Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents

زمانوں کی اُمنگ

 - Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First
    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents

    باب نمبر 2 - چنیدہ لوگ

    ہزاروں سال یہودی قوم نجات دہندہ کی آمد کا انتظار کرتے رہے۔ اس واقعہ سے اُن کی بڑی بڑی اُمیدیں وابستہ تھیں۔ گیتوں اور پیشیگوئیوں اور ہیکل کی رسوم اور گھریلو دعاوں میں اُنہوں نے اُس کے نام کو تبرک کے طور پر محفوظ رکھا ہوا تھا۔ مگر جب وہ آیا تو وہ اُسے جانتے ہی نہیں تھے۔ آسمان کا چہیتا اُن کے لئے خشک زمیں سے جڑ کی مانند تھا ۔ اُس کی کوئی شکل و صورت تھی نہ خوبصورتی۔ اُنہیں اُس میں کچھ حُسن جمال نظر نہ آیا کہ اُس کے مشتاق ہوتے” یعیاہ 2:59” وہ اپنے گھر آیا اور اُس کے اپنوں نے اُسے قبول نہ کیا” یوحنا 11:1 ZU 23.1

    بے شک خداوند نے بنی اسرائیل کو چُن رکھا تھا۔ اُس نے اُنہیں آدمیوں میں سے بچایا تھا تاکہ اُس کی شریعت کا علم اور اُن علامتوں اور پیشنگوئیوں کو جان سکیں جو نجات دہندہ سے منسوب تھیں۔ خداوند کی دلی تمنا تھی کہ بنی اسرائیل دنیا کے لئے نجات کا چشمہ ثابت ہوں۔ خداوند چاہتا تھا کہ جو کچھ ابر ہام مسافرت کی سر زمیں میں تھا جو کچھ یوسف مصر میں تھا اور جو کچھ دانی ایل بابل کے دربار میں تھا وہی کچھ عبرانی لوگ غیر اقوام میں ہوں۔ یہ اُن کی ذمہ داری تھی کہ عوام میں خدا کو متعارف کرائیں۔ ابرہام کی بلاہٹ میں خداوند نے فرمایا میں تجھے برکت دوں گا سو تم باعث برکت ہو۔۔۔۔ اور زمین کے سب قبیلے تیرے سبب سے برکت پائیں گے۔ پیدائش 2:12۔۔۔ یہی تعلیم بار بار نبیوں کے ذریعے دہرائی گئی۔ حتی کہ جب بنی اسرائیل جنگ کی وجہ سے بتاہ ہو گئے اور اسیری میں جانا پڑا تب بحی یہ وعدہ اُن کے ساتھ قائم رہا۔ اور یعقوب کا بقیہ بہت سی اُمتوں کے لیے ایسا ہو گا جیسے خداوند کی طرف سے اوس اور گھاس پر بارش جو نہ انسان کا انتظار کرتی ہے اور نہ بنی آدم کے لئے ٹھہرتی ہے” میکاہ 7:5 نیز ہیکل کے بارے خداوند نے اپنے خادم یسعیاہ نبی کے ذریعے فرمایا” میرا گھر سب لوگوں کی عبادت گاہ کہلائے گا“۔ یسعیاہ 7:56 ZU 23.2

    اس سب کے باوجود بنی اسرائیل نے دُنیا کے جاہ و چشم پر نظریں جما رکھیں تھیں۔ مُلک کنعان میں داخل ہوتے ہی اُنہوں نے خداوند کے احکام سے پہلو تہی کر لی اور بُت پرستوں کی راہ و رسم اپنا لیں۔ خداوند نے اپنے نبیوں کی معرفت اُنہیں بار بار اگاہی دی مگر اُن پر کوئی اثر نہ ہوا۔ وہ بت پرستوں کے ہاتھوں کچلے گئے ۔ مگر اپنی نکمی راہوں کو ترک نہ کیا۔ ZU 24.1

    اگر بنی اسرائیل خدا سے وفادار رہتے تو خدا اپنا مقصد اُن کے ذریعہ پورا کرتا جس سے اُ ن کی شان و شوکت اور جاو حشمت میں اضافہ ہوتا۔ اور اگر وہ تابعداری کرتے تو اُن کی شان و شوکت اور جاہ و حشمت میں اضافہ ہوتا۔ اور اگر وہ تابعداری کرتے تو خداوند اُن کو تمام قوموں پر سرفرازی عطا کرتا۔ اور وہ سب قوموں سے جن کو اُس خداوند اُن کو تمام قوموں پر سرفرازی عطا کرتا۔ اور وہ سب قوموں سے جن کو اُس نے پیدا کیا تعریف اور نام اور عزت میں اُسے ممتاز کرتا ” استثنا 19:26 “اور دُنیا کی سب قومیں یہ دیکھ کر کہ تو خداوند کے نام سے کہلات ہے تجھ سے ڈر جائیں” استثنا 10:28” قومیں اُن تمام آئین کو سُن کر کہیں گی کہ یقیناً یہ بزرگ قوم نہائت عقلمند اور دانشور ہے” استثنا 6:4 مگر وہ اپنی نافرمانی کے سبب بابل میں اسیر ہو کر گئے اور تمام روئے زمین پر پراگندہ ہو گئے۔ اپنی مصیبت میں بعض ایک انے خدا کی شریعت سے وفا کرنے کا عہد نو کیا۔ جب اُنہوں نے اپنی ستارون کو ٹانگ دیا اور ہیکل کی بربادی پر آہو نالہ کیا۔ اُس وقت صداقت کا نُور اُن میں سے چمکا اور خدا کا علم غیر قوموں تک پہنچا۔ بپت پرستوں کی قربانی گذراننے کانظام خداوند کے بتائے ہوئے نظام کے برعکس تھا جو برگشتکی لاتا تھا۔ پس بہت سے مخلص بُت پرستوں نے الہی طریقہ عبادت کے معنی سمجھے اور ایمان سے نجات دہندہ کے وعدے کو قبول کر لیا۔ ZU 24.2

    جلا وطنی میں زیادہ تر کو اذیت کا سامنا کرنا پڑا۔ سبت کو توڑنے اور بت پرستوں کی عبادت کو اپنانے کے سلسلہ میں چند ایک کو زندگیوں سے ہاتھ دھونے پڑے کیونکہ بُت پرست سچائی کو ملیا میٹ کرنے پر تُلے ہوئے تھے۔ مگر خدا نے اپنے خادموں کو حاکموں اور اختیار والوں کے سامنے سچائی پیش کرنے کی ہمت عطا کی۔ جس کے سبب وہ صداقت کے سامنے جھک گئے اور اقرار کیا کہ عبرانیوں کا خدا زندہ خدا ہے۔ اُسی کی عبادت سب پر واجب ہے۔ بابل کی اسیری کے دوران بنی اسرائیل بتوں کی پرستش سے بالکل مستثنی قرار پائے۔ گو صدیوں تک اُن پر ظلم و ستم ہوتا رہا مگر دشمن یہ تسلیم کیے بغیر نہ رہ سکا کہ عبرانیوں کی ہنر مندی کا انحصار خداوند کی شریعت کی تابعداری کا نتیجہ ہے۔ مگر بنی اسارئیل میں بہتیرے ایسے تھے جو محبت کی رو سے خداوند کی شریعت کو نہ مانتے تھے۔ اُن کی خدمت خود غرضی پر منحصر تھی۔ وہ ظاہری طور پر خدا کی عبادت کرتے تھے مگر اُن کی روشنی غیر قوم تک نہ پہنچتی تھی۔ وہ خود کو دوسروں سے الگ تھلگ رکھتے تاکہ بُت پرستی کی آزمائش سے بچے رہیں۔ موسی کے ذریعے خداوند نے جو ہدایات اپنی قوم کو دے رکھی تھیں اُس خُدا نے فرمایا تھا کہ غیر قوموں یعنی بُت پرستوں کے ساتھ رفاقت نہ رکھنا مگر اُنہوں نے اس تعلیم کی غلط تفسیر کر رکھی تھی۔ مقصد تو یہ تھا کہ وہ بت پرستوں کے رسم و رواج اپنا لیں مگر ایسے لوگوں نے دوسری قوموں اور اپنے درمیان دیواریں کھینچ لیں۔ یہودی یروشیلم کو بہشت کی طرح دیکھتے تھے اور وہ نہیں چاہتے تھے کہ خداوند غیر اقوام کو بھی اپنا رحم دکھائے۔ ZU 25.1

    بابل سے رہائی کے بعد مذہبی تعلیم اور ہدائت پر کافی توجہ دی گئی۔ تما ملک میں ہیکلیں کھڑی کی گئیں جہاں کاہنوں اور شریعت کے معلموں نے بڑی وضاحت اور تفسیر کے ساتھ شریعت کو سمجھایا۔ کئی سکول قائم کئے گئے جہاںسائنس اور آرٹ کے ساتھ راستبازی کے اصولات پر درس دئیے جاتے۔ مگر یہ سب کُچھ بگاڑ کا ٹھکانہ بن گئے۔ اسیری کے دوران بہت سے لوگوں نے بت پرستوں کے نظریات اور رسم و رواج کو اپنا لیا اور یہ مذہبی رسوم کا حصہ بن گئے۔ بہت سی باتوں میں وہ بُت پرستوں کی پیروی کرنے لگے۔ ZU 26.1

    یہودی خدا سے دور چلے گئے اور مذہبی عبادات اور رسوم کو بھول گئے۔ عبادت کی یہ خدمت مسیح یسوع نے خود قائم کی تھی۔ اس خدمت کے ہر حصے میں اُس کی اپنی علامت موجود تھی جو روحانیت اور زندگی سے معمور تھی۔ مگر یہودیوں نے اپنی رسوم میں سے روحانی زندگی کو ختم کر دیا اور مردہ ڈھانچے سے چمٹے رہے۔ اُنہوں نے قربانیوں اور رسموں کو اپنی طرف منسوب کر لیا اور جس نے ان کو قائم کیا تھا اُس کو بھول گئے۔ اور جب روحانی باتوں کو اُنہوں نے اس عبادت میں سے نکال دیا تو اُن کی جگہ انسانی قواعد ڈال دئیے۔ یوں عبادتوں میں خدا کی محبت کم سے کم ہوتی گئی۔ اُن کے دل ریاکاری اور غرور سے بھر پور ہوتے گئے۔ ZU 26.2

    اس طرح کے بے جا بوجھ اور ضابطوں کی وجہ سے شریعت کو ماننا محال ہو گیا۔ وہ جو خدا کی پرستش اور ربیوں کے ضابطوں کی پیروی کرنا چاہتے وہ بڑے بوجھ تلے دب کر رہ جاتے۔ اُنہیں اپنے پریشان ضمیر سے کبھی چین نہ ہوتا۔ اس طرح ابلیس لوگوں کو مایوس کرنے میں کامیاب ہو جاتا اور خدا کے متعلق اُن کا نظریہ بہت مایوس کُن ہوتا۔ چنانچہ بنی اسرائیل کے ایمان کی تحقیر ہوتی۔ ابلیس نے آسمان میں یہ نظریہ پیش کیا تھا کہ خدا جابر اور بے انصاف ہے۔ نیز یہ کہ اُس کے حکم کی تعمیل کرنا ناممکن ہے۔ یہودی مسیح یسوع کی آمد کی تمنا رکھتے ہوئے بھی اُس کے آنے کے حقیقی مقاصد کے بے بہرہ تھے۔ وہ گناہوں سے نہیں بلکہ رومی حکومت سے خلاصی پانے کے خواہشمند تھے۔ وہ المسیح کو بطور فاتح کے آتا ہوا دیکھنے کے متمنی تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ وہ آ کر جابر سے ہماری جان بچائے اور بنی اسرائیل کی حکومت دُنیا بھر میں قائم کرنے میں مدد دے۔ ان وجوہات کی بنا پر یہودیوں نے المسیح کو رد کر دیا۔ ZU 27.1

    مسیح کی پیدائش کے وقت یہودی قوم بدیشی حکومت تلے کُچلی جا رہی تھی۔ وہ ابدی اذیت اُٹھا رہے تھے۔ بیشک یہودیوں کو علیحدہ حکومت بنانے کی اجازت دی گئی تھی مگر اس کا کچھ زیادہ مائدہ نہ ہوا کیوں کہ حقیقت میں وہ پھر بھی رومیوں کے محکوم تھے۔ اور اُن کی لگائی ہوئی پابندیوں کے سامنے یہودیوں کو سر تسلیم خم کرنا ہی پڑتا تھا۔ رومی اپنی مرضی سے سردار کاہن کو تعینات اور معزول کرنے کا حق رکھتے تھے۔ اکثر یہ اسامی دغا بازی یا رشوت لے کر پُر کی جاتی۔ یوں کہا نت کا یہ عہدہ بڑی ہی بُرائی اور بگاڑ کا باعث بن گیا۔ تاہم کاہن بڑی قوت تسلیم کئے جاتے تھے جنہیں خود غرضی اور مطلب براری کے لیے استعمال کیا جاتا۔ رعایا اُن کے بے رحم اور ناواجب مطالبات ماننے پر مجبور تھی۔ رومی حکومت نے اُن پر بڑے بھاری تاوان لگا رکھے تھے۔ اس طرح کے حالات نے عوام میں بے چینی اور بے قناعتی کی فضا قائم کر رکھی تحی۔ شورش اور ہنگامے روز مرہ کا معمول بن گئے تھے۔ روحانی سردمہری، بے اعتنائی، بے یقینی، فراڈ، لالچ قوم کے دل کو دیمک کی طرح چاٹ رہا تھا۔ ZU 27.2

    رومیوں سے نفرت اور اپنے اور روحانی فخرو غرور کی وجہ سے یہودی اور بھی سختی سے اپنی بنائی ہوئی عبادت سے چمٹے رہے۔ کاہن اپنا روحانی اثرورسوخ جمانے کے لیے مذہبی رسوم کو بڑی سختی اور بڑی احتیاط سے سر انجام دیتے۔ عوام ظلم و تشدد اور جہالت کی چکہ میں پستے ہوئے نجات دہندہ کی بڑی شدت سے انتظار کر رہے تھے جو آ کر بنی اسرائیل کی بادشاہی کو بحال کرے اور دشمنوں کو مارمکائے۔ اُنہوں نے پیشنگوئیوں کا بڑی جانفشانی سے مطالعہ کیا تھا۔ مگر اُن کے اس مطالعہ میں روحانی بصیرت نام کو بھی نہ تھی۔ اس طرح مسیح کو جو دُکھ اُٹھانے تھے وہ اُن کی نظروں سے اوجھل رہے۔ برعکس اس کے وہ اُس کی دوسری آمد کے جاہ و جلال کی طرف ہی تکتے رہے۔ تکبر نے اُن کی رویا کو دھندلا کر دیا۔ اُنہوں نے اپنی جسمانی خواہشات کے مطابق پیشنگوئیوں کی تفسیر کی۔ ZU 28.1

    *****

    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents