Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents

زمانوں کی اُمنگ

 - Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First
    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents

    باب نمبر 39 - ”تم ہی ان کو کھانے کو دو“

    مسیح خداوند اپنے شاگردوں کے ساتھ ویران جگہ میں سکوںن کے لئے پہنچا۔ مگر سکون جلد ختم ہو گیا۔ شاگردوں نے تو سوچا تھا کہ وہ اب ایسی جگہ پر آگئے ہیں جہاں اُنہیں کوئی پریشان نہ کرے گا۔ مگر جب بھیڑ کو یسوع مسیح ‘الہی معلم’ ادھر ادھر ڈھونڈنے کے باوجود نہ ملا تو اُنہوں نے پوچھا” وہ کہاں ہے؟ بعض کو معلوم تھا کہ یسوع اور اُس کے شاگرد کس طرف گئے تھے۔ چنانچہ بعض اُس سے ملنے کے لئے پیدل ہی روانہ ہو گئے۔ عید فسح نزدیک تھی اسلئے دور و نزدیک سے لوگ جوق در جوق یروشیلم میں یسوع کو دیکھنے کے لئے جمع ہوتے گئے۔ بچوں اور عورتوں کے علاوہ یہ گروہ کوئی پانچ ہزار مردوں پر مشتمل تھا۔ اس سے پہلے کہ یسوع شاگردوں سمیت اگلے کنارے پہنچتا بھیڑ وہاں موجود تھی۔ مگر یسوع اُن کی نظروں سے بچ کر تھوڑی دیر کے لئے اپنی جائے مقصود پر جا پہنچا اور وہاں شاگردوں کے ساتھ تھوڑی دیر آرام کیا۔ ZU 447.1

    جب اُس نے پہاڑی کے پشتہ پر سے بھیڑ کو آتے دیکھا تو اُس کو اُن پر ترس آیا۔ گو یہ لوگ اُس کے آرام میں مخل ہونے کو تھے مگر اُن کو دیکھ کر وہ نہ پریشان ہوا نہ صبر کو ہاتھ سے جانے دیا۔ بلکہ اُن کو اپنی طرف آتے دیکھ کر محسوس کیا کہ ان کو میری کتنی توجہ کی ضرورت ہے۔ “اُسے اُن پر ترس آیا کیوں کہ وہ اُن بھیڑوں کی مانند تھے جنکا چرواہا نہ ہو” مرقس 43:6۔۔۔۔ اس لئے یسوع خلوت گاہ کو چھوڑ کر ایسی جگہ آ گیا جہاں وہ اُس بھیڑ کی خدمت کر سکتا تھا۔ ان بے سہاروں کا کاہنوں اور حاکموں سے کوئی مدد نہ ملی تھی۔ جب یسوع نے اُنہیں نجات کی راہ سکھائی تو اُن پیاسوں کو یسوع سے زندگی کی شفا کا پانی ملا۔ لوگوں نے یسوع کے مبارک لبوں سے رحم کا کلام سنا جو پُر فضل اور بڑا سادہ تھا۔ بلکہ اُن کی زخمی روحوں کے لئے جلعاد کے مرہم سے کم نہ تھا۔ اُسکا شفا بخشنے والا الہی ہاتھ قریب المرگ لوگوں کے لئے زندگی اور خوشی لایا۔ اور جو طرح طرح کی بیماریوں کے ہاتھوں نالاں تھے اُنہیں سکھ اور آرام پہنچایا۔ اُن کے لئے یہ دن کھائے پیئے بغیر بھی ایسا تھا جیسے زمین پر بہشت۔ اُنہیں احساس تک نہ ہوا کہ کتنا وقت گذر گیا ہے۔ لوگ کلام سننے اور شفا پانے میں اتنے مگن تھے کہ کسی نے نہ کچھ کھایا نہ پیا۔ یہاں تک کہ سورج غروب ہونے لگا مگر بھیڑ یسوع کو چھوڑنے کا نام نہ لیتی تھی۔ خداوند یسوع مسیح نے بغیر آرام کئے اور کھائے پئے سارا دن خدمت کی۔ وہ بھوک اور تھکاوٹ سے نڈھال ہو گیا تھا۔ شاگرد چاہتے تھے کہ وہ اب کام بند کر دے مگر وہ اُس بھیڑ کو چھوڑ کر نہیں جا سکتا تھا جو اُس کی مدد کے لئے آچکی تھی۔ ZU 447.2

    آخر کار شاگرد یسوع کے پاس آئے اور منت کر کے کہنے لگے کہ اب لوگوں کو رُخصت کرے۔ بعض ایک تو دُور دراز کا سفر طے کر کے یہاں پہنچے ہیں اور اُنہوں نے صبح سے کچھ نہیں کھایا پیا۔ ان کو اب بھیج دے تاکہ ارد گرد کے گاوں سے وہ کھانا خرید کر کھا سکیں۔ مگر یسوع مسیح نے اُن کو فرمایا “تم ہی ان کو کھانے کو دو۔” ZU 448.1

    پھر یسوع نے مڑ کر فلپس سے پوچھا کہ ہم ان کے لئے کہاں سے روٹی لائیں تاکہ یہ کھائیں؟ یہ سوال یسوع نے فلپس کے ایمان کی آزمائش کے لئے پوچھا تھا۔ فلپس نے اتنی بڑی بھیڑ کو دیکھ کر کہا کہ دو سو دینار کی روٹیاں بھی ان سب کے لئے کافی نہ ہوں گی۔ پھر یسوع نے پوچھا کیا یہاں کسی کے پاس کوئی کھانا ہے؟ اندریاس نے کہا یہاں ایک لڑکا ہے جس کے پاس جو کی پانچ روٹیاں ہیں۔ یسوع نے حکم دیا کہ وہ پانچ روٹیاں اور دو مچھلیاں میرے پاس لاو۔ پھر یسوع نے شاگردوں کو حکم دیا کہ ان کو پچاس پچاس اور سو سو کی ٹولیوں میں کر کے گھاس پر بٹھا دیں۔ جب یہ ہو گیا تو یسوع نے کھانے کو لیا۔ اور آسمان کی طرف دیکھ کر برکت دی اور اُسے توڑا۔ اور روٹیاں شاگردوں کو دیتا گیا اور شاگرد لوگوں میں تقسیم کرتے گئے۔ اُنہوں نے کھایا اور سب سیر ہو گئے۔ اور بچے ہوئے ٹکڑوں کی بارہ ٹوکریں اُٹھائی گئیں۔ وہ جس نے لوگوں کو سکھایا کہ اُنہیں کس طرح اطمینان اور خوشی حاصل کرنا ہے۔ اُسے اُن کی عارضی جسمانی اور روحانی حاجتوں کا خیال تھا۔ لوگ تھکے ماندے اور پریشان تھے۔ وہاں ایسی خواتین بھی موجود تھیں جن کی گود میں بچے تھے اور بعض بچے ماوں کا دامن تھامے وہاں گھنٹوں سے کھڑے تھے۔ وہ یسوع کی باتوں میں اتنے مگن تھے کہ اُنہوں نے تھوڑی دیر کے لئے بھی بیٹھنے کا خیال نہ کیا۔ نیز اس بات کا بھی خطرہ لاحق تھا کہ کہیں یہ لوگ رخصت ہوتے وقت جلدی میں ایک دوسرے کو کچل نہ دیں کیونکہ یہ بہت بڑا ہجوم تھا۔ چنانچہ یسوع نے اُنہیں یہ کہہ کر کہ “بیٹھ جاو” آرام کا موقعہ دیا۔ وہاں کافی گھاس تھی لہذا سب ہی آرام کر سکتے تھے۔ ZU 448.2

    حقیقی اور اشد ضرورت کے پیش نظر ہی یسوع نے معجزات دکھائے۔ نیز اُس کا منشا ہوتا تھا کہ معجزے سے لوگوں کو زندگی کے درخت کے پاس لائے۔ جس کے پتوں میں قوموں کے لئے شفا ہے شاگردوں کے ذریعے لوگوں تک سادہ سا کھانا پہنچانے میں بڑا سبق پنہاں ہے۔ گلیل کے لوگوں کے لئے جو کی روٹی اور مچھلیاں روز مرہ کی سادہ غذا تھی۔ خداوند مسیح اُن کے لئے کوئی اور مرُغن اور لذیذ کھانا بھی مہیا کر سکتا تھا۔ مگر اُس میں ایسا سبق موجود نہ ہوتا جو اس سادہ غذا کے ذریعے یسوع اپنے حاضرین کو سکھانا چاہتا تھا۔ ZU 449.1

    اگر آج لوگوں کی عادات سادہ ہوں اور فطرت کے تقاضوں کے مطابق زندگی بسر کریں جیسے ابتدا میں آدم اور حوا زندگی بسر کرتے تھے تو آج ہر ایک کے لئے بہتات سے خوراک ہو۔ مگر خود غرضی اور ناروا کھانوں کی رغبت نے دُنیا پر دُکھوں کی بارش کر دی ہے۔ کوئی تو فاقوں مر رہا ہے اور کوئی گھی شکر کے تیار حلوے میں بھی کیڑے نکالتا ہے۔ غریب تو غریب تر ہوتے جا رہے ہیں جبکہ امیر، امیر تر۔ پانچ ہزار کو کھلانے سے خداوند مسیح نے فطرت کی دُنیا سے پردہ اُٹھایا۔ اور اُس قدرت کوظاہر کیا جو ہماری بہتری کے لئے تواتر سے کام کرتی رہتی ہے۔ زمین سے فصل تیار کرنا یہ خدا کا روز مرہ کا معجزہ ہے۔ فطرت کے نمائندگان کے ذریعے جو خدمت لی جاتی ہے بھیڑ کو کھانا کھلانے سے وہی مقاصد حاصل کئے گئے۔ انسان زمین کو تیار کرتے اور بیج بوتے ہیں مگر جو بیج کو اُگنے اور بڑھنے میں مدد کرتی ہے وہ زندگی خدا سے صادر ہوتی ہے۔ یہ دھوپ بارش اور ہوا ہے جو زمین کی پیداوار سے کروڑوں کو آسودہ کرتے ہیں۔ انسان تو محض اُس کے ہمخدمت ہیں۔ مگر انسان بھول جاتا ہے کہ یہ خداوند ہے جو سب کچھ پیدا کرتا ہے۔ یوں انسان خدا کو جلال نہیں دیتا۔ اور یہ ساری تعظیم انسان کو دے کر اپنی خود غرضی کے لئے استعمال کرتا ہےیوں خدا کی یہ برکت اُن کے لئے لعنت کا باعث بن جاتی ہے۔ خداوند چاہتا ہے کہ ہم اُس کی نعمتوں کو پہچانیں۔ انہی مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے خداوند مسیح نے معجزات دکھائے۔ جب بھیڑ نے پیٹ بھر کے کھا لیا تو پھر بھی کافی کھانا بچا رہا۔ اس پر خداوند مسیح نے فرمایا ” بچے ہوئے ٹکڑوں کو جمع کرو تاکہ کچھ ضائع نہ ہو” یوحنا 12:6۔۔۔۔ ۔۔۔ صرف ٹکڑوں کو ٹوکریوں میں رکھنا نہ تھا بلکہ اس میں بھی بڑا بھید پنہاں تھا۔ پہلی بات تو یہ کہ کوئی چیز ضائع نہ کی جانی چاہیئے۔ دوسری بات یہ کہ ہمیں وہ سب کچھ جمع کر لینا چاہئے جو انسانی ضرورت کو پورا کرسکے۔ یعنی جو اُن کی بھوک اور پیاس کو تسکین دے سکے۔ اس کا اطلاق روحانی چیزوں پر بھی ہوتا ہے۔ جب بارہ ٹوکریاں بھری گئیں تو لوگوں کو اپنے عزیز دوست و احباب یاد آئے جو گھر پر تھے۔ لوگ چاہتے تھے کہ اس روٹی کو اُنہیں بھی دیں جس پر یسوع نے برکت بخشی تھی۔ ZU 450.1

    اس علاقے میں جہاں کہیں وہ لوگ گئے اس بچے ہوئے کھانے کو بھی ساتھ لے گئے۔ چنانچہ جو یہاں اس ضیافت میں حاضر تھے اُنہوں نے اُس روٹی سے بھوکی اور پیاسی روحوں کو تسکین پہنچائی جو آسمان سے اُتری تھی۔ علاوہ ازیں اُنہیں خدا کے اُن عجیب غریب کاموں کے بارے گواہی دینے کا بھی موقع ملا جو اُنہوں نے دیکھے تھے۔ اور جو تعلیم اُنہوں نے یسوع سے پائی اُس کو بھی اُنہوں نے اپنے دوستوں کے سامنے دُہرایا۔ اس سے ہم یہ سبق بھی اخذ کر سکتے ہیں کہ جو کچھ انسان کی بھلائی اور ابدی نجات کا موجب ہے اُسے ہرگز ضائع نہ کیا جائے۔ روٹیوں کا معجزہ خدا پر بھروسہ اور انحصار رکھنے کا سبق سکھاتا ہے۔ جب خداوند مسیح نے پانچ ہزار کو کھلایا کوئی کھانا نہ تھا۔ کوئی ذریعہ بھی دکھائی نہ دیتا تھا۔ یہاں اُس کے گرد بیابان میں کھانے والے بچوں اور بہنوں کے علاوہ پانچ ہزار مرد تھے۔ بیشک اُس نے اتنے زیادہ لوگوں کو دعوت دے کر نہ بلایا تھا۔ وہ تو اپنی آزاد مرضی سے وہاں پہنچے تھے۔ مگر وہ جانتا تھا کہ اتنی دیر تک اُس سے کلام سننے کے بعد وہ ضرور بھوکے اور ماندہ ہو چکے ہیں۔ اور وہ یہ بھی جانتا تھا کہ میرے سوا ان کی یہ جسمانی ضرورت کوئی اور پوری نہیں کر سکتا۔ اس کے علاوہ یہ تمام لوگ اپنے اپنے گھروں سے بہت دور تھے۔ رات چھانے کو تھی۔ اکثر کے پاس کھانا خریدنے کو پیسے بھی نہ تھے۔ وہ جس نے اُن کی خاطر چالیس دن بیابان میں فاقہ کیا ان لوگوں کو بھوکا پیاسا واپس بھیجنے پر راضی نہ تھا۔ چنانچہ خداوند خدا نے جہاں مسیح یسوع تھا وہیں کھانا بھیج دیا کیوں کہ اُس نے اپنی ہر ضرورت کے لئے اپنے باپ پر انحصار کر رکھا تھا۔ ZU 451.1

    جب ہم ایسی تنگ دستی کا شکار ہو جائیں تو ہمیں خداوند پر انحصار کرنا ہے۔ زندگی کے ہر موڑ پر ہمیں حکمت اور فہم و فراست کا مظاہرہ کر نا ہے تاکہ ناہنجاری سے ہم آزمائش میں نہ پڑ جائیں۔ ہمیں خدا کے وسائل کو نظر انداز کر کے مشکلات کا شکار نہیں ہونا ہے۔ اور نہ ہی خدا کی دی ہوئی صلاحیتوں اور قوا کو غلط استعمال کرنا ہے۔ خدا کے کار گذاروں کو تو اُس کی دی ہوئی ہدایات پر عمل پیرا ہونا ازحد ضروری ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ لوگ ہمارے وسیلہ سے برکت پائیں تو لازم ہے کہ ہم خدا کی تجاویز کی پیروی کریں۔ اگر ہم اپنے خیالات کے مطابق تجاویز بنائیں گے تو خداوند ہمیں ہماری غلطیوں میں غلطاں رہنے دے گا۔ لیکن اگر ہم اُس کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے مشکل مقامات پر آجائیں گے تو وہ ہمیں وہاں سے رہائی بخشے گا۔ پست ہمتی کے وقت ہمیں ہار نہیں ماننا ہے بلکہ اُس سے مدد طلب کرنا ہے جسکے حکم کے تابع ہر طرح کے وسائل ہیں۔ ہو سکتا ہے بعض اوقات ہم حالات کا شکار ہو جائیں مگر اُس وقت بھی ہمیں پوری طرح خداوند خدا پر بھروسہ رکھنا ہے۔ اُلجھن کی شکار جو بھی روح خدا وند خدا کے پاس آئے گی وہ اُسے آزمائش سے نکالنا جانتا ہے۔ خداوند خدا نے اپنے بندہ یسعیاہ بنی کی معرفت فرمایا ہے۔ اپنی روٹی غریبوں کو کھلا۔ ننگوں کو کپڑا پہنا آوارہ اور مسکینوں کو اپنے گھر میں اُتار۔ یسعیاہ 7:58، 10 ۔۔۔۔ ہمارے نجات دہندہ کا یہ حکم ہے کہ ”تمام دُنیا میں جا کر ساری خلق کے سامنے انجیل کی منادی کرو“ مرقس 15:16 ۔۔۔ مگر یہ دیکھ کر ہمارا کمزور دل بیٹھ جاتا اور ایمان کمزور ہو جاتا ہے کہ ہمارے وسائل بہت ہی محدود ہیں اور ضرورت بہت ہی بڑی۔ اندریاس کی طرح ہم پانچ روٹیوں اور دو مچھلیوں کو دیکھ کر کہہ دیتے ہیں کہ “یہ اتنے لوگوں کے لئے کافی نہ ہوں گی۔ “جو کچھ ہمارے پاس ہے اکثر ہم اُسے خداوند کو دینے سے ہچکچاتے ہیں۔ اُسے ہم دوسروں کے لئے استعمال کرنے سے بھی ڈرتے ہیں۔ مسیح یسوع فرماتا ہے کہ ”تم ہی ان کو کھانے کو دو“ اُس کا حکم ہی وعدہ ہے اور اس کے پیچھے وہی قوت ہے جس نے بھیڑ کو ندی کے کنارے کھانے سے سیر کیا۔ ZU 452.1

    بھک سے نڈھال بھیڑ کی عارضی ضرورت کو پورا کرنے میں اُس کے اپنے کارگزاروں کے لیے ایک عمیق اور روحانی سبق پایا جاتا ہے۔ یسوع مسیح نے اپنے آسمانی باپ سے پایا۔ اُس نے اپنے شاگردوں کو دیا۔ جنہوں نے بھیڑ کو دیا۔ اور پھر بھیڑ نے ایک دوسرے میں تقسیم کیا۔ چنانچہ وہ سب جو یسوع مسیح میں متحد ہیں اُس سے زندگی کی روٹی لیکر دوسروں میں تقسیم کرتے ہیں۔ خداوند باپ پر مکمل بھروسہ کرتے ہوئے مسیح خداوند نے وہ تھوڑی سی روٹیاں لیں۔ اُس نے اپنے شاگردوں کو کھانے کی پہلے دعوت نہ دی بلکہ اُن کو حکم دیا کہ دوسروں میں تقسیم کریں۔ کھانا اُس کے ہاتھ میں افزوں ہو گیا۔ اور اُسی طرح یسوع سے لیا ہوا کھانا شاگردوں کے ہاتھ میں بڑھتا ہی گیا یوں وہ تھوڑی سی روٹی اتنی بڑی بھیڑ کے لئے کافی ٹھہری۔ جب لوگ کھا چکے تو خداوند مسیح اور اُس کے شاگردوں نے بعد میں ملکر آسمانی روٹی کو کھایا۔ شاگرد، عوام اور مسیح خداوند کے درمیان رابطہ کی کڑی بن گئے ۔ یہ شاگردوں کی بڑی ہمت افزائی کا باعث ہوا ہو گا۔ خدوند مسیح تمام قدرت اور قوت کا منبع اور مرکز ہے۔ اُس کے شاگردوں کو اُس سے سب کچھ حاصل کرنا تھا۔ جو ذی شعور اور روحانی ہوتے ہیں جو کچھ وہ خود پاتے ہیں دوسروں کے ساتھ ضرور بانٹتے ہیں۔ ہم اپنے آپ سے کسی کو کچھ نہیں دے سکتے۔ ہم وہی کچھ لوگوں کو دے سکتے ہیں جو ہم یسوع سے پاتے ہیں۔ نیز ہمیں صرف اُسی وقت ملتا ہے جب ہم دوسروں کو دیتے ہیں۔ جس تواتر سے ہم دیتے ہیں اُسی تواتر سے حاصل کرتے ہیں۔ اور جتنا زیادہ ہم دیتے ہیں اُتنا ہی زیادہ ہم پاتے ہیں۔ یوں ہم مسلسل ایمان اور بھروسہ رکھتے، خداوند سے پاتے اور اپنے بھائی بندوں میں تقسیم کرتے رہتے ہیں۔ ZU 453.1

    خداوند یسوع مسیح کی بادشاہی کی تعمیر و استواری ضرور آگے بڑھے گی۔ بیشک ایسے دکھائی دیتا ہے کہ یہ کام بڑا دھیرے دھیرتے آگے کو سرک رہا ہے اور راستے کی مشکلات دیکھ کر ایسے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی ترقی اور کامیابی نہیں۔ یہ خداوند کا کام ہے اور اسکی تکمیل کے لئے وہ خود وسائل مہیا کر ے گا۔ وہ خود ایماندار شاگرد بھیجے گا جن کے ہاتھ میں کھانا فاقہ کش بھیڑ کے لئے افروں ہو جائے گا۔ خداوند اُن سے بھی لا تعلق نہیں جو برباد ہونے والی روحوں کو زندگی کا کلام دیتے ہیں اور پھر یہ بچ جانے والی روحیں اس کے عوض دوسری بھوکی روحوں کو زندگی کا کلام پہنچاتی ہیں جو اُن کی طرح برباد ہو رہی تھیں۔ خدا کی خدمت میں انسان کے لئے یہ زبردست خطرہ ہے جب وہ اپنی صلاحیتوں پر انحصار کر کے سمجھنا شروع کر دے کہ وہ یہ یا وہ کام بذات خود کر سکتا ہے ۔ یوں یسوع اُس کی نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے۔ اُسے صرف اُس پر بھروسہ کرنا چاہیئے جو تمام حکمت اور قوت کا منبع ہے۔ کیونکہ انسانی حکمت یا انسانی طاقت اور نفری پر بھروسہ کرنا خطرے سے خالی نہیں کیوں کہ خدا کے کام کی کامیابی ہماری لیاقت یا تعداد پر مبنی نہیں۔ بلکہ پختہ ایمان پر موقوف ہے۔ اپنی شخصی ذمہ داریاں اور فرائض منصبی ہمیں خود نبھانے چاہیں۔ اور اُن سب کے لئے ذاتی اور شخصی کوشش کی جانی چاہئے جو یسوع سے ناواقف ہیں۔ یہ ذمہ داری یہ سمجھتے ہوئے کسی اور پر نہ ڈالیں کہ وہ آپ سے زیادہ قابل ہے۔ بلکہ آپ کو قابلیت کے مطابق خدمت انجام دینا چاہئے۔ ZU 454.1

    اور جب آپ سے یہ سوال پوچھا جائے کہ ان سب کے لئے ہم کہاں سے روٹیاں خرید کر لائیں کہ یہ سیر ہو سکیں؟ تو آپ کا جواب بے اعتقادی پر مبنی نہ ہو۔ جب شاگردوں نے مسیح کی ہدایات سُنی کہ “تم ہی ان کوکھانے کو دو” اُن کے ذہنوں میں تمام مشکلات نے جنم لیا۔ سب سے پہلی مشکل کہ کیا ہم آس پاس کے گاوں میں جا کر ان کے لئے روٹیاں مول لیں؟ آج جب لوگ زندگی کی روٹی کو ترس رہے ہیں کیا ہمارا یہ جواب ہو گا ہم کسی کو دور دراز سے بلائیں تاکہ ان کو زندگی کی روٹی دے؟ یسوع نے کیا فرمایا تھا، ان کو بٹھاو۔ وہیں اُس نے اُن کو کھلایا۔ چنانچہ جب آپ بھیڑ کو دیکھتے ہیں کہ اُن کو تمہاری مدد کی ضرورت ہے تو یاد رکھیے کہ یسوع وہاں ہے اُس کے ساتھ رابطہ قائم کیجئے۔ اپنی جو کی روٹیاں اُس کے پاس لے آئیں۔ ZU 455.1

    خدا کی خدمت کے لئے ہمیں ذرائع بہت محدود دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن اگر ہم ایمان سے آگے بڑھیں گے اور خدا وند کی قدرت پر مکمل بھروسہ کریں گے۔ تو خدوند محدود وسائل کو لا محدود کر دے گا۔ خدا اپنے کام کی تکمیل کے لئے خود وسائل مہیا کرے گا۔ وہ ایماندار اور مخلص کارگذار کو برکت دے گا۔ تھوڑے کو بھی اگر ہم عقلمندی سے خدا کی خدمت کے لئے استعمال کریں گے تو وہ بڑھتا ہی چلا جائے گا۔ آپ کو یاد ہو گا کہ تھوڑی سی خورش یسوع کے ہاتھ میں اس قدر افزوں ہو گئی کہ ختم ہونے کا نام نہ لیتی تھی یہاں تک کہ تمام بھوکوں کا پیٹ بھر گیا۔ اگر ہم ذوالجلال کے پاس جائیں گے جو تمام وسائل کا منبع ہے اور ایمان سے اُسے تھامے رکھیں گے تو اپنی خدمت میں بُرے حالات کے باوجود قائم رہیں گے۔ اور دوسروں کو زندگی کی روٹی دینے کے قابل ٹھہریں گے۔ خداوند خدا رفرماتا ہے۔۔۔۔۔ ZU 456.1

    ”دیا کرو۔ تمہیں بھی دیا جائے گا“ لوقا 38:6 ZU 456.2

    ”جو تھوڑا بوتا ہے وہ تھوڑا کاٹے گا۔ جو بہت بوتا ہے وہ بہت کاٹے گا۔ وہ جو برکت کے ساتھ بوتا ہے، وہ برکت کی فصل کاٹے گا۔ خدا تم پر ہر طرح کا فضل کثرت سے کر سکتا ہے تاکہ تم کو ہمیشہ ہر چیز کافی طور پر ملا کرے۔ اور ہر نیک کام کے لئے تمہارے پاس بہت کچھ موجود رہا کرے۔ اُس نے بکھیرا ہے۔ اُس نے گنہگاروں کو دیا ہے۔ اُس کی راستبازی ابد تک باقی رہے گی۔ پس جو بونے والے کے لئے بیج اور کھانے کے لئے روٹی بہم پہنچاتا ہے وہی تمہارے لئے بیج بہم پہنچائے گا اور اُس میں ترقی دے گا اور تمہاری راستبازی کے پھلوں کو بڑھائے گا۔ اور تم ہر چیز کوا فراط سے پاکر سب طرح کی سخاوت کرو گے جو ہمارے وسیہ سے خدا کی شکر گذاری کا باعث ہوتی ہے۔“ 2 کرنتھیون 6:9-11 ZU 456.3

    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents