Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents

زمانوں کی اُمنگ

 - Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First
    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents

    باب نمبر 16 - ”خدا کے گھر میں“

    “اُس کے بعد وہ اور اُس کی ماں اور بھائی اور اُس کے شاگرد کفر نحوم کو گئے اور وہاں چند روز رہے۔ یہودیوں کی عید فسح نزدیک تھی اور یسوع یروشیلم کو گیا“یوحنا 12:2-13ZU 175.1

    یہ سفر مسیح یسوع نے ایک جم غفیر کے ساتھ طے کیا جو دارلخلافہ کی طرف جا رہا تھا۔ابھی تک اُس نے مجسم ہو کر آنے کی غرض و غائت کا اعلان نہیں کیا تھا۔ اسلئے جب وہ اس بھیڑ میں شامل ہوا تو کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ ایسے موقع پر مسیح موعود کے آنے کے چرچے زمان زد عام تھے۔ اور پھر یوحنا کی منادی نے مسیح موعود کی آمد کے چرچے کو مزید تقویت دی۔ قوم کی اُمیدیں بیدار ہو گئیں۔ مگر مسیح یسوع کو معلوم تھا کہ چونکہ کلام کی تفسیر صحیح نہیں کی گئی اسلئے قوم کو مایوسی ہو گی۔ لہٰذا خداوند مسیح نے بڑی گہرائی اور ایمانداری سے پیشنگوئیوں کو کھول کر بیان کیا اور لوگوں کو آمادہ کیا کہ وہ خود کلام مقدس کا عمیق مطالعہ کر کے دیکھیں۔ ZU 175.2

    یہودی رہنماوں نے بتا رکھا تھا کہ وہ اُنہیں خدا کی عبادت کرنے کے بارے تعلیم دیں گے۔ چنانچہ عید فسح کے موقع پر بہت بڑا مجمع لگ گیا ۔ کیونکہ لوگ فلسطین کے تمام علاقوں سے آئے تھے ۔ ا لئے ہیکل کے دلان کھچا کھچ بھر گئے۔ بہت سے لوگ قربانی چڑھانے کے لئے اپنے ساتھ برّہ وغیرہ نہ لا سکے جو آنے والی عظیم قربانی کی علامت تھی اس کو پورا کرنے اور عوام کی سہولت کے لئے ہیکل کے باہر کے دلانوں میں جانوروں کی خریدو فروخت ہو رہی تھی۔ یہاں پیسے کی تبدیلی کا بھ لین دین چلتا تھا۔ ZU 175.3

    یہ بھی لازم تھا کہ ہر یہودی سالانہ اپنی جان کے فدیے کے لئے نیم مثقال ادا کرے جو ہیکل کے اخراجات پورا کرنے کے لئے ہوتا تھا۔ خروج 12:3-16۔۔۔ اس کے علاوہ ایسے نذرانے بھی لائے جاتے جو لوگ اپنی رضا سے پیش کرتے اور یہ بھی ہیکل کے خزانہ میں جمع ہوتے۔ پیسوں کا تبادلہ اسلئے ہوتا تھا کیونکہ تمام بدیشی پیسے کو مثقال میں تبدیل کر کے ہی ہیکل کے خزانے میں جمع کیا جا سکتا تھا۔ بد قسمتی سے پیسے کی یہ تبدیلی فراڈ اور بدنامی کا باعث بن چکی تھی۔ کم و بیش یہ ایک ٹیکس یا محصول کے طور پر ہوتا تھا جو کاہن وصول کرتے تھے۔ ZU 176.1

    جو لوگ جانور بیچتے اُن سے دلالی لیکر کاہن اور سردار آپس میں بانٹ لیتے۔ یوں وہ ہیکل کی زیارت کرنے والے لوگوں سے پیسہ بٹور کر امیر بن جاتے۔ اُنہیں سکھایا جاتا کہ اگر وہ قربانی نہ چڑھائیں گے تو خداوند اُن کو اور اُن کے بچوں کو برکت نہ دے گا اور نہ ہی اُن کی زمین با برکت ہو گی۔ یوں وہ لوگوں سے منہ مانگی قیمت وصول کرتے۔ چونکہ وہ لوگ دور دراز علاقوں سے سفر کر کے یہاں پہنچتے تھے اسلئے وہ قربانی چڑھائے بغیر واپس وطن جانا کیوں کر پسند کرتے؟ZU 176.2

    عید فسح کے موقع پر بہت سی قربانیاں چڑھائی جاتی تھیں۔ بدیں وجہ ہیکل میں بہت زیادہ خریدو فروخت کا کاروبار ہوتا۔ اور ہیکل خدا کا پاک گھر ہونے کی بجائے مویشیوں کی منڈی بن جاتا۔ ہر طرف جانوروں کا شور سنائی دیتا۔ کہیں جانوروں پر بولی دی جاتی تو کہیں دلالی لینے دینے پر جھگڑے رگڑے ہوتے۔ ایک طرف بھیڑوں کا ممیا ہوتا تو دوسری طرف کبوتروں کی گوُ گوُ۔ کسی طرف مایا کا جھنکار کسی طرف دھکم پیل، مار کٹائی اور لین دین کے اختلاف پر گالی گلوچ۔ اس طرح کے شور شرابے میں عبادت گذار اپنی توجہ اپنے خالق پر کیوں کر مرکوز کر سکتا تھا۔ اس موقع پر دوسرے لوگوں کی نسبت یہودی قوم اپنی پارسائی پر بڑا فخر کرتے تھے۔ اُنہیں اپنی اس ہیکل پر بھی بڑا مان تھا۔ اور اگر کوئی اس کے خلاف کچھ کہتا تو اُسے کافر قرار دیا جاتا؟ اس لئے ہیکل ے متعلق جتنی رسوم تھیں اُن کو بڑی جانفشانی سے پورا کیا جاتا۔ اس سب کے باوجود پیسے نے اُنہیں خدا سے دور کر دیا تھا۔ یوں یہودی قوم ہیکل کی اصل عبادت سے بہت دور جا چکے تھے مگر اُنہیں معلوم نہ تھا۔ ZU 176.3

    جب خداوند کوہ سینا پر اُترا تو یہ جگہ اُس کے لئے مخصوص کر دی گئی تھی۔ موسیٰ کو حکم دیا گیا کہ اس جگہ کے چوگرد حدبندی کر دے کیونکہ یہ جگہ پاک ہے۔ بلکہ خداوند نے اُسے خبردار کیا “اور لوگوں کے لئے چاروں طرف حد باندھ کر اُن سے کہہ دینا کہ خبردار تم نہ تو اس پہاڑ پر چڑھنا اور نہ اس کے دامن کو چھونا۔ جو کوئی پہاڑ کو چھوئے ضرور جان سے مار ڈالا جائے۔ مگر کوئی اُسے ہاتھ نہ لگائے بلکہ وہ لا کلام سنگسار کیا جائَ یا تیر سے چھید ا جائے خواہ وہ انسان ہو خواہ حیوان وہ جیتا نہ چھوڑا جائے اور جب نرسنگار دیر تک پھونکا جائے تو وہ سب پہاڑ کے پاس آ جائیں” ZU 177.1

    خروج 12:19-13 اس سے یہ سبق سکھایا گیا کہ جہاں خداوند اپنی حضوری کو ظاہر کرے وہ جگہ پاک ہے۔ خدا کی ہیکل کی حدیں مقدس مانی جانی چاہیئں۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ نفع کے لالچ میں یہودی قوم اور اُن کے رہنما تمام حدیں پھلانگ گئے؟ ZU 177.2

    قوم کے سردار اور کاہن خدا کے نمائندے تھے اُنہیں چاہیئے تھا کہ اگر قوم غلطی کرے تو اُن کی دُرستی کریں۔ اور خاص طور پر اگر وہ ہیکل کی بے حرمتی کریں تو اُن کی ضرور سرزنش کریں۔ اُنہیں تو عوام کے لئَ ایمانداری اور پارسائی کا نمونہ بننا چاہئے تھا۔ علاوہ ازیں انے فائدہ کو مد نظر رکھنے کی بجائے عبادت گذار لوگوں کی سہولت اور فائدے کا سوچنا چاہیے تھا۔ اور جو لوگ مطلوبہ قربانی خریدنے کی سکت نہ رکھتے تھے اُن کی مالی مدد کرنا چاہئے تھا۔ مگر اُنہوں نے اس کی بالکل پرواہ نہ کی بلکہ اپنے دلوں کو سخت کر لیا۔ ZU 177.3

    اس عید کے موقع پر ایسے لوگ بھی آئے تھے جو کسی باعث بہت پریشان اور مصیبت میں مبتلا تھے۔ اس بھیڑ میں اندھے، لنگڑے، بہرے بھی شامل تھے۔ بعض تو اتنے سخت بیمار تھے کہ اُن کو چارپائی پر لایا گیا تھا۔ بعض اتنے نادار تھے کہ خدا کے لئے ہدیہ خریدنا تو درکنار وہ اپنے لئے کھانا بھی خریدنے کی سکت نہ رکھتے تھے۔ لہذا وہ کاہنوں کی باتوں سے سخت پریشان تھے۔ گو کاہن پانی پارسائی پر بڑا گھمنڈ کرتے تھے۔ اور اس بات پر بھی کہ وہ اپنی قوم کے سر پرست ہیں مگر اُن میں رحم نام کی کوئی چیز موجود نہ تھی۔ غریبوں ناداروں بیماروں اور پریشاں حال لوگوں نے اُن سے بیکار ہمدردی کی توقعات وابستہ کر رکھی تھیں۔ اُن کے دُکھوں سے کاہنوں کا دل نہ پسیجا۔ ZU 178.1

    جب یسوع مسیح ہیکل میں آیا تو اُس نے تمام منظر کا اچھی طری جائزہ لیا۔ اُ س نے ناجائز کاروبار کو بھی دیکھا۔ اُس نے غریبوں کی پریشانیوں پر نگاہ کی جو یہ سمجھتے تھے کہ خون بہائے بغیر اُن کے گناہوں کی تلافی نہیں ہو سکتی۔ اُس نے یہ بھی دیکھا کہ ہیکل کے بیرونی دلان میں غیر مناسب آمدورفت جاری ہے۔ اُس نے یہ بھی دیکھا کہ پاک جگہیں وسیع کاروبار کا مرکز بنی ہوئی ہیں۔ یہ سب کچھ دیکھ کر مسیح خداوند نے تہیہ کر لیا کہ اس بارے ضرور کچھ کیا جانا چاہئے۔ بہت سی رسمیں تو بغیر ضروری ہدایات کے بنی منائی جا رہی تھیں۔ وہ عبادت گذار جو اپنی اپنی قربانیاں گذران رہے تھے اُنہیں بالکل معلوم نہ تھا کہ ان کی قربانیاں ایک کامل قربانی کی علامت ہیں۔ اُنہیں یہ بھی معلوم نہ تھا کہ جو اُن کے درمیان کھڑا ہے اُسی نے اُنہیں ہدیوں اور قربانیوں کے بارے ہدایات دے رکھی تھیں۔اسلئے وہ اُن کی علامتی قدروں کو خوب سمجھتا تھا۔ اُس نے دیکھا کہ اب عوام کو اُس علامت سے دُور لے جایا جا رہا ہے۔ روحانی عبادت تیزی سے ختم ہو رہی تھی اُسے ایسا کوئی تعلق نظر نہیں آتا تھا جو سرداروں اور کاہنوں کو خدا کے ساتھ منسلک کرنا ہو۔ یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے مسیح یسوع کو اس کے برعکس عبادات کے راہ و رسم کو قائم کرنا تھا۔ ZU 178.2

    مسیح یسوع منظر پر نگاہ دوڑاتا ہوا دلان میں ہیکل کی سیڑھی پر کھڑا ہوا۔ نبیانہ آنکھ سے اُس نے مستقبل کے کئی آنے والے زمانوں میں نظر دوڑائی۔ اُس نے دیکھا کہ کس طرح کاہن اور سردار، حاجت مندوں کو نور سے دور اور غریبوں کو خوشخبری سنانا منع کر دیں گے۔ اُس نے دیکھا کہ کس طرح خدا کی محبت غریبوں سے مخفی رکھی جائے گی۔ اور یہ بھی کہ لوگ خدا کے فضل کو نفع کا ذریعہ بنائیں گے۔ جب اُس نے یہ منظر دیکھا تو قدرت، اختیار اور غضب اُس کے چہرے پر نمودار ہو گیا۔ تمام لوگوں کی نظریں اُس پر جم گئیں۔ اُنہوں نے محسوس کیا کہ یہ شخص اُن کے دلوں کے خیالات اور احساسات سے بخوبی واقف ہے۔ بعض نے اپنے چہرے کو اُس سے چھپانا چاہا کیونکہ اُنہیں معلوم ہوا جیسے اُن کے چہروں پر اُن کے بُرے کام لکھے گئے ہیں اور یہ شخص ان سے واقف ہے۔ اب تو ہر طرف افرا تفری مچ گئی۔ کاروبار اور آمدورفت موقوف ہو گئے۔ یہ کام خاموشی ہجوم کے لئے باعث دہشت اور اذیت بن گئی۔ ہر کوئی یہ محسوس کرتا تھا کہ وہ خدا کی عدالت میں اپنے اعمال کا جواب دینے کے لئے کھڑا ہے۔ جب وہ یسوع پر نظر کرتے تو اُنہیں ایسا معلوم دیتا جیسے الوہیت نے بشریت پہن رکھی ہو۔ سب آسمانی عدالت کے سامنے کھڑے تھے۔ اس وقت تو مسیح کو آسمانی جلال گھیرے ہوئے نہ تھا جبکہ روز عدالت کو مسیح اپنے باپ اور فرشتوں کے پورے جلال میں آئے گا۔ تاہم لوگوں نے محسوس کیا کہ یہ شخص اُسی الہی قدرت اور اختیار سے اُن کی روحوں کو پرکھ اور پڑھ رہا ہے۔ اُس نے تمام مجمع پر طائرانہ نظر ڈالی مگر ہر ایک شخص کو ایسے معلوم ہوا کہ جیسے وہ صرف اُسے ہی دیکھ رہا ہے۔ وہ سب سے بلند نظر آتا ہے۔ اور پورے اختیار سے اُن کو حکم دے رہا تھا۔ اُسی صاف و سریع آواز میں جس میں اُس نے کوہ سینا پر شریعت کا اعلان کیا تھا اُس نے فرمایا کہ کاہن اور سردار خدا کا حکم توڑ رہے ہیں۔ اسلئے ان کو یہاں سے لے جاو۔ میرے باپ کے گھر کو تجارت کا گھر نہ بناو” یوحنا 16:2ZU 179.1

    آہستہ آہستہ سیڑھی سے اُترتے اور رسی کا کوڑا لہراتے ہوئے وہ ہیکل کے بیرونی دالان میں آ پہنچا۔ اور جو خریدو فروخت کر رہے تھے اُن کو حکم دیا کہ یہاں سے چلے جاو۔ اس طرح کی غیرت اور جوش کا اُس نے پہلے کبھی بھی مظاہرہ نہ کیا تھا۔ اُس نے صرافوں کی نقدی بکھیر دی اور اُن کے تختے اُلٹ دیئے۔ مرمر کے فرش پر پیسے بکھرے پڑے تھے۔ اُن کی جھنکار ہر طرف سنی جا سکتی تھی۔ کسی میں بھی اتنی ہمت نہ تھی کہ اُس کے اختیار کو چیلنج کرے۔ فرش پر ناجائز نفع کے گرے ہوئے پیسے کو اُٹھانے کے لئے کوئی بھی مزاحمت نہ کر سکا۔ خداوند یسوع مسیح نے رسی کے کوڑا سے کسی کو بھی نہ مارا، مگر ایک بات ضرور تھی کہ وہ رسی کا کوڑا اُس کے ہاتھ میں شعلہ زن تلوار بن گئی۔ ہیکل کے منصب دار، لالچی کاہن، دلال اور جانوروں کے بیوپاری اپنی بھیڑوں، گایوں کے ساتھ وہاں سے بھاگ نکلے۔ بلکہ ہر ایک نے جلدی کی تاکہ اُس کی حضوری سے بھاگ کر دُور چلا جائے۔ اُنہوں نے محسوس کیا کہ وہ اُس کی الوہیت کے زیر سایہ آگے ہیں اس لئے اُن میں بھگدڑ مچ گئی۔ وہ غل غپاڑہ مچاتے ہوئے وہاں سے بھاگ گئے۔ حتٰی کہ شاگرد بھی لرز اُٹھے۔ کیونکہ اس سے پہلے اُنہوں نے اُسے کسی کے ساتھ اس طرح پیش آتے نہ دیکھا تھا۔ تاہم اُنہیں یاد آیا کہ یہ اُسی کے بارے لکھا ہے۔ “تیرے گھر کی غیرت مجھے کھا گئی” زبور 9:69۔۔۔۔ دیکھتے ہی دیکھتے خریدو فروخت کرنے والوں کو خدا کے گھر سے بھگا دیا گیا۔ کاروبار کرنے والوں کا آنا جانا بند ہو گیا۔ خداوند کے گھر کے لئے عزت و حرمت اور سنجیدگی پیدا ہو گئی۔ خداوند کی وہ حضوری جس نے کوہ سینا کو متبرک ٹھہرایا اُسی حضور نے آج ہیکل کو تقدیس بخشی۔ ZU 180.1

    ہیکل کو صاف کرنے سے المسیح نے اپنے آنے کی غرض و غائت سے پردہ ہٹایا اور اُسی کے ساتھ اپنی خدمت کا آغاز کر دیا۔ ہیکل اس لئے تعمیر کی گئی تھی تاکہ الٰہی حضوری اُس میں قیام کرے۔ اور دُنیا میں بنی اسرائیل اُس کے ذریعے تعلیم پائیں۔ ابدیت سے ہی خداوند کی یہ مرضی تھی کہ ہم بشر اُس کی ہیکل ہوں جس میں وہ بسا رہے۔ لیکن گناہ کے سبب انسان خدا کی ہیکل بننے اور خدا کا جلال ظاہر کرنے سے محروم ہو گیا۔ بدی اور طلمت نے اُسے گھیر لیا۔ مگر مسیح کے مسجم ہونے سے خدا کے مقصد کی تکمیل ہو گئی۔ یروشیلم کی ہیکل کے ذریعہ سے خدا نے چاہا کہ یہ ہر شخص کے لئے مسلسل گواہی کا باعث رہے۔ مگر یہودی اس اعلٰے و بالےٰ غائت کو سمجھنے سے قاصر رہے۔ اُنہیں صرف یہ فخر ضرور تھا کہ یہ ہیکل ہماری ہے۔ لیکن اس وقت ہیکل میں ہر طرح کے کاروبار سے واضح ہوتا تھا کہ یہودیوں کے دل اور خیالات اسی طرح نجس ہو گئے ہیں جس طرح اُنہوں نے اپنے کاروبار کے ذریعے ہیکل کو بے حُرمت کر دیا ہے۔ جس طرح یسوع مسیح نے ہیکل کو سوداگروں سے پاک کیا۔ اسی طرح اُس نے آل آدم کو گناہ سے پاک کرنے کا اعلان کیا۔ اُس نے دنیاوی خواہشات، خود غرضی، بُری عادات سے بھی انسانوں کو آزاد کرنے کا اعلان کیا۔ یہی اس کا مشن تھا۔ دیکھو میں اپنے رسول کو بھیجوں گا اور وہ میرے آگے راہ دُرست کرے گا اور خداون جس کے تم طالب ہو نا گہان اپنی ہیکل میں آ موجود ہو گا۔ ہاں عہد کا رسول جس کے تم آرزو مند ہو آئے گا۔ ZU 181.1

    رب الافواج فرماتا ہے پر اپس کے آنے کے دن کی کس میں تاب ہے؟ اور جب اُس کا ظہور ہو گا تو کون کھڑا رہ سکے گا؟ کیوں کہ وہ سنار کی آگ اور دھوبی کے صابون کی مانند ہے اور وہ چاندی کو تانے اور پاک صاف کرنے والے کی مانند اور نبی لاوی کو سونے اور چاندی کی مانند پاک صاف کرے گا تاکہ وہ راستبازی سے خداوند کے حضور ہدیئے گزرانیں۔ ملاکی 1:3-3 کیا تم نہیں جانتے کہ تم خدا کا مقدس ہو اورخدا کا روح تم میں بسا ہوا ہے۔ اگر کوئی خدا کے مقدس کو برباد کرے گا تو خدا اُس کو برباد کرے گا کیونکہ خدا کا مقدس پاک ہے اور وہ تم ہو۔ اگرنتھیوں 16:3-17۔۔۔ کوئی شخص بھی اُن برائیوں سے چھٹکارا حاصل نہیں کر سکتا جنہوں نے اُس کے دل پر قبضہ کر رکھا ہے۔ صرف یسوع مسیح ہی دل کی ہیکل کو پاک صاف کر سکتا ہے۔ وہ کسی کے دل میں زبردستی داخل نہیں ہوتا جس طرح وہ قدیم ہیکل میں داخل ہوا بلکہ وہ کہتا ہے “دیکھ میں دروازہ پر کھڑا کھٹکھٹاتا ہوں اگر کوئی میری آواز سن کر دروازہ کھولے گا تو میں اُس کے پاس اندر جا کر اُس کے ساتھ کھانا کھاوں گا اور وہ میرے ساتھ “مکاشفہ 20:3 وہ صرف ایک دن کے لیے نہیں آتا بلکہ وہ کہتا ہے “میں اُن میں بسوں گا اور اُن میں چلوں پھروں گا اور میں اُن کا خدا ہوں گا اور وہ میری اُمت ہوں گے “2کرنتھیوں 16:6 میکاہ 19:7 اُس کی حضوری اُنہیں مقدس کرے گی تاکہ وہ خداوند کے لئے پاک مقدس ہوں۔ یعنی روح میں خدا کا مسکن۔ افسیوں 21:2-22 ZU 182.1

    قوم کے سردار اور کاہن خوف اور دہشت سے اسقدر بھر گئے کہ وہ ہیکل اور مسیح کی حضور سے بھاگ کھڑے ہوئے۔ جب وہ بھاگے جارہے تھے تو ہیکل میں آنے والے ہر شخص کو جو اُنہیں راہ میں ملا واپس لوٹ جانے کا مشورہ دیا۔ جو کچھ اُنہوں نے ہیکل میں دیکھا اور سُنا تھا وہ بھی ہیکل میں آنے والوں کو بتا دیا۔ ڈر کر بھاگنے والوں پر یسوع مسیح کو رحم بھی آیا اور افسوس بھی۔ کیونکہ یہ لوگ حقیقی عبادت سے بے بہرہ تھے۔ اس سارے منظر میں مسیح نے تمام یہودی قوم کی پرگندگی اور بدکاری کی علامت کو دیکھا۔ ZU 183.1

    کاہن کیوں ہیکل سے بھاگ گئے؟ وہ کیوں اپنے دلائل پر قائم نہ رہ سکے؟ جس نے اُنہیں ہیکل سے چلے جانے کا حکم دیا تھا وہ تو محض بڑھئی کا بیٹا، غریب گلیلی شخص تھا۔ اُس کے پاس نہ کوئی اختیار تھانہ کوئی بڑا عہدہ۔۔ وہ کیوں کر اُسکا مقابلہ نہ کر سکے؟ وہ کیوں کر اتنا کاروبار اور منافع کی رقوم اُسکے حکم پر چھوڑ کر بھاگ گئے جو دیکھنے میں حلیم سا شخص تھا؟ ZU 183.2

    مسیح نے پورے اختیار کے ساتھ اُن کو حکم دیا تھا۔ اُس کے لب و لہجے اور آواز میں وہ قدرت تھی جسکا مقابلہ کرنے کی اُن میں تاب نہ تھی۔ اُس کے حکم پر جو کچھ اُنہوں محسوس کیا اس سے پہلے کبھی محسوس نہ کیا تھا۔ آج اُنہیں اپنے ریاکار اور ڈاکو ہونے کا پورا احساس ہوا۔ جب الوہیت اُس سے صادر ہوئی تو نہ صرف اُنہوں نے اُس کے چہرے پر غیض و غضب ہی دیکھا بلکہ اُس کے کلام کی اہمیت سے بھی باخبر ہوئے۔ اُنہیں ایسے محسوس ہوا جیسے وہ خدا کی عدالت میں ہیں۔ اور وہ اُس منصف کے حضور ہیں جس کے سامنے اُن پر فتوے صادر کر دیئے ہیں۔ اُن میں سے بعض ایک ایمان بھی لے آئے کہ یہی آنے والا مسیح ہے۔ اور یہ اس لئے ہوا کہ روح القدس نے ان کے ذہنوں کو روشن کر دیا۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہ اپنی اُس قائلیت کے موافق پھل بھی لانا چاہتے تھے؟ ZU 183.3

    وہ توبہ کرنا نہیں چاہتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ مسیح کی ہمدردی غریبوں کے لئے اُجاگر ہوئی ہے۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ اُنہوں نے ناجائز جزیے لئے ہیں۔ مسیح تو اُن کے خیالات سے واقف تھا۔ وہ مسیح سے نفرت کرتے تھے۔ مسیح نے جو سر عام اُن کو جھڑکا وہ اُن کے لئے سخت حُزن و ندامت کا باعث تھا۔ اس اُن کا وقار بھی خاک میں مل گیا۔ مسیح کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ نے اُنہیں مزید سیخ پاکر دیا۔ چنانچہ وہ اُس قدرت اور اختیار کا مقابلہ کرنا چاہتے تھے اور اُس کا بھی جس نے اُسے یہ اختیار دےرکھا تھا۔ ZU 184.1

    ہیکل سے بھاگ جانے والے کچھ سوچ کر تھوڑی دیرکے بعد نفرت سے بھر پور آہستہ آہستہ واپس ہیکل میں آگئے۔ مگر وہ یہ تبدیلی دیکھ کر حیران ہو گئے جو اُن کی غیر موجودگی میں پیدا ہو گئی تھی۔ یعنی جو غریب عوام پیچھے رہ گئے تھے وہ خداوند کے چہرے پر نظریں جمائے کھڑے تھے۔ جس سے محبت اور ہمدردی آشکارہ تھی گو وہ بھی ابھی تک سہمے ہوئے اُس کے چوگرد کھڑے تھے مگر اُس نے محبت بھری آواز میں اُن سے کہا ڈرو مت میں تمہیں رہائی بخشوں گا۔ اور تم میری بڑائی کرو گے۔ اسی لئے میں دُنیا میں آیا ہوں اس وعدے کے ساتھ اُن کا خوف جاتا رہا۔ ZU 184.2

    لوگ جوق در جوق مسیح کے قدموں میں آکر برکت پانے کی التجا کرنے لگے بلکہ مسیح کے کانوں نے ہر طرح کی التجائیں سنیں۔ وہ دُکھیوں کے دُکھ بانٹنے کے لئے اُن پر جُھک گیا۔ اُس نے ہر ایک کا مسلہ بڑی توجہ سے سنا۔ اُس نے ہر ایک کو شفا بخشی۔ گونگے اُسکی تعریف میں گانے لے۔ نابینوں نے اپنے نجات دہندہ کا چہرہ دیکھا، دُکھی خوشیوں سے سرشار ہو گئے۔ ZU 185.1

    جب کاہنوں اور ہیکل کے عہدیداروں نے اس عظیم کام کو دیکھا تو یہ اُن کے لئے عجب مکاشفہ تھا جو اُن کے کانوں میں پڑا۔ بعض لوگوں کے خوشی کے شادیانون کو سنا۔ بعض لوگ اپنی اُن بیماریوں اور دُکھوں کی کہانی سنا رہے تھے جن میں وہ مبتلا تھے۔ بعض اپنی نا اُمیدی کی باتیں سنا رہے تھے جس کے سبب اُن کی راتوں کی نیندیں برباد ہو گئی تھیں۔ اُنہوں نے بتایا کہ جب ہماری صحت کی تمام اُمیدیں معدوم ہو گئیں اُس وقت یسوع نے ہمیں بچا لیا۔ کسی نے کہا میرے لئے یہ بوجھ بڑا کٹھن تھا مگر خدا میں میں نے مسیح کو پالیا جو میرا مددگار بنا۔ اس لئے اب سے میں اپن زندگی خدا کی خدمت کے لئے وقف کرتا ہوں۔ اسی طرح ماں باپ نے اپنے شفا پانے والے بچوں کو بتایا چونکہ اس نے تمہاری زندگی بچائی ہے اسلئے اسی کی تمجید میں آواز بلند کرو۔ بچوں، دوستوں، اور والد ینوں کی حمد و ستائش کے نعروں سے فضا گونج اُٹھی۔ اُن کے دل اُمید اور خوشی سے معمور ہو گئے۔ اُنہیں ذہنی سکون جسمانی شفا نصیب ہو گئی اور وہ تندرست ہو کر اپنے اپنے گھر لوٹے۔ اور جہاں کہیں بھی وہ گئے اُنہوں نے مسیح کی فقید المثال محبت کا ذکر کیا۔ جن کو مسیح خداوند نے شفا بخشی تھی وہ مصلوبیت کے وقت بھیڑ کے ساتھ شامل ہو کر یہ نہیں کہتے تھے کہ “اے صلیب دو” بلکہ اُن کی ہمدردیاں اُس کے ساتھ تھیں کیوں کہ اُنہوں نے اُس کی غمگساری کا مزہ چکھا، اُس کی محبت اور اختیار کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور پرکھا تھا۔ وہ اُسے اپنا نجات دہندہ مانتے تھے کیونکہ اُس نے اُنہیں جسمانی اور روحانی شفا بخشی تھی۔ اُنہوں نے رسولوں سے خدا کا کلام سنا تھا جو اُن کے دلوں میں اُتر گیا تھا۔ وہ تو خدا کے رحم کے ایلچی اور نجات کے لئے آلہ کار بن گئے تھے۔ ZU 185.2

    وہ بھیڑ جو ہیکل سے بھاگ گئی تھی واپس ہیکل پہنچ گئی۔ اور جس دہشت نے اُنہیں گرفتار کر کیا تھا اُس سے جزوی طور پر وہ آزاد ہو گئے۔ اُنہوں نے خدا کے کاموں کو بڑی حیرت سے دیخحا اور قائل ہو گئے کہ آنے والا موعودہ مسیح یہی ہے۔ اور جانا کہ یہی پیشنگوئیوں کی تکمیل ہے۔ ہیکل کی بے حُرمتی کی ذمہ داری زیادہ تر کاہنوں پر آتی کیونکہ اُن کی اجازت سے ہی خدا کی ہیکل منڈی میں تبدیل ہو گئی تھی۔ عوام تو معصوم تھے۔ وہ مسیح کی الوہیت سے خاصہ متاثر ہوئے مگر اُن پر کاہنوں اور سرداروں کا بے حد اثر تھا۔ جو مسیح کے مشن کو بدعت خیال کرتے تھے۔ اور اُنہیں اس پر اعتراض تھا کہ ہیکل کے حاکموں اور اختیار والوں کی اجازت کے بغیر مسیح نے یہ سب کچھ کیوں کیا؟ کیوں کہ آمدورفت میں رکاوٹ پیدا ہو گئی جسکا اُنہیں صدمہ پہنچا۔ اس طرح اُنہوں نے روح کے ساتھ مزاحمت کی۔ ZU 186.1

    کاہنوں اور سرداروں کو جان لینا چاہیے تھا کہ موعودہ مسیح یہی ہے کیونکہ اُن کے ہاتھ میں الہٰی طومار تھے جو اُس کے مشن پر مکمل روشنی ڈالتے تھے۔ اور اُنہیں یہ بھی معلوم تھا کہ ہیکل کی صفائی کسی عام شخص کا کام نہیں۔ گو وہ اُس سے نفرت کرتے تھے مگر پھر بھی وہ خود کو اس خیال سے آزاد نہ کراسکے کہ یہ ضرور کوئی نبی ہے جو خدا کی طرف سے بھیجا گیا ہے جس نے ہیکل کی پاکیزگی بحال کی ہے۔ اس خوف سے کہ یہ کوئی نبی نہ ہو اُس سے پوچھنے لگے کہ تو نبی ہونے کے لئے ہمیں کونسا نشان دیتا ہے؟ پس یہودیوں نے جواب میں اُس سے کہا تو جو ان کاموں کو کرتا ہے ہمیں کونسا نشان دکھاتا ہے؟ یوحنا 18:2 یسوع نے تو پہلے ہی اُنہیں نشان دکھا دیا تھا۔ اُن کے دلوں میں اُسکی چمک بھی آئی تھی کیوں کہ اُس نے اُن کے سامنے موعودہ مسیح کے تمام کام کر دکھائے تھے۔ وہ اُسکی سیرت کے قائل بھی ہو گئے تھے۔ حیرت ہے پھر بھی اُس سے نشان طلب کرنے لگے۔ اس پر اُس نے اُنہیں تمثیل کے ذریعہ بتایا “کہ اس مقدس کو ڈھا دو تو میں اُسے تین دن میں کھڑا کر دوں گا” ZU 186.2

    مسیح یسوع نے اُن کے ساتھ ذو معنی بات کی۔ یعنی اس کے دو پہلو نکلتے تھے۔ اُس نے صرف یہودی ہیکل اور اُس کی عبادت کا ہی ذکر نہ کیا بلکہ اپنی موت کا بھی ذکر فرمایا۔ یہی کچھ یہودی کرنے کی سازش میں تھے۔ جب کاہن اور یہودی ہیکل کو لوٹے اُنہوں نے مسیح کو مار دینے کا منصوبہ بنایا تاکہ اُس سے خلاصی حاصل کریں۔ تاہم جب مسیح خداوند نے اپنے آنے ے مقاصد اُن کے سامنے رکھے تو وہ سمجھ نہ پائے۔ وہ صرف یہ سمجھے کہ یہ یرشیلم کی ہیکل کی بابت کہہ رہا ہے۔ اس پر وہ طیش میں آکر کہنے لگے یہ ہیکل تو چھیالیس سال میں مکمل ہوئی تھی۔ کیا تو اسے تین دن میں بنا سکے گا؟ ZU 187.1

    اُس وقت یسوع نہیں چاہتا تھا کہ یہودی یا اُس کے اپنے شاگرد اس بات کو سمجھیں۔ کیوں وہ جانتا تھا کہ اس کے خلاف ہو جائیں گے۔ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ اُس کی تفتیش کے وقت وہ یہ بات اُٹھا سکتے ہیں اور صلیب پر اس بات کا ٹھٹھا بھی اڑا سکتے ہیں۔ نیز اس لئے مسیح نے اُنہیں سمجھانا ضروری نہ سمجھا ایسا نہ ہو کہ شاگرد مسیح کے دُکھوں کے بارے جان کر پست ہمتی کا شکار ہو جائیں کیوں کہ ابھی ان میں برداشت کی اتنی سکت نہ تھی۔ ZU 187.2

    یہ کلام اُن کے لئے بھی تھا جو اُس پر ایمان لانا چاہتے تھے۔ وہ جانتا تھا کہ اُس کا یہ کلام دُہرایا جائے گا۔ چونکہ یہ کلام عید فسح کے موقع پر کیا گیا تھا اسلئے جہاں جہاں سے لوگ آئے تھے وہاں جا کر اُنہوں نے اس کلام کی منادی کی اور جب وہ مردوں میں زندہ ہوا تب اس کے معنی اُن پر کھلے یوں اُس کی الوہیت کے مکمل قائل ہو گئے۔ ZU 188.1

    روحانی تاریکی کے باعث نہ صرف یہودی بلکہ خود اُس کے شاگرد بھی اُس کلام کو نہ سمجھ سکے جو مسیح خداوند اُنہیں سکھانا چاہتا تھا۔ مگر بعد میں اُن پر بھید کھلے۔ خصوصاً جب وہ آسمان پر صعود فرما گیا تب اُن کے دلوں میں اُسکا وہ کلام تھا جو وہ پہلے نہ سمجھتے تھے، مگر اب اس کے گواہ تھے۔ ZU 188.2

    ہیکل کے بارے مسیح نے فرمایا “اس ہیکل کو ڈھا دو تو میں اسے تین دن میں کھڑا کر دوں گا” جو کچھ سامعین نے سنا اُس سے کہیں اُسکے گہرے معنی تھے۔ مسیح یسوع ہیکل کی روح رواں تھا۔ ہیکل کی قربانیاں خدا کے بیٹے کی قربانی کی علامت تھیں۔ کہانت اس لئے قائم کی گئی تاکہ وہ درمیانی کے طور پر مسیح کے کام کو ظاہر کرے۔ قربانیوں کا تمام سلسلہ دُنیا کے نجات دہندہ کی موت کی عکاسی کرتا تھا اور اگر اُس کی تکمیل نہ ہوتی تو یہ سب کچھ ناکافی تھا۔ ZU 188.3

    چنانچہ تمام مذہبی رسوم مسیح کی علامت تھیں اور مسیح کے بغیر یہ ناتمام اور بیکار تھیں۔ جب یہودیوں نے مسیح کو رد کر کے موت کے حوالے کر دیا تو یوں اُنہوں نے ہیکل کی تمام خدمات اور اُن کی اہمیت کو ٹھکرا دیا۔ اُس کی عزت و حُرمت جاتی رہی۔ اسے برباد کر دیا گیا۔ اُس وقت سے قربانیوں کا سلسلہ اور ہیکل سے متعلق تمام رسومات بے معنی ہوکر رہ گئیں۔ بالکل اُسی طرح جس طرح قائن کے ہدیوں میں نجات دہندہ پر ایمان کا اظہار نہیں پایا جاتا تھا۔ مسیح کو موت کے حوالی کرنے سے یہودیوں نے ہیکل کو برباد کیا۔ جب مسیح کو مصلوب کیا گیا تو ہیکل کا درمیانی پردہ اوپر سے لیکر نیچے تک پھٹ کر دو حصے ہو گیا جو کامل اور آخری قربای کو ظاہر کرتا تھا۔ یوں قربانیوں کا سلسلہ ہمیشہ کے لئے اختتام پذیر ہوا۔ ZU 188.4

    “تین دن میں میں اُسے کھڑا کر دوں گا” ایسے معلوم ہوتا تھا کہ نجات دہندہ کی موت تاریکی کی فوجوں کی فتح ہے۔ مگر مسیح نے قبر اور موت دونوں پر فتح پائی۔ “اُس نے حکومتوں اور اختیار والوں کو اپنے اُوپر سے اُتار کر اُن کا برملا تماشا بنایا اور صلیب کے سبب سے اُن پر فتح یابی کا شادیانہ بجایا” کلسیوں 15:2ZU 189.1

    اور مقدس اور اُس حقیقی خیمہ کا خادم ہے جسے خداوند نے کھڑا کیا ہے نہ کہ انسان نے “عبرانیوں 2:8ZU 189.2

    “یہودی ہیکل کو انسانوں نے برباد کیا اور انسانوں نے ہی اُسے تعمیر کیا تھا مگر آسمانی ہیکل کو جس کی زمینی ہیکل عکس یا پر تو تھی کسی انسان نے نہیں بنائی تھی۔ دیکھ وہ شخص جسکا نام شاخ ہے اُس کے زیر سایہ خوشحالی ہو گی اور وہ خدا وند کی ہیکل تعمیر کر ے گا۔ ہاں وہی خداوند کی ہیکل کو بنائے گا اور اور وہ صاحب شوکت ہو گا اور تخت نشین ہو کر حکومت کریگا اور اُس کے ساتھ کاہن بھی تخت نشین ہو گا اور دونوں میں صلح و سلامتی کی مشورت ہو گی۔ “زکریاہ 12:6-13 قربانیوں کا سلسلہ جو یسوع مسیح کی قربانی کی طرف اشارہ کرتا تھا وہ تو گذر گیا۔ مگر لوگوں کی نظریں دُنیا کے گناہ کی معافی کے لئے حقیقی قربانی کی طرف لگ گئیں۔ زمینی کہانت ختم ہو گئی مگر ہم یسوع کی طرف تکتے ہیں جو نئے عہد کا خادم ہے “اور نئے عہد کے درمیانی یسوع اور چھڑکاو کے اُس خون کے پاس آئے ہو جو بابل کے خون کی نسبت بہتر باتیں کہتا ہے” “جب تک پہلا خیمہ کھڑا ہے پاک مکان کی راہ ظاہر نہیں ہوئی۔ وہ خیمہ موجودہ زمانہ کے لئے ایک مثال ہے اور اسی کے مطابق ایسی نذریں اور قربانیاں گذرانی جاتی تھیں جو عبادت کرنے والے کو دل کے اعتبار سے کامل نہیں کر سکتیں۔ اسلئے کہ وہ صرف کھانے پینے اور طرح طرح کے غسلوں کی بنا پر جسمانی احکام ہیں جو اصلاح کے وقت تک مقرر کئے گئے ہیں۔ لیکن مسیح آئندہ کی اچھی چیزوں کا سردار کاہن ہر کر آیا تو اُس بزرگ تر اور کامل تر خیمہ کی راہ سے جو ہاتھوں کا بنا ہوا یععنی اس دُنیا کا نہیں اور بکروں اور بچھڑوں کا خون لے کر نہیں بلکہ اپنا ہی خون لے کر پاک مکان میں ایک ہی بار داخل ہو گیا اور ابدی خلاصی کرائی“عبرانیوں 24:12، 8:9-12 ZU 189.3

    “اسی لئے جو اُس کے وسیلہ سے خدا کے پاس آتے ہیں وہ انہیں پوری پوری نجات دے سکتا ہے کیونکہ وہ اُن کی شفاعت کے لئے ہمیشہ زندہ ہے “عبرانیوں 25:7 ZU 190.1

    گو کہانت زمینی ہیکل سے آسمانی ہیکل میں منتقل ہو گئی ہے۔ اور گو ہیکل اور سردار کاہن ہماری آنکھوں سے اوجھل ہے۔ اُس کے باوجود اُس کے پیروکاروں کو کوئی خسارہ نہیں ہوا کیونکہ اُن کی رفاقت یسوع کے ساتھ بدستور قائم ہے۔ وہ اپنی روح کے ذریعے زمینی کلیسیا کے ساتھ ہے۔ اُسکا وعدہ ہے کہ “میں ہمیشہ تمہارے ساتھ ہوں۔ وہ دُنیا کے آخر تک ہمارے ساتھ ہے “متی 20:28۔۔۔۔ وہ اپنی قوت چھوٹے سے چھوٹے خادم کو بھی عطا کرتا ہے۔ اور اسکی بھرپور معموری، کلیسیاء کے ساتھ ہے۔ “پس جب ہمارا ایک ایسا بڑا سردار کاہن ہے جو آسمانوں سے گذر گیا یعنی خدا کا بیٹا یسوع تو آو ہم اپنے اقرار پر قائم رہیں۔ کیونکہ ہمارا ایسا سردار کاہن نہیں جو ہماری کمزوریوں میں ہمارا ہمدرد نہ ہو سکے۔ بلکہ وہ سب باتوں میں بھاری طرح آزمایا گیا تو بھی بے گناہ رہا۔ پس آو ہم فضل کے تخت کے پاس دلیری سے چلیں تاکہ ہم پر رحم ہو اور وہ فضل حاصل کریں جو ضرورت کے وقت ہماری مدد کرے “عبرنیوں 14:4-16 ZU 190.2

    ****

    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents