Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents

زمانوں کی اُمنگ

 - Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First
    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents

    باب نمبر 18 - ”ضرور ہے کہ وہ بڑھے“

    ایک وقت آیا کہ یوحنا بپتسمہ دینے والے کا اثرورسوخ بنی اسرائیل قوم پر اُن کے اپنے رہنماؤں ، کاہنوں اور سرداروں سے بھی زیادہ تھا۔ اگر وہ اُس وقت یہ اعلان کر کے کہ دیتا کہ آنے والا مسیحا میں ہی ہوں اور پھر رومیوں کے خلاف علم بلند کر دینا تو بیشک کاہن اور سردار مع پوری قوم کے اُس کا ساتھ دیتے ۔ یوحنا کو رومی حکومت کے خلاف بغاوت پر آمادہ کرنے کے لئے ابلیس نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ لیکن وہ اپنے احتیار کو سمجھتے ہوئے ابلیس سے مغلوب نہ ہوا۔ اور نہ ہی اپنی بزرگی کا خواہاں ہوا بلکہ قوم کی توجہ یسوع مسیح کی طرف لگائی جو حقدار تھا۔ اُس کا یہ کہنا تھا کہ وہ ہجوم جو اُس کے ارد گرد جمع تھا نجات دہندہ کی طرف جانے لگا۔ آئے روز یوحنا کے پاس منادی سننے والوں کی تعداد کم ہوتی گئی۔ اور جب یسوع یروشلم سے یردن کے علاقہ میں آیا تو لہگ اُس کی سننے کے لئے جوق در جوق جمع ہو گئے۔ یسوع کے شاگردوں میں ہر روز اضافہ ہوتا گیا۔ بہت سے لہگ اُس سے بپتسمہ پانے آئے چونکہ یسوع خود بپتسمہ نہ دیتا تھا اسلئے اس نے اپنے شاگردوں کو اجازت دی کہ وہ اُنہیں بپتسمہ دیں ۔ یوں یسوع نے اپنے آگے راہ تیار کرنے والے کے کام پر مہر ثبت کی مگر یوحنا کے شاگرد مسیح کی یہ عظمت دیکھ کر جل گئے۔ وہ اس موقع کی تلاش میں تھے کہ وہ اُس پر نکتہ چینی کریں۔ بیشک اُنہیں موقع بھی مل گیا۔ یہودیوں اور شاگردوں میں سوال پیدا ہوا کہ آیا بپتسمہ روح کو گناہوں سے پاک کرتا ہے؟ انہوں نے بھی کہا کہ یوحنا کا بپتسمہ یسوع کی بپتسمہ سے فرق کیوں ہے؟ اس پر یوحنا کے شاگردوں اور یسوع کے شاگردوں میں جھگڑا پیدا ہو گیا۔ZU 206.1

    یوحنا کے شاگرد اُس کے پاس آ کر کہنے لگے کہ اے اُستاد وہ شخص جو یردن کے پار تیرے پاس تھا اور جس کی تو گواہی دیتا ہے وہ اُن کو جو اُس کے پاس آتے ہیں بپتسمہ دیتا ہے۔ اس کلام کے ذریعے ابلیس یوحنا پر آزمائش لایا۔ گو یوحنا کا کام اب احتتام کو پہنچنے والا تھا لیکن اگر وہ چاہتا تو مسعر کے کام میں رکاوٹ بن سکتا تھا۔ اور اگر وہ اس طرح کا کلام اپنے شاگردوں سے کرتا کہ معرے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے اور اپنی تنزلی کے بارے غم کھاتا اور غصے کا اظہار کرتا تو بیشک خوشخبری کے کام میں رکاوٹ بنتا۔ ZU 207.1

    یوحنا بپتسمہ دینے والے میں بھی انسانی کمزوریاں تھیں۔ لیکن الٰہی محبت کی لمس نے اُسے تبدیل کر رکھا تھا۔ اس لئے وہ حسد خود غرضی خود ستائی کی فضا سے محفوظ تھا ۔ اُس نے اپنے شاگردوں کے ساتھ اس بارے کوئی ہمدردی نہ جتائی بلکہ اُس نے بڑی وضاحت سے اُنہیں سمجھایا کہ میرا ناطہ نجات دہندہ کے ساتھ کیا ہے۔ اور میرے اور اُس کے کام کی نوعیت کیا ہے؟ بلکہ اس نے یہاں تک کہا کہ جس کے لئے میں راہ تیار کر رہا تھا میں بڑی خوشی سے اسے خوش آمدید کہتا ہوں۔ اُس نے مزید وضاحت کرتے ہوئے فرمایا “انسان کچھ نہیں پا سکتا جب تک اسکو آسمان سے نہ دیا جائے۔ تم خود میرے گواہ ہو کی میں مسیح نہیں مگر اُس کے آگے بھیجا گیا ہوں۔ جس کی دلہن ہے وہ دلہاہے۔ مگر دلہا کا دوست جو کھڑا ہوا اُس کی اٹھاتا ہے دولہا کی آواز سے بہت خوش ہوتا ہے۔” یوحنا 27:3 -29 ZU 207.2

    یوحنا ایسے ظاہر کرتا ہے جیسے وہ اس دوست کی مانند ہے جو شادی کے لئے راہ ہموار کر تا ہے۔ جب دلہا اپنی دلہن کو حاصل کر لیتا ہے تو رشتہ کروانے والے کا مشن احتتام کو پہنچتا ہے۔ اور جن کو اس نے جوڑا ہے ان کے ملاپ سے یہ دوست خوش ہوتا ہے ۔ پس یوحنا کو اس لئے بلایا گیا تھا تاکہ دنیا کو مسیح کے بارے بتائے اسی لئے مسیح کی کامیابی کی خبر سن کر اُسے خوشی ہوئی۔ اس نے اپنے شاگردوں کی گفتگو سن کر کہا ” ضرور ہے کہ وہ بڑھے اور میں گھٹوں۔ ”ZU 207.3

    نجات دہندہ کو ایمان کی نگاہ سے دیکھ کر اُس نے اُس عزت اور بزرگی سے دست کشی کر لی جو اُس کے شاگرد اُس کو دینا چاہتے تھے۔ ہوحنا نہیں چاہتے تھا کہ لوگوں کی نظر اس پر جمے۔ بلکہ اُس کی حتٰی الوسع کوشش تھی کہ لوگ صرف خدا کے برہ کی طرف ہی نگاہ کریں۔ وہ سمجھتا تھا کہ میں تو صرف بیابان میں پکارنے والے کی آواز کے سوا کچھ نہیں۔ اس لئے خوشی کے ساتھ اُس نے خاموشی احتیار کر لی۔ اور ہر آنے والے کو یہی سکھایا کہ زندگی کے نور کی طرف پلٹ جائیں۔ZU 208.1

    وہ تمام جو اپنی بلاہٹ سے ہٹ کر انصاف کرتے ہیں۔ وہ اپنی عزت کے خواہاں نہیں ہوتے۔ وہ عزت و تکریم اور محبت جو لوگ اُن کے لئے دکھاتے ہیں وہ یسوع کے نام وقف کر دیتے ہیں۔ لہٰذا کسی قسم کا حسد خوشخبری کی منادی کی راہ میں حائل نہیں ہوتا۔ ایسے کارگذار یوحنا بپتسمہ دینے والے کی طرح صرف یہی کہیں گے “دیکھو خدا کا برہ جو دُنیا کے گناہ اُٹھا لے جاتا ہے” یوحنا 29:1 ZU 208.2

    “کیونکہ وہ جو عالی اور بلند ہے اور ابد الآباد تک قائم ہے جس کا نام قدوس ہے یوں فرماتا ہے کہ میں بلند اور مقدس مقام میں رہتا ہوں اور اُس کے ساتھ بھی جو شکستہ دل اور فروتن ہے تاکہ فروتنوں کی روح کو زندہ کروں اور شکستہ دلوں کو حیات بخشوں” یسعیاہ 15:57 نبی نے جب خود کو خالی کر دیا تو نور ایزدی سے معمور ہو گیا۔ اور یوحنا نے جو کچھ اُنہیں بتایا وہ یقیناً وہی کچھ تھا جو یسوع مسیح نے نیکدُیمس کو گفتگو کے دوران فرمایا ” جو اوپر سے آتا ہے وہ سب سے اوپر ہے اور جو زمین سے ہے وہ زمین ہی سے ہے اور زمین ہی کی کہتا ہے۔ جو آسمان سے آتا ہے وہ سب سے اوپر ہے جا کچھ اُس نے دیکھا اور سنا اُسی کی گواہی دیتا ہے اور کوئی اس کی گواہی قبول نہیں کرتا۔ جس نے اس کی گواہی قبول کی اس نے اس بات پر مہر کر دی کہ خدا سچا سچا ہے۔ کیونکہ جسے خدا نے بھیجا وہ خدا کی باتیں کہتا ہے۔ اس لئے کہ وہ روح ناپ ناپ کر نہیں دیتا۔ بدیں وجہ مسیح اپنے بارے کہہ سکتا تھا کہ “میں اپنے آپ سے کچھ نہیں کر سکتا۔ جیسا سنتا ہوں عدالت کرتا ہوں اور میرے عدالت راست ہے کیوں کہ میں اپنی مرضی نہیں بلکہ اپنے بھیجنے والے کی مرضی چاہتا ہوں۔” یوحنا 20:5 ---- چنانچہ اُسی کے لئے کہا گیا تھا تو نے راست بازی سے محبت اور بدکاری سے عداوت رکھی اسی سبب تجھے زیادہ مسح کیا” عبرانیوں 9:1 پس خداوند نے اُسے ناپ کر نہیں دی۔ ZU 208.3

    یہی حال اُس کے پیروکاروں کا ہے جتنا زیادہ وہ خود کو خالی کریں گے۔ وہ اُنہیں اسی قدر زیادہ اپنا روح عطا کرے گا جب تک ہم اپنے تمام اعمال اور خیالات کو مسیح کے تابع نہیں کر دیتے ہم خدا کی سیرت نہیں اپنا سکتے۔ وہ سب جو کلی طور پر خود کو خدا کے حوالہ کرتے ہیں خداوند اُنہیں اپنا روح بغیر ناپے دیتا ہے۔ “کیونکہ الوہیت کی ساری معموری اسی میں مجسم ہو کر سکونت کرتی ہے۔ اور تم اُسی میں معمور ہو گئے ہو جو ساری حکومت اور احتیار کا سر ہے” کلیسیوں 9:2 -10 یوحنا بپتسمہ دینے والے کے شاگردوں نے ہوحنا کو بتادیا تھا کہ تمام لوگ یسوع کے پاس جا رہے ہیں۔ مگر یوحنا نے اچھی طرح اس ساری کیفیت کو سمجھتے ہوئے کہا “کوئی اُس کی گواہی قبول نہیں کرتا” جس نے اُسی کی گواہی قبول کی اُس نے اس میں تو کوئی بحث کی بات نہیں کہ یوحنا کا بپتسمہ پانے میں گناہوں سے پاکیزگی حاصل ہوتی ہے۔ یا یسوع کا بپتسمہ پانے سے ۔ یہ تو خدا کا فضل ہے جو ابدی زندگی عطا کرتا ہے ۔ بپتسمہ یا کوئی اور رسم یسوع مسیح کے بغیر بے فائدہ ہے۔ کیوں کہ جو “بیٹے کی نہیں مانتا زندگی کو نہ دیکھے گا” یوحنا 36:3 ZU 209.1

    یسوع مسیح کے کام کی کامیابی کی خبر جسے یوحنا نئ سنا۔ یروشلم کے حکموں کی کانوں تک بھی پہنچی۔ یہودی معلم اور کاہن یوحنا سے اُس وقت حسد کرنے لگے تھے جب اُنہوں نے دیکھا کہ لوگ ہیکلوں سے منہ موڑ کر بیابان میں اُس کی منادی سننے چلے گئے ۔ لیکن اب یہاں وہ تھا جو یوحنا سے بھی بڑی طاقت رکھتا تھا ۔ یہ رہنما یوحنا کی طرح بلکل نہیں کہ سکتے تھے کہ “یہ بڑھے اور ہم گٹھیں” برعکس اس کے انہوں نے اس کی اس کام کو ختم کرنے کا تہیہ کر لیا جس کی وجہ سے لوگ اس کے پاس چلےآتے تھے۔ یسوع مسیح اچھی طرح اُن کے دلوں کی شرارت کو جانتا تھا کہ یہ ہر ممکن کوشش کریں گے کہ میرے اور یوحنا کے شاگردوں میں نفاق پیدا کریں۔ اسے یہ بھی معلوم تھا طوفان اُٹھ رہا ہے ۔ جو دنیا کے سب سے بڑے نبی کو ختم کر دے گا۔ خداوند یسوع مسیح نے ہر ممکن کوشش کی کہ اُنہیں جھگڑے کا کوئی موقع نہ دے۔ اس لئے وہ خاموشی سے اپنے کام کو ترک کر کے گلیل کو چلا گیا۔ ہمیں بھی مسیح کے اس نمونہ کو اپنانا چاہئے اور جب جھگڑے وغیرہ کی نوبت آئے تو اُس سے پہلوتہی کی جائے ۔ کیونکہ جھگڑے سے ہم کوئی روح بھی جعت نہیں سکتے۔ یوحنا کو اصلاح کرنے والے کے طور پر بُلایا گیا تھا۔ اس لئے اُس کے شاگرد اُس پر نظریں جمانے کے باعث خطرے میں تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ کامیابی کا سارا انحصار ہوحنا پر ہے ۔ اور یہ نہ سمجھتے تھے کہ یوحنا خدا کے ہاتھ میں محض ایک آلہ ہے۔ اُ س کا کام مسیحی کلیسیا کی بنیاد رکھنے کے لئے کافی نہ تھا جو کام وہ نہ کر سکا اسے بعد میں تکمیل کو پہنچنا تھا ۔ مگر اُس کے شاگرد اس امر سے بے خبر تھے۔ اسی لئے جب مسیح نے کام سنبھالا وہ اس سے حسد کرنے لگے۔ZU 210.1

    یہ خطرہ آج بھی موجود ہے ۔ جیسے خدا جس آدمی کو بُلاتا ہے وہ اپنی صلاحیّت کے مطابق کام کرتا ہے۔ پھر خدا دوسرے کو بلاتا ہے تا کہ اُسے مزید آگے بڑھائے۔ مگر یوحنا کے شاگردوں کی طرح بہت سے سوچتے ہیں کہ کام کی کامیابی پہلے شخص کی اطاعت پر انحصار رکھتی ہے ۔ یوں ہماری نظریں خدا کی بجائے انسانوں پر جم جاتی ہیں۔ با لآخر حسد جنم لیتا ہے اور خدا کے کام کو نقصان پہنچتا ہے۔ کیونکہ ہم انسانوں کو یہ سکھایا جاتا ہے کہ انسان پر رہنمائی کے لئے بھروسہ کریں یوں ہم غلطی کرتے اور خدا سے دور چلے جاتے ہیں۔ZU 211.1

    خدا کا کام کا انحصار کسی خاص بشر پر موقوف نہیں۔ وقتاً فوقتاً خدا فرق فرق کے نمائندوں کو لائے گا تاکہ اُس کا کام بہتر انداز میں تکمیل پائے ۔ مبارک ہیں وہ جو خود کو علیم کرتے اور آنے والے کے لئے راہ تیار کر کے کہتے ہیں کہ “وہ بڑھے او ر میں گھٹوں۔”ZU 211.2

    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents