Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents

زمانوں کی اُمنگ

 - Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First
    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents

    باب نمبر 13 - فتح

    “تب ابلیس اُسے مقدس شہر میں لے گیا اور ہیکل کے کنگرے پر کھڑا کر کے اُس سے کہا کہ اگر تو خدا کا بیٹا ہے تو اپنے تئیں نیچے گرادے۔ کیوں کہ لکھا ہے کہ “وہ تیری بابت اپنے فرشتوں کو حکم دے گا اور وہ تجھے ہاتھوں پر اُٹھالینگے۔ ایسا نہ ہو کہ تیرےے پاوں کو پتھر سے ٹھیس لگے” متی 5:4، زبور 11:91-12 ZU 136.1

    اب شیطان نے سوچا کہ جیسے یسوع کلام کا حوالہ دے کر بات کرتا ہے اُسی طرح میں بھی اُسے کلام کے ذریعے اپنے جال میں پھنساوں۔ پس اُس نے خدا کے منہ سے نکلنے والے کلام کا حوالہ دے کر مسیح کو آزمائش میں گرانے کی کوشش کی۔ وہ جلالی فرشتہ کی صورت میں ظاہر ہوا اور المسیح پر واضح کرنا چاہتا تھا کہ وہ کلام مقدس کی اہمیت سے کسقدر واقف ہے۔ پس مسیح کو خدا کا بیٹا ثابت کرنے کے لئے اُکسایا گیا۔ ابلیس نے سوچا کہ اس بار وہ کامیاب ہو جائے گا۔ ابلیس نے خداوند مسیح سے اس طرح کلام کیا جیسے وہ اُس میں بالکل اعتماد نہیں رکھتا کہ وہ خدا کا بیٹا ہے۔ اسی لئے اُس نے کہا “اگر تو خدا کا بیٹا ہے” لیکن المسیح نے اُس کے شک کا جواب دینا اور ثبوت مہیا کرنا ضروری نہ سمجھا اور اپنی زندگی کو آزمائش سے دُور رکھا۔ اسی طرح ابلیس ہمارے سامنے آزمائش تو لا سکتا ہے مگر گناہ کرنے پر مجبور نہیں کر سکتا ۔ اُس نے مسیح سے کہا “اپنے تئیں نیچے گرا دے “ابلیس جانتا تھا کہ المسیح خود کو اُس کے کہنے پر نیچے نہیں گرائے گا۔ ابلیس اُسے مجبور نہیں کر سکتا تھا جب تک المسیح اُسے اجازت نہ دیتا۔ وہ اُس کی اجازت کے بغیر غالب نہیں آسکتا تھا۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ واجب ہو گا کہ آسمان میں نہ زمین کوئی ایسی طاقت تھی جو المسیح کو مجبور کر سکتی تھی کہ وہ خدا کی مرضی بجا نہ لائے۔ ZU 136.2

    عزیزو، ابلیس ہمیں بھی بدی کرنے پر مجبور نہیں کر سکتا۔ جب تک ہم اپنا ذہن و دماغ اُسے نہ دے دیں وہ ہرگز اپنا تسلط قائم نہیں کر سکتا۔ اُس سے پہلے کہ ابلیس اپنی حکمرانی ہم پر قائم کرے لازم ہے کہ ہمارا ایمان خدا پر سے جاتا رہے اور ہماری قوت ارادی اُس کے تابع ہو جائے۔ ایک بات ضرور یاد رکھیے گا کہ بدی کا ہر خیال ابلیس کے تسلط کے لئے راہ تیار کرتا ہے۔ جب ہم خدا کے معیار پرپورے نہیں اُترتے تو یہ ابلیس کو دعوت دینے کے مترادف ہے جو برباد کرنے کے لئے ہمارے اندر داخل ہوتا ہے۔ نیز ہماری ہر کمزوری اور ناکامی اُسے مسیح کو سرزنش کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ ZU 137.1

    دیکھیے جب ابلیس نے کلام مقدس کا یہ حوالہ دیا کہ وہ تیری بابت اپنے فرشتوں کو حکم دے گا تو اُس نے ان الفاظ کو حذف کر دیا کہ “تیری سب راہوں میں تیری حفاظت کریں “یعنی سب راہوں میں جو خدا کی ہیں مسیح تو تابع داری کی راہ سے منحرف نہیں ہونا چاہتا تھا۔ اپنے خدا میں مکمل اعتماد رکھتے ہوئے وہ خود کو ایسی صورت حال میں نہ لانا چاہتا تھا جہاں وہ اپنے باپ کو مجبور کرے کہ اُسے بچانے آئے۔ اگر وہ ایسا کرتا تو وہ ہمارے لئے تابع داری اور خدا میں مکمل بھروسہ کا نمونہ نہ چھوڑ سکتا تھا۔ ZU 137.2

    لہٰذا یسوع نے ابلیس سے کہا “یہ بھی لکھا ہے کہ تو خداوند اپنے خدا کی آزمائش نہ کر” اور یہ کلام خداوند نے موسیٰ کے ذریعے بنی اسرائیل سے کیا جب وہ بیابان میں پیاسے تھے۔ اُنہوں نے یہ کہتے ہوئے “خداوند ہمارے بیچ میں ہے یا نہیں “بزرگ موسی سے پانی کا مطالبہ کیا۔ خروج 7:17 ZU 137.3

    خداوند خدا نے تو اُن کے لئے بڑے بڑے حیرت انگیز کام کئے تھے مگر پھر بھی اُنہیں مصیبت کے وقت شک گذرا آیا خدا اُن کے درمیان ہے یا نہیں۔ بلکہ اُس کی موجودگی کا ثبوت مانگا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ابلیس مسیح یسوع کو بھی وہی کچھ کرنے کی ترغیب دے رہا ہے جو اُس نے بنی اسرائیل کو دی تھی۔ خدا نے کہہ دیا تھا کہ المسیح میرا بیٹا ہے اور اب پھر ثابت کرنا کہ آیا وہ خدا کا بیٹا ہے یا نہیں خدا کے کلام کی آزمائش تھی۔ یہ تو کم اعتقادی کا اظہار تھا۔ اس لیے ہمیں کبھی بھی خدا کے سامنے ایسی درخواست نہ رکھنی چاہیے جس سے اُس کا امتحان لینا مقصود ہو۔ بلکہ سب کچھ ایمان کے ساتھ کرنا چاہیے کیوں کہ “بغیر ایمان کے اُس کو پسند آنا نا ممکن ہے۔ اس لئے کہ خدا کے پاس آنے والے کو ایمان لانا چاہئیے کہ وہ موجود ہے اور اپنے طالبوں کو بدلہ دیتا ہے “عبرانیوں 6:11 ZU 138.1

    وہم و گمان کے ساتھ ایمان کا کوئی تعلق نہیں۔ قیاس و گمان سے صرف وہی محفوظ رہ سکتا ہے جس میں حقیقی ایمان ہو۔ کیوں کہ قیاس و گمان اور وہم وغیرہ ابلیس کا خاصہ ہے۔ ایمان تو خدا کے وعدوں کی ضمانت ہے اور فرمانبرداری کرنے سے پھل ملتا ہے۔ وہم و گمان بھی وعدوں کا دعوے کرتا ہے مگر وہ اُسے اُسی طرح استعمال میں لاتا ہے جیسے ابلیس لایا تھا۔ اس سے وہ گناہ کرنے کا محض بہانا تلاش کرتا ہے۔ ایمان ہمارے پہلے والدین کی رہنمائی کر سکتا تھا کہ وہ خدا کی محبت کا یقین کریں اور اُس کی شریعت کو مانیں۔ مگر وہم نے اُنہیں گناہ کرنے اور شریعت توڑنے کی ترغیب دی۔ اور یہ نہ سوچا کہ اُس کی عظیم محبت ہمیں گناہ کے نتائج سے بچائے گی۔ یہ ایمان نہیں جب ہم اُن تمام باتوں پر عمل نہیں کرتے جو رحم کا دروازہ کھولتی ہیں۔ حقیقی ایمان کی بنیاد کلام مقدس اور اُس کے وعدوں پر مبنی ہے۔ جب ابلیس ہمارے ایمان کو متزلزل کرنے میں ناکام ہو جاتا ہے تو وہ ہمیں شک و شبہات کی طرف مائل کر دیتا ہے۔ اگر وہ ہمیں کسی غیر ضروری آزمائش کے زیر سایہ لے آئے تو وہ اسے اپنی فتح خیال کرتا ہے۔ ہمیں کبھی نہ بھولنا چاہیے کہ جو خداوند کے تابع فرمان ہونگے خداوند خدا اُن کی ضرور حفاظت کرے گا۔ لیکن جو خدا سے دوری اختیار کرتے ہیں اُنہیں یاد رکھنا چاہیے کہ وہ ابلیس کی سر زمین پر چل رہے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو ہم ضرور کریں گے۔ کیوں کہ نجات دہندہ نے ہمیں پہلے سے خبردار کر دیا ہے۔ “جاگو اور دُعا کرو تاکہ آزمائش میں نہ پڑو” مرقس 38:14 خدا کے کلام اور اسکے بارے غوروخوض ہمیں بڑی آزمائشوں سے رہائی بخشے گا۔ جب ہم پر آزمائش آئے تو ہمیں پست ہمت ہونے کی ضرورت نہیں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جب ہم آزمائش میں پڑتے ہیں تو سوچنا شروع کر دیتے ہیں آیا خدا کا روح ہماری رہنمائی کرتا ہے؟ یاد رکھئے یہ خداوند کا روح تھا جو اُسے بیابان میں ابلیس سے آزمانے کو لے گیا۔ جب خداوند کوئی آزمائش ہم پر لاتا ہے تو یقین جانیے کہ اس میں ہماری کوئی بھلائی ہے، لکھا ہے۔ ZU 138.2

    “تم کسی ایسی آزمائش میں نہیں پڑے جو انسان کی برداشت سے باہر ہو اور خدا سچا ہے۔ وہ تم کو تمہاری طاقت سے زیادہ آزمائش میں نہ پڑنے دے گا۔ بلکہ آزمائش کے ساتھ نکلنے کی راہ بھی پیدا کر دےگا تاکہ تم برداشت کر سکو” ZU 139.1

    “خدا کے لئے شکر گذاری کی قربانی گذران۔ اور حق تعالیٰ کے لئے اپنی منتیں پوری کر۔ اور مصیبت کے دن مجھ سے فریاد کر میں تجھے چھڑاوں گا اور تو میری تمجید کرے گا۔ 1۔ کرنتھیوں 13:10، زبور 14:50-15 ZU 139.2

    مسیح خداوند دوسری آزمائش پر بھی غالب آیا۔ اب ابلیس اپنی اصلی صورت میں نمودار ہوا۔ کالی کلوٹی یا مکروہ شکل و صورت میں نہیں جیسے بعض شیطان کے بارے خیال کرتے ہیں۔ نہ اُس کے کندھوں پر چمگادڑ کے پر تھے، نہ لمبے لمبے پاوں۔ ہمیں بھولنا نہ چاہییے کہ وہ بڑا خوبرو جابر اور قدرت کا مالک ہے۔ یہ اور بات ہے کہ وہ آسمان سے راندہ گیا ہے۔ ابھی تک وہ تسلیم کرتا ہے کہ وہ باغی فوجوں کا لیڈر اور اس دنیا کا سردرا اور خدا ہے۔ ZU 140.1

    اسی لئے مسیح خداوند کو ایک پہاڑ پر لے جاکر ابلیس نے اُسے تمام دنیا کی شان و شوکت دکھائی۔ منظر بڑا سہانا تھا۔ مندروں، مسجدوں اور بڑی بڑی عمارات کے گنبدوں کے کلس سورج کی روشنی سے جگ مگ جگ مگ کررہے تھے۔ سنگ مر مر کے محل، سرسبز و شاداب کھیتیاں اور پھلوں سےلدھے ہوئے باغیچے اور نیلے پیلے بنقشی، گلابی سبھی رنگوں کے پھول اٹھکیلیاں کر رہے تھے۔ بدی کا ہر نشان چھپا دیا گیا تھا۔ مسیح یسوع چالیس دن رات ویرانوں کو ہی دیکھتا رہا تھا مگر اب اُسکی آنکھوں کے سامنے جی کو لبھانے والی ہر چیز پائی جاتی تھی۔ اُس وقت آزمانے والے کی آواز سنائی دی۔ اگر تُو جھک کر مجھے سجدہ کرے تو یہ سب کچھ تجھے دے دوں گا۔ “یعنی یہ دنیا اور اسکی سب سلطنتیں۔ مگر اس ساری شان و شوکت کے لئے تجھے جھک کر مجھے سجدہ کرنا ہو گا۔ ZU 140.2

    مسیح کے آنے کی غرض و غائت صرف دکھوں کے ذریعہ ہی پوری ہونا تھی۔ اُس کے سامنے تو دُکھ بھری زندگی ، مصائب اور رسوائی کی موت تھی۔ اُسے تو تمام دُنیا کے دُکھ جھیلنے تھے۔ اُسے اپنے باپ کی محبت سے علیحدگی کے صدمہ سے دوچار ہونا تھا۔ وہ طاقت اور قدرت جسے ابلیس نے چھینا تھا اُسی کی پیشکش کر دی۔ ابلیس کی حاکمیت کو تسلیم کر کے مسیح مستقبل کے دُکھوں سے جان چُھڑا سکتا تھا۔ دوسری طرف اسکا یہ بھی مطلب تھا کہ ابلیس کی فتح۔ ابلیس نے خدا کے بیٹے پر برتری حاصل کرنے کے لئے گناہ کیا تھا۔ اگر آج وہ مغلوب ہو جاتا تو ابلیس فتح کے شادیانے بجاتا۔ ZU 140.3

    جب ابلیس نے یہ کہا کہ سلطنتیں اور دُنیا کی تمام شان و شوکت مجھے دی گئی ہے اور جس کو میں چاہتا ہوں دیتا ہوں۔ اس میں پوری سچائی نہیں تھی۔ یہ دھوکا کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔ وہ محض اپنی مطلب براری کے لئے جھوٹ اور سچ کی ملاوٹ کر کے پیش کر رہا تھا۔ جس بادشاہی کی وہ بات کر رہا تھا وہ اُس نے آدم سے چھینی تھی اور آدم زمین پر خدا کا نائب تھا۔ آدم تو خود مختار نہ تھا، زمیں خداوند کی ہے اور اُس نے تمام چیزیں اپنے بیٹے کے تابع کر دیں ہیں۔ آدم کو مسیح کے تابع رہ کر اس زمین پر حکومت کرنا تھی۔ جب آدم نے اپنی حکومت ابلیس کے ہاتھ دے دی، مسیح یسوع پھر بھی اُس کا جائز وارث اور بادشاہ ہے۔ اسی لئے بنوکد نضر کو خداوند نے یوں فرمایا کہ “حق تعالے آدمیوں کی مملکت میں حکمرانی کرتا ہے۔ اور جس کو چاہتا ہے اُسے دیتاہے “دانی ایل 17:4۔۔۔۔ ابلیس کا گلی اختیار نہیں کہ کچھ کر سکے۔ ZU 141.1

    جب آزمانے والے نے مسیح یسوع کو دُنیا کی سلطنت اور شان شوکت کی پیشکش کی تو وہ اصل میں مسیح یسوع کو کہہ رہا تھاکہ تو دنیا کی بادشاہی سے مکمل کنارہ کشی کر اور میرے تحت رہ کہ بطور نائب بادشاہی سنبھال۔ اور وہ دُنیاوی بادشاہی تھی جس پر یہودیوں کی اُمیدیں لگی ہوئی تھیں۔ اگر خداوند مسیح اس دُنیا کی بادشاہی دینے کا اشارہ یہودیوں سے کرتا تو وہ اُسے بخوشی قبول کر لیتے۔ مگر اس صورت میں یہ ہوتا کہ یہ دُنیا گناہ اور اس کی تمام لعنتوں کے ساتھ یہودیوں ے پاس آجاتی۔ اے ابلیس مجھ سے دُور ہو کیوں کہ لکھا کہ تو خداوند اپنے خدا کو سجدہ کر اور صرف اُسی کی عبادت کر۔ ZU 141.2

    وہ جس نے آسمان میں بغاوت کی تھی اُس کے ذریعے مسیح کو اس دنیا کی پیشکش کی گئی جو اس کے عوض اُسے خریدنا چاہتا تھا۔ مگر مسیح ضمیر فروش نہ تھا۔ اُسے تو راستبازی کی بادشاہت قائم کرنا تھی۔ یسوع کسی صورت میں بھی اپنے مشن سے انحراف نہ کر سکتا تھا۔ بنی نوع انسان کو بھی ابلیس اس دنیا کی پیشکش کرتا ہے مگر اس شرط پر کہ وہ اُس کی حاکمیت کو قبول کریں۔ اُس کی شرائط یہ ہیں کہ انسان ایمانداری کو ترک کر دے، اپنے ضمیر کو مجروح کرے اور خود غرضی کا مظاہرہ کرے۔ مگر مسیح کا حکم یہ ہے کہ “پہلے تم خدا کی بادشاہی اور اُس کی راستبازی کی تلاش کرو تو یہ سب چیزیں تمہیںمل جائیں گی۔ مگر ابلیس انسانوں کے پاس آکر کہتا ہے کہ اگر تم ابدی چیزیں لینا چاہتے ہو تو اس دنیا میں کامیابی حاصل کرو۔ اور اس کےلئے تمہیں میری خدمت اور عبادت کرنا ہو گی، کیونکہ تمہاری بھلائی میرے ہاتھوں میں ہے۔ میں تمہیں دولت، عیش و نشاط، عزت اور شادمانیاں عطا کر سکتا ہوں۔ میرا مشورہ مانو ایمانداری اور خود انکاری سے بھاگو۔ اور اس سب کے لئے میں آپ کے لئے راستہ تیار کر دوں گا۔ یوں عوام دھوکا کھا جاتے ہیں۔ وہ صرف اپنے ہی لئے زندگی بسر کرنا شروع کر دیتے ہیں اور یہ ابلیس کے لئے نہائت ہی خوش کن بات ہے۔ یوں وہ دُنیا کو سبز باغ دکھا کر اُن کے دلوں پر حکومت کر لیتا ہے۔ مگر یہ تمام آفتيں جو وہ دُنیا کو دیتا ہے اُس کی نہیں ہیں۔ یہ بہت جلد اُس سے چھین لی جائیں گی۔ ابلیس نے یہی سوال کیا تھا کہ آیا مسیح خدا کا بیٹا ہے؟ مگر وہ اسکا انکار یا تردید نہیں کر سکتا تھا۔ دُکھ سہنے والی بشریت کے ذریعے الوہیت اُجاگر تھی۔ ابلیس مسیح کے حکم کی مزاحمت نہ کر سکتا تھا۔ اس لئے شرمندہ اور غضبناک ہو کر وہ نجات دہندہ کے پاس سے چلا گیا۔ جسقدر آدم کو بھر پور ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اُس سے کہیں زیادہ کامیابی یسوع نے حاصل کی۔ ZU 142.1

    لہٰذا ہم بھی ابلیس کا مقابلہ کر کے اُسے بھگا سکتے ہیں۔ مسیح نے خود کو خدا کے تابع رکھ کر ابلیس کو بھاگنے پر مجبور کیا۔ ZU 143.1

    “پس خدا کے تابع ہو جاو اور ابلیس کا مقابلہ کر و تو وہ تم سے بھاگ جائے گا۔ خدا کے نزدیک جاو تو وہ تمہارے نزدیک آئے گا۔ اے گنہگارو، اپنے ہاتھوں کو صاف کرو اور دو دلو، اپنے دلوں کو پاک کرو” یعقوب 7:4-8ZU 143.2

    ہم پانی قوت میں خود کو نہیں بچا سکتے۔ ابلیس نے تمام انسانیت کو مغلوب کر لیا ہے۔ اور جب ہم اپنی قوت میں ابلیس کا مقابلہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہم اُس کا شکار ہو جاتے ہیں۔ “خداوند کا نام محکم برج ہے۔ صادق اُس میں بھاگ جاتا ہے۔ اور امن میں رہتا ہے ” امثال 10:18 کمزور سے کمزور روح بھی جو خدا میں پناہ پاتی ہے اُس سے ابلیس ڈرتا اور تھر تھراتا ہے۔ ZU 143.3

    جب ابلیس اُسے چھوڑ کر چلا گیا تو مسیح خداوند نڈھال ہو کر زمین پر گر گیا اور چہرے پر مرونی چھا گئی۔ آسمان کے پاک فرشتوں نے ابلیس اور مسیح کے درمیان ہونے والی جنگ کو قریب سے دیکھا تحا اور یہ بھی کہ مسیح کو بے بیاں اذیت سے گذرنا پڑا تاکہ ہمارے لئے آزمائش سے نکلنے کا راستہ تیار کرے۔ اُس نے اتنی بڑی آزمائش کا سامناکیا جو کسی بھی انسان کو برداشت کرنا نہ پڑے گی۔ اس کے بعد آسمانی فرشتے مسیح کی خدمت میں مشغول ہو گئے۔ اُسے غذا بہم پہنچائی گئی۔ خدا کی محبت اور فتح کی یقین دہانی کرائی گئی۔ جس کی خوشیاں سارا آسمان منا رہا تھا۔ اُس میں دوبارہ زندگی بحال ہوئی۔ اور اُس کا دل انسان کے لئے ہمدردی سے بھر آیا۔ لہٰذا یسوع مسیح جس کا م کو کرنے آیا تھا اُسے تکمیل تک پہنچانے کے لئے اُٹھ کھڑا ہوا۔ اُس نے عہد کر لیا تھا جب تک دشمن معدوم نہ ہو جائے اور جب تک نسل انسانی نجات نہ پالے وہ دم نہ لے گا۔ ZU 143.4

    جو قیمت مسیح نے ہمای نجات کے لئے دی وہ کسی کے بھی وہم و گمان میں اُس وقت تک نہیں آسکتی جب تک نجات یافتہ، نجات دہندہ کے ساتھ خدا کے تخت کے سامنے کھڑے نہیں ہوتے۔ اُس وقت ہی ہم بخوبی جان سکیں گے کہ خداوند مسیح نے نجات یافتگان کے لئے سب کچھ چھوڑ دیا اور آسمانی بارگاہوں سے جلا وطنی قبول کی۔ اُس وقت ہم ضرور اپنے تاج اُسکےقدموں میں رکھ کر اُس کی حمد و ثنا گاتے ہوئے کہیں گے۔ZU 144.1

    “ذبح کیا ہوا برّہ ہی قدرت اور دولت اور حکمت اور طاقت اور عزت اور تمجید اور حمد کے لائق ہے” مکاشفہ 12:5ZU 144.2

    ****ZU 144.3

    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents