Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents

زمانوں کی اُمنگ

 - Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First

    باب نمبر 21 - بیت حسدا اور قومی کونسل

    یروشلم میں بھیڑ دروازہ کے پاس ایک حوض ہے جو عبرانی میں بیت حسدا کہلاتا ہے اور اُس کے پانچ برآمدے ہیں۔ ان میں بہت سے بیمار اور اندھے اور لنگڑے اور پژ مردا لوگ ( جو پانی کہ ہلنے کے منتظر ہو کر ) پڑے تھے۔ کیونکہ وقت پر خداوند کا فرشتہ حوض پر اُتر کر پانی ہلایا کرتا تھا۔ پانی ہلتے ہی جو کوئی پہلے اُترتا سو شفا پاتا اُس کی جو کچھ بیماری کیوں نہ ہو۔ یوخنا 2:5 -4ZU 235.1

    کسی خاص موقع پر اس حوح کا پانی ہلایا جاتا عوام کا یمان تھا کہ جب پانی ہلایا جائے تو جو کوئی پہلے حوض میں اُتر جائے اُ س کی خواہ کوئی بھی بیماری کیوں نہ ہو وہ ضرور شفا پا جائے گا ۔ اُن کا یہ بھی یامان تھا کہ پانی کو ہلانے والی مافوق الفطرت طاقت ہے۔ ZU 235.2

    اس لئے اس حوض کی طرف لوگ جوق در جوق پہنچتے رہتے تھے۔ تاکہ جب پانی ہلے تو پانی میں پہلے کود کر شفا پائیں ۔ مگر افسوس کہ جب پانی ہلتا تو لوگ اس طرح پانی کی طرف بے تحاشا بھاگتے کہ بعض کمزور لاچار بچے ، خواتین اور ناتواں مرد ایک دوسرے کے پاؤں تلے کچلے جاتے۔ بعض تو حوض کے نزدیک بھی نہ پہنچ پاتے۔ بعض جو پہنچ جاتے وہ کنارے پر ہی دم توڑ جاتے۔ اُس حوض کے کنارے پانچ برآمدے بنائے گئے تھے تاکہ بیمار دن کی گرمی اور رات کی سردی سے محفوظ رہ سکیں۔ کیونکہ بعض شفا کی اُمید میں راتیں بھی وہاں گذارتے تھے۔ تاکہ جب پانی ہلے تو شفا پائیں۔ دن نکلتا تھا دن غروب ہو جاتا تھا یوں وہ بےسود وہان برسوں سے پڑے تھے۔ ZU 235.3

    یسوع بھی یروشلم میں تھا ۔ اپنے گیان دھیان میں مگن تنہا اس حوض پر آ نکلا اُس نے دیکھا کہ بد نصیب دُکھی لاچار بیمار اس واحد اُمید پر یہاں پڑے ہیں کہ شفا کی کوئی راہ نکل آئے۔ اس نے چاہا کہ اپنی شفائی قوت کو عمل میں لاکر سب کو شفا بخش دے مگر یہ سبت کا دن تھا۔ لوگ ہیکل میں عبادت کے لئے جا رہے تھے اور وہ جانتا تھا کہ اگر سب کو شفا دے دی تو یہودی حسد سے بھر جائیں گے اور اُس کی خدمت اُدھوری رہ جائے گی۔ZU 236.1

    جتنے بیمار وہاں پڑے تھے وہاں اُن بیماروں میں اُس نے ایک ایسا بیمار پایا جو سب سے زیادہ آفت زدہ تھا۔ یہ شخص اپاہج تھا جو اڑتیس سال سے وہاں حوض پر پڑا ہوا تھا۔ اس کی یہ بیماری اس کے اپنے گناہوان کے سبب تھی۔ اس کا کوئی عزیز یا رشتہ دار بھی نہ تھا۔ ایسے معلوم ہوتا تھا جیسے خدا نے بھی اُسے ترک کر دیا ہو ۔ جب پانی ہلنے کی توقع ہوتی تو جس کسی کو اس پر ترس آتا اسے بر آمدے میں چھوڑ آتا لیکن جب پانی ہلتا تو عین اس موقع پر وہاںکوئی نہ ہوتا جو اُسے پانی میں اُتارتا ۔ پانی کو ہلتے ہوئے تو اس نے کئی بار دیکھا تھا ۔ مگر وہ حوض کے کنارے سے کبھی بھی آگے نہ جا سکا کیونکہ جو اس سے طاقتور ہوتا وہ اس سے پہلے پانی میں کود جاتا۔ وہ خود غرض اور تیز دوڑنے والے لوگوں کا مقابلہ نہ کر سکتا تھا۔ اب اُس کی رہی سہی طاقت بھی جواب دے رہی تھی۔ پست ہمتی نے اُسے دبا رکھا تھا۔ اسے اس کا کوئی مداوہ نظر نہ آتا تھا۔ ZU 236.2

    یہ بیمار شخص اپنی چٹائی پر پڑا ہوا گردن اوپر اٹھا کر حوض کے پانی کو دیکھ رہا تھا جبکہ ایک مہربان شخص نے جھک کر اس سے پوچھا کیا تو تندرست ہونا چاہتا ہے؟ ان الفاظ نے اس کی توجہ کو اپنی طرف مبذول کر لیا ۔ بیماری میں اُمید کی کرن جلد پھوٹ پڑی۔ اس نے سمجھ لیا یہ ضرور کوئی غیبی مدد ہے۔ مگر اُس کی اُمید کی کرن یہ سوچ کر جلد بجھ گئی کہ میں نے کنارے پر پہنچنے کے لئے کئی بار کوشش کر دیکھی ہے۔ اور اب نہ جانے کب پانی ہلے ۔ اس لئے اس لئے وہ بڑا دکھی ہو کر مسیح کی طرف دیکھ کر کہنے لگا “اے خداوند معرے پاس کوئی آدمی نہیں کہ جب پانی ہلایا جائے تو مجھے حوض میں اُتار دے بلکہ میرے پہنچتے پہنچتے دوسرا مجھ سے پہلے اُتر پڑتا ہے۔ ZU 236.3

    یسوع مسیح نے اُس بیمار کو یہ نہ کہا کہ پہلے تو مجھ پر ایمان لا تو تُو شفا پائے گا۔ بلکہ فرمایا اُٹھ اور اپنے چارپائی اُٹھا کر چل پھر۔ جو کُچھ یسوع مے فرمایا تھا بیمار نے اُس کا یقین کیا اُس کی مردہ نسوں اور پٹھوں میں نئی قوت آگئی۔ اس اپاہج کا انگ انگ صحت یاب ہو گیا۔ اس کے اعضاء میں نئی زیندگی آ گئی۔ بغیر کسی عذر کے اُس بیمار نے مسیح کے حکم کو مانا۔ اور اپنے بستر سے چھلانگ مار کر اُٹھ کھڑا ہوا۔ ZU 237.1

    مسیح نے اُسے کسی الٰہی مدد کی یقین دہانی نہیں کرائی تھی۔ بیمار شک میں پڑ کر آخری موقع بھی کھو سکتا تھا۔ مگر اُس نے مسیح کے کلام کا یقین کیا اور اُس کے حکم کی تابعداری میں اُس نے طاقت پائی۔ZU 237.2

    اسی ایمان کے ذریعے ہم بھی روحانی شفا پا سکتے ہیں۔ گناہ کے باعث ہم سے ابدی زندگی چھن چکی ہے۔ ہماری روحیں لاچار اور اپاہج ہو گئی ہیں۔ ہم بذاتِ خود آب حیات زندگی بسر نہیں کر سکتے۔ ہم اسی طرح بے چین ہیں جیسے یہ بیمار شخص ۔ بہتیرے اپنی بے بسی کا اقرار کرتے ہیں اور اُن کی دلی تمنا ہے کہ وہ خدا کے ساتھ ہم آہنگ ہو جائیں۔ وہ بے سود کوشش میں مصروف ہیں اور آخر کار چلا اُٹھتے ہیں۔ ZU 237.3

    “ہائے میں کیسا کم بخت آدمی ہوں! اس موت کے بدن سے مجھے کون چھڑائے کا” رومیوں 24:7 ایسے خستہ حالوں ، بے بسوں کو یسوع کی طرف تکنا چاہیے۔ مسیح یسوع جس نے اپنے خون سے سب کو خرید رکھا ہے۔ وہی اپنی محبت بھری زبان سے پوچھتا ہے “کیا تو تندرست ہونا چاہتا ہے؟” وہ آپ کو کہ رہا ہے کہ صحت اور امن پائیں اور اُٹھ کھڑے ہوں۔ شفا پا جانے کے انتظار میں نہ رہیں۔ اُس کے کلام کا یقین کریں۔ تو آ پ کے لئے سب کچھ ہو جائے گا۔ اپنے مرضی یسوع کےتابع کر دیں۔ اور جب آپ اُس کا حکم مانیں گے تو آپ ضرور صحت و توانائی پائیں گے۔ اگر آپ اس کا حکم مانیں گے تو پھر خواہ کسی قسم کی برائی نے آپ کے بدن اور روح کو جکڑ رکھا ہو اُس کے نام سے دفع ہو جائے گی۔ZU 238.1

    “اُس نے تمھیں بھی زندہ کیا جب اپنے قصوروں اور گناہوں کے سبب سے مردہ تھے” افسیوں 1:2 --- وہ اُن تمام اسیروں کو رہائی دے گا جو گناہ کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ZU 238.2

    جب شفا یافتہ اپاہج گدڑی اُٹھانے کو جھکا اور پھر خوشی سے سیدھا ہوا تاکہ اپنے مربی کا شکریہ ادا کرے تو یسوع مسیح بھیڑ میں ادھر اُدھر ہو گیا۔ تندرستی پانے والے شخص کو سخت افسوس ہوا خاص طور پر اس بات کا اُسے دکھ تھا کہ جب طبیب اعظم کو کہیں دیکھے گا تو شائد پہچان بھی نہ سکے گا۔ تاہم وہ خدا کی تمہید کرتا ہوا بھاگا جا رہا تھا اُسے راستے میں کئی فریسی ملے۔ اُس نے اپنی تندرستی کا تمام ماجرہ اُن کو سنایا مگر وہ اس بات پر حیران ہوا کہ اُنہوں نے اس کی کہانے بڑی بے رخی سے سنا گویا اُن کے لئے یہ کہانی کسی اہمیت کی کی حامل نہیں۔ZU 238.3

    اُس کے ساتھ خوشی منانے کی بجائے وہ اسے پوچھنے لگے کہ تو نے کیوں اپنا بستر اُتھا رکھا ہے۔ آج سبت کا دین ہے تجھے چارپائی اٹھانا روا نہیں۔ وہ شخص جانتا تھا کہ سبت کے دن کسی طرح کا بوجھ اٹھانا روا نہیں ۔ مگر وہ اپنےخوشی میں یہ بھی بھول گیا کہ آج سبت کا دن ہے۔ تاہم اُس نے خود وہ اس کا حکم ماننے پر مجرم نہ گردانا جس میں خداوند کی حیرت انگیز قدرت پائی جاتی تھی۔ چنانچہ اس نے بڑی دلیری سے اُنہیں جواب میں کہا ” جس نے مجھے تندرست کیا اُسی نے مجھے فرمایا کہ اپنی چارپائی اٹھا کر چل پھر” یوحنا 11:5 ZU 238.4

    اُنہوں نے پھر اس سے پوچھا وہ کون شخص ہے ؟ لیکن وہ شفا پا گیا تھا وہ نہ جانتا تھا کہ کون ہے۔ بیشک یہ لوگ جانتے تھے کہ وہ کون ہے جس سے یہ معجزہ سرزد ہوا ہے۔ مگر وہ بطور ثبوت چاہتے تھے کہ یہ شخص بتائے کہ یہ یسوع تھا جس نے اسے سبت کے دن شفا دی ہے۔ تاکہ وہ یسوع پر سبت توڑنے کا الزام صادر کر سکیں۔ کیونکہ اُن کے نزدیک سبت کو چارپائی اٹھانا سبت کی بے حرمتی کرنے کے مترادف تھا۔ ZU 239.1

    یہودیوں نے شریعت کو اتنا درہم برہم کر دیا تھا کہ شریعت لوگوں پر بھاری جوا بن گئی ۔ یہودیوں کے بے سود مطالبات غیر اقوام میں مضحکہ خیز حیثیت احتیار کر چکے تھے۔ خاص طور پر سبت کی پابندیاں جو اُنہوں نے خود عائد کر رکھی تھیں۔ ان کا کوئی جواز نہ تھا۔ سبت خدا کا معظم اور مقدس اور خوشی کا دن نہ رہا تھا۔ فقہیوں اور فریسوں نے اسے ناگوار بوجھ بنا رکھا تھا ۔ یہاں تک کہ ایک یہودی سبت کے دن دیا یا موم بتی روشن کرنے کا بھی مجاز نہ تھا۔ پس یہودیوں کو بت پرستوں اور غیر اقوام پر ان کاموں کے لئے انحصار کرنا پڑتا تھا۔ جن کو ان کے حاکموں نے سبت کے دن انجام دینے سے منع کر رکھا تھا۔ جو کام یہودیوں کو سبت کے دن کرنا روا نہ تھا وہ غیر قومیں ان کے لئے کرتی تھیں۔ مگر وہ یہ نہیں سمجھتے تھے کہ اگر یہ یا وہ کام کرنا یہودیوں کے لئے سبت کی دن کرنا ناروا ہے وہ جن کو کہ کام کرنے کو کہا جاتا ہے کیا ان کے لئے روا ہے؟ جب بت پرست یہودیوں کے کئے سبت کے دن کوئی کام انجام دیتے تو اصل میں خدا کی نظر میں یہودی گنہگار ٹھرتے ۔ یہودیوں کا یہ خیال تھا کہ نجات صرف ان ہی کے لئے ہے۔ دوسری قومیں تو پہلے ہی نجات سے بے دخل ہیں اور اگر وہ ہمارے لئے سبت کے دن کوئی ناروا کام کریں گے تو صرف یہ ہو گا کہ ان کے کئے نجات کے سارے راتے مسدود ہو جائیں گے۔ یعنی ان کی نجات کا معاملہ صرف بد سے بد تر ہو گا۔ مگر یاد رہے کہ خدا نے کوئی ایسا حکم نہیں دے رکھا جو دوسری قوموں کے لئے ماننا ناممکن تھا۔ ZU 239.2

    جو شخص تندرست ہو گیا تھا اس کو یسوع ہیکل میں ملا۔ وہ ہیکل میں خداوند کی کمال رحمت کی شکر گذاری کا نذرانہ لیکر پیش ہوا تھا۔ خداوند نے اسے ہیکل میں دوسرے عبادت گذاروں کے ساتھ دیکھ کر خود کو اس پر آشکار کر دیا کہ دیکھ تو تندرست ہو گیا ہے پھر گناہ نہ کرنا۔ ایسا نہ ہو کہ تجھ پر اس سے بھی زیادہ آفت آئے۔ یوحنا 14:5 اپنے نجات دہندہ کو مل کر یہ شخص نہائت شادمان ہوا۔ فریسیوں کی دشمنی سے بے خبر ہوتے ہوئے اس نے انہیں بتایا یہ ہے وہ شخص جس نے مجھے شفا دی۔ ” اس لئے ہیودی یسوع کو ستانے لگے کیوں کہ وہ اسے کام سبت کے دن کرتا تھا ۔ ” یوحنا 16:5 ZU 240.1

    یسوع مسیح کو سنہیدڑن (نیشنل کونسل ) کے سامنے پیش کیا گیا تاکہ سبت کو توڑنے کا جواب دے۔ اگر یہودی اس وقت خود مختار ہوتے تو وہ یسوع کو ضرور موت کے گھاٹ اتار دیتے۔ مگر وہ ایسا نہ کر سکے کیوں کہ وہ رومی حکومت کی عملداری میں تھے۔ اور رومی عدالت میں جو الزام یہودیوں نے مسیح پر لگایا تھا وہ کوئی سنگین الزامات میں سے نہ تھا۔ اصل میں یہودیوں کو یہ شکائت تھی کہ مسیح کا اثر و رسوح یروشلم میں ہم سے زیادہ کیوں ہے؟ عوان جو ربیوں کی تعلیم اور خطبہ جات سے متاثر نہ تھے ان پر یسوع کی تعلیم کا بہت اثر ہوا تھا۔ وہ نہ صرف اس کی تعلیم کو بخوبی سمجھتے بلکہ ان کے دلوں کو اس کی تعلیم سے تسلی و اطمینان حاصل ہوتا۔ وہ بتاتا کہ خدا مہربان باپ ہے اور اپنے زندگی سے خدا کی خوبیاں بچور نمونہ سب کے سامنے پیش کرتا۔ خدا کی شبیہ اس میں ایسے نظر آتی جیسے آئینہ میں کسی کا عکس نظر آیا ہے۔ زخمی روحو ں کے لئے اس کا کلام مرہم کی مانند ہوتا۔ اپنی رحمت کے کام اور کلام سے وہ پرانی روایات کی قوت کو توڑتا اور کچلے ہوؤں کو سہارہ دیتا۔ دیگر وہ ان ضابطوں کو باطل ٹھراتا جو انسانوں نے بنا رکھے تھے۔ اور خدا کی بے نہائت محبت کو خدا کے بچوں پر ظاہر کرتا۔ ZU 240.2

    قدیم پیشنگوئی میں اس کے بارے یوں بیان تھا ” یہودہ سے سلطنت نہیں چھوٹے گی اور نہ اس کی نسل سے حکومت کا عصا موقوف ہوگا۔ جب تک شیلّوہ نہ آئے گا اور قومیں اُس کے مطیع ہوں گی۔” پیدائش 10:49 ZU 241.1

    لوگ یسوع مسیح کے آس پاس جمع ہوتے جاتے تھے۔ لوگوں نے خدا کی محبت اور فلاح و بہبود کی تعلیم جو مسیح پیش کرتا تھا اسے قبول کیا ۔ اور یسوع کی تعلیم کو کاہنوں کی بے لوچ اور سخت گیر تعلیم پر ترجیح دی ۔ اگر ربّی اور کاہن اس تعلیم کی مخالفت نہ کرنے تو اس کی تعلیم ایسی اصلاح لاتی جو دنیا نے اس سے پہلے کبھی نہ دیکھی تھی۔ مگر اپنی جاہ و حشمت کے بھوکے کاہنوں نے مسیح کے اثر و رسوح کو ختم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ ان کا خیال تھا کہ نیشنل کونسل کے سامنے مسیح پر تہمت اور اس کی تعلیم پر نکتہ چینی ضرور اس کی عزت و حرمت میں کمی کا باعث ہو گی۔ وہ سمجھتے تھے کہ عوام کے دل میں ابھی تک ان کے مذہبی رہنماؤں کا بڑا احترام ہے۔ کون ربیوں کی تعلیم اور مطالبات کی مخالفت کرنے کی جرات کر سکتا ہے؟ کیونکہ ایسا کرنا تو کفر کے برابر گناہ جاتا تھا، لہٰذا اُنہوں نے اُس پر الزام لگایا کہ یہ ہماری مقرر کردہ رسوم کو منسوخ کرنے کی تعلیم دیتا۔ ZU 241.2

    یہ منصوبہ جو ربی بڑے جوش و خروش سے تیار کر رہے تھا سنہیدڑن کے علاوہ اس کی بنیاد کسی اور کونسل میں رکھی گئی تھی۔ بیابان میں مسیح پر غلبہ نہ پانے کے بعد ابلیس نے اپنی فوجیں مسیح کی خدمت میں رکاوٹ ڈالنے کے لئے تیار کیں۔ وہ مقصد جو وہ خود حاصل نہ کر سکا وہ اس نے کسی دوسرے کے ذریعے حاصل کرنا چاہا۔ بیابان سے واپسی پراُس نے فوراً یہودیوں کے ذہنوں کو تاریک کرنا شروع کر دیا تاکہ وہ اپنے نجات دہندہ کو نہ پہچان سکیں وہ صداقت کے شہزادے کے خلاف دنیاوی وسائل بروئےکار لایا ۔ اس نے یہودیوں کے ذریعے کوشش کی کہ اس کی زندگی کو تلخ سے تلخ کر دے۔ اور اسے اتنا پست ہمت کر دے کہ وہ اپنے مشن میں ناکام ہو جائے۔ پس اسرائیلی قیادت مسیح کے خلاف ابلیس کے ہاتھ میں آلہ کار بن گئی۔ZU 242.1

    مسیح تو شریعت کو اُجاگر کرنے آیا تھا ۔ خداوند کو پسند آیا کہ اپنی صداقت کی خاطر شریعت کو بزرگی دے اور اُسے قابل تعظیم بنائے۔ “وہ راستی سے عدالت کرے کا وہ ماندہ نہ ہو گا اور ہمت نہ ہارے کا جب تک کہ عدالت کو زمین پر قائم نہ کر لے۔ جزیرے اس کی شریعت کا انتظار کریں کے یسعیاہ 4:42 ، 21 وہ سبت کو ان بندھنوں اور ناگوار مطالبات سے آزاد کرنے آیا جو برکت کی بجاےٓئے لعنت کا سبب بن چکے تھے۔ اسی وجہ سے بیت حسدا کے حوض پر اس نے سبت کی دن شفا کا عمل کرنے کا انتخاب کیا۔ ہو مریض کو ہفتہ کے کسی دوسرے دن بھی شفا دے سکتا تھا یا پھر وہ اسے ویسے ہی شفا دے دیتا مگر چارپائی اٹھانے کا حکم نہ کرتا۔ کیونکہ یہ سب کچھ اس کے لئے ممکن تھا ، لیکن اس سے جو کچھ وہ سیکھانا چاہتا تھا نہ سکھا سکتا۔ اُس کے ہر فعل میں کوئی نہ کوئی حکمت پائی جاتی تھی۔ بیت حسدا کے حوض پر اس نے سخت ترین بیمار مریض کو بچایا ۔ اور پھر اُسے فرمایا کہ اپنے چارپائی اٹھا تا کہ شہر میں اس بڑے معجزے کا چرچا ہو سکے ۔ اسے معلوم تھاکہ لوگ پوچھیں گے کہ آیا سبت کے دن چارپائی اٹھانا روا ہے کہ نہیںل یوں وہ سبت کے بارے صحیح تعلیم دے سکے گا۔ اور خداوند کے دن پر یہودیوں نے جو پابندیاں عاید کر رکھیں ہیں ان سے چھٹکارا دلائے۔ ZU 242.2

    مسیح نے اُنہی بتایا کہ دکھیوں کو خلاصی دلانا بالکل سبت کی شریعت کے ہم آہنگ ہے ۔ بلکی یہ خدا کے فرشتوں کی خدمت سے بھی مطابقت رکھتا ہے جو لگاتار آسمان میں آتے جاتے رہتے ہیں تاکی دکھیوں کو تسلی دیں۔ یسوع نے انہیں سمجھایا کہ باپ اب تک کام کرتا ہے اور میں بھی کار کرتا ہوں۔” یوحنا 17:5 سب دن خداوند کے ہیں جن میں ہمیں اس کے منصوبے کو جو اس نے بنی نوع انسان کے لئے بنایا ہے پورا کرنا ہے۔ اگر یہودیوں کی تفسیر درست ہوتی تو وہ قصور وار ٹھرتا جس نے تخلیق کے وقت سے ہی ہر چیز میں زندگی ڈالی جو زمین پر ہے۔ بلکہ اس نے ان تمام چیزوں کو دیکھ کر کہا کہ اچھا ہے۔ اور سبت کو تخلیق کی یاد میں قائم کیا۔ ZU 243.1

    اگر خدا سورج کو حکم کرتا کو سبت کے دن اپنا کام بند کر دے زمین کو نہ گرما اور نہ ہی سبزیات کی نشوونما میں مدد کر۔ اگر دنیا کا تمام کاروبار مقدس دن پر ساکن ہو جاتا۔ چشمے بہنا بند ہو جاتے ۔ کھیتوں اور جنگلوں کو پانی نہ پہنچاتے اور سمندر ساکن ہو جاتا۔ اناج کی فصلوں کی نشوونما رک تاتی اور پھال پکنے سے رو جاتے۔ پودے اور درخت کوئی کونپل نہ نکالتے اور سبت کے دن کوئی پھول نہ کھلتا تو اس صورت حال میں انسان زمیان کے پھلوں، پھولوں اور اپنی دوسری دل پسند چیزوں سے محروم رہ جاتا۔ فطرت کو اپنا کام جاری رکھنا تھا۔ خدا اپنا ہاتھ ایک لمحہ کے لئے بھی نہیں روک سکتا ورنہ انسا تباہ ہو جائے ۔ اسی طرح سبت کے دن پر بھی خدا نے انسانوں کے کرنے کے لئے کام رکھ چھوڑے ہیں۔ ضروریات زندگی کے علاوہ بیماروں کی تیمارداری لازم ہے۔ سبت کے دن حاجتمندوں کی حاجت روا کرنا ہے وہ جو سبت کے دن کسی مصیبت زدہ کی مدد نہیں کرتا وہ بے قصور نہ ٹھہرے گا۔ خدا کا پاک دن انسان کے آران کے لئے بنایا گیا ۔ اور خدا چاہتا ہے کہ حم، امن اور سلامتی کے کام سبت کے دن ضرور کئے جائیں۔ سبت کے دن اگر کسی کو آرام پہنچایا جا سکتا ہے تو ضرور پہنچائیں۔ خدا کی مرضی یہ نہیں ہے کہ کسی کو سبت کی وجہ سے ایک یا دو گھنٹہ کے لئے بھی تکلیف ہو۔ اگر آپ یہ تکلیف سبت کے دن رفع کر سکتے ہیں تو دریغ نہ کریں۔ ZU 243.2

    دوسرے دنوں کی جسبت ، سبت کے دن پر خدا کے مطالبات زیادہ ہیں ۔ اس کے لوگ سبت کے دن عام کاروبار سے منہ موڑ کر زیادہ تر وقت خدا کی عبادت اور گیان دھیان میں گذارتے ہیں ۔ دوسرے دنوں کی نسبت وہ خدا کی حمائت کے زیادہ طلب گار ہوتے ہیں۔ وہ اس کی برکات کی درخواست کرتے ہیں اور خدا اپنے بچوں کو یہ تمام برکات دینے کے لئے سبت کے گزر جانے کا انتظار نہیں کرتا۔ آسمان بھی اپنے کام کو بند نہیں کرتا۔ اسی طرح انسانوں کو بھی بھلائی کے کاموں سے ہاتھ نہیں روکنا چاہیے۔ سبت کا وقت بےکار نہ گزارنا چاہئے۔ عام کاروبار سے ہاتھ روکا جائے ۔ اپنی خوشیوں کے طالب نہ ہوں بلکہ جیسے خدا نے سبت کے دن آرام کیا ، اس کے نمونہ کو اپنایا جائے۔ اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ بیماروں کو شفا دینے کا عمل عین سبت کی روح ہے۔ ایسے کاموں سے سبت کی بزرگی ہوتی ہے۔ یسوع مسیح اسی طرح کے پاک اور مقدس کام سبت کے دن انجام دیتا تھا جو آسمان پر خدا دے رہا ہے۔ فریسی تو مسیح پر یہ الزام بھی لگاتے تھے کہ وہ نہ صرف سبت کو توڑتا ہے بلکہ خدا کو اپنا باپ بھی کہتا ہے۔ اور اس پر طرح یہ کہ خود کو خدا کے برابر ٹھہراتا ہے۔ZU 244.1

    ساری یہودی قوم خدا کو اپنا باپ مانتی تھی۔ اور اگر مسیح نے خدا کو اپنا باپ کہا تو اس پر انہیں برہم ہونے کی ضرورت نہ تھی۔ مگر انہوں نے اس کی بارے کہا کہ وہ کفر بکتا ہے۔ کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ جس لحاظ سے ہم خدا کو اپنا باپ کہتے ہیں وہ اس طرح نہیں کہتا بلکہ یہ کہتا ہے کہ میں اور باپ ایک ہیں۔ZU 245.1

    فریسی یہ تو خوب سمجھ گئے کہ سبت کے بارے سچائی کیا ہے مگر وہ لوگوں کو یہ کہہ کر اُبھارنے لگے کہ یہ خود کو خدا کے برابر ٹھہراتا ہے۔ اگر انہیں بھیڑ کا خوف نہ ہوتا تو وہ ضرور مسیح کو اسی وقت قتل کر دیتے۔ یسوع عوام میں بڑا ہر دل عزیز تھا۔ کیوں کہ اس نے بعضوں کو شفا بخشی تھی۔ بہتوں کو ان کے دکھوں سے رہائی اور غموں میں دلاسا دیا ۔ ان کے سامنے بیت حسدا کا معجزہ بھی تھا اور وہ سمجھتے تھے کہ یسوع نے سبت کے دن شفا دےکر سبت کی بلکل بے حرمتی نہیں کی۔ اس لئے وقت کے حاکم اس کے خلاف کچھ کرنے سے باز رہے۔ ZU 245.2

    مسیح یسوع نے ان کے اس سوال کا کہ یہ خود کو “خدا کا بیٹا” کہہ کر کفر بکتا ہے یہ جواب دیا ” میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ بیٹا ” آپ سے کچھ نہیں کر سکتا سوا اُس کے جو باپ کو کرتے دیکھا ہے۔ کیوں کہ جن کاموں کو وہ کرتا ہے اُنہیں بیٹا بھی اُسی طرح کرتا ہے۔” یوحنا 19:5 --- یہودیوں نے تو اپنے گناہوں کے سبب سے خود کو خدا سے جدا کر لیا تھا۔ اور اب وہ سوچتے تھے کہ وہ بذاتِ خود سب کچھ ہی کر سکتے ہیں۔ وہ خداوند کی حکمت کو حاصل کرنے کی بالکل ضرورت محسوس نہ کرتے تھے۔ مسیح یسوع تو ان کے برعکس تھا۔ اس نے اپنے لئے کوئی تجویز نہ بنائی بلکہ اس نے خود کو خالی کر دیا۔ اور خدا کی تجویز کو قبول کیا جو وہ ہر روز اس کے لئے تیار کرتا تھا ۔ اسی طرح ہمیں بھی خدا کی تجاویز پر عمل پیرا ہونا چاہئے جو وہ ہم پر ظاہر کرتا ہے تاکہ ہماری زندگی میں اس کی مرضی پوری ہو۔ZU 245.3

    جب موسیٰ خدا کے رہنے کا گھر بنانے کو تھا تو خدا نے اُس کو آسمان سے نمونہ دیا تاکہ اُس کے مبابق بنائے۔ موسیٰ نے پورے جوش و خروش سے کام کرنے کا عہد کیا۔ اُس کے ساتھ کام کرنے والے ماہر لوگ موجود تھے۔ خدا نے اُسے اپنے جلال میں چھپا کر وہ تمام چیزیں دکھائیں جو بنانی درکار تھیں مثلاً گھنٹیاں ، انار ، جھنجری ، شمعدان، سرپوش ، میخیں، پیالیا ، لٹو اور پھول وغیرہ اور یہ سب کچھ اس نمونہ کے مطابق تھا جو خدا نے موسیٰ کو آسمان پر سے دکھایا۔ اسی طرح جب شریعت دی گئی اُس وقت بھی خدا وند موسیٰ کے سامنے سے گذرا اور اپانی سیرت سے اُسے آگاہ کیا۔ “اور یس کے آگے سے یہ پکارتا ہو ا گزرا خداوند خداوند خدا ہی مہربان قہر کنے میں دھیما اور شفقت اور وفا میں غنی۔ ہزاروں پر فضل کرنے والا ، گناہ اور تقصیر اور خطا کا بخشنے والا لیکن وہ مجرم کو ہر گز بری نہیں کرے گا۔ بلکہ باپ دادا کے گناہ کی سزا اُن کے بیٹوں اور پوتوں کو تیسری اور چوتھی پشت تک دیتا ہے۔” خروج 6:34-7ZU 246.1

    بنی اسرائیل نے اپنی راہیں احتیار کر لی تھیں ، اُنہوں نے خدا کے نمونہ پراپنے زندگیاں تعمیر نہ کیں۔ مگر مسیح یسوع نے اپنی زمینی زندگی کے دوران خدا کی مثالی زندگی کو اپنایا۔ “اے میرے خدا! میری خوشی میں تیری مرضی پوری کرنے میں ہے بلکہ تیری شریعت میرے دل میں ہے۔ ” “اور تم بھی اُس میں باہم تعمیر کئے جاتے ہو تاکہ روح میں خدا کا مسکن ہو” ” جو آسمانی چیزوں کی نقل اور عکس کی خدمت کرتے ہیں ۔ چنانچہ جب موسیٰ خیمہ بنانے کو تھا۔ تو اُسے یہ ہدایت ہوئی کہ دیکھ! جو نمونہ تجھے پہاڑ پر دکھایا گیا تھا اسہ کے مطابق سب چیزیں بنانا” ZU 247.1

    ” اور تم اُسی لئے بلاتے گئے ہو کیوں کہ مسیح نے بھی تمھارے واسطے دکھ اُٹھا کر تمہیں ایک نمونہ دے گیا ہے تاکہ اُس کے نقشِ قدم پر چلو۔“زبور 8:40 ، افسیوں 22:2 ، عبرانیوں 5:8 ، پطرس 21:2 ZU 247.2

    مسیح کے کلام سے ہم یہی سیکھتے ہیں کہ ہم آسمانی خدا کے ساتھ منسلک ہیں۔ خواہ ہم کچھ بھی کیوں نہ ہوں۔ ہمارا انحصار خداوند پر ہی ہے کیوں کہ اسی کے ہاتھ میں ہمارا سب کچھ ہے۔ اس نے ہی ہمیں خدمت کا موقع دیا ہے۔ اور جو کام ہم کرتے ہیں اس کو انجام دینے کی صلاحیت بھی وہی عطا کرتا ہے۔ پس جب تک ہم اپنی مرضی کو اُس کے مطیع کرتے اور اُس کی حکمت کے متلاشی رہتے ہیں تو وہ ہمیں اس سراطِ مستقیم پر ہماری رہنمائی کرتا رہتا ہے۔ جو محفوظ ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی عظیم تجویز کے عین مطابق ہے۔ مگر وہ تمام لوگ جو اپنی حکمت اور طاقت پر بھروسہ کرتے ہیں وہ خود کو خدا سے جُدا کر لیتے ہیں۔ پھر وہ خدا کی بجائے خدا کے دشمن یعنی ابلیس کے مقصد کی تکمیل کرتے ہیں۔ZU 247.3

    یسوع مسیح نےبیان جاری رکھتے ہوئے فرمایا ” جس طرح باپ ُمردوں کو اُٹھاتا اور زندہ کرتا ہے۔ اُسی طرح بیٹا بھی جنہیں چاہتا ہے زندہ کرتا ہے” یوحنا 21:5 ZU 248.1

    صدوقی کہتے تھے کہ مردوں کی قیادت نہیں۔ مگر مسیح نے تعلیم دی کہ خدا کا ایک عظیم کام یہ ہے کہ وہ روزِ آخر مردوں کو زندہ کرے گا۔ مسیح نے فرمایا کہ وہ وقت آتا ہے جب ُمردے خدا کے بیٹے کی آواز سنیں گے اور جو سُنیں گے زندہ کئے جائیں گے۔ فریسی مردوں کی قیامت میں ایمان رکھتے تھے مگر یسوع نے فرمایا وہ قدرت اور وقت اب بھی ہے جو اُس کی آواز سنتے ہیں زندگی پائیں گے۔ ” اور اُس نے تمہیں بھی زندہ کیا جب اپنے قصوروں اور گناہوں کے سبب مردہ تھے” افسیوں 1:2 --- وہی زندگی کی روح مسیح میں موجود ہے۔ اور میں اس کو اور اس کے جی اٹھنے کی قدرت کو اور اس کے ساتھ دکھوں میں شریک ہونے کو معلوم کروں اور اس کی موت سے مشابہت پیدا کروں“فلپیوں 10:3، رومیوں 2:8 ---ZU 248.2

    ابلیس کی حکمرانی ختم ہو گئی ۔ اور ایمان کے ذریعے روح گناہ کے جال سے آزاد ہو گئی۔ وہ جو اپنا دل روح کو حاصل کرنے کے لئے کھولتے ہیں انہیں قبر پر فتح پانے کی قوت نصیب ہوتی ہے۔ مسیح نے خود کو اتنا حلیم کیا کہ وہ جو خدا کے ساتھ تخلیق میں شامل تھا انسان بناتا کہ ہمیں گناہ کی شرمندگی سے چھڑا لے۔ وہ فرشتوں سے بر تر اور خدا کا بیٹا تھا اس لئے اس کے سامعین کےدل میں اسکا کلام اُتر جاتا۔ کیوں کہ جس طرح وہ کلام کرتا کوئی انسان نہ کر سکتا تھا۔ اس کا کلام سادہ اور پُر مغز ہوتا جس سے اس کے مشن کی پوری پوری عکاسی ہوتی “کیوں کہ باپ کسی کی عدالت بھی نہیں کرتا بلکہ اس نے عدالت کا سارا کام بیٹے کے سُپرد کیا ہے۔ تاکہ سب لوگ اس کی عزت کریں جس طرح باپ کی عزت کرتے ہیں۔ جو بیٹے کی عزت نہیں کرتا وہ باپ کی جس نے اُسے بھیجا عزت نہیں کرتا۔ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جو میرا کلام سنتا اور میرے بھیجنے والے کا یقین کرتا ہے ہمیشہ کی زندگی اس کی ہے اور اس پر سزا کا حکم نہیں ہوتا بلکہ وہ موت سے نکل کر زندگی میں داخل ہو گیا ہے” یوحنا 22:5 -24 ZU 248.3

    سرداروں نے سوچا کہ وہ مسیح کے کام کی عدالت کریں گے مگر مسیح نے اعلانہ کہا کہ میں دُنیا کی عدالت کا احتیار رکھتا ہوں جس میں تم بھی شامل ہو۔ تمام دنیا مسیح کو دی گئی ہے اور اسی کے ذریعہ دنیا کو تمام برکات حاصل ہوتی ہیں۔ وہ اپنے مجسم ہونے سے پہلے بھی دنیا کا جنات دہندہ تھا اور اب بھی ہے۔ یعنی گناہ ہونے سے پہلے نجات دہندہ موجود تھا ۔ اُس نے سب کو زندگی اور روشنی دی ہے۔ اور جتنی کسی کو روشنی پہنچی ہے اسی کے مطابق اس کی عدالت ہو گی۔ وہ سچا اور میانی ہے۔ اور گناہ سے چھڑانے کے لئے ہر وقت تیار ۔ جب سے آسمان پر کشمکش شروع اسی وقت سے مسیح دنیا کو ابلیس کے منصوبوں اور چالاکیوں سے آگاہ کرنے کے علاوہ اس کے چنگل سے چھڑا رہا ہے۔ خدا نے اسے عدالت کا احتیار بھی دیا ہے۔ کیونکہ وہ خدا کا بیٹا ہے۔ اور چونکہ وہ انسانی آزمائشوں اور دکھوں سے واقف ہے اور جانتاہے کہ جب گناہ انسان کو جکڑ لیتا ہے تو اس کی کیا حالت ہوتی ہے ۔ اس لئے وہ ہم انسانوں سے بڑی نرمی کے ساتھ پیش آتا ہے۔ZU 249.1

    خدا نے مسیح کو عدالت کے لئے نہیں بلکہ جنات کے لئے بھیجا تھا ” کیوں کہ اس نے بیٹے کو دنیا میں اس لئےنہیں بھیجا کہ دنیا پر سزا کا حکم کرے بلکہ اس لئے کہ دنیا اس کے وسیلہ سے نجات پائے۔” یوحنا 17:3 بلکہ مسیح نے نیشنل کونسل کے سامنے اعلانیہ کہا جو اُس پر ایمان لاتا ہے اس پر سزا کا حکم نہیں ہوتا۔ جو اس پر ایمان نہیں لاتا اس پر سزا کا حکم ہو چکا۔ اس لئے کہ وہ خدا کے اکلوتے بیٹے کے نام پر ایمان نہیں لایا۔ZU 249.2

    اپنے سامعین کے لئے اس نے مستقبل کے بھیدوں سے پردہ اُٹھاتے ہوئے فرمایا ” میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ وہ وقت آتا ہے بلکہ ابھی ہے کہ ُمردے خدا کے بیٹے کی آواز سُنیں گے اور جو سُنیں گے وہ جئیں گے ۔ا س پر تعجب نہ کرو کیوں کہ وہ وقت آتا ہے کہ جتنے قبروں میں ہیں اس کی آواز سن کر نکلیں گے۔ جنہوں نے نیکی کی ہے زندگی کی قیامت کے واسطے اور جنہوں نے بدی ہے سزا کی قیامت کے واسطے” یوحنا 25:5 -29 ZU 250.1

    مستقبل کی زندگی کی اس یقین دہانی کے لےت بنی اسرائیل مدت سے انتظار کر رہے تھے۔ نیز اُن کا کہنا تھا کہ مسیح کے آنے پر ان کی یہ اُمید پوری ہو گی۔ اب وہ روشنی ان پر چمک رہی تھی۔ مگر خودی نے اُنہیں اندھا کر رکھا تھا۔ مسیح یسوع نے ربیوں کی روایات کو بلائے طاق رکھ کر اور ان کے احتیار کو باطل قرار دیا اس لئے وہ اس کی باتوں کا یقین کرنا نہ چاہتے تھے۔ZU 250.2

    موقع کی نزاکت اور لوگوں کے ردِ عمل کی وجہ سے نیشنل کونسل مسیح یسوع کے کلام سے مزید متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی۔ مذہبی رہنما اس کی جان کے درپہ تھے کس نے بنی اسرائیل کی بحالی کا اعلان کیا تھا۔ اور جس نے انہیں واضح طور پر کہا کہ میں ہی وہ ہوں جو انہیں بحال کرنے آیا ہوں۔ سبت کے مالک کو آج زمینی مذہبی رہنماؤں کو جواب دینا تھا کہ اس نے سبت کو کیوں توڑا؟ جب اس نے پھر ببانگ دُہل اپنے مشن کا اعلان کیا تو اس کی عدالت کرنے والوں نے اس پر حیرانگی سے نگاہ کی مگر اسے کوئی جواب نہ دے سکے نہ ہی و ہ اُس پر کوئی الزام لگا سکے۔ اس نے ربیوں اور کاہنوں کے احتیار کو چیلنج کیا جو اس سے جواب طلبی کر رہے تھے۔ کیوں کہ وہ ان کے احتیار کو نہیں مانتا تھا۔ اس لئے اس نے اُن کے الزامات کی بھی چنداں پرواہ نہ کی۔ مسیح نے جو کچھ کیا تھا اس پر وہ ہرگز شرمسار نہ تھا کیونکہ وہ عین شریعت کے مطابق تھا۔ چنانچہ مسیح یسوع نے اپنے الزام لگانے والوں یعنی سرداروں اور کاہنوں کو ملزم ٹھہرایا۔ یوں الزام لگانے والے خود مجرم بن گئے۔ اس نے اُن کو جھڑکا کہ تم شریعت اور کلام کو نہیں جانتے ۔ اور تم نے اپنے دلوںکو سخت کر رکھا ہے ۔ کیوںکہ تم نے خدا کے کلام اور جس کو اس نے بھیجا ہے دونوں کو رد کر دیا ہے۔ ” تم کلام مقدس می ڈھونڈتے ہو کیوں کہ سمجھتے ہو کہ اس میں ہمیشہ کی زندگی تمھیں ملتی ہے ۔ اور یہ وہ ہے جو میری گواہی دیتی ہے یوحنا 39:5 ZU 250.3

