Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents

زمانوں کی اُمنگ

 - Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First
    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents

    باب نمبر 9 - ایام کشمکش

    یہودی بچہ اوائل عمری سے ہی ربیوں کے مطالبات میں گھر جاتا تھا ۔ ہر عمل کے لئے سخت ترین اصول اور ضابطے لکھ دئے گے تھے بلکہ زندگی کی چھوٹی چھوٹی جزیات کے لئے بھی قانون اور ضابطے موجود تھے جن پر اُسے عمل کرنا لازم ہوتا تھا۔ ہیکل کے اساتذہ کے زیرِ سایہ نوجوانوں کو بےشمار ہدایات دی جاتی تھیں جو اُنہیں راسخ العقعدہ اسرائیل کی طرح ماننا ضروری تھا۔ مگر یسوع ان باتوں میں بالکل دلچسپی نہ لیتا تھا۔ بچپن سے ہی اُس نے خود مختاری سے ربیوں کی شریعت پر عمل کیا۔ عہد عتیق کے نسخہ جات اُس کے زیرِ مطالعہ ہوتے” خدا وند یوں فرماتا ہے ” ہر وقت اُس کی زبان پر رہتا۔ZU 85.1

    جب لوگوں کی ذہنی کیفیت اُس کے سامنے کھُلنے لگی اُس نے دیکھا ہ معاشرے کے مطالبات اور خدا کے مطالبات میں یکسر تضاد ہے۔ انسان خدا کے کلام سے دور جا رہے تھے اور اپنے نظریات کو عزّت دیتے تھے۔ وہ ایسی روایات کی پابندی کرتے جن میں کوئی صداقت نہ ہوتی ۔ اُن کی عبادت رسم و رواج کی پابندی کے گردا گرد ہی گھومتی تھی اور الٰہی سچائیاں جو سیکھنے کے لئے تھیں اُنہیں عبادت گذار سے چھپا کر رکھا جاتا تھا۔ اُس نے دیکھا کہ ان کی بے یقینی کی عبادات میں انہیں کوئی سکون حاصل نہ ہوتا۔ کیونکہ وہ روح کی سچائی سے ناواقف تھے۔ خداوند یسوع آیا تاکہ حقیقی عبادت کا مطلب سکھائے۔ وہ اُنہیں ہر گز اجازت نہ دے سکتا تھا کہ وہ خدا کے احکام کے ساتھ اپنے انسانی احکامات بھی ملالیں۔ اُس نے شروع کے معلموں کے احکامات اور رسومات کی اُس وقت تک مخالفت نہ کی جب تک انہوں نے مسیح کی سادہ عادات پر حملہ نہ کیا۔ ازاں بعد مسیح نے خدا کا کلام پیش کر کے معلموں پر ظاہر کیا کہ جو کچھ وہ کرتا ہے عین خدا کے کلام اور احکام کے مطابق ہے۔ ZU 85.2

    مسیح خداوند نے ہمہ وقت نہایت ہی شائستہ انداز میں بنی آدم کو تعلیم دینے کی کوشش کی ۔ وہ اس قدر غکئن اور تابع فرمان تھا کہ شرع کےمعلموں اور قوم کے بزرگوں کے نے سوچا کہ ہم آسانی سےاُسے اپنے زیرِ سایہ کر لیں گے۔ پس اُنہوں نے اسے ترغیب دی کہ ان روائتوں اور حکائتوں کو مانے جو اُنہیں قدیم شرع کے معلموں سے پہنچیں۔ مگر اس نے فرمایا میں اُنہیں ضرور مانتا اگر اُن احکامات کو خدا کے کلام سے احتیار حاصل ہوتا۔ خدا کے منہ سے جو کلام نکلتا وہ اسے ضرور سنتا لیکن وہ انسانوں کی اپنی بنائی ہوئی تعلیم کی پیروکاری نہ کر سکتا تھا۔ مسیح یسوع شروع سے لیکر آخر تک خدا کے کلام سے واقف تھا۔ اور اُس نے اُنہیں صحیح انداز میں سکھایا ۔ شرع کے معلم بچے سے ہدایات پانے کے باعث شرمندہ تھے۔ اور اپنی شرمندگی کو چھپانے کے لئے دعوےٰ کیا کہ الہامی نسخوں کی تفسیر کرنا صرف ہمارا حق ہے۔ اس لئے یسوع کو چاہیئے کہ مماری بات مانے۔ پس وہ یہ کہہ کر طیش سے بھر گئے کہ یہ ہماری مخالفت کرتا ہے۔ZU 86.1

    وہ جانتے تھے کہ الہامی نسخوں میں اُن کی حکایات و روایات کی کوئی وقعت یا قدر نہیں۔ وہ جانتے تھے کہ روحانی علم اور بسیرت کے لحاظ سے مسیح یسوع اُن سے کہیں بہتر ہے۔ وہ اس سے اس لیے ناراض تھے کیوں کہ وہ ان کی ہدایات پر عمل نہ کرتا تھا ۔ چونکہ وہ اسے قائل کرنے سے ناکام رہے اس لئے اُنہوں نے مقدسہ مریم اور جناب یوسف سے اُس کی شکایت کی کہ یہ نافرمانی کرتا ہے۔ جس پر اُنہوں نے اسے جھڑکا۔ ZU 86.2

    اوائل عمری سے ہی مسیح خداوند نے اپنی سیرت کو سنوارنا شروع کر دیا تھا۔ والدین کی عزت و تکریم اور تابعداری بھی اُسے خدا کے کلام سے دُور نہ لے جا سکے۔ جہاں کہیں وہ تضاد دیکھتا تو ضرور کہتا کہ ” لکھا ہے” تاہم شروع کے معلموں نے اُس کی زندگی اجیرن کر دی تھی۔ حتیٰ کہ اُس نے اپنی جوانی میں بھی خاموش اور صبر کے سخت ترین اسباق سیکھے۔ZU 87.1

    یسوع کے اپنے بھائی بھی ربیوں کی طرف داری کرتے تھے ۔ وہ بھی اصرار کرتے تھے کہ روایات کو بھی ایسے ہی ماننا چاہئے جیسے خدا کے کلام کو۔ بلکہ وہ انسانی احکام کی خدا کے احکام سے زیادہ قدر کرتے تھے۔ اور وہ یسوع سے سخت ناراض تھے جب اُس نے جھوٹ اور سچ میں حد فاصل قائم کر دی۔ خدا کے کلام کی سختی سے پیروی کرنے پر اُنہوں نے اسے ضدی وغیرہ کہنے سے بھی دریغ نہ کیا۔ پھر بھی وہ اس بات پر ضرور حیران ہوئے کہ وہ بڑی حکمت اور علم کے ساتھ ربیوں کے سوالات کے جوابات دیتا ہے۔ اُنہیں یہ بھی علم تھا کہ اس نے کسی شرع کے معلم سے تعلیم نہیں پائی۔ اس کے باوجود وہ معلموں کو ہدایات دیتا تھا، وہ یہ امتیاز کرنے سے قاصر رہے کہ یسوع زندگی اور علم کے درخت سے سب کُچھ حاصل کرتا ہے۔ZU 87.2

    خداوند یسوع مسیح صرف منتخب لوگوں سے ربط و ضوابط کا ہی خواہشمند نہ تھا ۔ اسی لئے اس نے فریسیوں کے بنائے ہوئے سخت احکامات کی پابندی نہ کر کے خود کو ان سے علیحدہ کر لیا ۔ اُس نے دیکھا کہ مذہب کے چوگرد اُنہوں نے بڑی اونچی دیوار حائل کر رکھی ہے۔ اس دیوار کو اس نے دُور پھینک دیا۔ جب وہ لوگوں کے ساتھ ملتا جُلتا تو وہ اُن سے پر گز نہ پوچھتا کہ تمھارا عقیدہ کیا ہے؟ کس کلیسیا سے آپ کا تعلق ہے؟ بلکہ جو کوئی بھی مدد کے لیے اس کے پاس آیا اس نے بلا امتیاز اُس کی مدد کی ۔ بجائے اس کے کہ وہ کسی زیارت گاہ میں بیٹھ جاتا، اس نے دکھی انسان کی خدمت کی۔ اُس نے سکھایا کہ کلام مقدس جِسم کو اذیت دینے کے بارے نہیں سیکھاتا۔ اور یہ بھی کہ حقیقی مذہب کی عبادت کسی خاص خاص موقع اور وقت پر نہیں کی جاتی۔ اُس نے انسانوں میں محبت اور دلچسپی دکھائی اور اپنا پاکیزہ نور اُنہیں عطا فرمایا اور یہ سب کچھ یہودیوں کے لیے شرم کا مقام تھا۔ اس سے پرہ چلتا تھا کہ مذہب کی اساس خود غرضی نہیں اور اُن کی خود غرضی فاسد عبادت حقیقی عبادت نہیں ہے۔ اس کی وجہ سے وہ یسوع کے جانی دشمن ہو گئے۔ZU 87.3

    خداوند نے جس کو دُکھی دیکھا اُسے امن اور سکون دیا۔ اُس کے پاس دینے کو پیسہ تو نہ تھا پھر بھی اُس نے اپنی ضرورتوں پر دوسروں کی ضرورتوں کو مقدم جانا۔ خود بھوکے رہ کر دوسرے کو اپنا کھانا کھلایا ۔ اُس کے بھائیوں نے کہ اُن کی نسبت اس کی زیادہ عزت و تکریم ہوتی ہے۔ کیونکہ جو اُس میں خوبیاں تھیں ان میں نہ تھیں۔ جب یہ غریبوں کے ساتھ سختی سے کلام کرتے یا انسانیت کی تذلیل کرتے تو خداوند یسوع مسیح اُن لوگوں سے ہمت افزائی کا کلام کرتا۔ اگر کوئی پیاسا ہوتا تو اسے پانی کا ٹھنڈا پیالہ پیش کرتا۔ اور اگر کوئی بھوکا اس کے پاس آتا تو اپنا کھانا اسے دے دیتا ۔ اس کے بعد وہ ان سے سچائی کا کلام کرتا تو ان کے دلوں پر گہرا اثر کرتا جو وہ کبھی نہ بھلاسکتے۔ZU 88.1

    مگر یہ سب کچھ اس کے بھائیوں کو ناگوار گزرتا ۔ بڑے ہونے کے ناطے میں وہ چاہتے تھے کہ یہ اُن کی ہدایات پر عمل کرے۔ اُنہوں نے اس پر الزام لگایا کہ وہ خود کو ربیوں ، بزرگوں اور اعلٰے حکام سے بھی بر تر سمجھتا ہے۔ اکثر اُنہوں نے اُسے دھمکایا اور ہراساں کرنے کی کوشش کی ۔ مگر وہ ہمیشہ کلام مقدس کا حوالہ کے کر اُن کی پرواہ نہ کرتا ۔ یسوع تو اپنے بھائیوں سے محبت رکھتا تھا اور جہاں تک ہو سکتا اُن پر مہربانی کرتا۔ مگر اُن کے پاس حسد کے علاوہ اُس کے لئے کچھ نہ تھا۔ وہ اُن کے برتاؤ کو بالکل سمجھنے سے قاصر تھا۔ قصہ کوتاہ ! یسوع اور اسکے بھائیوں میں کوئی قدر مشترک نہ تھی وہ تو الٰہی ہونے کے ساتھ ساتھ بے بس بچہ تھا۔ تمام کائنات کا بانی ہو کر بھی وہ غریب بنا۔ اُسے دنیاوی برتری اور بزرگی کی بالکل خواہش نہ تھی۔ وہ جس حال میں تھا اُس پر قانع تھا “وہ ہماری خاطر غریب بنا” 2 کر نتھیوں 9:8 جس طرح ایوب کی مصیبت کے بھید کو اس کے دوست نہ سمجھتے تھے اسی طرح مسیح کے بھائی اُس کے آنے کے مقصد سے ناآشنا تھے۔ZU 89.1

    مسیح کے بھائیوں نے اسے اسلئے غلط سمجھا کیونکہ وہ ان کی طرح کا نہ تھا۔ اُن کا معیارِ زندگی مسیح کے معیارِ زندگی سے پست تھا۔ وہ آدمیوں کی دیکھا دیکھی خدا سے دور چلے گئے تھے۔ اس لئے خدا کی قدرت ان میں موجود نہ تھی۔ جس قسم کی عبادت وہ کرتے تھے اس سے سیرت کی نشوونما نہیں ہو سکتی تھی۔ “وہ پودینہ اور سونف اور زیرہ پر تودہ یکی دیتے تھے پر شریعت کی بھاری باتوں یعنی انصاف اور رحم اور ایمان کو چھوڑ جاتے تھے۔” متی 23“23 ZU 89.2

    یسوع مسیح کا نمونہ ان کے لیے مسلسل باعث اذیت تھا۔ دنیا میں جس ایک چیز سے اسے نفرت تھی وہ گناہ تھا۔ ہر غلط عمل جو وہ دیکھتا اس سے اُسے سخت دُکھ پہنچتا ۔ ظاہری پاکیزگی دکھانے والوں کی محبت گناہ کے لیے تھی۔ ان دونوں میں فرق صاف ظاہر تھا۔ کیوں کہ یسوع مسیح کی زندگی بدی اور برائی کے ساتھ مسلسل جنگ تھی۔ اسلئے اُس کی اپنے گھر میں اور باہر بھی مخالفت ہوتی۔ اُس کی ایمانداری اور بے لوث خدمت کو مکاری کا جال قرار دیا گیا۔ جب کہ اس کے صبر اور مہربانی کو بُزدلی۔ZU 89.3

    رنج و الم اور تلخیاں جو انسان کا بخرہ ہے اُنہیں یسوع مسیح نے چکھا۔ بعض تو اُسے اُس کی پیدائش کا طعنہ دیتے تھے۔ اُسے اسی سبب سے نفرت سے دیکھتے اور کانا پھوسی کرتے۔ اگر وہ بے صبری سے ان کو جواب دیتا یا غلط قدم اُٹھا کر اپنے بھائیوں کو انگلی اٹھانے کا موقع دیتا تو پھر وہ ہمارا کامل نمونہ نہ ہو سکتا تھا۔ یوں وہ نجات کی تجویز کو پورا نہ کر سکتا۔ یا اگر وہ گناہ کرنے کے بہانوں کو ہی تسلیم کر لیتا تو ابلیس جیت جاتا اور دُنیا برباد ہو جاتی۔ اِسی لیے آزمانے والے نے اُس پر آزمائشوں کا جال پھیلا دیا تاکہ اُس سے گناہ کروائے۔ZU 90.1

    تاہم ہر ایک آزمائش کے مقابلہ میں اس نے پر بار یہ کہا “یہ لکھا ہے” اُس نے اپنے بھائیوں کو اُن کی غلط کاری پر شاذو نادر ہی جھڑکا ہو گا۔ مگر اُس کے پاس خدا کا کلام جو اس نے اُنہیں سنایا۔ جب وہ اُن کے ساتھ برائی میں شامل نہ ہوتا تو اُسے بزدل کے طعنے سننے پڑتے۔ پھر بی وہ اُنہیں کلام سے تنبیہ کرتا۔ ایوب 28:28 ZU 90.2

    بہت سے ایسے تھے جو صلح ، امن اور سلامتی پانے کے لئے اُس کے ساتھ رہنے کے خواہاں تھے جبکہ بعض اپنے بُرے کاموں کے سبب اُس سے دور رہنا چاہتے تھے مبادہ وہ اُنہیں لعن طعن کرے۔ نوجوان ساتھی چاہتے تھے کہ وہ گھی اُن کی طرح زندگی بسر کرے۔ چونکہ وہ ہنس مکھ تھا اس لئے وہ اسکی رفاقت سے بڑے محظوظ ہوتے مگر چونکہ وہ بڑا محتاط تھا اسلئے وہ صبر کا دامن چھوڑ دیتے اور اُسے تنگ نظر کا طعنہ دیکر اُس سے جدا ہو جاتے۔ مگر یسوع کا کہنا ہے۔ ZU 90.3

    “جوان اپنی روش کس طرح پاک رکھے؟ تیرے کلام کے مطابق اس پر نگاہ رکھنے سے۔ میں نے تیرے کلام کو اپنے دل میں رکھ لیا ہے تا کہ میں تیرے خلاف گناہ نہ کروں” 9:119 ، 11 ZU 91.1

    بعض اوقات اُس سے پوچھا جاتا کہ تو ہم سے منفرد ہے؟ تو وہ کہتا لکھا ہے “مبارک ہیں وہ جو کامل رفتار ہیں جو خداوند کی شریعت پر عمل کرتے ہیں مبارک ہیں وہ جو اُس کی شہادتوں کو مانتے ہیں اور پورے دل سے اس کے طالب ہیں۔ اُن سے ناراستی نہیں ہوتی ۔ وہ اس کی راہوں پر چلتے ہیں۔” زبور 1:119 -3 ZU 91.2

    اور جب اُس سے پُوچھا جاتا کہ وہ کیوں ناصرت کے نوجوانوں کی شرارتوں اور چھیڑ چھاڑ میں حصہ نہیں لیتا ؟ تو وہ لکھتا ہے “مجھے تیری شہادتوں کی راہ سے ایسی شادمانی ہوئی جیسی ہر طرح کی دولت سے ہوتی ہے۔ میں تیرے قوانین پر غور کروں گا اور تیری راہوں کا لحاث رکھوں گا ۔ میں تیرے آئین میں مسرور رہوں گا۔ میں نے تیرے کلام کو نہ بھولوں گا۔” زبور 14:119 -16 ZU 91.3

    خدا وند یسوع مسیح نے کبھی بھی اپنے حقوق کے لیے ضد نہ کی۔ چونکہ وہ شکایت نہ کرتا اسلئے اُس کا کام مشکل بنا دیا جاتا۔ پھر بھی وہ نہ تو ناکام ہوا نہ پست ہمت۔ اُس میں بدلہ لینے کی روح نہ تھی۔ ہر بےعزتی کو صبر سے برداشت کرتا۔ZU 91.4

    اسے بار بار پوچھا جاتا کہ آپ کیوں اس طرح بےعزتی برداشت کرتے ہو۔ یہاں تک کہ آپ کے بھائی بھی دوسروں کے ساتھ ملے ہوئے ہیں تو وہ کہتا لکھا ہے۔ZU 91.5

    “اے میرے بیٹے ! میری تعلیم کو فراموش نہ کر۔ بلکہ تیرا دل میرے حکموں کو مانے۔ کیونکہ تو ان سے عمر کی درازی اور پیری اور سلامتی حاصل کرے گا۔ شفقت اور سچائی تُجھ سے جدا نہ ہوں ۔ تو اُن کو اپنے گلے کا طوق بنانا اور اپنے دل کی تختی پر لکھ لینا یوں تو خدا اور انسان کی نظر میں مقبولیت اور عقلمندی حاصل کرے گا۔” ZU 92.1

    جب سے یسوع کے والدین نے اُسے ہیکل میں دیکھا اُس کے بعد اُنہوں نے محسوس کیا کہ اُس کی طرزِ زندگی حیران کن ہو گئی ہے ۔ وہ متنازعہ معاملات میں دخل اندازی نہ کرتا۔ پھر بھی اُس کا نمونہ سب کے لئے ایک سبق ہوتا۔ ایسے معلوم ہوتا تھا کہ جیسے وہ خدا کے لئے وقف ہو چکا ہے۔ اُسے فطرت اور خدا کی قربت سے شادمانی میسر آتی۔ جب بھی اُسے اپنے کام سے فرصت ہوتی وہ کھیتوں میں ہری بھری وادیوں میں چلا جاتا تاکہ خدا کے ساتھ رفاقت کرے۔ وہ خدا کے ساتھ پہاڑوں اور جنگلوں میں رہتا۔ صبح سویرے اُسے کسی ویران جگہ دیکھا جاتا جہاں وہ گیان دھیان اور دُعا میں مصروف پایا جاتا۔ اِن خاموش اور پُر سکون اوقات کو گذارنے کے بعد وہ واپس اپنے گھر آ جاتا تا کہ اپنی ذمہ داریوں کو دوبارہ شروع کرے۔ZU 92.2

    مسیح یسوع کے دل میں اپنے والدین کے لئے بے حد محبت اور عزت پائی جاتی تھی۔ مقدسہ مریم ایمان رکھتی تھی کہ یہ بچہ جو خداوند نے مجھے دیا ہے وہی ممسوح ہے جس کا وعدہ کیا گیا تھا پھر بھی اُس میں اتنی ہمت نہ تھی کہ اپنے ایمان کا اقرار کرتی۔ وہ اُس کے دُکھوں میں پرابر کی شریک رہی ۔ پچپن اور جوانی میں جو اُس پر آفات اور آزمائشیں آئیں اُن کی وہ گواہ تھی۔ اُس کی وجہ سے مقدسہ مریم کو بھی دُکھ جھیلنے پڑے۔ وہ اپنے گھر کی رفاقت پر غور کرتی اور ماں ہونے کے ناطے بچوں کی سیرت کا پوری طرح دھیان رکھتی ۔ مگر جنابِ یوسف کے دوسرے بچے مقدسہ مریم کی مایوسی ، پریشانی اور دُکھوں کو جانتے ہوئے بھی چاہتے کہ یسوع کا معیار ِ اخلاق اُن کی طرح ہو۔ZU 92.3

    اکثر مقدسہ مریم یسوع کو کہتی کہ یس میں کیا حرج ہے اگر وہ ربیوں کی ہدایات پر عمل کر لے؟ مگر ہو اپنی اُن عادات کو بدلنے پر تیار نہ تھا جو وہ خدا کی صنعت کاری پر غورو خوض کر کی پختہ کرتا جاتا تھا۔ وہ دُکھی انسانوں بلکہ بے زبان جانوروں کو طھی سکھ اور چین پہنچاتا تھا۔ شرع کے معلم اور قوم کے بزرگ مقدسہ مریم کو کافی رنج پہنچتا۔ لیکن جب یسوع کلام مقدس کی روشنی میں اُسے بتاتا کہ اُسکا رویہ بالکل خدا کی مرضی کے مطابق ہے تو وہ مطمئن ہو جاتی۔ZU 93.1

    بعض اوقات جب یسوع کی بھائی یہ نہ مانتے کہ وہ خدا کی طرف سے آیا ہے تو مقدسہ مریم ڈگمگا جاتی ۔ مگر اُس کے سامنے بےشمار ثبوت تھے کہ وہ الٰہی سیرت ہے۔ اُس نے دیکھا کہ وہ دوسروں کی خاطر قربانی دینے کے لئے ہر وقت تیار رہتا ہے۔ بھلائی اور نیکی کے کسی موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ اُس کی موجودگی گھر میں پاکیزگی لاتی اور اُس کی زندگی سے معاشرہ برکت پاتا۔ وہ بےضرر اور نجس ہوئے بغیر بےفکروں ، مغروروں ، بدتمیزوں، بے ایمانوں ، محصول لینے والوں، بد حال مسرفوں ، ناراست سامریوں، بت پرست سپاہیوں ، گنوار دیہاتیوں اور ملی جُلی بھیڑ میں چلتا پھرتا تھا۔ وہ ہر جا ہمدردی کا کلام کرتا۔ جو بوجھ تلے دبے لوگ تھے اُن کا بوجھ ہلکا کرتا۔ اُن کو وہ سبق سکھاتا جو اُس نے خود فطرت سے سیکھتے تھے۔ یعنی خدا کی محبت ، مہربانی اور نیکی۔ZU 93.2

    اس نے سکھایا کہ اپنے اوپر اس طرح نگاہ کرو جیسے خداوند نے آپ سب کو قیمتی توڑے دے کر پیدا کیا ہے۔ اور اگر اُن توڑوں کو صحیح طرح سے استعمال کیا جائے تو تم ضرور ابدی دولت سے سرشار ہو گے۔ اُس نے زندگی سے ہر طرح کی فضولیات کو دور کیا ۔ اور اپنے نمونہ سے سیکھایا کہ “ہر لمحہ” ہماری ابدیت کی ساخت کرتا ہے۔ اسی لئے اسے قیمتی خزانہ کی طرح جمع کر لینا چاہیئے۔ وہ کسی بھی انسان کے پاس سے ہونہی نہ گذر گیا بلکہ ہر روح کو بچنے کا علاج بتایا۔ جیسی بھی مجلس میں وہ گیا اُس نے موقع محل کی مطابق اُن کو سبق دیا۔ وہ جو بہت گنوار ، بے اُمید اور مایوس تھے اُن کو بھی اۃس نے ضمانت دی کہ وہ بھی بے ضرر ، معصوم اور بے داغ زندگی بسر کر سکتے ہیں ۔ اُس نے اُن کو یقین دلایا کہ اُن کی سیرت بھی خدا کے بچوں اور بچیوں جیسی ہو سکتی ہے۔ وہ اکثر ایسے لوگوں سے بھی ملا جنہیں ابلیس خدا سے دور لے گیا تھا۔ اور اب اُن میں اتنی قوت نہیں تھی کہ وہ خود ابلیس کے چنگل سے رہائی پائیں ۔ جو مایوس ہو چکے تھے بیمار یا آزمائش میں کر پڑے تھے۔ یسوع نے اُن سے مہرو محبت کا کلام کیا۔ ایسا کلام کیا جس کی وہاں ضرورت تھی ۔ ایسا کلام جسے وہ بخوبی سمجھ سکیں۔ پھر وہ ایسوں سے ملتا جو ابلیس کے ساتھ ساتھ دست بدست جنگ میں مصروف تھے ۔ اُن کو اُس نے یہ کہ کر حوصلہ دیا کہ ہمت نہ ہاریں فتح تمہاری ہی ہو گی۔ جن کی اُس نی ان حالات میں مدد کی سہ اس بات کے قائل ہو گئے کہ یہی دُنیا کا نجات دہندہ ہے۔ خداوند یسوع مسیح بدن اور روح دونوں کو شفا دیتا۔ وہ ہر طرح کی کمزوری اور بیماری کو دور کرتا اور ہر طرح کے دُکھ پانے والے کو تسلی ، اطمینان اور بیماری سے رہائی دیتا۔ اُس کا تسلی بخش کلام ایسے ہوتا جیسے زخم پر مرہم ۔ کوئی بھی نہ کہتا کہ اُس سے معجزہ صادر ہوا ہے بلکہ اُس کی نیکی اور شفا بخشنے کی طاقت کا چرچا ہوتا جو بیماروں اور پریشاں حال لوگوں تک پہنچتی ۔ اس طرح بچپن سے ہی وہ لوگوں کی خدمت کرتا رہا۔ اسی لئے جب اُس نے اپنی خدمت کا آغاز کیا تو بہت سے لوگوں نے خوشی سے اُس کی سُنی۔ ZU 94.1

    یسوع مسیح اپنے بچپن ، لڑکپن اور جوانی میں تنہا چلتا پھرتا رہا ۔ اپنی پاکیزگی اور وفاداری میں اُس نے اکیلے انگور کو روندا۔ اور لہگوں میں سے کوئی اُس کے ساتھ نہ تھا۔ اُس نے انسانی نجات کے بوجھ کو اکیلے برداشت کیا۔ وہ جانتا تھا کہ اگر اصولوں میں تبدیلی نہ کی گئی تو آلِ آدم معدوم ہو جائے کی ۔ یہ اس کا بڑا بوجھ تھا جسے کسی نے بھی نہ سراہا۔ اس بڑے بوجھ کو اٹھاتے ہوئے اس نے اپنی زندگی کو اس طرح ڈھالا کہ وہ دُنیا کا نور بنے۔ZU 95.1

    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents