والدین بننا
عنقریب ماں بننے والی ہر خاتون کو خواہ وہ کیسے بھی ماحول میں ہو یہ جان کر کہ اس جانب اس کی تمام کوششوں کا صلہ اسے اپنے بچّہ کی جسمانی صحت و تندرستی اور اخلاقی قدروں میں دس گنا ملے گا۔ لہٰذا ہر وقت اسے خوش باش، شادمان اور قانع مزاج رہنے کی کوشش کرنا چاہیے اس سے بالا تر یہ کہ اسے اپنی عادات میں خوش باش سوچ کا دستور بنا لینا چاہیے اور اس طرح دماغی حالت کی خوشی باشی سے حوصلہ افزائی کرے اور اپنی روح کے خوش باش اثر سے اپنے خاندان اور اپنے ساتھیوں کو متاثر کرے۔ اس سے اس کی اپنی صحت بہت بہتر ہو جائے گی۔ اس کے چشمہ حیات میں ایک قوت افزوں ہو گی اور اس کا خون جو غم و رنج اور تشویش میں گردش دھیمی کر دیتا ہے ۔ اب تیز رواں دواں ہو گا۔ اس کی اپنی روحانی خوشحالی سے اس کی اپنی دماغی اور اخلاقی صحت کو طاقت اور تازگی حاصل ہو گی ا سکی قوت ارادی، دماغی آزمائش کا مقابلہ کر کے نسیاں کے لیے ایک بڑی سکون دہ دوا ثابت ہو گی جو بچّے اس قوّت سے جو ان کو اپنے والدین سے ورثہ میں ملنی چاہیے محروم ہو جاتے ہیں۔ انہیں بہت احتیاط کرنا چاہیے اگر ان کے وجود سے متعلق قوانین پر سختی سے عمل کیا جائے تو یہ تمام چیزیں بہتر حالات میں رکھی جا سکتی ہیں۔۔ ماں بننے کی توقع رکھنے والی خاتون کو اپنی روح کو خدا کے سپرد کر دینا چاہیے۔ اُسے دماغی سکون کی ضرورت ہے اُسے خداوند یسوع مسیح کے کلام پر عمل کر کے اس کی محبّت میں اطمینان پانا چاہیے۔ اسے یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ماں خد اکے ساتھ ہم خدمت ہے۔ CChU 197.2
میاں بیوی دونوں کو آپس میں اتحاد رکھنا چاہیے۔ اگر تمام مائیں پہلے خود اپنے آپ کو خداوند کے مذبحے پر مخصوص کریں اور پھر اپنے بچّوں کو ان کی پیدائش سے قبل اور بعد میں خدا کے لیے مخصوص کریں تو یہ دنیا بڑی متفرق ہوگی۔CChU 198.1
اکثر والدین سوچتے ہیں کہ والدین کا اثر بچّہ پر عارضی ہوتا ہے لیکن خدا ایسا نہیں سوچتا ۔ خدا نے جو پیغام اپنے فرشتہ کے ذریعہ بھیجا تھا اور رو بار بڑے سنجیدہ طور سے دیا گیا تھا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ امر ہماری خاص توجہ کا مستحق ہے۔CChU 198.2
خدا تعالیٰ نے عبرانی ماں (منوحہ کی بیوی) سے جو کلام کیا تھا وہ اسی کلام کے ذریعے سے ہر دور کی ماؤں سے مخاطب ہے۔ فرشتہ نے کہا جو کچھ میں نے اسے (اس عورت کو) حکم دیا یہ اُسے مانے “بچّے کی بہتری و بہبودی پر ماں کی عادت کا اثر پڑتا ہے۔ اس کی اشتہاؤں اور جذبات کو اصول کے ماتحت ہونا چاہیے۔ اُسے بعض باتوں کو ترک کرنا ہے اسے بعض باتوں کے برعکس کام کرنا ہے بشرطیکہ وہ خدا کے اس مقصد کو جس کے لیے وہ اسے بچّہ عطا کرتا ہے پورا کرے۔CChU 198.3
یہ دنیا نوجوانوں کے پاؤں کے لیے پھندوں سے بھری پڑی ہے بے شمار بھیڑیں خود غرض اور جسمانی عیش و نشاط سے متاثر ہو رہی ہیں۔ وہ ان پوشیدہ خطرناک یا اس راستہ کے جوان کو خوشی اور شادمانی کا نظر آ رہا ہے خطرناک انجام کو نہیں دیکھ سکتے۔ ان کی قوّت ان کے ذائقہ اور جذبہ کی غلامی کے سبب سے ضائع ہو رہی ہے۔ اور لاکھوں نہ صرف اس دنیا کے لیے بلکہ آئندہ دنیا کے لیے بھی تباہ و برباد ہو رہے ہیں۔ والدین یا د رکھیں کہ ان کے بچّوں کو ان آزمائشوں کا مقابلہ کرنا ہے۔ بچّہ کی پیدائش سے پہلے ہی تیاری شروع کر دینا چاہیے جس سے اسے بدی کے خلاف جنگ و جدل میں مدد ملے گی۔CChU 198.4
اگر ماں بچّے کی پیدائش سے پہلے شکم پرور، خود غرض، غصہ والی، جابر اور ظالم ہے تو یہ نقائص اس کے بچّوں میں بھی ظاہر ہوں گے۔ اس لیے بیشتر بچوں نے ناقابلِ تسخیر بدی کے رجحان پیدائشی طور پر اپنی ماؤں سے حاصل کیے ہیں۔ لیکن اگر ماں ثابت قدم رہ کر صحیح اصول کی پابندی کرے۔ اگر وہ پرہیز اور خود ایثار ہو اگر وہ مہربان، حلیم اور بے لوث ہو تو وہ اپنے بچّوں کو بھی انمول اوصاف ورثہ میں دے سکتی ہے۔ چھوٹے ننّھے اپنی ماں کے لیے آئینہ ہیں جن میں وہ اپنی عادات اور کردار کا عکس دیکھ سکتی ہے۔ پس اسے ان ننّھے طلباء کے سامنے اپنی زبان اور کردار میں کیسا محتاط ہونا چاہیے! جن اوصاف کو وہ ان میں دیکھنے کی توقع رکھتی ہے۔ اسے وہی اوصاف خود اپنی زندگی میں ظاہر کرنے چاہئیں۔CChU 198.5