان کا ساتھ نہ دیں گے تو تاریکی کی فوجیں ہمارے دل پر قابض ہو جائیں گی اور اسے اپنا مسکن بنا لیں گی۔ حقیقت تو یہ کہ جب تک کہ ہم خدا کے ساتھ اپنا تعلق قائم نہیں رکھیں گے اُس وقت تک ابلیس کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے۔ برعکس اس کے گناہ، خودغرضی، خود ستائی ہمارا ملجا و ماوا بن جائے گا۔ چنانچہ ہمارا پچھلا حال پہلے سے بھی بدتر ہو جائے گا۔ یسوع نے مزید فرمایا “اس زمانے کے بُرے لوگوں کا حال بھی ایسا ہو گا” متی 45:12۔۔۔۔ صرف وہی اتنے سخت دل ہوتے ہیں جو روح القدس کی تحقیر کرتے اور توبہ کرنے کی التماس کو بار بار ٹھکرا دیتے ہیں۔ یسوع مسیح کو رد کرنے کا ہر قدم نجات اور روح القدس کو ٹھکرانے کا قدم ہے۔ یسوع مسیح کو ٹھکرانے کا ہر قدم گناہ کی طرف بڑھنے کا قدم ہے۔ ZU 392.2

    یسوع کو رد کرنے سے یہودی قوم نے ناقابل معافی گناہ کا ارتکاب کیا۔ آج ہم بھی رحم کی دعوت کو ٹھکرا کر وہی غلطی کر سکتے ہیں۔ اور یہ اُس وقت ہوتا ہے جب ہم یسوع مسیح کے خادموں کی نہیں سنتے اور ابلیس کے شنوا ہوتے ہیں۔ ایسا کرنے سے ہم نجات دہندہ کی تذلیل کرتے ہیں اور ابلیس کے مذبحہ اور آسمانی کائنات کے رُو برو اُسے شرمسار کرتے ہیں۔ جو بھی ایسا کرتا ہے اُس کے لئے کوئی اُمید باقی نہیں رہتی۔ ZU 393.1

    جب یسوع بھیڑ سے یہ کہہ رہا تھا اُسکے شاگرد اُس کے لئے یہ پیغام لائے کہ تیری ماں اور تیرے بھائی باہر کھڑے ہیں ۔ اور تجھ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ وہ جانتا تھا کہ اُن کے دل میں کیا ہے۔ لہٰذا اُس نے یہ جواب دیا “کون ہے میری ماں اور کون ہیں میرے بھائی؟“۔ اور اپنے شاگردوں کی طرف ہاتھ بڑھا کر کہا دیکھو میر ی ماں اور میرے بھائی یہ ہیں۔ کیونکہ جو کوئی میرے آسمانی باپ کی مرضی پر چلے وہی میرا بھائی اور میری بہن اور ماں ہے۔ متی 46:12-50 وہ سب جو ایمان سے یسوع کو قبول کرتے ہیں وہ آپس میں ایک ہیں اور اُن کا یہ رشتہ خاندانی اور جسمانی رشتوں سے کہیں پختہ اور نزدیکی ہے۔ وہ اُس کے ساتھ ایک ہیں جیسے وہ اپنے باپ کے ساتھ ایک ہے۔ اُس کے کلام کو قبول کرنے اور اُس پر عمل کرنے کی وجہ سے اُس کی ماں جسمانی رشتے کی نسبت زیادہ قربت کے لائق ہے۔ اسی طرح اُس کے بھائیوں کو جسمانی رشتہ سے کچھ فائدہ نہیں جب تک وہ اُسے پانا نجات دہندہ قبول نہیں کرتے۔ کاش خداوند یسوع مسیح کے جسمانی رشتہ دار اُس پر ایمان لے آتے اور خدا کے اُس کام میں مددگار ثابت ہوتے جو یسوع مسیح انجام دے رہا تھا۔ مگر اُن کی کم اعتقادہ نے یسوع مسیح کی زمینی زندگی پر سایہ ڈال کر روشنی کو روکا۔ اور یہ اُس افسوسناک پیالے کی تلخی کا حصہ تھا جو اُس نے ہماری خاطر نوش کیا۔ ZU 393.2

    انجیل کی خوشخبری کی دُشمنی انسانی دل میں پیدا ہو گئی جس کی تاثیر یسوع مسیح نے بڑے دکھ کے ساتھ محسوس کی۔ اور خصوصاً اُسے یہ جان کر رنج ہوا کہ یہ سب کچھ اُس کے اپنے عزیز رشتہ داروں اور گھر والوں کی طرف سے شروع ہوا ہے۔ اُس کے بھائیوں کی خواہش تھی کہ یسوع مسیح اُن کے نقش قدم پر چلے مگر وہ جانتا تھا کہ یہ سب کچھ الہی مشن کے منافی ہے۔ یسوع کے بھائیوں کا خیال تھا کہ اُسے ہمارے مشورے کی ضرورت ہے۔ وہ اُسے انسانی نقطہ نطڑ سے دیکھتے تھے۔ اُن کی سوچ کے مطابق یسوع مسیح کو ویسا ہی کلام کرنا چاہیے تھا جو فقیہوں اورفریسوں کے نزدیک قابل قبول ہو نہ کہ وہ اپنی تعلیم پیش کرکے مسائل سے دوچار ہو۔ ZU 394.1

    ان کی سوچ بڑی محدود تھی اسلئے وہ اُس کے مشن کو بالکل نہ سمجھ پائے۔ ظاہر ہے وہ اُس کی آزمائشوں میں کیوں کر اُسکا ساتھ دے سکتے تھے۔ اُن کی باتوں سے پتہ چلتا تھا کہ وہ جانتے ہی نہیں کہ جوان کے سامنے ہے وہ اصل میں انسانی جامہ میں ذات الہی ہے۔ اُنہوں نے اُسے اکثر غمزدہ دیکھا تھا مگر اُسے دلاسا دینے کی بجائے اُن کے الفاظ اُس کے دل پر نشتر کا کام کرتے۔ اُن کی باتوں سے اُسے سخت رنج پہنچتا۔ کیوں کہ اُس کے کام کو نہ سمجھتے ہوئے اُس کے بھائی اور دوسرے رشتہ دار اُس کے خیالات اور نیت کو غلط رنگ دے دیتے۔ ZU 394.2

    اُس کے بھائی فریسیوں کے نظریات کو سراہتے تھے جو فرسودہ اور بوسیدہ ہو چکے تھے۔ اُن کا خیال کہ ہمارے شرع کے معلموں پر حکمت و فہم کے دروازے کھلتے ہیں۔ اُن کا یہاں تک خیال تھا کہ یسوع کو تمام صداقتیں اور بھید وہی سمجھا سکتے ہیں۔ ZU 395.1

    وہ کھلم کھلا یسوع کے اُن کاموں اور تعلیم کی مخالفت کرتے جو اُن کی سمجھ سے باہر ہوتی۔ اس کے کاموں اور تعلیم کی وجہ سے وہ اُسے لعن طعن کرتے جس سے اُسکا دل چکنا چور ہو جاتا۔ بیشک خداوند مجسم ہو کر اُن کے درمیان آیا تھا مگر وہ اُسے پہچانتے نہ تھے۔ZU 395.2

    ان کی باتوں اور مشوروں نے یسوع کی راہ میں کانٹے بچھا دیئے۔ اُسے اپنے گھر میں اپنے بھائیوں اور رشتہ داروں کی وجہ سے سخت پریشانی اور تکلیف تھی۔ اسی لئے وہ ایسی جگہ جانا چاہتا تھا جہاں اس کے یہ بے سمجھ ناطے دار نہ وہوں۔ ایک گھر تھا جہاں وہ اپنے گھر کی نسبت زیادہ عزت، پیار اور آرام پاتا تھا۔ اور وہ گھر لعزر، مریم مارتھا کا تھا۔ اُن میں ایمان اور محبت کی روح موجود تھی۔ اس کے علاوہ دُنیا میں اور کوئی نہیں تھا جو اُس کے مشن کو سمجھتا۔ اور دُنیا میں ان کے علاوہ اور کوئی نہ تھاجو اُس کے بوجھ کو محسوس کرتا جو وہ بنی نوع انسان کے لئے اُٹھانے آیا۔ وہ تنہائی اور اپنے باپ کی رفاقت میں سکون پاتا ہے۔ وہ سب جو یسوع مسیح کے دکھوں میں شریک ہونے کے لئے بُلاتے گئے ہیں، اور جنہیں تکالیف کو برداشت کرنا ے، حتیٰ کہ جنہیں اُن کے گھر والے بھی دُکھ دیتے ہیں اُن کے لئے یہ بہت ہی تسلی بخش خیال ہے کہ اُن کے آقا کو بھی ان تمام حالات سے گذرنا پڑا تھا۔ خداوند یسوع مسیح کا دل اپنے ایسے خادموں کے لئے بھر آتا ہے۔ ایسوں کے لئے اُس کا حکم ہے کہ سکون پانے کے لئے آسمانی باپ کی صحبت اختیار کریں۔ ZU 395.3

    وہ تمام لوگ جنہوں نے خداوند یسوع کو اپنا ذاتی نجات دہندہ قبول کر لیا ہے۔ اُنہیں وہ تنہا اور یتیم نہیں چھوڑتا۔ وہ تو اُسکے آسمانی خاندان کے افراد ہیں۔ وہ اُس کے اپنے خون خریدا ہیں یقین کیجئے وہ خداوند کے دل کے بہت ہی قریب ہیں۔ وہ اُس کا اٹوٹ انگ ہیں ۔ اُسے اُن سے انتہائی محبت ہے۔ ZU 396.1

    اپنے لوگوں کے ساتھ جو یسوع کا ناطہ ہے وہ ایک خوبصورت مثال کے ساتھ پیش خدمت ہے۔ یہ مثال اُس شریعت میں پائی جاتی ہے جو بنی اسرائیل کو دی گئی۔ جب کوئی عبرانی غریب ہو جاتا۔ اُسے اپنے باپ کے گھر کو چھوڑنا پڑتا۔ اور اُسے مسیح کے غلاموں کی زندگی بسر کرنا پڑتی۔ اُس کی ملکیت کو چھڑانے کا پہلا حق اُس کے بہت ہی قریبی رشتہ دار کو پہنچتا تھا۔۔۔۔ خود پڑھیے احبار 25:25، 47:25-49، روت 20:2 ZU 396.2

    اسی طرح جب ہم گناہ کے باعث ابلیس کے غلام ہو گئے تو ہمیں اور ہماری ملکیت کو چھڑانے کا حق اُس کو پہنچتا ہے جو ہمارے والدیں، دوست احباب اور سگے بھائیوں سے بھی زیادہ عزیز ترین ہے یعنی ہمارے نجات دہندہ کو۔ اُس کا کہناہے “خوف نہ کر کیوں کہ میں نے تیرا فدیہ دیا ہے۔ میں نے تیرا نام لیکر تجھے بلایا ہے۔ تو میرا ہے۔ چونکہ تو میری نگاہ میں بیش قیمت اور مکرم ٹھہرا اور میں نے تجھ سے محبت رکھی اسلئے میں تیرے بدلے لوگ اور تیری جان کے عوض میں اُمتیں دوں گا۔ یسعیاہ 1:43-4 خداوند یسوع مسیح آسمانی مخلوق سے محبت رکھتا ہے جو اُس کے جلالی تخت کو گھیرے ہوئے ہے۔ مگر یہ سمجھ سے بالا ہے کہ وہ کیا چیز ہے جس کی وجہ سے خداوند مسیح ہم گنہگاروں کو چاہتا ہے؟ بیشک ہم اسے سمجھنے سے قاصر ہیں تاہم اپنے ذاتی تجربہ کی بنا پر ہم جانتے ہیں کہ یہ سچ ہے۔ ZU 396.3

    ****

    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents