Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents

زمانوں کی اُمنگ

 - Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First
    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents

    باب نمبر 24 - ”کیا یہ بڑھئی کا بیٹا نہیں“

    گلیل میں یسوع میسح کی خدمت کے روشن و تاباں دن پر ایکسایہ مندلانے لگا۔ یعنی ناصرت کے لوگوں نے یسوع کو یہ کہہ کر رد کر دیا کہ ” کیا یہ بڑھئی کا بیٹا نہیں؟” اپنی جوانی اور بچپن میں یسوع نے اپنے بھائیوں کے ساتھ مل کر ناصرت کی ہیکل میں عبادت کی تھی۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ جو معجزات اور نیکی و بھلائی کی خدمت وہ انجام دے رہا تھا وہ اس سے ناواقف تھے۔ اور جب وہ دوبارہ ان سے ملا تو ان میں بہتیرے ایسے لوگ تھے جن کو وہ پہلے سے اچھی طرح جانتا تھا۔ ان میں اس کی ماں، بہنیں اور بھائی شامل تھے ۔ اور جب وہ سبت کی دن ہیکل میں داخل ہوا تو سب کی نظریں اس پر جمی ہوئی تھیں۔ وہ عبادت گذاروں میں شامل ہو گیا۔ZU 279.1

    عام عبادت میں ایلڈر نبیوں کے کلام سے پڑھتا۔ اور پھر آنے والے مسیحا کے بارے لوگوں کو ترغیب دیتا۔ وہ اُمید کرتے تھے کہ جب مسیح موعود آئے گا تو اپنے ساتھ جلالی حکومت تھی لائے گا۔ اور ہم پر جتنے ظلم و ستم دھائے جا رہے ہیں ان سے رہائی دلائے گا۔ وہ لوگوں کی حوصلہ افزائی کرتا کہ وہ مسیح موعود کے آنے پر ایمان لا کر اسے قبول کرنے کی ابھی سے مشق کریں۔ وہ کھل کر اس کی جلالی آمد کو بیان کرتا اور انہیں بتاتا کہ وہ اسرائیل کو چھڑانے کے لئے فوجوں کا سردار ہو کر ظاہر ہوگا۔ZU 279.2

    جب کوئی معلم ہیکل میں موجود ہوتا تو اس سے توقع کی جاتی تھی کہ وہ وعظ پیش کرے ۔ اس سبت کو یسوع سے درخواست کی گئی کو وہ سبت کی عبادت لے۔ وہ پڑھنے کو کھڑا ہوا۔ اور یسعیاہ نبی کی کتاب اس کو دی گئی۔ لوقا 16:4 --- اور اس نے اس مقام سے پڑھا جو سمجھا جاتا تھا کہ مسیح موعود کے بارے میں ہے “خدا کا روح مجھ پر ہے ۔ اس لئے کہ اس نے مجھے غریبوں کو خوشخبری دینے لے لئے مسح کیا۔ اس نے مجھے بھیجا ہے کہ قیدیوں کو رہائی اور اندھوں کو بینائی پانی کی خبر سناؤں کچلے ہوؤں کو آزاد کروں اور خداوند کے سال مقبول کی منادی کروں” پھر وہ کتاب بند کر کے اور خادم کو واپس دے کر بیٹھ گیا اور جتنے عبادت خانہ میں تھے سب کی آنکھیں اسی پر لگی تھیں۔ وہ ان سے کہنے لگا کہ آج یہ نوشتہ تمہارے سامنے پورا ہوا۔ اور سب نے اس پر گواہی دی اور ان پُر فضل باتوں ہر جا سن کے منہ سے نکلتی تھیں تعجب کر کے کہنے لگے کیا یہ یوسف یا بیٹا نہیں” لوقا 20:4 -24 ZU 280.1

    یسوع مسیح اپنے بارے پیشنگوئیوں کی تشریح گویا بنفسِ نفیس کر رہا تھا۔ وہ اس کلام کی تشریح کر رہا تھا جو اس نے ابھی ابھی پڑھا تھا۔ اس نے مسیحا کو اس طرح پیش کیا جو کچلے ہوؤں کو رہائی دیتاہے۔ جو قیدیوں کو آزاد کرتا ہے۔ جو اندھوں کو آنکھیں اور بیماروں کو شفادیتا ہے۔ اور جو دنیا کے سامنے سچائی کا نور پیش کرتاہے۔ اس کے سامعین اس کے کلام سے اس طرح پہلے کبھی متحرک نہ ہوئے تھے ۔ الٰہی تاثیر ن ے ہر طرح کی رکاوٹوں کو دور کر دیا۔ اور انہوں نے موسٰی کی طرح غیر مرئی خدا کو دیکھا۔ وہ روح القدس سے بھر گئے اور خداوند کی تعریف کرنے لگے۔ لیکن جب اس نے یہ اعلان کیا کہ “آج یہ نوشتہ تمہارے سامنے پورا ہوا” تو انہیں فوراً اپنے بارے اور جو ان سے مخاطب تھا اس کے دعوٰے کے بارے یاد آیا کہ وہ تہ ابراہام کی نسل سے ہیں مگر انہیں غلام اور قیدی کہا گیا تاکہ بد سے چھٹکارا پائیں۔ انہیں کہا گیا کہ وہ اندھیرے میں ہیں اور انہیں نور کی ضرورت ہے ۔ اس سے ان کے تکبر کو دھچکا لگا اور ان پر خوف طاری ہو گیا کیوں کہ یسوع کے کلام سے ان پر واضح ہو گیا کہ مسیحا سے ان کی توقعات صداقت پر مبنی نہیں۔ مسیح نے واضح طور پر بتادیا کہ مسیحا کا کام غریبوں کو خوشخبر ی ، اندھوں کو بینائی اور کچلے ہوؤں کو آزاد کرنا ہے---ZU 280.2

    پھر ہو آپس میں پوچھنے لگے کہ یہ کون ہے؟ ہو جس نے ابھی ابھی خود کو جلال کا بادشاہ بتایا تھا ہو تو بڑھئی کا بیٹا ہے اور اپنے باپ یوسف کے ساتھ بڑھئی کا کام کرتا ہے ۔ انہوں نے اسے اپنے باپ یوسف کے ساتھ محنت مشقت کرتے دیکھا تھا۔ وہ اس کی بہنوں اور بھائیوں سے بھی واقف تھے۔ وہ بچپن سے اسے جانتےتھے گو اس کی زندگی بےداغ تھی پھر بھی وہ یہ ماننے کے لئے تیار نہ تھے کہ یہی موعود مسیح ہے۔ZU 281.1

    وہ تعلیم جو یسوع مسیح نئی بادشاہت کے بارے دیتا تھا اور جو بنی اسرائیل نے اپنے بزرگوں سے سن رکھی تھی اس میں بہت بڑا تضاد تھا ۔ یسوع نے اپنی تعلیم میں کہیں اشارہ تک نہ کیا کہ وہ انہیں رومیوں سے نجات دلائے گا۔ انہوں نے اس کے معجزات دیکھے تھے اور وہ سوچتے تھے کہ وہ اپنی قدرت کے ذریعے ہمیں ابھی رومی حکومت سے نجات دلائے گا۔ مگر اس مقصد کی تکمیل کےلئے انہوں نے اس کی تعلیم میں کوئی اشارہ نہ پایا۔ZU 281.2

    جونہی انہوں نے اپنے دلوں کو شک کے لئے وا کیا ان کے دل نہائت سخت ہو گئے۔ اس دن ابلیس نے پوری پوری کوشش کی کہ اندھی آنکھیں کھلنے اور قیدی روحیں آزاد ہونے نہ پائیں۔ مگر یسوع نے ان کے خیالات کو معلوم کر ک ے انہیں یہ ثبوت فراہم کیا کہ میں ذات الٰہی ہوں۔ZU 281.3

    “اس نے ان سے کہا تم البتہ یہ مثل مجھ پر کہو گے کہ اے حکیم اپنے آپ کو تو اچھا کر جا کچھ ہم نے سنا ہے کہ کفر نحوم میں کیا گیا یہاں اپنے وطن میں بھی کر۔ اور اس نے کہا میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ کوئی نبی اپے وطن میں مقبول نہیں ہوتا اور میں تم سے سچ کہتا ہوں ایلیاہ کے دنوں میں جب ساڑھے تین برس آسمان بند رہا یہاں تک کہ سارے ملک میں سخت کال پڑا بہت سی بیوائیں اسرائیل میں تھیں مگر ایلیاہ ان میں سے کسی کے پاس نہ بھیجا گیا مگر مُلک صیدا کے شہر صارپت میں ایک بیوہ کے پا ۔ اور الیشع نبی کے وقت میں اسرائیل کے درمیان بہت سے کوڑھی تھے لیکن ان میں سے کوئی پاک صاف نہ کیا گیا مگر نعمان سور یانی ” لوقا 23:4 -27 ZU 282.1

    یسوع مسیح کے سامعین کے دل میں جو سوالات تھے نبیوں کے واقعات کا حوالہ دے کر یسوع مسیح نے انہیں تسلی پذیر کر دیا۔ یسوع مسیح نے انہیں سادہ الفاظ میں سمجھایا کہ خدا نے جن نبیوں کو اپنا پیغام دے کر بھیجا ان کو اجازت نہ دی گئی کہ سخت دلوں اور شکی مزاج لوگوں کی خدمت کریں ۔ بلکہ وہ ان لوگو ں کے پا س بھیجے گئے جن کے دل نرم تھے۔ جو ایمان لا کر بچنے کی تمنا رکھتے تھے۔ ایلیاہ کے زمانہ میں اسرائیلی خدا سے دور جا چکے تھے۔ وہ اپنے گناہوں کو ترک کرنا نہ چاہتے تھے۔ روح القدس کی ہر آگاہی جو انہیں نبیوں کے ذریعے ملی انہوں نے اسے ٹھکرا دیا۔ یون انہوں نے خود کو خداکی برکات کے سوتا سے منقطع کر لیا۔ خداوند بنی اسرائیل کی سر زمین کو چھوڑ گیا اور اپنے خادم کے لئے غیر قوم کے مُلک میں پناہ تلاش کی اور اسے اس عورت کے پاس بھیجا جو خدا کی چنیدہ قوم میں سے نہ تھی۔ اس خاتون کو خدا نے اس لئے چنا ،کیونکہ جتنی روشنی اس کو ملی تھی اُس کے مطابق اُس نے اپنی زندگی بسر کی تھی۔ اور اُس نے اپنا دل اُس عظیم روشنی کو حاصل کرنے کے لئے کھول دیا تھا جو خدا نے اپنے خادم کے ذریعے اُس تک پہنچائی تھی۔ ZU 282.2

    اسی وجوہ کی بنا پر بنی اسرئیل کے کوڑھیوں کو خدا نے الیشع کے زمانہ میں نظر انداز کر دیا۔ مگر نعمان جو بُت پرست قوم سے تعلق رکھتا تھا ان نے مدد کی ضروریات محسوس کی اور اُس کا ایمان بھی تھا کہ وہ شفاپائے گا۔ وہ اس لائق تھا کہ خدا کا فضل اُس پر ہو۔ اس لئے نہ صرف اُس کا کوڑھ جاتا رہا بلکہ اُسے سچے اور برحق خدا کے بارے جاننے کی برکت بھی ملی۔ ہم خدا کی نظر میں اُس روشنی کے مطابق مقبول نہیں ٹھہرتے جو ہمیں میسر ہے بلکہ اس بات پر کہ ہم اُسے کتنا استعمال میں لاتے ہیں۔ اسی طرح غیر قومیں جتنی ان کے پاس روشنی ہے اسے استعمال کر کے نجات پا سکتے ہیں۔ مگر خدا کے لوگ جن کے پاس روشنی کا منبع ہے استعمال میں نہ لا کر برباد ہو جاتے ہیں۔ZU 283.1

    ہیکل میں یسوع مسیح نے اپنے سامعین سے جو کلام کیا وہ اُن لوگوں پر کاری ضرب تھی۔ وہ باراست ہوتے ہوئے بھی راستبازی کا دعوٰے کرتے تھے۔ یسوع نے بتایا کہ بےشک ایسے لوگ دعوٰے کرتے ہیں کہ وہ خدا کے بچے اور بچیاں ہیں مگر حقیقت میں وہ خدا سے دور ہیں۔ZU 283.2

    اُن کی کم اعتقادی یسوع کے لئے حسد میں تبدیل ہو گئی۔ شیطان نے ان کا قبضہ لے لیا اور وہ اپنے غضب میں یسوع کے خلاف چلانے لگے۔ وہ اُس یسوع سے الگ ہو گئے جس کا کام شفا دینا اور بحال کرنا تھا۔ چنانچہ اُن میں اب ابلیس کے تمام فضایل گھر آٹپکے۔ZU 283.3

    جب یسوع نے اُن برکات کا ذکر کیا جو غیر قوم کو ملیں تو اُن کی قومی آن بان اور وقار کو دھچکا لگا۔ انہوں نے اس قدر ہنگامہ کیا کہ کان پڑے آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ وہ لوگ دعوٰے کرتے تھے کہ انہوں نے شریعت کو پورا کیا ہے مگر اب ان کی غیرت پر کاری زخم لگا۔ لہذٰہ وہ یسوع کی قتل پر آمادہ ہوئے۔ ہر طرف غل غپاڑہ مچا تھا ۔ یہاں تک کہ بعض نے اُس پر پتھروں کی بارش کر دی مگر وہ اچانک ان کے درمیان سے غائب ہو گیا۔ آسمانی پیانبر جو ہیکل میں اس کے پہلو میں تھے وہی اس ہجوم میں بھی اس کے ساتھ ساتھ تھے۔ انہوں نے اسے اس کے دشمنوں سے چھپا کر محفوظ کر لیں۔ZU 284.1

    فرشتے ہی تھے جنہوں نے لوط کو بحفاظت سدوم سے نکال لیا۔ یہ فرشتے ہی تھے جنہوں نے الیشع کو پہاڑی علاقے میں پناہ دی۔ اور جب ارام کے بادشاہ نے اس پہاڑی کا محاصرہ کر لیا جہاں الیشع رہتا تھا تو فرشتوں کی فوجیں وہاں پہنچ گئیں جا ارام کے بادشاہ کی فوجوں کے مقابلہ میں بہر زیادہ تھیں۔ZU 284.2

    لٰہذہ ہر زمانہ میں آسمانی فرشتے خدا کے وفادار خادموں کے ساتھ رہے ہیں۔ جو خداوند کو پیار کرتے ہیں خدا کے پاک فرشتے اُن کے جوغرد خیمہ زن رہتے ہیں اور اُن کو رہائی بخشتے ہیں ۔ خدا کے فرشتے ہمیں اُن خطرات سے بچاتے ہیں جن کو ہم دیکھ دیکھ سکتے ہیں اور اُن سے بھی جو ہماری نظروں سے اوجھل ہوتے ہیں۔ جن جن خطرات سے پاک فرشتوں نے ہمیں اب تک پناہ دی اُن کے بارے ہم خدا کی بادشاہی میں ہی جان سکیں گے۔ZU 284.3

    جب ہیکل میں مسیح خداوند نے پیشنگوئی میں سے پڑھا تو تھوڑی دیر کےلئے وہ مسیح موعود کی خدمت بیان کرنے اور اس پر زور دینے کے لئے رُک گیا۔ اور تاکید ًا وہ کلام پڑھا “تاکہ خدا کے سال مقبول کا اشتہار دوں اور سب غمگینوں کو دلاسا دوں ۔ مگر پیشنگوئی میں سے اس حصہ کو حذف کر دیا “اپنے خدا کے انتقام کے روز کا اشتہار دوں” یسعیاہ 2:61 پیشنگوئی کے دونوں حصے ایک جیسی صداقت کے حامل تھے۔ اور اس حصے کو مسیح نے نہ پڑھا اُس کے سامعین اسی کے بارے سننے کی متمنی تھے۔ وہ غیر قوموں کی عدالت کے بارے سوچ رہے تھے اور یہ نہ جانتے تھے کہ ان کی اپنی حطائیں غیر اقوام والوں سے بھی بڑھ چکی ہیں۔ اُنہیں تو اس رحم کی خود ضرورت تھی جسے وہ غیر اقوام والوںسے باز رکھنا چاہتے تھے۔ اس دن ان کے پاس اچھا موقع تھا کہ الٰہی احکام کو قبول کر لیتے کیونکہ لکھا ہے کہ “خداوند رحم کرنے میں خوشی محسوس کرتا ہے” میکاہ 18:7 --- خدا وند ان کے بھی گناہوں کو معاف کر کے ان پر رحم کر سکتا تھا۔ ZU 284.4

    پھر بھی مسیح خداوند اُنہیں توبہ کا ایک اور موقع فراہم کئے بغیر چھوڑ نہ سکتا تھا۔ گلیل میں اپنی خدمت کے احتتام پر ایک دفعہ پھر اپنے اس علاقہ میں گیا جہاں اس نے اپنا بچپن گذارہ تھا۔ گو اُنہوں نے تو اسے رد کر دیا تھا مگر اس کے معجزات اور منادی کی شہرت دور و نزدیک کے تمام علاقوں میں پھیل چکی تھی۔ اب کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا تھا کو جو کلام وہ کرتا ہے کوئی اور انسان نہیں کر سکتا ۔ بلکہ ہر بشر کی زبان پر تھا کہ جو کام اور کلام یسوع کرتا ہے کوئی انسان نہیں کر سکتا۔ ZU 285.1

    گلیل کے لوگ بھی جانتے تھے کہ وہ بد روحوں کو نکالتا ہے ۔اور جہاں جاتا ہے بھلائی کرتا جاتا ہے۔ جن جن گاؤں میں سے وہ گذرا وہاں نہ کوئی بیمار رہا اور نہ کوئی ابلیس کے قبضہ میں۔ کیونکہ اس نے ان کے تمام بیماروں کو شفا دی۔ اور یہی اُس کے الٰہی ہونے کا بڑا ثبوت تھا۔ZU 285.2

    دوبارہ جب ناصرت کے رہنے والوں نے اس کی منادی سنی تو ان کے دلوں پر بڑا گہرا اثر ہوا ۔ مگر پھر بھی وہ نیہ ماننے کے لئے تیان نہ تھے کہ یہ شخص جو ان کے ساتھ بڑھا پلا تھا ان سے عظیم ہے۔ انہیں یہ بات ناگوار گذری کہ وہ خود کو مسیح موعود کہلاتا ہے۔ اور انہیں یہ بات بھی کھٹکی جو مسیح نے اُنہیں کہی کہ ” خدا کی نظر میں غیر قومیں تم سے بہتر ہیں۔: گو وہ خود سے یہ سوال کرتے تھے کہ “اس میں یہ بڑے بڑے کام کرنے کی حکمت کہاں سے آ گئی” مگر وہ اُسے خدا کا ستودہ ماننے کے لئے ہر گز تیار نہ تھے۔ ان کی کم اعتقادی کے سبب مسیح وہاں زیادہ معجزات نہ دکھا سکا۔ وہ تھوٹے سے دل تھے جنہوں نے مسیح کی برکات حاصل کیں۔ اس کے بعد وہاں سے مسیح خداوند دل برداشتہ ہر کر چلا گیا اور پھر کبھی وہاں نہ آیا۔ZU 286.1

    وہ شک جو ناصرت کے باشندوں کے دل میں پیدا ہو گیا تھا وہ کم نہ ہوا بلکہ بڑھتا ہی گیا۔ اُس شک نے نیشنل کونسل اور پوری قوم کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ کاہنوں کے ساتھ مل کر عوام نے جو روح القدس کو رد کرنے کا آغاز کیا تھا۔ وہ آخر تک ان کے ساتھ رہا۔ یہ ثابت کرنے کے لئے کہ وہ مسیح کو رد کرنے میں پہلے بھی حق بجانب تھے انہوں نے مسیح کی ہر قدم پر مخالفت کی۔ جس کے نتیجہ میں انہوں نے مسیح کو کوہ کلوری پر مصلوب کیا۔ ان کا شہر برباد ہوا اور وہ خود تمام دنیا میں خس و خاشاک کی مانند پرا گندہ ہوئے۔ZU 286.2

    مسیح خداوند نے ہزار چاہا کہ بنی اسرائیل کے لئے صداقت کے قیمتی خزانے کھولے ۔ مگر وہ روحنی طور پر اتنے اندھے وہ چکےتھے کہ ان پر آسمان کی بادشاہی سے متعلق سچائی واضح کرنا نا ممکن ہو گیا تھا۔ وہ اپنی فضول مذہبی رسوم اور عقائد سے چمٹ گئے تھے کہ وہ آسانی ساے صداقت کو سننے کی زخمت گوارہ کرنے کو تیار نہ تھے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ زندگی کی روٹی ان کے پاس موجود تھی اس کے باوجود ہو اپنے روپے پیسے چھان بہرے (بھوسی) پر خرچ کرنے پر تلے ہوئے تھے۔ ہو خدا کے کلام کا مطالعہ کر کے کیوں معلوم نہ کر سکے کہ و ہ غلطی پر ہیں؟ عہد عتیق مسیح کی خدمت کے بارے تفصیلی بیان کرتا ہے۔ بلکہ مسیح خداوند نے الہامی نسخوں سے بار بار اقتباسات دیئے اور یہ اعلانیہ کہا ” آج یہ نوشتہ تمہارے سامنے پورا ہوا” لوقا 21:4 ZU 286.3

    اگر وہ پاک نوشتوں کا مطالعہ کر کے اچھی طرح دیکھتے کہ آیا یہ مسیح پر صادق آتے ہیں کہ نہیں، تو مسیح کو ا ن کی حالت پر رونا نہ آتا۔ اور نہ ہی وہ ان کے بارے یہ کہتا ” دیکھو تمہارا گھر تمہارے لئے ہی ویران چھوڑا جاتا ہے۔” لوقا 35:13 --- اگر وہ مسیح موعود کے مشن کے بارے جانتے اور اسے قبول کرتے تو ان کا شہر برباد ہونے سے بچ جاتا۔ مگر یہودی اپنے غیر منطقی نظریات کی وجہ سے بہت ہی تنگ نظر ہو چکے تھے۔ZU 287.1

    یسوع مسیح کی تعلیم کے مطابق یہودیوں کے چال چلن میں بڑی خامیاں تھیں جن کے لئے انہیں تونہ کرنے کی ضرورت تھی۔ اگر وہ مسیح کی تعلیم کو قبول کر لیتے تو انہیں اپن ے طور و اطوار میں تبدیلی لانی پڑتی ، یوں ان کی اپنی دلپسند امیدوں کا خون ہو جاتا۔ZU 287.2

    مسیح یسوع کے زمانہ میں صداقت کو ہر دلعزیزی حاصل نہ تھی۔ آج بھی یہی حال ہے ۔ بلکہ صداقت اُسی وقت سے ہر دلعزیزی کھو بیٹھی ہے جب سے ابلیس نے انسا کو اپنی بزرگی حاصل کرنے کے لئے اُکسایا ہے۔ کیا آج ہم ایسے نظریات اور تعلیم سے دوچار نہیں جن کی بنیاد کلام مقدس پر نہیں ہے؟ آج بھی انسا اس جھوٹی تعلیم سے اُسی طرح چمٹا ہوا ہے جیسے قدیم میں یہودی اپنی روائیتوں سے چمٹے ہوئے تھے۔ZU 287.3

    یہودی رہنما روحانی غرور سے پھولے نہ سماتے تھے۔ حتٰی کہ وہ ہیکل کی خدمت انجام دیتے وقت بھی اعلٰے اعلٰے مراتب اور عزت و حشمت کی خواہش کرتے۔ ہیکل میں وہ صدر مقام پر بیٹھنا پسند کرتے۔ ان کی خواہش ہوتی کہ عوام انہیں جہان ملیں سلام کریں۔ وہ وہ لوگوں کے لبوں سے اپنے مراتب و منصب کے نام سن کر بہت خوش ہوتے۔ دُکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ وہ اپنی رسومات اور روایات کے بارے بڑی غیرت رکھتے تھے۔ZU 288.1

    کیونکہ ان کی عقل تعصب کے باعث کُند ہو گئی تھی اس لئے وہ خداوند مسیح کی حلیم زندگی اور قائل کرنے والے کلام کی قدرت کے ساتھ ہم آہنگ نہ ہو سکے ۔ اور انہوں نے اس عظمت کی بھی پر واہ نہ کی جس کا انحصار بیرونی رکھ رکھاؤ پر نہ تھا۔ ان کے خھیا میں غربت کے ساتھ مسیح موعود ہونے کا دعوےٰ لغو ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر یہ مسیح موعود ہے جیسا کہ اس کا اپنا دعوےٰ ہے تو پھر اس منکسر المزاگی کے کیا معنی ہیں؟ وہ سوال کرتے تھے کہ اگر یہ بغیر فوج وغیرہ کے ہی تسلی پذیر ہے تو پھر ہماری قوم کا کیا بنے گا؟ نیز جس قدرت اور جلال کی ہم برسوں اُمید لگائے بیتھے تھے اس کا کیا ہوا۔ کیونکر قومیں یہودیوں کے مطیع ہوں گی؟ کیا کاہن ہمیں یہ تعلیم نہیں دیتے رہے کہ تمام دھرتی پر اسرائیل کی حکومت ہو گی؟ کیا وہ تمام عظیم رہنما غلط بیانی سے کام لیتے رہے؟ZU 288.2

    یسوع میسح کی ظاہری شان و شوکت کی کمی ہی ان کی بے یقینی کا سبب بنی۔ بلکہ حقیقت یہ تھی کہ وہ سراسر پاکیزگی تھا جبکہ یہ سرتاپا نجس تھے۔ وہ ان کے درمیان بے داغ زندگی بسر کرتا تھا۔ اس کی معصوم زندگی ان کے دلوں پر جلوہ گر ہوتی تھی۔ اس کی مخلص زندگی سے ان کی غیر مخلصانہ زندگی ظاہر ہوتی تھی، یوں ان کی پارسائی کا بھرم کھل جاتا۔ اس لئے وہ اسے قبول کرنے سے قاصر رہے۔ZU 288.3

    اگر مسیح خداوند فقیہ فریسوں کا دم بھرتا اور ان کی پارسائی کے قصیدے کہتا تو وہ اسے بخوشی قبول کر لیتے لیکن جب اس نے آسمان کی بادشاہی کے بارے بتایا کہ اس میں سب صرف خدا کے رحم کی بدولت ہی داخل ہو سکیں گے تو وہ ایک ایسے مذہب کی بات کر رہا تھا جس کو یہودی بالکل برداشت کرنے کے حامل نہ تھے۔ اور جب انہوں نے دیکھا کہ مسیح یسوع ان کی طرف متوجہ ہوتا ہے جن کو انہوں نے رد کر دیا تھا تو وہ آگ بگولہ ہو گئے۔ اس کے باوجود وہ اس بات پر فخر کرتےتھے ۔ کہ “یہودہ کے قبیلہ کا برہ ” مکاشفہ 5:5 بنی اسرائیل کو تمام قوموں پر بزرگی عطا کرے گا۔ اگر وہ یسوع مسیح کی نصیحت پر عمل کرتے وہ ان کی امیدیں رنگ لاتیں۔ZU 289.1

    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents