دوسرا باب
آخری زمانہ
ہم آخری زمانہ میں رہتے ہیں ۔ یکے بعد دیگرے سرعت سے پورے ہوتے آثارِ زمانہ اس بات کا اعلان کر رہے ہیں کہ یسوعؔ مسیح کی آمد قریب ہے ۔ جن ایام میں ہم رہتے ہیں وہ سنجیدہ اور اہم ہیں ۔ خدا کا روح بتدریج لیکن یقینی طوردنیا سے اٹھایا جا رہا ہے۔ خدا کے فضل کی تحقیر کر نے والوں پر آفات اور سزائیں پہلے ہی نازل ہورہی ہیں ۔ بحر و بر کی تباہیاں ، معاشرہ کے بے قیام حالات اور جنگ کے خطرات ہولناک واقعات کے شگون ہیں۔ وہ عظیم ترین واقعات کا پیش خیمہ ہیں ۔ بدی کے وسائل متحد ہو کر مستحکم ہوتے جا رہے ہیں ۔ وہ آخری عظیم نازک موقع کیلئے مضبوط ہو رہے ہیں ۔ ہماری دنیا میں بہت جلد حیرت انگیز تبدیلیاں رونما ہونے والی ہیں ۔ اور آخری واقعات نہایت سرعت سے وقوع میں آئیں گے۔ CChU 46.1
دنیا کے حالات اس امر کے آئینہ دار ہیں کہ بڑی تکلیف کا وقت ہمارے سر پر آپہنچا ہے۔ روزانہ کے اخبارات مستقبل قریب میں آنے والے شدید جنگ و جدل کے تذکروں سے معمور ہیں ۔دلیرانہ ڈاکے اکثر وقوع میں آتے ہیں ۔ ہڑتالیں عام ہو رہی ہیں ۔ قتل و غارت اور چوری کا بازار ہر طرف گرم ہے۔لوگ شیاطین کے قابو میں پڑ کر مردوں ، عورتوں اور چھوٹے بچوں کی زندگیاں تلف کر رہے ہیں ۔ انسان بدی کے نشے میں مدہوش ہیں اور ہر قسم کی بدی کا غلبہ زیادہ ہوتا جا رہا ہے۔ CChU 46.2
شیطان عدل و انصاف کا گلہ گھوٹنے اور انسان کے دل کو ناجائز نفع کے لالچ سے بھرنے میں کاماب ہو گیا ہے۔ ” عدالت ہٹائی گئی اور انصاف دور کھڑا ہو رہا۔ صداقت بازار میں گِر پڑی اور راستی داخل نہیں ہو سکتی“۔ یسعیاہ ۱۴:۵۹ بڑے بڑے شہروں میں لاکھوں انسان مفلسی اور سیاہ بختی کا شکا ر ہیں ۔ جو بے گھر ، ننگے اور بھوکے پیاسے ہیں ۔ انھی شہروں میں ایسے لوگ بھی بستے ہیں جن کے پاس ان کی خواہشات سے کہیں زیادہ دولت ہے۔ وہ عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے ہیں ۔ وہ اپنی دولت ، خوشنما بنگلوں اور اپنی ظاہری نمائش پر صرف کرتے ہیں ۔ بلکہ زیادہ افسوس کا مقام ہے کہ وہ اپنی دولت کو شہوانی خواہشات کی آسودگی پر پانی کی طرح بہاتے ہیں کیونکہ ان کی پونجی شراب ، تمباکواور باقی ایسی چیزوں پر خرچ ہوتی ہے جو ذہنی قواء کو برباد کر کے دماغ کا توازن تباہ کر دیتی ہیں اور اخلاق کو بگاڑ دیتی ہیں ۔ بھوک اور پیاس سے مرتے ہوئے انسانوں کی آہ و فغاں خدائے قادر کے کان تک پہنچ رہی ہے جبکہ بعض انسان ہر قسم کا ناجائز دباؤ ڈال کر ظلم و ستم سے مال و دولت کے انبار جمع کر رہے ہیں ۔ CChU 46.3
رات کو رویا میں خدا نے مجھے ان عمارات پر نگاہ کرنے کی ہدایت کی جو منزل بہ منزل آسمان کی جانب بڑھتی جا رہی تھیں ۔ ان عمارات کے متعلق یہ دعویٰ کیا جاتا تھا کہ آگ کا ان پر کچھ اثر نہں ہو سکتا ۔ اور وہ مالکوں اور معماروں کی شان و شوکت کیلئے تعمیر کی جا رہی تھیں ۔ وہ بلند سے بلند تر ہوتی گئیں اور ان میں سب سے قیمتی ساز و سامان اور مصالحہ استعمال کیا گیا۔ ان عمارات کے مالکوں کی زبان سے کبھی یہ نہیں نکلا تھا کہ ہم کس طرح خدا کے جلال کا باعث ہو سکتے ہیں ؟ وہ خدا کو باکل بھول چکے تھے ۔ ان فلک بوس عمارات کو دیکھ کر مالک فخر سے شادیانے بجاتے تھے کہ ان کے پاس اپنی خواہشات کی تکمیل اور اپنے پڑوسیوں کے حسد کی آگ کو بڑھکانے کیلئے سرمایہ تھا۔ جو سرمایہ انھوں نے ان عمارات پر صرف کیا تھا اس کا زیادہ حصہ ناجائز زرائع ان غریبوں کا خون چوسنے سے حاصل کیا گیا تھا۔ وہ بھول گئے تھے کہ آسمان میں ہر کاروبار کا حساب رکھا جاتا ہے۔ اور ہر بے انصافی کے سودے اور دھوکے بازی کا اندراج ہوتا ہے۔ CChU 47.1
اس کے بعد جو منظر میری نگاہ سے گزرا ، آتش زدگی کا شور تھا۔ لوگ ان فلک بوس عمارتوں کو دیکھ رہے تھے جن کے متعلق ان کا دعویٰ تھا کہ آگ ان پر اثر انداز نہیں ہو سکتی ۔ انھوں نے کہا ”یہ عمارتیں باکل محفوظ ہیں “۔ لیکن آن کی آن میں یہ عمارات اس طرح بھسم ہو گئیں جیسے وہ راکھ کی بنی ہوئی تھیں اس تباہی اور بربادی کو روکنے کیلئے آگ بجھانے والے انجن بیکار ثابت ہوئے اور آگ بجھانے والا عملہ ان انجنوں کو استعمال نہ کر سکا۔CChU 47.2
مجھے بتایا گیا ہے کہ جب خداوند کا دن آئے گا تو جن مغرور اور لالچی لوگوں کے دل تبدیل نہیں ہوئے ان کو معلوم ہو جائے گا کہ وہ ہاتھ جو بچانے پر قادر اور قوی تھا اب ہلاک کرنے میں بھی قوی ہے۔ خدا کے بازو کو دنیا کی کوئی طاقت روک نہیں سکتی۔ اُن عمارات کی تعمیر میں کوئی ایس مواد استعمال نہیں کیا جا سکتا جس سے وہ عمارات اس وقت بربادی سے محفوظ رہ سکیں ۔ جب خدا کا مقررہ وقت شریعت کے نافرمانوں اور خود غرض انسانوں کو سزا دینے کیلئے آئے گا۔ CChU 47.3
ماہرین تعلیم اور سیاسی حلقہ میں بھی زیادہ لوگ ایسے نہیں جو معاشرہ کے موجودہ حالات کی بنیادی اسباب کو سمجھ سکیں ۔ بر سر اقتدار طبقہ بھی اخلاقی زوال ، افلاس ، تنگدستی اور بڑھتے ہوئے جرائم کی رفتار کو روکنے سے معذور ہے۔ وہ تجارتی کاروبار کو زیادہ محفوظ اصولوں کے ماتحت چلانے میں عبث جد و جہد کر رہے ہیں ۔ اگر وہ خدا کے کلام کی تعلیم پر دھیان دیتے تو انھیں ان مشکل مسائل کا حل مل جاتا جو پریشان کر رہے ہیں ۔ CChU 48.1
کلام مقدّس میں مسیح خدا وند کی آمد سے زرا پیشتر کے واقعات کا مفصل بیان پایا جاتا ہے۔ ان لوگوں کے متعلق جو بد دیانتی اور ظلم و ستم سے دولت جمع کرتے ہیں خدا وند فرماتا ہے” تم نے آخیر زمانہ میں خزانہ جمع کیا ہے۔ دیکھو جن مزدوروں نے تمہارے کھیت کاٹے ان کی وہ مزدوری جو تم نے دغا کر کے رکھ چھوڑی، چلاتی ہے اور فصل کاٹنے والوں کی فریاد رب الافواج کے کانوں تک پہنچ گئی ہے۔ تم نے زمین پر عیش وعشرت کی اور مزے اڑائے ۔ تم نے اپنے دلوں کو ذبح کے دن موٹا تازہ کیا۔ تم نے راست باز شخص کو قصور وار ٹھہرایا اور قتل کیا اور وہ تمھارا مقابلہ نہیں کرتا“۔ یعقوب ۳:۵ ۔۶ CChU 48.2
لیکن ان آگاہیوں کو کون پڑھتا ہے جو سرعت سے واقع ہوتے ہوئےآثارِ قدیمہ میں پائی جاتی ہیں ؟ دنیاداروں پر ان باتوں کا کیا اثر پڑتا ہے؟ ان کی روش میں کیا تبدیلی دکھائی دیتی ہے ؟ ان پر نوح ؔ کے زمانہ کے لوگوں کی طرح کچھ اثر نہیں ہوتا۔ طوفان سے پہلے کے لو گ اپنے دنیاوی کاروبار اور عیش و عشرت میں اس قدر محو تھے کہ جب تک طوفان آ کر انھیں بہا نہ لے گیا ان کو خبر نہ ہوئی“۔ متی ۳۹:۲۴ خدا نے انھیں آگاہی بخشی تھی لیکن انھوں نے سننے سے انکار کر دیا ۔ آج بھی دنیا خدا کی اس آواز سے جو آگاہی کا پیغام دیتی ہے ، بالکل لاپرواہ ہو کر ابدی تباہی کی جانب دوڑی جاتی ہے۔ دنیا جنگی جذبات سے بر انگیختہ ہے ۔ دانی ایلؔ کے گیارویں باب میں مذکورہ نبوت تقریباً اپنی تکمیل کو پہنچ چکی ہے۔ بہت جلد تکلیف کے وہ مناظر جن کا ذکر پیشن گوئیوں میں پایہ جاتا ہے منظر ِ عام پر آنے والے ہیں ۔ CChU 48.3
”دیکھو خداوند زمین کو خالی اور سر نگوں کر کے ویران کرتا ہے اور اس کے باشندوں کو تتِر بِتر کردیتا ہے...کیونکہ انھوں نے شریعت کو عدول کیا ، آئین سے منحرف ہوئے اور عہد ِ ابدی کو توڑا۔ اس سبب سے لعنت نے زمین کو نگل لیا۔ اور اس کے باشندے مجرم ٹھہرے اور اسی لئے زمین کے لوگ بھسم ہوئے، ڈھولکوں کی خوشی بند ہو گئی....خوشی منانے والوں کا شور و غل تمام ہوا ۔ بربط کی شادمانی جاتی رہی “۔ یسعیاہ ۱:۲۴ ـ ۸ CChU 48.4
”اُس روز پر افسوس ! کیونکہ خدا وند کا روز نزدیک ہے ۔ وہ قادرِ مطلق کی طرف سے بڑی ہلاکت کی مانند آئے گا “۔ یُو ایلؔ ۱۵:۱ CChU 49.1
”میں نے زمیں پر نظر کی اور کیا دیکھتا ہوں کہ ویران اور سنسان ہے ۔ افلاک کو بھی بے نور پایہ ۔ میں نے پہاروں پر نگاہ کی اور کیا دیکھتا ہوں کہ وہ کانپ گئے اور سب ٹیلے متزلزل ہو گئے ۔ میں نظر کی اور کیا دیکھتا ہوں کہ کوئی آدمی نہیں اور سب ہوائی پرندے اڑ گئے۔ پھر میں نے نظر کی اور کیا دیکھتا ہوں کہ زرخیز زمین بیابان ہوگئی اور اس کے سب شہر خدا وند کی حضوری اس کے قہر کی شدت سے برباد ہو گئے“۔ یرمیاہ ۲۳:۴ ۔ ۲۶ CChU 49.2
”افسوس ! وہ دن بڑا ہے ۔ اس کی مثال نہیں ۔ وہ یعقوب کی مصیبت کا وقت ہے۔ پر وہ اس سے رہائی پائے گا“۔ یرمیاہ ۷:۳۰ CChU 49.3
”اس دنیا کے تمام لوگ خدا کے خلاف دشمن کے ساتھ نہیں ملے ہیں ۔ تمام بے وفا نہیں ہوئے۔ چند برگزیدہ بھی ہیں جو خدا سے وفا دار ہیں کیونکہ یوحناؔ رسول لکھتا ہے کہ مقدّسوں یعنی خدا کے حکموں پر عمل کرنے والوں اور یسوعؔ پر ایمان رکھنے والوں کے صبر کا یہی موقع ہے“۔ مکاشفہ ۱۲:۱۴ بہت جلد خدا کے حکموں پر عمل کرنے والوں اور نا فرمانوں کے درمیان شدید جنگ شروع ہو جائے گی۔ بہت جلد ہر چیز جو ہلائی جا سکتی ہے ، ہلائی جائے گی تاکہ لافانی چیزیں قائم رہیں ۔ CChU 49.4
شیطان بائبل مقدّس کا مستعد طالب علم ہے وہ جانتا ہے کہ اُس کا وقت تھوڑا ہے اور وہ ہر قدم پر اس دنیا میں خدا وند کے کام کی مخالفت پر تُلا رہتا ہے ۔ خدا کے لوگوں کی تکلیف کا بیان ناممکن ہے جو اس دنیا میں اُس وقت زندہ ہوں گے جب الٰہی جلال اور ماضی کے ایذا رسانی کے تجربات آپس میں ٹکرائیں گے ۔ وہ اُس روشنی میں چلیں گے جو خدا کے تخت سے صادر ہوتی ہے۔ آسمانی فرشتوں کے زریعہ سے خدا اور اُس کے لوگوں کے درمیان مسلسل رابطہ ہو گا۔ شیطان اپنے بد کردار فرشتوں کی ہمراہی میں خدائی کا دعویٰ کرے گا اور ہر قسم کے معجزے دکھائے گا۔ تاکہ اگر ممکن ہو تو برگزیدوں کو بھی گمراہ کر لے ۔ خدا کے لوگوں کی سلامتی معجزات دکھانے میں نہ ہو گی کیونکہ شیطان ان معجزات کی نقل کرے گا۔ خدا کے آزمودہ لوگ اس نشان سے قوت حاصل کریں گے جس کا ذکر خروج ۱۲:۳۱ ۔۱۸ آیات میں پایا جاتا ہے ۔ انھیں زندگی کے کلام ”لکھا ہے“ پر بھروسہ کرنا ہے ۔ یہی وہ واحد بنیاد ہے جس پر وہ محفوظ رہ سکتے ہیں ۔ جنھوں نی خدا کے ساتھ اپنے عہد کو توڑ دیا ہے وہ اُس دن بغیر خدا اور بغیر امید کے ہوں گے۔ CChU 49.5
خدا کے پرستار خاص کے چوتھے حکم کی تعظیم کے باعث پہچانے جائیں گے ۔ کیونکہ یہ خدا کی تخلیقی قوت کا نشان اور خدا کیلئے انسان کی تعظیم و تکریم کا گوا ہ ہے۔ شریر اپنی اُن کوششوں کے باعث پہچانے جائیں گے جو وہ خالق کی یادگار کو مسمار کرنے اور روم کے مقرر کردہ دن کو عزت دینے میں ظاہر کریں گے ۔ اس کشمکش میں تمام مسیحی دنیا دو گروہوں میں تقسیم ہو جائے گی یعنی جو خدا کے احکام کو مانتے اور یسوعؔ مسیح پر ایمان رکھتے ہیں اور جو حیوان کی پرستش کرتے اور اس کی چھاپ لیتے ہیں ۔ گو کلیسیاء اور حکومت مل کر ”سب چھوٹے بڑوں ، دولتمندوں اور غریبوں ، آزادوں اور غلاموں کو حیوان کی چھاپ لینے کیلئےمجبور کریں گے تو بھی خدا کے لوگ اُس کو اپنے اوپر نہ لیں گے“۔ مکاشفہ ۱۶:۱۳ پمتس کا نبی انھیں جو اس حیوان اور اس کے بت اور اس کے نام کے عدد پر غالب آئے تھے ۔ شیشہ کے سمندر کے پاس خدا کی بربطیں لئے کھڑے دیکھتا ہے۔ اور وہ خدا کے بندہ مو سیٰ کا گیت اور برّہ کا گیت گا رہے تھے ۔ مکاشفہ ۲:۱۵ CChU 50.1
خوفناک مصائب اور آزمائشیں خدا کے لوگوں کی منتظر ہیں ۔ جنگی جذبات دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک قوموں کو برانگیختہ کر رہے ہیں ۔ لیکن اس آنے والی تکلیف کے وقت کے درمیان جو ابتدائی اقوام سے اس وقت تک کبھی نہ ہوا ہو گا۔ خدا کے برگزیدوں کو برباد نہیں کر سکتے ۔ کیونکہ ان کی حفاظت کے ذمہ دار وہ فرشتے ہیں جو اُن سے زور میں بڑھ کر ہیں ۔۹ٹی ۱۱۔ ۱۷ CChU 50.2