    عہد عتیق کی تاریخ ہو یا شریعت اس کے ہر ورق پر خدا کے بیٹے کا جلال دعکھا جا سکتا ہے۔ بلکہ یہودیوں کے تمام نظام میں انجیل کی خوشخبری موجود تھی۔ ” اس شخص (یسوع مسیح) کی سب نبی گواہی دیتے تھے کہ جو کوئی اس پر ایما لائے گا اس کے نام سے گناہوں کی معافی حاصل کرے گا ” اعمال 43:10 --- بلکہ جب سے آدم کو نجات دہندہ کا وعدہ چیا گیا اس وقت سے بتدریج نجات دہندہ کے ظاہر ہونے کی واضح نشانیا ں ہر زمانہ کے آبائی بزرگ و انبیاء کو دی گئیں۔ ہر قربانی مسیح کی موت کی علامت ہوتی تھی۔ بخور کے ہر دھوئیں سے اس کی راستبازی کا صعود ہوتا تھا۔ بوبلی کا ہر نرسنگا اس کے نام سے پھونکا جاتا تھا ۔ پاک ترین مقام میں اس کی حضوری ہوتی تھی۔ یہودیوں کی عملداری میں خدا کا کلام دیا گیا تھا اور وہ سوچتے تھے کہ اس کا سطحی و ظاہری علم ابدی زندگی کےلئے کافی ہے۔ اسی لئے مسیح نے اُنہیں ایک موقع پر خبر دار کیا ۔ “تم اس کے کلام کو اپنے دلوں میں قائم نہیں رکھتے” چونکہ تم نے اس کے کلام کو ردکر دیا ہے لہٰذہ تم نے مجھے رد کر دیا ہے۔ ” تم زندگی پانے کے لئے میرے پاس آنا نہیں چاہتے” یوحنا 40:5 ZU 251.1

    یہودی قیادت نے مسیح کی بادشاہی کے متعلق کلام پاک سے پڑھ رکھا تھا مگر اُنہو ں نے اس کی جستجو نیک نیتی سے نہ کی تھی۔ بلکہ و ہ اپنےمقصد کی تکمیل کے لئے اس کی تعبیر کرتے تھے ۔ جب خداوند یسوع مسیح کی آمد ان کی توقعات کے بر عکس ہوئی تو انہوں نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا ۔ اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ یہ دھوکے باز ہے۔ ان کا اس راہ پر چلنا تھا کہ ابلیس نے ان کے قدموں کو تقویت دی۔ وہ کلام جو اس کے حق میں تھا اُنہوں نے اس کی الٹ تفسیر کر کے مسیح کے برخلاف استعمال کیا۔ یوں الٰہی صداقت کو انہوں نے جھوٹ میں بدل دیا۔ اور جتنا زیادہ مسیح نے اپنے رحم میں ان تک کلام پہنچانے کی کوشش کی اسی قدر زیادو انہوں نے نور کو رد کرنا چاہا۔ ZU 252.1

    یسوع نے فرمایا ” میں آدمیوں سے عزت نہیں چاہتا“یوحنا 41:5 مسیح کو نہ تو نیشنل کونسل کے تحفظ ، عزت افزائی اور سرپرستی کی ضرورت تھی نہ اپنے مشن کی تکمیل کے لئے اُن کی اجازت۔ یہ سب کچھ تو اُسے آسمان سے فرشتے آ کر اُس کے حکم کو بجا لاتے۔ حتٰی کہ باپ خود کہہ سکتا تھا کہ “یہ میرا پیارا بیٹا ہے جس سے میں خوش ہوں۔” مگر مسیح یسوع کی دلی تمنا تھی کہ یہودی رہنما خود اُس کی سیرت کی پہچان کریں۔ اور اُن برکات کو حاصل کریں جو وہ دینے آیا تھا۔ “میں اپنے باپ کے نام سے آیا ہوں اور تم مجھے قبول نہیں کرتے۔ اگر کوئی اور اپنے ہی نام سے آئے تو اُسے قبول کر لو گے” یوحنا 43: 6 یسوع مسیح خدا کے نام سے آیا اُس میں خدا کی شبیہہ تھی وہ اس کے کلام کی تکمیل کرنے آیا ۔ وہ اپنے باپ کے جلال کا خواہاں تھا پھر بھی اسرائیلی رہیماؤ ں نے اسے قبول نہ کیا۔ کیونکہ وہ خدا سے ناواقف تھے۔ اور جب مسیح کے ذریعہ خدا نے اُنہیں بُلایا تو یہودی رہنماؤں نے اُسے اجنبی خیال کیا۔ZU 252.2

    کیا یہی کچھ ہمارے زمانے میں دہرایا نہیں جا رہا؟ کیا یہاں بھی ایسے لوگ نہیں بشمول مذہبی رہنماؤں کے جو روح القدس کو قبو ل کرنے میں اپنا دل سخت کر رہے ہیں۔ یہاں تک کہ انہیں خدا کی آواز کی بھی پہچان نہیں رہی؟ کیا وہ اپنی روایات کو بخال رکھنے کے لئے خدا کے کلام کو رد تو نہیں کر رہے؟ یسوع میسح نے فرمایا “اگر تم موسیٰ کا یقین کرتے تو میرا بھی یقین کرتے اس لئے کہ اس نے میرے حق میں لکھا ہے۔ لیکن جب تم اس کے نوشتوں کا یقین نہیں کرتے تو میری باتوں کا کیوں کر یقین کر و گے؟ یوحنا 47:46 ZU 253.1

    یہ یسوع ہی تھا جس نے موسیٰ کے ذریعے بنی اسرائیل سے کلام کیا تھا۔ اگر وہ اس آواز کو پہنچانتے جو ان کے آباؤ و اجداد سے ہم کلام ہوئی تھی تو وہ مسیح کی تعلیم کو تھی تسلیم کرتے۔ اگر وہ موسیٰ کو مانتے تو وہ اس کو بھی قبول کرتے جس کے بارے موسیٰ نے لکھا تھا۔ مسیح یسوع جانتا تھا کہ خاکم اور کاہن اس کی جان کے در پہ ہیں۔ پھر بھی اس نے بڑی وضاحت سے بتایا کہ وہ خدا کے ساتھ ایک ہے۔ بےشک وہ جان گئے تھے کہ ان کے تمام بہانے لغو ہیں پھر بھی ان کی نفرت اس کے خلاف کم نہ ہوئی ۔ وہ اسے ہر حال قتل کرنا چاہتے تھے۔ وہ اس کی خدمت کے اثرات سے قائل بھی ہو گئے ۔ پھر بھی جان بوجھ کر خود کو ظلمت کے حوالے کر دیا۔ جاسوسوں کو بھیجا کہ اس کے قتل کا کوئی بہانا ڈھونڈیں۔ جنات دہندہ ان حالات کے تحت یقینی طور پر صلیب کے سایہ تلے کھڑا تھا۔ ZU 253.2