Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents

زمانوں کی اُمنگ

 - Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First
    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents

    باب نمبر 7 - یسوع بحیثیت بچہ

    یسوع مسیح کا بچپن اور عالم شباب ایک چھوٹے سے پہاڑی ملک میں گذرا۔ اس سر زمین پر کوئی ایسا مقام نہ تھا جس کے لیے یسوع عزت و افتخار کا باعث نہ ہو۔ بادشاہوں کے محلوں کی عزت افزائی ہوتی اگر وہ اُسے مہمان کے طور پر اپنے محلوں میں اُتارتے۔ مگر وہ امیروں کے گھروں، بادشاہوں کے درباروں اور عالی مرتبہ لوگوں کے کاشانوں کے پاس سے گذر گیا اور ایک معمولی سے قصبے ناصرت کو اپنا گھر بنا لیا۔ یسوع مسیح کی ابتدائی زندگی کا مختصر مگر نہایت ہی اہم احوال مندرجہ ذیل ہے ۔ ZU 63.1

    “اور وہ لڑکا بڑھتا اور قوت پاتا گیا اور حکمت سے معمور ہوتا گیا اور خدا کا فضل اُس پر تھا” لوقا 40:2 اور یسوع اپنے باپ کے جلال میں “حکمت اور قدوقامت میں اور خدا کی اور انسان کی مقبولیت میں ترقی کرتا گیا۔ لوقا 52:2 وہ بیدار مغز تھا اور اپنی عمر کے لحاظ سے حکمت اور فہم کے گہرے بھیدوں سے واقف تھا۔ تاہم اُس کا بدن خوبصورت، سڈول اور متناسب تھا۔ اُس کی بدنی اور ذہنی قوا بتدریج ترقی کر رہی تھیں بالکل اسی طرح جیسے ایک عام لڑکا فطری طور پر بڑھتا اور نشوونما پاتا ہے۔ ZU 63.2

    بچے کی حیثیت سے یسوع مسیح کا افتاد مزاج نہائت ہی اعلیٰ اور دلکش تھا۔ وہ دوسروں کی خدمت کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتا۔ وہ صبر کو کبھی بھی ہاتھ سے جانے نہ دیتا اور ایمانداری کو داو پر لگائے بغیر صداقت کا مظاہرہ کرتا، وہ اپنے اصولوں میں ہرگز لچک نہ آنے دیتا۔ اُس کی زندگی سے فضل اور شائستگی ٹپکتی۔ ZU 63.3

    یسوع کی ماں مقدمہ مریم بڑے خلوص اور دھیان سے اُن طاقتوں کو دیکھتی جو اُس پر عیاں ہوتیں اور اسی طرح کامل سیرت کے نقش کو دیکھ کر اُس پر غور کرتی رہتی۔ اس لئے بڑی خوشی سے اُس نے یسوع کے اثر پذیر ذہن کی حوصلہ افزائی کی۔ روح القدس کے ذریعے سے اُس نے حکمت پائی تاکہ آسمانی ایجنسیوں کے ساتھ مل کر اس بچے کی نشوونما میں حصہ لے۔ ZU 64.1

    ابتدا ہی سے اسرائیل میں نوجوانوں کی تعلیم پر دھیان دیا جاتا تھا۔ خدا وند نے اُنہیں ہدائت کر رکھی تھی کہ بچپن ہی سے اُنہیں خدا کی بھلائی، عظمت اور نیکی کے بارے تعلیم دی جائے۔ اور خاص طور پر اُس تعلیم پر زور دیا جائے جو اسرائیل کی تاریخ اور خدا کی شریعت میں مرقوم ہے۔ یعنی گیت، دُعا اور اسباق جو الہامی نسخہ جات میں پائے جاتے تھے وہ سب بچوں اور جوانوں کے ذہن نشین کرائے جاتے۔ والدین اپنے بچوں کو سکھاتے کہ خدا کی شریعت اُس کی سیرت کا اطہار ہے اس لئے اُنہیں شریعت کے اصولوں کی اپنے دل میں اُتار لینا چاہیے۔ خدا کی شبیہ روح اور ذہن دونوں پر نقش کی جاتی تھی۔ یہ تعلیم زیادہ تر زبانی ہوا کرتی تھی۔ تاہم نوجوان عبرانی لکھنا بھی سیکھتے تھے۔ نیز اُن کے لئے پرانے عہد نامے کے طومار بھی کھولے جاتے تھے۔ ZU 64.2

    یسوع کے زمانہ میں جس شہر یا قصبے میں نوجوانوں کو مذہبی تعلیم نہ دی جاتی تھی اُن کے بارے خیال کیا جاتا تھا کہ اُن پر خدا کی لعنت ہے۔ تاہم یہ تعلیم ظاہری اور رسمی تھی۔ روایات نے الہامی نسخوں کی جگہ لے لی تھی۔ حقیقی تعلیم نو جوانوں کی مدد کرتی ہے کہ خدا کو ڈھونڈیں اعمال 27:17 مگر یہودی اساتذہ نے رسمی باتوں کو مرکز بنایا۔ ذہن مادیت سے بھر دیے جاتے جس کا سیکھنے والے کو کچھ فائدہ نہ پہنچتا اور آسمانی بارگاہوں میں ایسی تعلیم کی کچھ قدرومنزلت نہ ہوتی۔ اس رسمی تعلیم میں وہ ذاتی تجربہ نہیں تھا جس کی بدولت انسان شخصی طور پر خدا کے کلام کو قبول قبول کرے ۔ چونکہ زیادہ تر تعلیم ظاہری اور نمائشی ہوتی تھی اس لئے طالب علموں کے پاس کوئی وقت نہ ہوتا جو وہ علیحدگی میں خدا کے ساتھ گذار سکتے۔ نہ وہ خدا کو کلام کرتے ہوئے سنتے۔ تعلیم حاصل کرنے کی جستجو میں وہ خدا جو حکمت کا چشمہ ہے اُس سے کٹ جاتے۔ خدا کی عبادت کے اہم امور کو نظر انداز کر دیا جاتا۔ شریعت کے اصولات اوجھل ہو چکے تھے۔ وہ تعلیم جسے حقیقی تعلیم خیال کیا جارہا تھا اصل میں نوجوانوں کی نشوونما میں بڑی رکاوٹ کا باعث تھی۔ ربیوں کی تعلیم کے زیر سایہ نوجوانوں کی قواء دبائی گئی تھیں۔ اُن کے ذہن و دماغ تنگ اور غبی ہو چکےتھے۔ ZU 64.3

    بچے یسوع نے ربیوں کے سکولوں میں نہ پائی۔ اُس کی والدہ اُس کی پہلی اُستانی تھی۔ اپنی ماں کے ہونٹوں اور نبیوں کے طوماروں سے اُس نے آسمانی درس لیا۔ وہ کلام جو اُس نے بنی اسرائیل کے لئے موسیٰ کو دیا وہی کلام اُس نے اپنی ماں کے گھٹنوں پر بیٹھ کر سیکھا۔ اور جب وہ بچن سے جوانی میں آیا اُس نے کسی سکول میں جا کر تعلیم پانے کی ضرورت محسوس نہ کی۔ خدا اُسکا ہدائت کار تھا اس لئے اُسے دُنیاوی سکول سے درس لینے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ ZU 65.1

    مسیح یسوع کی خدمت کے دوران پوچھا گیا۔ “یہودیوں نے تعجب کر کے کہا کہ اس کو بغیر پڑھے کیوں کر علم آگیا” اس کا مطلب یہ نہیں کہ یسوع لکھ پڑھ نہیں سکتا تھا۔ مگر اصل میں سوال یہ تھا کہ اس نے ربیوں کے سکول سے کبھی تعلیم نہیں پائی۔ اُس نے جو ربیوں کے سوالوں کے جواب دئیے تو صاف معلوم ہوا کہ اُس نے کتنی جانفشانی سے صحیفوں کا مُطالعہ کیا تھا۔ اُس کے سامنے خدا نے فطرت کی بہت بڑی لائبریری کھول دی تھی۔ وہ جس نے تمام چیزوں کو تخلیق کیا تھا اُس نے اُن تمام اسباق کا مطالعہ کیا جو اُس کے اپنے ہاتھ سے سمندر، زمین اور آسمان پر لکھے تھے۔ دُنیا کی بزرگی کے علاوہ اُس نے فطرت کی تمام چیزوں کا بغور مطالعہ کیا۔ اُس نے پودوں جانوروں اور انسانوں کا مطالعہ کیا۔ دوسروں کی خدمت کرنا اُس کی زندگی کا واحد مقصد تھا۔ اس کے لیے اُس نے فطرت سے وسائل پائے۔ جب وہ پودوں اور جانوروں کی زندگی کا مطالعہ اور مشاہدہ کرتا تھا تو اُس پر نئے رموز آشکار ہوتے تھے۔ وہ مسلسل مشاہدہ میں آنے والی چیزوں سے خدا کا زندہ کلام پیش کرنے کے لیے مثالیں ڈھونڈتا رہتا تھا۔ وہ تمثیلیں جن کے ذریعے وہ سچائی سکھانا پسند کرتا تھا اُس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ فطرت کو کتنا پیار کرتا تھا۔ کیونکہ یہ تمام تماثیل اُس نے اپنے گردوپیش اور روزمرہ کی زندگی سے حاصل کر کے سکھائیں۔ جب وہ ان تمام فطرت کی چیزوں کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتا کہ اس طرح کیوں ہیں تو خدا کا کلام اور اُس کے کام اُس پر واضح ہوتے جاتے۔ آسمانی مخلوق اُس کی نگرانی کرتی جن کی رفاقت سے اُسے پاکیزہ خیالات میسر آتے۔ ابتدا ہی سے وہ روحانی فضل اور صداقت کے علم میں نشوونما پانے لگا۔ ZU 65.2

    یسوع مسیح کی طرح ہر بچہ علم حاصل کر سکتا ہے۔ جونہی ہم کلام مقدس کے ذریعے اپنے آسمانی باپ سے واقفیت حاصل کرنے کوشش کریں گے آسمانی فرشتے ہمارے قریب آجائیں گے۔ ہمارا ذہن پختہ ہو جائے گا۔ ہماری سیرت اُجلی اور اعلیٰ و ارفع ہو جائے گی اور ہم اپنے نجات دہندہ کی طرح بن جائیں گے۔ اور جب ہماری فطرت اعلےٰ ہوتی جائے گی تو ہمارا اخلاق خدا کا سا ہو جائے گا۔ یاد رہے کہ جب ہم دُعا کے ذریعے خدا سے رفاقت کرتے تو ہماری ذہنی اور اخلاقی قوا نشوونما پاتی ہیں۔ اور جب ہم زیادہ سے زیادہ روحانی باتوں پر غوروخوض کرتے ہیں تو ہماری روحانی قوا کی بالیدگی ہوتی ہے۔ ZU 66.1

    یسوع کی زندگی خدا کی زندگی کے ہم آہنگ تھی۔ جب وہ بچہ تھا تو وہ بچوں کی طرح سوچتا اور بچوں کی طرح بولتا تھا اُس میں خدا کی شبیہ تھی اُس پر گناہ کا کوئی دھبہ نہ لگا۔ ناصرت کے رہنے والوں کی بُرائیاں ضرب المثل تھیں۔ اُن کی اخلاقی اور ذہنی گراوٹ کا اندازہ نتن ایل کے اس سوال سے بخوبی ہو جاتا ہے۔ ZU 67.1

    “کیا ناصرت سے کوئی اچھی چیز نکل سکتی ہے؟” یوحنا 46:1 یسوع مسیح ایسی جگہ رکھا گیا جہاں اُس کی سیرت کی جانچ پڑتال ہونا تھی۔ اپنی پاکیزگی کو قائم رکھنے کے لئے لازماً اُسے ہر وقت چوکس رہنے کی ضرورت تھی۔ جن آزمائشوں کا ہمیں سامنا ہے اُسے بھی ایسی ہی کشمکش کا سامنا تھا تاکہ وہ ہمارا نمونہ ہو۔ ZU 67.2

    ابلیس نے سر توڑ کوشش کی تاکہ وہ یسوع ناصری پر فتح پائے۔ اوائل عمر ہی سے یسوع پاک فرشتوں کی نگرانی میں تھا۔ پھر بھی اُس کی زندگی تاریکی کی فوجوں کے خلاف مسلسل کشمکش اور جدوجہد کی زندگی تھی۔ ابلیس نے یسوع کو پھنسانے کا کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا۔ نجات دہندہ کے علاوہ اس طرح کی کشمکش میں کسی بھی انسانی بچے کو پاکیزہ زندگی بسر کرنے کے لئے نہیں بلایا گیا۔ ZU 67.3

    یسوع کے والدین غریب تھے اور روزانہ محنت مشقت کر کے گذر بسر کرتے تھے۔ اسلیے وہ غربت و عسرت اور خود انکاری کی روح سے بخوبی واقف تھا۔ اور یہ تجربہ اُس کی کامرانی کا باعث تھا۔ اُس کی زندگی میں کوئی بیکار لمحہ نہ تھا جس میں وہ آزمائش کو دعوت دیتا۔ اُس کے پاس کوئی بے مقصد وقت نہ تھا جس میں وہ بُری صحبت میں پڑتا۔ اُس نے آزمانے والے کے لئے ہر ممکنہ دروازہ بند کر دیا تھا۔ نہ کوئی نفع نہ خوشی، نہ خوشامد اور نہ ہی ڈانٹ ڈپٹ اُسے بداعمال کے لئے آمادہ کر سکتی تھی۔ وہ بدی میں امتیاز کرنا اور اُس کا سختی سے مقابلہ کرنا جانتا تھا۔ ZU 67.4

    مسیح وہ واحد ہستی ہے جو دُنیا پر بےگناہ رہی۔ اُس نے تیس سال تک ناصرت کے بدکاروں میں بودباش کی۔ اصل میں یہ اُن لوگوں کے لیے سرزنش ہے جو یہ سوچنے ہیں کہ اگر حالات سازگار ہوں گے تو ہم “صر اُسی صورت میں” بے الزام زندگی گذار سکتے ہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ اگر ہم امیر و توانگر ہوں تب ہی ہم آزمائشوں سے دور رہ سکتے ہیں۔ مگر اُنہیں یاد رکھنا چاہیے کہ آزمائش، غربت اور مصائب، پاکیزگی اور مستقل مزاجی کے لئے نظم و ضبط کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ZU 68.1

    یسوع مسیح ایک معمولی دیہاتی کے گھر رہا اور اُس نے وہاں ایمانداری اور خوشی خلقی سے گھریلو کاموں میں ہاتھ بٹایا۔ وہ آسمانی بارگاہوں کا حکمران تھا۔ فرشتےبخوبی اُس کے حکم کو بجا لاتے۔ اب اُس نے ایک خادم کی صورت اختیار کر لی۔ اُس نے کام سیکھا اور اپنے زمینی باپ جناب یوسف کے ساتھ بڑھئی کی دکان میں کام کیا۔ مزدوروں کے سے کپڑے پہن کر وہ اُس چھوٹے سے قصبے کی گلی کوچوں میں پھرتا، کام پر جاتا اور پھر واپس گھرلوٹتا۔ اُس نے اپنی مشقت کو کم کرنے کے لیے آسمانی مخلوق کو مدد کے لیے نہ پکارا۔ ZU 68.2

    بچپن اور جوانی میں کام کرنے سے یسوع کے ذہن و دماغ اور بدن نے نشوونما پائی۔ اُس نے اپنی جسمانی قوت کو بے جا استعمال نہ کیا۔ اُسے کوئی بھی ناقص اور ادھورا کام پسند نہ کرتا حتٰی کہ وہ اوزاروں کو بھی صحیح انداز میں پکڑتا پسند کرتا تھا۔ وہ اپنے کام اور سیرت دونوں میں کامل تھا۔ اُس نے اپنے نمونے سے ہمیں سکھایا کہ انسان کو محنتی ہونا چاہیے۔ اور ہم جو بھی کام کریں بڑی مہارت اور جانفشانی سے کریں۔ کیونکہ اس طرح کی محنت عزت و آبرو کا باعث ہے۔ ایسی ورزش جو ہاتھوں کو کار آمد بناتی ہے جو جوانوں کو ایسی تربیت دیتی ہے کہ زندگی کے بوجھ کو برداشت کریں اور اس کے ساتھ ساتھ جو اُنہیں جسمانی قوت بحال کرنے میں مدد کرتی ہے ضرور کرنی چاہیے۔ ہر شخص کو کوئی نہ کوئی ایسا کام کرنا چاہیے جو اُس کو فائدہ پہنچائے اور دوسروں کی مدد کا باعث ہو۔ کیونکہ خدا نے انسان کو کام بطور برکت کے دیا۔ جو دل و جان سے خدمت کرتے ہیں وہی زندگی کی خوشیاں اور حقیقی جلال پاتے ہیں۔ خدا کی برکتوں کا وعدہ اُن بچوں اور جوانوں کے لئے ہے جو گھر کے کام کاج میں ماں باپ کا ہاتھ بٹاتے ہیں۔ ایسے بچے جب گھر سے باہر جائیں گے تو معاشرے کےلیے باعث برکت ہوں گے۔ مسیح یسوع نے زندگی بھر ایمانداری اور تندہی سے کام کیا۔ اپنی خدمت کے شروع میں اُس نے فرمایا ” جس نے مجھے بھیجا ہے ہمیں اُس کے کام دن ہی دن کو کرنا ضرور ہے۔ وہ رات آنے والی ہے جس میں کوئی شخص کام نہیں کر سکتا” یوحنا 4:9 اُس کے بعض پیروکار جو کام سے جی چراتے ہیں وہ قانون شکنی کرنے اور نااہل ہو چکے ہیں۔ ہو سکتا ہے اُن میں بہت ہی کارآمد کوبیاں پائی جاتی ہوں لیکن جب مصائب آتے ہیں تو وہ پریشان ہو جاتے ہیں اور یوں رکاوٹوں کو دُور نہیں کر پاتے جو اُن کی راہ میں حائل ہوتی ہیں۔ مثبت سوچ، مستقل مزاجی اور سر گرمی جس کا مظاہرہ مسیح یسوع نے کیا ہماری سیرت میں بھی ہونا چاہیے۔ اور یہ اُسی صورت میں ممکن ہے جب ہم بھی اُسی قانون اور ضابطہ کواپنائیں گے جو اُس نے اپنی زندگی میں اپنایا۔ یوں ہمیں بھی وہی فضل نصیب ہو گا جو اُس کا حصہ اور بخرہ تھا۔ ZU 68.3

    جب تک ہمارا نجات دہندہ اس دنیا کے باسیوں میں رہا۔ اُس نے غربت کی زندگی بسر کی۔ اُ س نے ہم انسانوں کی مشکلات اور فکروں سے واقفیت حاصل کی۔ اسلئےوہ تمام حلیم، محنت کشوں کو آرام اور حوصلہ عطا فرما سکتا ہے۔ جن کو مسیح خداوند کی زندگی کی تعلیم کا صحیح گمان ہے وہ امیروں غریبوں میں کوئی درجہ بندی نہ کریں گے۔ نہ ہی وہ دولتمندوں کو ناداروں پر ترجیح دیں گے۔ZU 70.1

    خداوند یسوع مسیح نے اپنے کام کو خوش اسلوبی اور مہارت سے سر انجام دیا۔ ورکشاپ یا گھر میں بائیبل کا مذہب یا پیغام لانے کے لئے بڑے صبر اور روحانیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ کتنا مشکل ہے کہ اپنے بزنس یا کاروبار کو کامیابی سے چلانے کے ساتھ ساتھ خدا کے جلال کی بڑھتی کے لیے بھی انسان صدقِ دل سے کوشاں رہے۔ خداوند یسوع مسیح جسمانی فکروں میں کبھی بھی اتنا کھو نہیں ہو جاتا تھا کہ اُس کے پاس آسمانی باتوں پر غورو فکر کرنے کا وقت ہی نہ رہے۔ وہ اکثر خدا کی حمدوثنا گا کر اپنےدل کی خوشی کا اظہار کرتا۔ ناصرت کے رہنےوالوں نے اکثر اُسے خدا کی تعریف اور شکر گذاری میں گیت گاتے سُنا تھا۔ حمدو ثنا کے ذریعے وہ خدا کے ساتھ رفاقت کرتا اور جب اُس کے ساتھ کام کرنے والے کام سے تھک یا اُکتا کر شکایت کرنے کی آزمائش میں مبتلا ہوتے اُسی وقت وہ مسیح کی شُکر گذاری کے نمونے کو دیکھ کر حوصلہ پاتے۔ بلکہ ایسے محسوس ہوتا جیسے وہاں سے بُرے فرشتے بھاگ گئے ہوں۔ZU 70.2

    مسیح خداوند دُنیا کی شفا کا چشمہ تھا۔ ناصرت میں زندگی بسر کرنے کے دوران اُس نے ضرورت مندوں سے ہمدردی اور غمگساری دکھائی۔ بلکہ رحم اور ترس اُس کی زندگی سے چشمہ کی طرح اُبلتا تھا۔ اُس کے حضور میں عمر رسیدہ، دکھی ، گناہ تلے دبے ہوئے لوگ، چھوٹے بچے ، معصوم جانور سبھی راحت وآرام اور خوشی پاتے تھے۔ کائنات کا خالق نیچے جھک کر زخمی پرندے کو پکڑ تا اور شفا بخشتا۔ اُس کی راہ میں کوئی ایسی چیز نہ آتی جس کی وہ مدد اور خدمت نہ کرتا۔ یوں وہ حکمت اور قدوقامت اور خدا اور انسان کی مقبولیت میں ترقی کرتا گیا۔ اُس نے تمام لوگوں سے غمگساری کر کے اُن کے دل جیت لئے۔ اُمید اور حوصلہ کی جو فضا اُسے گھیرے ہوئے تھی اُس سے بہتیرے گھروں نے برکت پائی۔ اکثر اُسے دعوت دی جاتی کہ سبت کے روز ہیکل میں نبیوں کے کلام میں سے پڑھے۔ اور جب وہ پڑھتا تو سب سامعین کے دل خوشی سے بھر جاتے۔ اور اُس کلام سے وہ نئی روشنی سے ہمکنار ہوتے۔ZU 71.1

    مسیح یسوع ہمارا نمونہ ہے۔ بہت سے ایسے ہیں جو اُس کی ابتدائی زندگی کی تعلیم کی نسبت اُس کی وہ خدمت جو اُس نے عوام کے لیے کی زیادہ سراہتے ہیں۔ اُس کی بچپن کی زندگی تمام بچوں اور نوجوانوں کے لئے باعثِ نمونہ تھی۔ اُس نے عسرت کی زندگی اس لئے قبول کی تا کہ وہ اپنا نمونہ دے کر ہمیں سکھائے کہ ہم کس طرح غریبی میں خدا کے ساتھ وفادار رہ سکتے ہیں۔ZU 71.2

    اُس کی زندگی تمام امور میں اپنے باپ کو جلال اور عزت دینے کا باعث بنی۔ اُس نے صنعت کار کی حیثیت سے کام شروع کیا اور اُس پر اُس نے پوری توجہ دی۔ اور جب اُس نے بھیڑ کو معجزات دکھائے تو اُنہیں بھی اِسی جانفشانی سے انجام دیا جس جانفشانی سے ورکشاپ میں کیا کرتا تھا۔ جو نوجوان مسیح یسوع کا پیروکار ہونے کا دعوے کرتے ہیں۔ اُنہیں بھی اپنے گھروں میں مسیح یسوع کی طرح کی طرح دیانتداری اور جانفشانی کا مظاہرہ کرنا چاہیے تاکہ اُن کا آسمانی باپ کہہ سکے۔ ZU 71.3

    “دیکھو میرا خادم جسکو میں سنبھالتا ہوں۔ میرا برگزیدہ جس سےمیرا دل خوش ہے۔“یسعیاہ 1:42 ZU 72.1

    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents