Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents

چرچ کے لئے مشورے

 - Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First
    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents

    داؔنی ایل۔ ایک مقدّس زندگی کا نمونہ

    دانی ایلؔ نبی کی زندگی ایک الہامی مثال ہے کہ ایک مقدّس زندگی کس پر مشتمل ہوتی ہے۔ یہ سب کے لیے اور نوجوانوں کے لیے خصوصاً ایک سبق پیش کرتی ہے۔ خدا کے مطالبات پر سختی سے عمل کرنا بد ن اور دماغ دونوں کے لیے فائدہ مند ہے۔ اخلاقی اور دماغی اعلیٰ ترین تکمیلات کے حصول کے لیے خدا سے حکمت اور طاقت مانگنا اور تمام عاداتِ زندگی میں سختی سے پرہیز گاری کے اصول پر عمل کرنا ضروری ہے۔CChU 69.1

    دانیؔ ایل کی سیرت جتنی زیادہ بے نقص تھی اس کے دشمن اتنی ہی سختی سے اس کے خلاف نفرت کرتے تھے۔ وہ اس کے خلاف غصّہ سے بھر گئے تھے کیونکہ وہ نہ اُس کی اخلاقی زندگی میں اور نہ اس کے فرائض کی تکمیل میں اس میں کوئی خامی پا سکے، جس پر وہ اس کے خلاف نفرت کرتے تھے وہ اس کے خلاف غصہ سے بھر گئے تھے کیونکہ وہ نہ اُس کی اخلاقی زندگی میں اور نہ اس کے فرائض کی تکمیل میں اس میں کوئی خامی پا سکے، جس پر وہ اس کے خلاف الزام لگا سکیں۔ ”تب انہوں نے کہا کہ ہم اس دانیؔ ایل کو اس کے خدا کی شریعت کے کے سوا کسی اور بات میں قصوروار نہ پائیں گے۔“ (دانی ایل ۵:۶)۔ یہاں تمام مسیحٰ لوگوں کے لیے کیسا بیش قیمت سبق پیش کیا گیا ہے! حسد کی تیز آنکھیں روزانہ دانی ایل پر لگی ہوئی تھیں۔ نفرت سے ان کی دیکھ بھال اور بھی تیز اور سخت ہو گئی تھی تو بھی اس کی زندگی کے ایک عمل یا قول کو بھی وہ غلط ظاہر نہ کر سکے۔ پھر بھی دانی ایل تقدیس کا دعویٰ نہ کرتا تھا اس نے ؟صرف وہی کام کیا جو بہت اچھا تھا۔ اس نے وفادار اور مخصوصیت کی زندگی بسر کی۔CChU 69.2

    بادشاہ کی طرف سے فرمان جاری ہو چکا ہے اور دانیؔ ایل اپنے دشمنوں کے منصوبہ سے واقف ہے جو اُسے برباد کرنا چاہتے ہیں مگر وہ کسی ایک بات میں بھی اپنی روش میں تبدیلی نہیں کرتا بڑے اطمینان سے وہ اپنے فرائض حسبِ معمول سر انجام دیتا ہے اور دُعا کے وقت وہ اپنی کوٹھڑی میں جاتا ہے اور یروشلم کی طرف کھڑکی کھول کر وہ آسمان کے خدا کے سامنے اپنی منت پیش کرتا ہے۔ وہ اپنے عمل سے بلا خوف ظاہر کرتا ہے کہ کسی دنیاوی حکومت کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اس کے اور اس کے خدا کے درمیان حائل ہو کر اُسے بتائے کہ وہ کس سے دعا کرے یا نہ کرے۔ اصول کا پابند نیک انسان ! آج دنیا کے سامنے مسیحی دلیری اور دیانتداری کی ایک قابلِ تعریف مثال ہے۔ گو وہ جانتا تھاکہ اُس کی اس دعا کرنے کی سزا موت ہوگی ۔ مگر وہ اپنے پورے دل سے خدا کی طرف رہا ۔ ”تب بادشاہ نے حکم دیا اور وہ دانی ایؔل کو لائے اور شیروں کی ماند میں ڈال دیا۔ پر بادشاہ نے دانی ایؔل سے کہا تیرا خدا جس کی تُو ہمیشہ عبادت کرتا ہے تجھے چھڑائے گا“۔ آیت ۱۶ CChU 69.3

    ”بادشاہ صبح بہت سویرے اٹھا اور جلدی سے شیروں کی ماند کی طرف چلا...پکارا ...اے دانی ایؔل ! زندہ خدا کے بندے کیا تیرا خدا جس کی تُو ہمیشہ عبادت کرتا ہے قادر ہوا کہ تجھے شیروں سے چھڑائے“ آیت ۲۰ جواب میں نبی کی آواز سنی گئی۔” اے بادشاہ ابد تک جیتا رہ ۔ میرے خدا نے اپنے فرشتہ کو بھیجا اور شیروں کے منہ بند کر دیئے۔ اور انھوں نے مجھے ضرر نہیں پہنچایا کیونکہ میں اُس کے حضور بے گناہ ثابت ہوا اور تیرے حضور بھی ، اے بادشاہ میں خطا نہیں کی ۔ پس بادشاہ نہایت شادمان ہوا اور حکم دیا کی دانی ایؔل کو اس ماند سے نکالیں ۔ پس دانی ایؔل کو اس ماند سے نکالا گیا اور معلوم ہوا کہ اسے کچھ ضرر نہیں پہنچا کیونکہ اس نے اپنے خدا پر توکل کیا تھا“۔ آیات ۲۲ و ۲۳ CChU 70.1

    اس طرح خدا کا بندہ چھڑایا گیا اور جو جال اس کے دشمنوں نے اس کی بربادی کیلئے بچھایا تھا وہ اُن کی اپنی تباہی کا سبب ہوا ۔ بادشاہ کے حکم سے وہ ماند میں ڈالے گئے اور انھیں جنگلی جانور فوراً ہڑپ کر گئے۔ CChU 70.2

    جب ستر سال کی اسیری کا زمانہ قریب آیا تو دانی ایؔل نبی نے یرمیاؔہ نبی کی پیشن گوئیوں کا بغور مطا لعہ کیا۔ CChU 70.3

    دانی ایؔل نبی خدا کے سامنے اپنی دینداری پیش نہیں کرتا ۔ اپنے آپ کو پاک وصاف پیش کرنے کے بجائے یہ معزز نبی اپنے آپکو گناہ گار اسرائیلیوں میں شمار کرتا ہے جو دانش خدا وند نے اُسے عطا کی تھی اسی طرح دنیا کے نامور آدمیوں سے افضل تھی ۔ جس طرح کے دوپہر کے وقت سُورج کی روشنی کمزور ترین ستارہ کی روشنی سے افضال ہوتی ہے ۔ تو بھی اس بزرگ کی جسے خدا نے عزّت بخشی تھی ، دعا پر غور کریں کہ عاجزی سے آنسوؤں اور دل کی شکستگی سے وہ اپنے اور اپنے لوگوں کیلئے منت سماجت کرتا ہے۔ وہ اپنے بے بضاعتی اور نا اہلیت کا اقرار کرکے خداوند خدا کی بزرگی اور عظمت کو تسلیم کر کے خدا کے سامنے اپنی جان کو انڈیل دیتا ہے۔ جب نبی دانی ایؔل جاری ہے ۔ تو جبرائیل فرشتہ بڑی تیزپروازی سے آسمانی بارگاہوں سے اس کے پاس آکر اُسے بتاتا ہے کہ اس کی دعا سنی اور قبول کی گئے ہے۔ اس زبردست فرشتہ کو بھیجا گیا تا کہ اُسے عقل و فہم عطا کرے ۔ اُس کے سامنے مستقبل کے بھید کھولے اس طرح دانی ایؔل نبی جب بڑی سرگرمی سے سچائی کو جاننے اور سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا تو اُس کا خدا کے بھیجے ہوئے ایلچی سے معانقہ ہوا۔ CChU 70.4

    دانی ایؔل نبی کو اُس کی دعا کے جواب مین نہ صرف مزید روشنی اور سچائی جن کی اسے اور اس کی قوم کو انتہائی ضرورت تھی حاصل ہوئی بلکہ مسقتبل کے واقعات اور دنیا کے نجات دہندہ کی آمد کے مناظر بھی اسے دکھائے گئے۔ جو لوگ خود کو مقدّس خیال کرتے ہیں ۔ مگر نہ تو خدا کے کلام میں تحقیق کرتے اور نہ سچائی کو واضح طور سے سمجھنے کیلئے خدا کو کلام کو پڑھتے ہیں ۔ انھیں تقدیس کی کوئی واقفیت نہیں ۔ دانی ایؔل نے خدا سے کلام کیا اُس کے سامنے آسمان کھل گیا جو بزرگی اور اعزاز اُسے حاصل ہوا وہ اس کی فروتنی اور خلوص سے خدا کی جستجو کرنے کا نتیجہ تھا۔ خدا کے کلام پر پورے دل سے ایمان لانے والے خدا کی مرضی کو جاننے کیلئے بھوکے اور پیاسے ہوتے ہیں ۔ خدا سچائی کا بانی ہے وہ انسان کے تاریک فہم و فراست کو منوّر کرکے اس کو سچائی کی تفہیم کیلئے جو اس نے بخشی ہے سمجھ اور عقل عطا کرتا ہے۔ CChU 71.1

    دنیا کے نجات دہندہ یسوع مسیؔح نے جو عظیم حقائق بیان فرمائے ہیں ۔ اُن کی تلاش ہمیں اس طرح کرنا چاہیئے جیسے کہ چھپے ہوئے خزانہ کی کی جاتی ہے۔ دانی ایؔل نبی اب بوڑھا ہو چکا تھا اُس کی زندگی بے دینوں کے دربار میں دلکش مناظر میں گزری تھی ۔ اس کا ذہن و دماغ ایک بڑی سلطنت کے معاملات اور اسرار کے بوجھ تلے دبا ہوا تھا اس کے باوجود وہ خدا کے سامنے اپنی جان کو دکھ دیتا ہے ۔ CChU 71.2

    وہ حق تعالیٰ کی مرضی کے جاننے کی سعی بسیار کرتا ہے اس کی گریہ و زاری کے سبب سے اُسے آسمانی بارگاہ سے آخری زمانہ کے لوگوں کیلئے روشنی ملی پس ہمیں اس سے بھی بڑی دلسوزی آہ و بکاہ سے خدا کی تلاش کرنا چاہیئے تاکہ وہ اپنی عطا کردہ سچائی کو سمجھنے کیلئے ہمیں فہم و فراست عطا کرے۔ CChU 71.3

    دانی ایؔل نبی حق تعالیٰ کا ایک مخصوص خادم تھا۔ اس کی لمبی زندگی اپنے خداوند کیلئے اعلیٰ امور سے پُر تھے جس کی نسبت سے اس نے خدا تعالیٰ کے سامنے دلی فروتنی اور گریہ زاری سے التماس کی اسی نسبت سے اس کی پاکیزگی ، سیرت اور مستحکم وفاداری کا مظاہرہ ہوتا تھا۔ گویا بار بار کہنے میں عار نہیں کہ دانی ایؔل کی زندگی حقیقی تقدیس کی الہامی مثال ہے۔CChU 71.4

    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents