Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents

زمانوں کی اُمنگ

 - Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First
    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents

    باب نمبر 11 - بپتسمہ

    بیابان کے نبی کی خوشخبری اور اُسکا عجیب و غریب اعلان جنگل کی آگ کی طرح گلیل کے تمام علاقہ میں مشتہر ہو گیا۔ یہ پیغام دور اُفتادہ پہاڑی کسانوں، ساحل سمندر کے ماہی گیروں اور سادہ دل عوام تک پہنچا۔ ناصرۃ کے شہر کے جناب یوسف بڑھئی کے کارخانہ میں بھی یہ پیغام پہنچا۔ ہوتے ہوتے المسیح کے کانوں میں بھی یہ مانوس خوشخبری جا پہنچی۔ اُس نے اپنے والدیں کو خدا حافظ کہا اور بھیڑ کے ساتھ دریائے یرون پر پہنچ گیا جہاں یوحنا بپتسمہ دیتا تھا۔ ZU 114.1

    یسوع مسیح اور یوحنا بپتسمہ دینے والا دونوں قریبی رشتہ دار تھے تاہم وہ دونوں ایک دوسرے سے واقف نہ تھے۔ کیونکہ یسوع کا زیادہ وقت گلیل میں گذرا جبکہ یوحنا یہودیہ کے بیابان میں رہا۔ دونوں کے ماحول اور حالات متفرق تھے۔ دونوں میں جو قدر مشترک تھی وہ گوشئہ تنہائی تھی۔ اس لیے دونوں کا ایک دوسرے کے ساتھ کوئی میل جول نہ تھا۔ اور یہ سب کچھ ذوالجلال کی طرف سے مقرر تھا۔ چونکہ وہ ایک دوسرے کو کبھی بھی کسی موقع پر نہ ملے تھے اس لئے اُن پر کوئی الزام نہیں لگا سکتا تھا کہ یہ دونوں سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ایک دوسرے کی تائید کرتے ہیں۔ یوحنا اُن پیشنگوئیوں سے اچھی طرح واقف تھا جو یسوع مسیح کی پیدائش کے بارے نشاندہی کرتی تھیں۔ اُس نے سن رکھا تھا کہ یسوع یروشیلم میں آیا اور اُس نے ربیوں کے ساتھ اس حکمت سے سوال جواب کئے جس سے شرع کے معلم دنگ رہ گئے۔ وہ اُس کی بے گناہ زندگی کے بارے بھی جانتا تھا۔ اور اُس کا ایمان تھا کہ یہی مسیح موعود ہے۔ تاہم اُسے پوری طرح یقین نہیں تھا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یسوع نے اپنی زندگی کا بہت زیادہ عرصہ گمنامی میں بسر کیا اور اُس دوران اپنے المسیح ہونے کے بارے کوئی ٹھوس شہادت پیش نہ کی۔ اور نہ ہی عوام پر ظاہر کیا کہ میرے مجسم ہو کر آنے کی کیا غرض و غائت ہے۔ اس سے یوحنا بپتسمہ دینے والے کے دل میں شک گذرا کہ آیا یہ موعودہ مسیح ہے یا نہیں۔ اس سب کے باوجود یوحنا ایمان رکھتا تھا کہ وقت پورا ہونے پر خود خداوند سب کچھ ظاہر کر دے گا۔ کیونکہ اُس پر خداوند نے ظاہر کر دیا تھا کہ موعودہ مسیح خود تیرے پاس بپتسمہ لینے آئے گا۔ اور اُسی وقت اُس کی الہی سیرت کی پہچان ہو جائے گی۔ ZU 114.2

    لہٰذا جب خداوند مسیح یوحنا سے بپتسمہ لینے آیا تو اُس نے المسیح میں سیرت کی وہ پاکیزگی دیکھی جو اُس نے اس پہلے کبھی کسی انسان میں نہ دیکھی تھی۔ اُس کی حضوری سے تمام ماحول مقدس ہو گیا۔ یوحنا اور دوسرے تمام حاضرین ایک جلالی ماحول میں گھر گئے۔ جو لوگ یردن کے کنارے اُس کے پاس جمع ہوتے تھے اُن سے اُس نے نہائت مکروہ جرائم کے بارے سنا تھا۔ اُس کی ملاقات ایسے لوگوں سے بھی ہوتی تھی جن کی روحوں کو گناہ نے کُچل دیا تھا۔ بعض کی گردنیں گناہ کے بوجھ سے لٹک گئی تھیں اور کمر ٹوٹنے کو تھی۔ لیکن ابھی تک اُس کے پاس کوئی ایسا شخص نہیں آیا تھا جس کی ایک ایک سانس سے پاکیزگی ٹپکتی ہو۔ جس کی بدولت ظلمت کدے منور ہو گئے ہوں۔ جبکہ یسوع کی الہی تاثیر نے گناہ اور ابلیس کو بھگا دیا۔ اور یہ سب کچھ یسوع مسیح کے بارے خداوند خدا نے پہلے سے ہی یوحنا کو جتا دیا تھا۔ اس کے باوجود مسیح یسوع کی درخواست سے پہلو تہی کرنا چاہتا تھا۔ اُس کا موقف یہ تھا کہ ایک گنہگار کیوں کر راستباز کو بپتسمہ دے سکتا ہے؟ اور جس کو توبہ کی حاجت نہیں وہ کیوں بپتسمہ لے؟ZU 115.1

    جب المسیح نے یوحنا سے بپتسمہ لینے کی درخواست کی درخواست کی تو وہ یہ کہتے ہوئے پیچھے ہٹ گیا “کہ میں آپ تجھ سے بپتسمہ لینے کا محتاج ہوں اور تو میرے پاس آتا ہے؟ یسوع نے جواب میں اُس سے کہا اب تو ہونے ہی دے کیونکہ ہمیں اسی طرح ساری راست بازی پورا کرنا مناسب ہے۔ اس پر اُس نے ہونے دیا۔ اور یسوع بپتسمہ لیکر فی الفور پانی کے پاس سے اوپر گیا اور دیکھو اُس کے لئے آسمان کھل گیا اور اُس نے خدا کے روح کو کبوتر کی مانند اُترتے اور اپنے اُوپر آتے دیکھا” متی 13:3-17 ZU 116.1

    یسوع مسیح نے اپنے گناہوں کی معافی کے لئے بپتسمہ نہ پایا تھا۔ بلکہ وہ ہماری خاطر گناہ بنا اور جو ہم پر لازم تھا وہ اُس نے کیا ۔ جس طرح اُس کی دُکھوں بھری زندگی اور تحمل ہمارے لئے نمونہ ہے۔ اسی طرح اُس نے بپتسمہ پایا تاکہ ہمارے لئے نمونہ چھوڑے۔ ZU 116.2

    بپتسمہ پاکر جب یسوع پانی سے باہر دریا کے کنارے آیا تو وہیں دُعا میں جُھک گیا۔ ZU 116.3

    اُس کے سامنے نہائت ہی اہم اور نئے باب کا آغاز ہو گیا۔ اب وہ اپنی زندگی کے وسیع سٹیج پر کشمکش سے دوچار ہوا۔ گو وہ صلح کا شہزادہ تھا مگر اُس کی آمد ننگی تلوار کی مانند تھی۔ جو حکومت وہ قائم کرنے آیا تھا وہ یہودیوں کی متوقع سلطنت سے بالکل برعکس تھی۔ وہ جو بنی اسرائیل کی رسم و رواج کی بنیاد تھا اُس کے بارے گمان کیا گیا کہ یہ تو ہماری مذہبی رسوم کو برباد کرنے والا ہے۔ وہ جس نے کوہ سینا پر شریعت دی تھی اُسے شریعت کا باطل کرنے والا قرار دیا گیا۔ وہ جو ابلیس کی قوت کو توڑنے آیا تھا اُسے بعلز بول کہا گیا۔ اس دھرتی پر رہنے والوں میں سے کسی نے بھی اُسے نہ جانا۔ اس لئے اس زمینی خدمت کے دوران اُسے تنہا ہی سب کچھ انجام دینا تھا۔ زندگی بھر خود اُسکی ماں اور بھائی اُس کے کام کی غرض و غائت سے بے بہرہ رہے۔ حتٰی کہ اُس کے شاگرد بھی اُسے نہ سمجھ سکے۔ وہ آسمان پر اپنے باپ کے ساتھ ابدی جلال میں رہتا تھا مگر اب اُسے اس دھرتی پر تنہا زندگی بسر کرنا تھی۔ ہمارے ساتھ ہوتے ہوئے لازم تھا کہ وہ ہمارے گناہوں اور ہمارے دُشمن کا بوجھ اُٹھائے۔ بے گناہ کو گناہ کی شرمندگی محسوس کرنا تھی۔ امن پسند کو جنگ و جدل کا نظارہ کرنا تھا۔ صداقت کو دروگ کے ساتھ رہنا تھا۔ اور پاکیزگی کو ناپاکی کے ساتھ ہر طرح کے گناہ ہر طرح کی قانون شکنی اور ہر طرح کی بُری رغبت سے اُس کی روح کی اذیت پہنچنا تھی۔ اکیلے ہی اُسے گامزن رہنا تھا۔ اکیلے ہی اُسے سب اُٹھانا تھا۔ وہ جس نے اپنے آسمانی جلال کو چھوڑ کر بشریت اپنا لی تھی اُسکی بدولت نجات لازم تھی۔ اُس نے یہ سب کچھ دیکھا اور محسوس کیا مگر اُس کے استقلال میں ذرہ بھر لغزش نہ آئی۔ گری ہوئی نسل انسانی کی نجات کا انحصار صرف اُسی پر تھا۔ اسی نے ہاتھ بڑھا کر اپنی محبت میں اُنہیں تھام لیا۔ جب نجات دہندہ نے دُعا میں اپنا دل کھول دیا تو سارا آسمان اُس کے سامنے کھلاتھا۔ وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ گناہ نے انسانوں کے دلوں کو کس قدر سخت کر دیا ہے۔ اس لئے اُن کے لئے یہ کتنا مشکل تھا کہ المسیح کے مشن کو سمجھ پائیں اور نجات کی بخشش کو قبول کریں۔ اسی لئے مسیح یسوع نے باپ سے درخواست کی اُنہیں قوت دے تاکہ وہ اپنی کم اعتقادی پر قابو پائیں اور شیطان کے ہتھکنڈوں سے آزاد ہوں۔ ZU 116.4

    فرشتوں نے ایسی دعا اس سے پیشتر کبھی بھی نہ سُنی تھی۔ فرشتے اپنے کمانڈر کی ہر بات ماننے کو تیار تھے۔ مگر خود خدا اپنے تخت سے اُسکی دُعا کا جواب دینے کے لئے تیار تھا جس نے براہ راست اپنے تخت سے جلالی شعاعیں صادر کیں۔ آسمان کھل گئے اور نجات دہندہ کے سر کے اوپر روح القدس کبوتر کی مانند نازل ہوا جو اُس کی پاکیزگی اور حلیمی کی صحیح علامت تھی۔ ZU 117.1

    دریائے یردن کے کنارے یوحنا کے سوا کوئی بھی آسمانی مکاشفہ کو نہ جان سکا۔ تاہم جتنے وہاں جمع تھے اُن پر روحانی کیفیت چھا گئی۔ لوگ مسیح یسوع کو بڑی حیرت سے دیکھ رہے تھے۔ جلال جو خدا کے تخت کو گھیرے رہتا ہے آج اُسی جلال نے مسیح یسوع کا احاطہ کر رکھاتھا۔ اُس کے چہرے پر اُنہوں نے ایسا جلال دیکھا جو اس سے پہلے کسی انسان کے چہرے پر نہ دیکھا گیا تھا۔ وہ مزید حیرت میں ڈوب گئے۔ جب آسمان کھل گیا اور اُس میں سے یہ آواز آئی۔ ZU 118.1

    “یہ میرا پیارا بیٹا ہے جس سے میں خوش ہوں”ZU 118.2

    یہ کلام اُس بھیڑ کے لئے کیا گیا تاکہ گواہ رہیں اور اس کلام سے مسیح کے مشن کو بھی تقویت ملی۔ باوجودیکہ دُنیا کے گناہ اُس پر لادے گئے تھے۔ باوجودیکہ اُس نے گنہگار دُنیا کی بے حرمتی اور شرمندگی کو اپنے اوپر بہ رضا و رغبت لے لیا پھر بھی آسمان سے آنے والی آواز نے اُسے خدا کا فرزند تسلیم کیا۔ ZU 118.3

    یوحنا خصوصاً اُس وقت خاصہ متاثر ہوا جب مسیح خداوند گھٹنے نشین ہو کر خداوند سے رو رو کر خدمت شروع کرنے کی اجازت طلب کر رہا تھا۔ جیسے کہ یوحنا نے دیکھا کہ خدا وند کے جلال نے اُس کا احاطہ کر رکھا ہے اور اس کے ساتھ ہی جب یوحنا نے آواز کو بھی سنا تو جان گیا کہ خداوند کی یہ وہی بخشش ہے جس کا اُس نے گنہگار دُنیا کو دینے کا وعدہ کر رکھا تھا۔ ZU 118.4

    اب وہ جان گیا تھا کہ جس کو وہ بپتسمہ دے رہا ہے وہی دنیا کا نجات دہندہ ہے۔ پس روح القدس یوحنا پر آٹھہرا اور اُس نے ہاتھ کا اشارہ کر کے کہا “دیکھو خدا کا برہ جو دُنیا کے گناہ اُٹھا لے جاتا ہے” نہ سُننے والے اور نہ ہی بولنے والا ان الفاظ کو سمجھ پایا کہ “خدا کے برّے” سے کیا مراد ہے۔ کوہ موریاہ پر بزرگ ابرہام سے اُس کے بیٹے نے سوال کیا تھا کہ قربانی کے لئے برہ کہاں ہے؟ باپ نے جواب دیا تھا “میرے بیٹے خدا مہیا کرے گا” پیدائش 7:22-8 پس خدا نے اُس کی جگہ الہی برّے کو بھیج دیا جو خدا کے بیٹے یسوع کی علامت تھا اور جسے دُنیا کے گناہوں کی خاطر صلیبی موت گوارہ کرنے تھی۔ ZU 118.5

    یسعیاہ نبی کے ذریعے خداوند نے فرمایا “جسطرح برّہ جسے ذبح کرنے کو لے جاتے ہیں۔ ہم سب کی بد کرداری اُس پر لادی۔ یسعیاہ 6:53-7 تاہم اس سب کے باوجود بنی اسرائیل نے سبق حاصل نہ کیا۔ اُن میں بہتیرے قربانی کو اسی طرح سمجھتے اور دیکھتے تھے جیسے بُت پرست قومیں دیوی یادیوتا کو خوش کرنے کے لئے قربانیاں چڑھاتی تھیں۔ لیکن خداند اُن کو یہ سکھانا چاہتا تھا کہ زندہ اور واحد خداوند ایسا نہیں۔ بلکہ اُس کی خوشی اس میں ہے کہ گنہگار نسل انسانی کو بچانے کے لئے اپنے اکلوتے بیٹے کو ذبح ہونے کے لئے دے دے۔ تاکہ وہ اپنے خون کا کفارہ دے کر تباہ شدہ نسل آدم کو خدا سے ملا دے۔ دریائے یردن کے کنارے کا کلام “یہ میرا پیارا بیٹا ہے۔ جس سے میں خوش ہوں “مسیح کے ساتھ کلام کیا مگر یہ تمام نسل انسانی پر صادق آتا ہے۔ کیونکہ مسیح ہماری ہماری نمائندگی کرتا ہے۔ گو ہم گنہگار ہیں پھر بھی خداوند نے ہمیں ردی شے کی طرح پھینک نہیں دیا۔ “اُس نے ہمیں اپنا فضل مسیح میں مفت بخشا“۔ افسیوں 6:1۔۔۔۔ وہ جلال جو مسیح پر آکر ٹھہرا وہی خدا کی محبت کا عہد ہمارے لیے بھی ہے۔ یہ ہمیں دُعا کی قدرت سے آشنا کرتی ہے اور یہ کہ انسان کی آواز کس طرح خدا کے کانوں تک پہنچ کر خدا کی نظر میں مقبول ہوتی ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ گناہ کے سبب ہماری زمین کا تعلق آسمان سے کٹ گیا تھا۔ مگر خدا نے آکر زمین کو خدا کے جلال کے ساتھ دوبارہ منسلک کر دیا۔ اُس کی محبت نے گنہگار انسان کا احاطہ کر کے اُسے آسمان کی بلندیوں تک پہنچا دیا۔ وہ نور جو نجات دہندہ کے سر پر چمکا ہم پر بھی چمک سکتا ہے۔ جب ہم آزمائش کی مزاحمت کے لئے خداوند سے دُعا مانگتے ہیں تو وہ آواز جو نجات دہندہ نے سنی وہ ہر ایماندار سن سکتا ہے “کہ یہ میرا پیارا بیٹا ہے جس سے میں خوش ہوں “عزیزو، ہم اس وقت خدا کے فرزند ہیں اور ابھی تک یہ ظاہر نہیں ہوا کہ ہم کیا کچھ ہوں گے۔ اتنا جانتے ہیں کہ جب وہ ظاہر ہو گا تو ہم بھی اُس کی مانند ہوں گے کیوں کہ اُس کو ویسا ہی دیکھیں گے جیسا وہ ہے ” 1 یوحنا 2:3 ZU 119.1

    ہمارے نجات دہندہ نے راستہ تیار کر دیا ہے۔ لہذا سب سے بڑا گنہگار ، مایوس، حاجت مند اور معاشرے کا دُھتکار ا ہوا فرد خداوند تک براہ راست رسائی کر سکتا ہے۔ اور اسی طرح ہر ایک شخص آسمانی مکانوں کا مالک اور وارث بھی ہو سکتا ہے جو خداوند یسوع مسیح تیار کرنے گیا ہے۔ ZU 120.1

    “جو قدوس اور برحق ہے اور داود کی کنجی رکھتا ہے جس کے کھولے ہوئے کو کوئی بند نہیں کرتا اور بند کئے ہوئے کو کوئی نہیں کھولتا وہ یہ فرماتا ہے کہ دیکھ میں نے تیرے سامنے ایک دروازہ رکھا ہے۔ کوئی اُسے بند نہیں کر سکتا۔ مکاشفہ 7:3-8 ZU 120.2

    ****

    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents