Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents

زمانوں کی اُمنگ

 - Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First
    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents

    باب نمبر 28 - ”متی محصول لینے والا“

    فلسطین میں رومی حکومت کے افسران میں محصول لینے والوں کو حکومت کے دوسرے افسران کی نسبت حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ حقیقت یہ تھی کہ بدیشی حکومت نے یہودیوں پر محصول عائد کر رکھے تھے وہ یہودیوں کے لئے مسلسل عذاب بن چکے تھے۔ یہ جزیے اُنہیں تواتر سے یاد دلاتے رہتے تھے کہ وہ کوئی خود مختار قوم نہیں ہیں۔ محصول لینے والے رومی حکومت کے ہاتھ میں صرف آلہ کار ہی نہیں تھے کہ اُنہیں لوگوں سے جزیہ جمع کر کے دیں بلکہ وہ عوام پر جبر کر کے ‘خود کو مالدار بنانے کی غرض سے’ اُن سے مقررہ رقم سے زیادہ اینٹھ لیتے تھے۔ اور وہ یہودی جو محصول جمع کرنے کے عہدے کو قبول کر لیتے تھے۔ وہ یہودی قوم کی نظر میں غدر اور لفنگے خیال کئے جاتے تھے۔ نیز باقی یہودی قوم ان کے بارے سوچتی تھی کہ یہ اپنے مذہب سے منحرف ہو گئے ہیں۔ لہٰذا سوسائٹی اُنہیں پاجی کا درجہ دیتی تھیں۔ ZU 324.1

    متی اسی طبقہ سے تعلق رکھتا تھا۔ یسوع نے متی سے پہلے گینسرت کے علاقے سے چار اور شاگردوں کو بلایا تھا۔ متی کی بلاہٹ کان کے بعد ہونی۔ فریسی متی کو اُس کے پیشے کے لحاظ سے جانچتے اور پرکھتے تھے، جبکہ یسوع نے ان کے دل پر نظر کر کے دیکھا کہ اس کا دل سچائی کو قبول کرنے کے لئے تیار ہے۔ متی نے یسوع مسیح کی منادی سُنی تھی۔ اور جب خداوند کے روح نے اُسے اُس کی گناہ بھری زندگی کے بارے قائل کیا تو اُس نے یسوع کی مدد کی آرزو کی۔ تاہم وہ اس بات سے خائف ہوا کہ چونکہ شرع کے معلم اور فریسی خود کو نہائت مقدس سمجھتے ہیں اور دوسروں سے الگ تھلگ رہتے ہیں تو شائد یہ عظیم استاد بھی میری طرف متوجہ نہ ہو۔ ‘کیوں کہ متی، یسوع کو بھی فریسیوں اور شرع کے معلموں کی مانند ہی خیال کرتا تھا’ ZU 324.2

    ایک دن وہ محصول کی چوکی پر بیٹھا تھا اور اُس نے مسیح کو اپنی طرف آتے دیکھا۔ مگر اُس وقت اُس کی حیرانگی کی کوئی حد نہ رہی جب یسوع نے اُسے کہا “میرے پیچھے ہولے” متی فوراً سب کچھ چھوڑ کر یسوع کے پیچھے ہو لیا۔ نہ اُس نے کوئی سوال کیا نہ ہی کوئی ہچکچاہٹ، اور نہ ہی اُس نے پوچھا کہ یہ کام چھوڑ کر میں کیا کروں گا؟ بلکہ یسوع کے ساتھ ہونا ہی اُس کے لئے کافی تھا۔ کیوں کہ اب وہ یسوع کا کلام سُن سکتا اور اُس کے ساتھ ملکر کام کر سکتا تھا۔ جو شاگرد پہلے بُلائے گئے تھے اُن کو بھی کوئی وعدہ نہ دیا گیا۔ جب پطرس اور اُس کے ساتھیوں کو بُلایا گیا تو وہ اپنی کشتیوں اور جالوں کو چھوڑ کر فوراً اُس کے پیچھے ہو لئے۔ ان میں بعض ایسے شاگرد بھی تھے جن کے شانوں پر دوسروں کی کفالت کی ذمہ داری تھی۔ مگر جب یسوع نے اُنہیں دعوت دی تو وہ بغیر ہچکچاہٹ کے اُس کے پیچھے ہو لئے۔ اُنہوں نے بالکل نہ پوچھا کہ ہمارے خاندان اور ہم بغیر کام کے کیوں کر زندہ رہ سکیں گے؟ جب اُنہیں بلاہٹ دی گئی تو اُنہوں نے وفاداری دکھائی اور بعد میں جب یسوع نے اُن سے پوچھا” کہ جب میں نے تمہیں بٹوے اور جھولی اور جوتی بغیر بھیجا تھا تو کیا تم کسی چیز کے محتا ج رہے تھے؟ اُنہوں نے کہا کسی چیز کے نہیں ” لوقا 35:22 پطرس کی غربت اور متی کی امارت میں دونوں کے سامنے ایک جیسا امتحان تھا۔ دونوں کو ایک جیسی قربانی دینا پڑی۔ جس وقت مچھیروں کا جال مچھلیوں سے بھر پور تھا۔ دیرینہ زندگی کی اُمنگیں جوان اور ارفع تھیں۔ اُس وقت یسوع نے اُن شاگردوں کو بلایا کہ یہیں سب کچھ چھوڑ کر انجیل کی منادی سنبھالو۔ اسی طرح ہر روح کا امتحان لیا جاتا ہے۔ آیا اُس کی آرزو اس عارضی دُنیا کے لئے مضبوط ہے یا یسوع کی خدمت کرنے کے لئے؟ ZU 325.1

    اصول سب کے لئے یکساں ہے کہ جب تک کوئی بھی شخص خدا کی خدمت میں بدل و جان شمولیت نہیں کرے گا وہ کامیاب نہیں ہو سکتا۔ وہ شخص ہر گز خدا کی خدمت میں کامرانیاں حاصل نہیں کر سکتا جو یسوع مسیح کی خاطر اس دُنیا کی جاہ و حشمت کو کوڑا کرکٹ خیال نہیں کرتا۔ وہ شخص مسیح خداوند کا شاگرد ہو ہی نہیں سکتا جو کلی طور پر خود کو خدا کے حوالے نہیں کر دیتا۔ اگر وہ کچھ بچا رکھتا ہے تو وہ اُس کے کام کے لائق نہیں۔ جب انسان عظیم نجات کی قدر کریں گے تو وہ خود انکاری جو یسوع مسیح کی زندگی میں پائی جاتی تھی اُن کی زندگی میں بھی دیکھی جائے گی۔ پھر جہاں کہیں وہ اُنہیں لے جانا چاہے گا وہ بخوشی اُس کی پیروی کریں گے۔ ZU 326.1

    متی کو مسیح یسوع کا شاگرد بننے کے لئے جو بلاہٹ دی گئی اُس سے عوام میں غیض و غضب اور نفرت کی لہر دوڑ گئی۔ مذہبی رہنماوں کے نزدیک یسوع کا ایک محصول لینے والے کو قبول کرنا مذہب، سماج اور قومی رسوم کی اہانت کے مترادف تھی۔ اُنہوں نے عوام کو یسوع کے خلاف اُبھارے کی ازحد کوشش کی۔ اُن کا خیال تھا کہ عوام یسوع کو یکسر رد کر دیں گے۔ ZU 326.2

    محصول لینے والوں کے دلوں میں یسوع کے لئے بڑی جگہ بن گئی۔ اُن کے دل الہی معلم کی طرف کھنچ گئے۔ اسی خوشی میں متی اپنے تمام پُرانے دوستوں اور کار گذاروں کو یسوع کے قدموں میں لانا چاہتا تھا۔ اس مقصد کے لئے اُس نے اپنے گھر پر ایک بہت بڑی ضیافت کا اہتمام کیا جہاں اُس نے اپنے دوست و احباب اور رشتہ داروں کو مدعو کیا۔ یہاں صرف محصول لینے والے ہی نہ تھے بلکہ اُس نے اُن کو بھی بلایا جن کو عوام مشتبہ نگاہوں سے دیکھتے تھے۔ZU 327.1

    یہ ضیافت یسوع کے اعزاز میں دی گئی۔ اُس نے بغیر ہچکچاہٹ اس دعوت کو قبول کر لیا۔ اُسے اچھی طرح معلوم تھا کہ فریسیوں کی اس سے دل آزاری ہو گی۔ یسوع مہمان خصوصی کی حیثیت سے محصول لینے والے کی ضیافت میں تشریف فرما ہوا۔ اپنی غمگساری اور وہاں موجود لوگوں سے میل جول کے ذریعے اُس نے تاثر دیا کہ وہ ہر ایک کو پیار کرتا ہے۔ اور اُسے سب کی قدر ہے۔ اُن کے پیاسے دلوں پر اُس کا کلام برکت بن کر گرا۔ جن کو معاشرے نے دھتکار رکھا تھا اُن میں نئی زندگی کی اُمید اُجاگر ہو گئی۔ ZU 327.2

    یہاں اس ضیافت میں بہتیرے ایسے لوگ تھے جو مسیح یسوع کے آسمان پر صعود فرمانے سے پہلے اُس کی تعلیم سے قائل نہ ہوئے۔ جب روح القدس کا نزول ہوا ور ایک دن میں تین ہزار کے قریب مسیح کے قدموں میں آگئے تھے اُن میں بیشتر ایسے تھے جنہوں نے محصول لینے والے کی میز سے پہلی بار مسیح کی مبارک زبان سے صداقت کا کلام سنا۔ اُن میں متی محصول لینے والا اور اُس کے کئی دوسرے جانثار دوست انجیل کے پیامبر اور مبشر بنے۔ اور عمر بھر اپنے آقا کے نقش قدم پر چلتے رہے۔ ZU 327.3

    جب شرع کے معلموں کو پتہ چلا کہ یسوع متی محصول لینے والے کی ضیافت میں موجود ہے۔ تو یسوع پر الزام لگانے کا اُنہیں اچھا موقع ہاتھ لگا۔ مگر اُس کام کو انجام دینے کے لیے انہوں نے شاگردوں کا انتخاب کیا۔ وہ خیال کرتے تھے کہ اگر ہم شاگردوں کو اُبھاریں گے، اُن کی غیرت کو للکاریں گے تو وہ ضرور اپنے آقا کو ترک کر دیں گے۔ اُن کی چال یہ تھی کہ ہم شاگردوں کو مورد الزام ٹھہرائیں گے۔ اس کے عوض شاگرد یسوع کو الزام دیں گے۔ ابلیس کا ہمیشہ وے یہی طریقہ واردات رہا ہے۔ چنانچہ ربیوں نے شاگردوں سے پوچھا “تمہارا اُستاد محصول لینے والوں اور گنہگاروں کے ساتھ کیوں کھاتا ہے” ؟ یسوع نے شاگردوں کے جواب دینے سے پہلے خود فرمایا “تندرستوں کو طبیب درکار نہیں بلکہ بیماروں کو “مگر تم جا کر اس کے معنی دریافت کرو کہ میں قربانی نہیں بلکہ رحم پسند کرتا ہوں کیونکہ میں راستبازوں کو نہیں بلکہ گنہگاروں کو بلانے آیا ہوں۔ متی 12:9-13 ZU 328.1

    فریسی دعوےٰ کرتے تھے کہ وہ خود پاک، تندرست سلامت ہیں اسلئے اُنہیں طبیب کی ضرورت نہیں۔ جب کہ وہ غیر اقوام اور محصول لینے والوں کو گنہگار سمجھتے تھے۔ فریسوں کے خیال کے مطابق گنہگاروں کی روح بیمار زدہ ہے۔ تو پھر ایک طبیب ہونے کی حیثیت سے کیا اُسکا کام نہیں تھا کہ وہ حاجت مندوں کے پاس جائے؟ZU 328.2

    بیشک فریسی یہ خیال کرتے تھے کہ ہم دوسرے تمام لوگوں سے بہتر ہیں مگر حقیقت یہ تھی کہ اُن کی حالت اُن غیر قوم والوں اور محصول لینے والوں سے کہیں بدتر تھی جن کو یہ رد کر چکے تھے۔ چونکہ محصول لینے والے فریسیوں کی نسبت کم متعصب اور ہٹ دھرم تھے۔ اسلئے فریسی سچائی کو قبول کرنے کو تیار نہ تھے۔ پس یسوع نے اُن پر واضح کرنا چاہا کہ بیشک خدا کا پاک کلام تمہارے پاس ہے مگر تم اُس کی روح سے کُلی طور پر ناواقف ہو۔ اس پر فریسی وقتی طور پر خاموش ہو گئے مگر اُن کی دشمنی یسوع کے ساتھ مزید بڑھ گئی۔ اس بار اُنہوں نے یوحنا بپتسمہ دینے والے کے شاگردوں کو یسوع مسیح کے خلاف بھڑکایا۔ ان فریسیوں نے یوحنا کے مشن کو قبول نہیں کیا تھا۔ بلکہ اُس کی سادہ عادات پرہیز گاری کی زندگی اور موٹے کھردرے کپڑوں کی وجہ سے اُسکا مذاق اُڑایا تھا۔ کیوں کہ اُس نے اُنہیں ریاکار کہا تھا۔ اسلئے اُنہوں نے اُس کی منادی کی مخالفت کی تھی۔ اور چاہا کہ لوگوں کو اُس کے خلاف اشتعال دیں۔ تاہم ٹھٹھا اُڑانے والوں کے دلوں کو روح القدس نے تحریک دی اور وہ اپنے گناہوں کے لئے قائل ہوئے مگر فریسیوں نے خدا کی مشورت کو ٹھکرا دیا اور اعلانیہ کہنے لگے کہ یوحنا میں بد روح ہے۔ ZU 328.3

    اب جب یسوع لوگوں کے ساتھ ملتا جُلتا اور اُن کے ساتھ کھاتا پیتا تھا۔ تو یہی فریسی کہنے لگے کہ یہ کھاو اور شرابی ہے اور خود اپنے منہ کے کلام سے قصوروار ٹھہرے۔ جیسے ابلیس نورانی فرشتوں کا روپ دھار کر خدا کی غلط نمائندگی کرتا ہے اُسی طرح خدا کے پیامبروں کی ان جھوٹے لوگوں نے نمائندگی کی۔ ZU 329.1

    فریسی اس بات کو بھول رہے تھے کہ مسیح یسوع گنہگاروں اور محصول لینے والوں کے ساتھ اسلئے کھاتا پیتا ہے تاکہ جو ظلمت کے سایہ میں بیٹھے ہیں اُنہیں آسمانی نور سے منور کرے۔ وہ یہ دیکھ ہی نہیں رہے تھے کہ یسوع مسیح کے لبوں سے نکلا ہوا ہر لفظ بیج کی مانند ہے جو بڑھ کر خدا کے جلال کے لئے پھلدار ثابت ہو گا۔ اس لئے فریسیوں نے ارادہ کر لیا تھا کہ وہ نور کو قبول نہیں کریں گے۔ اگرچہ اُنہوں نے یوحنا کے مشن کی مخالفت کی تھی مگر اب وہ اُس کے شاگردوں کی دوستی کے خواہاں تھے تاکہ اُن کے ساتھ مل کر یسوع کی مخالفت کریں۔ یہاں انہوں نے یہ موقف اختیار کیا کہ یوحنا اور اُس کے شاگرد محصول لینے والوں اور گنہگاروں کے ساتھ نہیں کھاتے پیتے اس لئے کہ یوحنا مقدس شخص ہے مگر تم قدیم نبیوں کی روائتوں کو توڑتے ہو۔ ZU 329.2

    یوحنا کے شاگرد اس وقت سخت دلگیر تھے۔ یہ اس سے پہلے کی بات ہے جب یوحنا نے اپنے شاگردون کو یسوع کے لئے پیغام دے کر بھیجا تھا۔ اُن کا پیارا اُستاد جیل میں تھا۔ اُنہوں نے یہ دن آہ و نالہ میں بسر کیا تھا۔ مسیح اُسے چھڑانے کی کوئی کوشش بھی نہیں کر رہا تھا۔ اور ایسے معلوم ہوتا تھا جیسے وہ یوحنا کی تعلیم کے مخالف ہو۔ اُن کے دل میں یہ خیال پیدا ہوتا تھا کہ اگر یوحنا خدا کی طرف سے بھیجا گیا تھا تو یسوع مسیح اور اُس کے شاگردوں کا کام یوحنا سے کیونکر علیحدہ ہو سکتا ہے؟ZU 330.1

    یوحنا کے شاگرد یسوع کے مشن کو صفائی سے نہ سمجھتے تھے۔ وہ گمان کرتے تھے کہ فریسیوں نے جو الزامات یسوع پر لگا رکھے ہیں ضرور اُن کی کوئی بنیاد ہو گی۔ ربیوں نے اُنہیں کسی قانون اور ضابطے بتائے۔ ایسے معلوم ہوتا تھا جیسے وہ عین شریعت کے موافق ہیں۔ مثال کے طور پر فریسیوں کے شاگرد ہفتہ میں ایک بار روزہ رکھتے تھے اور یہ نیکی اور بھلائی کا کام تھا۔ بلکہ اُن میں بعض لوگ ایسے بھی تھے جو ہفتہ میں دو بار روزہ رکھتے تھے۔ یوحنا کے شاگرد بھی ایسا ہی کرتے تھے۔ “اُنہوں نے اُس سے کہا کہ یوحنا کے شاگرد اکثر روزہ رکھتے اور دُعائیں کیا کرتے ہیں۔ اور اسی طرح فریسوں کے بھی مگر تیرے شاگرد کھاتے پیتے ہیں” لوقا 33:5 ZU 330.2

    خداوند یسوع مسیح نے اُنہیں بڑی دانشمندی اور نرم مزاجی سے جواب دیا۔ اُس نے اُن کے ناروا روزے کی منطق کی دُرستی کرنے کی بجائے اُنہیں اپنے مشن کے بارے آگاہ کیا۔ اور اُس نے یوحنا کی وہی مثال استعمال کی جو یوحنا نے مسیح کے بارے کی تھی۔ “جس کی دُلہن ہے وہ دُلہا ہے مگر دُلہا کا دوست جو کھڑا ہوا اُس کی سنتا ہے دُلہا کی آواز سے بہت خوش ہوتا ہے۔ پس میری یہ خوشی پوری ہو گئی” یوحنا 29:3۔۔۔ یوحنا کے شاگرد اپنے آقا کے اس کلام سے اچھی طر واقف تھے۔۔۔ اس لئے یسوع نے مزید فرمایا “کیا تم براتیوں سے جب تک دُلہا اُن کے ساتھ ہے روزہ رکھو سکتے ہو“؟ZU 330.3

    آسمانی شہزادہ اپنے لوگوں کے ساتھ تھا۔ خدا نے یہ سب سے بڑی بخشش دنیا کو عطا کی تھی۔ اور یہ غیریبوں کے لئے خوشی کا مقام تھا کیونکہ یسوع اُنہیں اپنی بادشاہی کا وارث بنانے آیا تھا۔ امیروں کے لئے اسلئے خوشی کا مقام تھا کیونکہ وہ آیا تاکہ اُنہیں سکھائے کہ ابدی دولت کو کس طرح محفوظ کر نا ہے۔ تعلیم یافتگان کے لئے اسلئے خوشی کا مقام تھا کہ وہ آیا تا کہ وہ صداقتیں جو بنائی عالم سے سے پیشتر کی تھیں اپں پر سے پردہ اُٹھائے۔ ZU 331.1

    یوحنا بپتسمہ دینے والا یسوع کو دیکھ کر خوش ہوا۔ اُن شاگردوں کی خوشی کا کیا مقام ہو گا جن کو یہ شرف حاصل ہوا کہ متجی دوجہاں کے ساتھ ساتھ چلیں۔ لہٰذا اُن کے لئے ضروری نہیں تھا کہ وہ روزہ رکھتے اور ماتم کرتے۔ اُنہیں تو یسوع کے نور سے اپنے دلوں کو منور کرنا تھا تاکہ جو موت کے سایہ کی وادی میں بیٹھے ہیں اُنہیں منور کر سکیں۔ اس روشن پہلو کے ساتھ یسوع نے صلیب کے سائے کو بھی اُن پر آشکارہ کر دیا “میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ تم تو روو گے اور ماتم کر و گے مگر دُنیا خوش ہو گی۔ تم غمگین تو ہو گے لیکن تمہارا غم ہی خوشی بن جائے گا” یوحنا 20:16 ZU 331.2

    اب وہ زندہ ہو گا اُن کی خوشی دوبالا ہو گی۔ اور جب وہ صعود فرما جائے گا یہ تنہا رہ جائیں گے مگر روح القدس کے ذریعے وہ اُن کے ساتھ ہو گا اسلئے وہ ماتم نہ کریں گے۔ ابلیس کی یہی خواہش تھی کہ وہ دُنیا کو تاثر دے کہ اُن سے دھوکا ہوا ہے۔ مگر اُنہیں ایمان کے ذریعے اُوپر ہیکل کو دیکھنا تھا جہاں اُن کی خاطر مسیح خدمت انجام دے رہا ہے۔ اُنہیں صرف روح القدس پانے کے لئے اپنے دلوں کو وار رکھنا تھا۔ ابھی وقت آنے والا تھا جب اُنہیں آزمائشوں کا مقابلہ کر نا تھا۔ اور اُنہیں حاکموں اور عدالت والوں کے سامنے پیش ہونا تھا۔ جب یسوع مسیح اُنکے ساتھ نہ تھا اور اُنہیں دوسرا مددگار روح القدس بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا تو یہ وہ وقت تھا جب اُن کے لئے روزہ رکھنا اور ماتم کرنا مناسب تھا۔۔۔۔ZU 331.3

    “دیکھو تم اس مقصد سے روزہ رکھتے ہو کہ جھگڑا رگڑا کرو اور شرارت کے مُکے مارو ، پس اب تم اس طرح کو روزہ نہیں رکھتے ہو کہ تمہاری آواز عالم بالا پر سُنی جائے۔ کیا یہ وہ روزہ ہے جو مجھکو پسند ہے؟ ایسا دن کہ اُس میں آدمی اپنی جان کو دکھ دے اور اپنے سر کو جھاو کی طرح جھکائے اور اپنے نیچے ٹاٹ اور راکھ بچھائے؟ کیا تو اس کو روزہ اور ایسا دن کہے گا جو خداوند کا مقبول ہو“؟ یسعیاہ 5:58-6ZU 332.1

    حقیقی روزہ محض رسمی تو نہیں ہوتا کتاب مقدس بیان کرتی ہے کہ خداوند لے کس طرح کے روزے کا انتخاب کیا” کیا وہ روزہ جو میں چاہتا ہوں یہ نہیں کہ ظلم کی زنجیریں توڑیں اور جوئے کے بندھن کھولیں اور مظلوموں کو آزاد کریں۔ بلکہ ہر ایک جوئے کو توڑ ڈالیں؟ اگر تو اپنے دل کو بھوکے کی طرف مائل کرے اور آزردہ دل کو آسودہ کرے تو تیرا نور تاریکی میں چمکے گا اور تیری تیرگی دوپہر کی مانند ہو جائے گی“یسعیاہ 6:58-10 یہ خداوند یسوع کے کام کی روح ہے جو وہ کرتا تھا۔ اُس کی پوری جان دُنیا کو بچانے کے لئے بطور قربانی تھی خواہ بیابان میں روزہ کی حالت ہو، خواہ متی کے گھر ضیافت کا موقع، دونوں صورتوں میں وہ اپنی زندگی کو اُن کے لئے قربان کرتا ہے جو کھو چکے ہیں۔ محض بدن کو دُکھ دینے یا ماتم کرنے کا نام روزہ نہیں بلکہ جانثاری اور بہ رضا و رغبت اپنے آپ کو خداوند کے مطیع کرنے کا نام روزہ ہے۔ ZU 332.2

    یوحنا کے شاگردوں کو جواب دینے کے دوران اُس نے اُنہیں ایک تمثیل سُنائی کہ “کوئی آدمی نئی پوشاک میں سے پھاڑ کر پرانی پوشاک میں پیوند نہیں لگا تا ورنہ نئی بھی پھٹے گی اور اُس کا پیوند پرانی میں میل بھی نہ کھائے گا۔ لوقا 26:5 ZU 333.1

    یوحنا بپتسمہ دینے والے کے پیغام کو پرانی روایات اور توہمات کے ساتھ اکٹھے نہیں جانا تھا۔ فریسوں کی روایات اور رسوم کو یوحنا کے پیغام کے ساتھ ملانے کی کوشش بے سود تھی۔ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ میل کیوں کر کھا سکتی تھیں۔ ZU 333.2

    اس طرح مسیح یسوع کی تعلیم کے اصولات فریسیوں کی تعلیم کے ساتھ میل نہیں کھا سکتے۔ جو تعلیم یوحنا نے دی وہ یسوع کی تعلیم کے متضاد نہیں ہو سکتی تھی۔ یسوع نے اسی طرح ایک اور تمثیل پیش کی۔ “کوئی شخص نئی مے پرانی مشکوں میں نہیں بھرتا۔ نہیں تو نئی مے مشکوں کو پھاڑ کر خود بھی بہہ جائے گی اور مشکیں بھی برباد ہو جائیں گی۔ بلکہ نئی مے نئی مشکوں میں بھرنا چاہیے” لوقا 27:5-39 وہ مشکیں جن میں نئی مے رکھی جاتی تھی وہ تھوڑے عرصہ کے بعد پرانی خشک اور خستہ ہو جاتی تھیں ۔ اسلئے دوبارہ اُنہیں اُسی مقصد کے لئے استعمال نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس تمثیل کے ذریعے مسیح نے یہودی لیڈروں کی حالت کی نشاندہی کی تھی۔ یہودی لیڈرز، حاکم، کاہن اور فریسی مدتوں سے ایک جیسی رسموں اور روائتوں کے عادی ہو چکے تھے۔ اُن کے دل خشک مشکوں کی طرح سکڑ چکے تھے۔ جتنی دیر تک وہ پرانے مذہب پر تسلی پذیر تھے اُنہیں آسمانی صداقتیں ودیعت نہیں کی جا سکتی تھیں۔ وہ سمجھتے تھے کہ ہماری اپنی راستبازی کافی ہے۔ وہ کسی نئے عنصر کو اپنے مذہب میں داخل ہونے کی ہرگز اجازت نہ دیتے تھے۔ ZU 333.3

    بلکہ فریسی خود کو سب لوگوں سے زیادہ دانشمند سمجھتے تھے۔ اور وہ سوچتے تھے کہ اُنہیں کسی طرح کی ہدائت کی ضرورت نہیں۔ اُن کا یہ بھی خیال تھا کہ وہ اتنے راستباز ہیں کہ اُنہیں نجا ت کی فکر نہیں۔ اور اُن کا خیال تھا کہ وہ اتنے با عزت ہیں۔ کہ اُنہیں مسیح سے آبرو حاصل کرنے کی ضرورت نہیں۔ اسلئے مسیح اُن کو چھوڑ کر اُن کے پاس گیا جو خدا کا کلام سننے کے لئے تیار تھے۔ وہ بے علم مچھیروں، گنہگار محصول لینے والوں کے پاس گیا۔ وہ عوام کے پاس مارکیٹ جیسی عام جگہوں پر گیا تو خوشی سے اُس کی سننے کو تیار تھے۔ اُس نے اپنی نئی مے کے لئے نئی مشکوں کو پا لیا۔ اُنہی کے ذریعے اُس نے نجات کا پیغام دُنیا میں پھیلایا۔ اگر خدا کے فضل سے یسوع کے لوگ نئی مشکیں بن جائیں تو وہ اُنہیں نئی مے سے لبریز کرنے پر قادر ہے۔ اگرچہ یسوع مسیح کی تعلیم کو نئی تعلیم کو نئی تعلیم کے طور پر پیش کیا گیا ہے تاہم یہ نئی تعلیم نہ تھی بلکہ یہ وہ مکاشفہ تھا جس کی تعلیم ابتدا سے دی جا رہی تھی۔ مگر فریسیوں کے نزدیک خدا کی صداقت اپنی حقیقی خوبصورتی اور اہمیت کھو چکی تھی۔ اُن کے نزدیک یسوع مسیح کی تعلیم ہر پہلو سے نئی تھی۔ وہ اُسے بالکل نہ پہنچانتے تھے۔ اسلئے اُنہوں نے اسے تسلیم نہ کیا۔ مسیح یسوع نے جھوٹی تعلیم کی طاقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا۔ کہ وہ صداقت کو تباہ کر دیتی ہے۔ “کوئی آدمی پرانی مے پی کر نءی کی خواہش نہیں کرتا کیونکہ کہتا ہے کہ پرانی ہی اچھی ہے ” 39:5 لوقا ۔ ۔۔۔ آبائی بزرگ و انبیاء کے ذریعے سے جو سچائی دنیا کو دی گئی اُس کو نئی خوبصورتی کے ساتھ یسوع نے اپنی تعلیم میں پیش کیا۔ مگر فقیہ فریسی نئی خوش ذائقہ اور بے قیمت مے کی خواہش نہ رکھتے تھے۔ ظاہر ہے جب تک وہ اپنے ذہن و دماغ کو پرانی روائتوں اور حکائتوں سے پاک نہ کرتے مسیح کی تعلیم کو کہاں جگہ دیتے؟ اسلئے وہ پرانی مذہبی رسوم سے چمٹے رہے اور خدا کی قدرت اور زندہ سچائی کو ٹھکرا دیا۔ ZU 334.1

    شریعت پر مبنی مذہب کسی کو بھی مسیح تک نہیں پہنچا سکتا۔ کیونکہ ایسا مذہب محبت اور مسیح سے خالی ہوتا ہے۔ روزہ یا دعا جو اپنے آپ کو راستباز ٹھہرانے کے لئے کی جاتی ہے خدا کی نظر میں نفرت انگیز ہے۔ ہم اپنے کاموں سے نجات نہیں پا سکتے جیسے مسیح کے زمانہ میں تھا آج بھی کم و بیش ویسا ہی ہے۔ فریسی اپنی روحانی خستہ حالی سے ناواقف تھے اسلئے اُنہیں پیغام ملتا ہے “چونکہ تو کہتا ہے کہ میں دولت مند ہوں اور مال دار بن گیا ہوں اور کسی چیز کا محتاج نہیں اور یہ نہیں جانتا کہ تو کمبخت اور خوار اور غریب اور اندھا اور ننگا ہے۔ اسلئے میں تجھے صلاح دیتا ہوں کہ مجھ سے آگ میں تپایا ہوا سونا خرید لے تاکہ دولت مند ہو جائے اور سفید پوشاک لے تاکہ تو اُسے پہن کر ننگے پن کے ظاہر ہونے کی شرمندگی نہ اُٹھائے” مکاشفہ 17:3-18 ۔۔۔ ایمان اور محبت وہ سونا ہے جو آگ میں تپایا گیا ہے۔ مگر بعض اسے کھو بیٹھے ہیں۔ اُس کی چمک دمک ختم ہو گئی ہے۔ یسوع مسیح کی راستبازی اُن کے لئے ایسا لباس ہے جسے وہ نہیں پہنتے۔ ایسوں کے لئے کہا گیا ہے “مجھ کو تجھ سے یہ شکائت ہے کہ تو نے اپنی پہلی سی محبت چھوڑ دی۔ پس خیال کر کہ تو کہاں سے گرا ہے۔ اور توبہ کر کے پہلے کی طرح کام کر اور اگر تو توبہ نہ کرے گا تو میں تیرے پاس آکر تیرے چراغ دان کو اُس کی جگہ سے ہٹا دوں گا۔ “مکاشفہ 4:2-5 ZU 335.1

    “شکستہ روح خدا کی قربانی ہے۔ اے خدا تو شکستہ اور خستہ کو حقیر نہ جانے گا” زبور 17:51ZU 335.2

    اس سے پہلے کہ انسان خدا کی راستبازی سے معمور ہو اُسے خود کو خالی کرنا ہو گا۔ جب انسان خود انکاری کرتا ہے۔ تو خدا اُسے نیا مخلوق بنا دیتا ہے۔ نئی مشکوں میں نئی مے بھری جاتی ہے۔ خدا کی محبت ایماندار میں نئی زندگی بخشتی ہے۔ جو خالق خدا وند کی طرف تکتا رہتا ہے جو ہمارے ایمان کا بانی اور کامل کرنے والا ہے اُس میں یسوع کی سیرت دیکھی جا سکتی ہے۔ ZU 336.1

    ****ZU 336.2

    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents