Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents

چرچ کے لئے مشورے

 - Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First

    نبی پر روشنی کس طرح ظاہر ہوئی

    ایک مرتبہ خداوند نے بنی اسرائیل پر ظاہر کیا، جیسا کہ ہم پڑھ چکے ہیں کہ وہ انبیاء کو زریعہ ان سے کس طرح کلام کرے گا ۔ اس نے فرمایا:CChU 8.2

    ” اگر تم میں کوئی نبی ہو تو میں جو خداوند ہوں اسے رویا میں دکھائی دوں گا اور خواب میں اس سے باتیں کروں گا“۔ گنتی ۶:۱۲ CChU 8.3

    پچھلے صفحات میں آپ نے اس جنگِ عظیم کی رویاؤں کو پڑھا ہے جن کے ساتھ بعض عجیب جسمانی ظہورات شامل ہیں ۔ شاید کوئی یہ دلیل پیش کرے کہ رویا کے دینے کا یہ طریقہ کیوں اختیار کیا گیا تھا۔ بیشک اس طریقہ کا مقصد لوگوں کے اعتماد کو حا صل کرنا اور سب کو یقین دلانا تھا کہ خدا فی الحقیقت اپنے نبی سے ہم کلام ہے۔ مسز ہوائٹؔ صاحبہ نے رویا میں اپنی حالت کو متعلق اکثر بیان نہیں کیا ، ایک مرتبہ انھوں نے کہا کہ” یہ پیغامات اس طریقہ سے اس لئے دیے گئے ہیں تاکہ سب لوگوں کا ایمان مضبوط ہو اور اس آخری زمانہ میں نبوت کی روح پر ہمارا ایمان اور بھروسہ ہو“۔ CChU 8.4

    جب مسز ہوائٹؔ صاحبہ کا کام ترقی پا گیا تو اس کی جانچ بائبل مقدس کی اس کسوٹی کے مطابق ہو سکتی تھی کہ ”تم ان کے پھلوں سے انھیں پہچان لو گے“۔ لیکن پھل لگنے اور پکنے میں کافی وقت کی ضرورت ہوتی ہے مگر خدا نے شروع ہی میں رویا کے نازل ہونے کے ساتھ ایسے نشانات بخشے جن کے باعث لوگوں نے یقین کر لیا۔ CChU 8.5

    لیکن تمام رویائیں جماعت میں لوگوں کو رُوبرُو نہیں دی گئیں اور نہ ان کے ساتھ عجیب جسمانی ظہورات شامل تھے۔ اس باب کے شروع میں جو آیت پیش کی گئی ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ خدا وند نہ صرف”رویا “ کے زریعے اپنے نبیوں پر آشکارا ہوتا ہے بلکہ ان کے ساتھ” خواب میں بھی ہمکلام “ہوتا ہے ۔ یہ نبیانہ خواب ہے جس کا ذکر دانی ایؔل نبی نے کیا ہے:CChU 8.6

    ”شاہِ بابل بیلشؔفرکے پہلے سال میں دانی ایؔل نے اپنے بستر پر خواب میں اپنے سر کے دماغی خیالات کی رویا دیکھی۔ تب اس نے اس خواب کو لکھا اور ان حالات کا مجمل بیا ن کیا“۔ دانی ایؔل ۱:۷ CChU 9.1

    دانی ایؔل نبی ان مکاشفات کا بیان کرتے ہوئے جو اس پر ظاہر کئے گئے متعدد بار لکھتا ہے کہ ”رات کو رویا میں میں نے دیکھا “۔ مسز ہوائٹؔ صاحبہ کو بھی اکثر رویا رات کے وقت دی جاتی جب ان کا دماغ سکون اور آرام کی حالت میں ہوتا تھا۔ ہم اس قسم کے تمہیدی بیان پڑھتے ہیں کہ ” رات کی رویاؤ ں میں بعض باتیں میرے سامنے نہایت وضاحت سے پیش کی گئیں“۔ یا خدا اپنی نبیہ سے رات کے وقت نبیانہ خواب میں ہم کلام ہوتا تھا۔ یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ نبیانہ خواب ، رات کی رویا اور عام خوابوں مین کیا فرق ہے۔ اس کے متعلق مسز ہوائٹؔ صاحبہ نے ۱۸۶۸ ء میں یوں لکھا:CChU 9.2

    ”اکثر زندگی کے عام امورات کے باعث ایسے خواب آتے ہیں جن کے ساتھ خدا کے روح کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ جھوٹی رویا کی طرح جھوٹے خواب بھی ہوتے ہیں جن کا بانی شیطان ہے ، لیکن وہ خواب جو خدا کی طرف سے ہیں ان کا شمار کلام ِ مقدّس میں رویا کے ساتھ کیا گیا ہے۔ اس قسم کے خوابوں کی صداقت کا انحصار ان لوگوں پر ہے جن کو یہ خواب دیئے جاتے ہیں اور ان حالات پر ہے جن کے ماتحت یہ خواب دیئے جاتے ہیں ۔ CChU 9.3

    ایک مسز ہوائٹؔ صاحبہ کی آخری عمر میں ان کے بیٹے ایلڈر ۔ڈبلیو۔ سی ہوائٹ نے ان لوگوں کی مدد کیلئے جنھیں پوری پوری واقفیت نہ تھی ان سے یہ پوچھا ۔ ” ماں! آپ اکثر بیان کرتی ہیں کہ بہت سی باتیں مجھے رات کے وقت دکھائی جاتی ہیں ۔ آپ ایسے خوابوں کا ذکر کرتی ہیں جن میں آپ پر روشنی ظاہر ہوتی ہے۔ ہم تما م خواب دیکھتے ہیں آپ کو کیسے معلوم ہے کہ اس خواب میں خدا ہی آپ سے کلام کرتا ہے جس کے بارے میں آپ اکثر ذکر کرتی ہیں “؟ CChU 9.4

    انھوں نے جواب دیا ” کیونکہ وہی فرشتہ رات کی رویا میں میرے پاس کھڑا ہوتا ہے اور مجھے ہدایت کرتا ہے جو دن کی رویا میں میری رہبری کرتا ہے“۔ جس فرشتہ کا اس جگہ ذکر کیا گیا ہے اس کے متعلق دیگر جگہوں میں ”وہی فرشتہ “ ” میرا رہبر“اور ”میرا معلم“ جیسے فقرے استعمال ہوئے ہیں ۔ CChU 9.5

    نبیہ کے دل میں اس مکاشفہ کے متعلق جو رات کی رویا میں ظاہر ہوتا تھا کوئی شک و شبہ نہ تھاکیونکہ حا لا ت اور ماحول اس بات کو صاف ظاہر کر دیتے تھے کہ یہ ہدایت خدا کی طرف سے ہے ۔ CChU 9.6

    بعض اوقات جب مسز ہوائٹ صاحبہ دعائیہ کلام کیا کرتیں اور لکھا کرتی تھیں تو اُن پر رویا نازل ہوا کرتی تھی ۔ کسی جماعت میں کلام پیش کرتے یا دعا کرتے وقت حاضرین اس وقت تک رویا سے بے خبر رہتےجب تک مسز ہوائٹ صاحبہ تھوڑی دیر کیلئے رک نہ جاتیں ۔ اس کے متعلق انھوں نے ایک دفعہ یوں لکھا : CChU 10.1

    ”جب میں سرگرمی سے دعا کر رہی تھی تو میں اپنے گرد و نوا کے حالات سے بے خبر ہو گئی ۔ کمرہ روشنی سے بھر گیا اور مجھے ایسا پیغام سنائی دے رہا تھا جو ایک جماعت کے سامنے پیش کیا جا رہا تھا ، اور وہ مجھے جنرل کانفرنس کی طرح معلوم ہو رہی تھی“۔ مسز ہوائٹؔ صاحبہ کی ستر برس کی طویل خدمت میں انھیں بے شمار رویائیں عطا ہوئیں جن میں سب سے لمبی چار گھنٹہ تک اور سب سے چھوٹی ایک لمحے تک جاری رہی ۔ اکثر رویائیں آدھا گھنٹہ یا اس سے کچھ زیادہ دیر تک رہتیں ۔ لیکن تمام رویاؤں کیلئے ایک ہی قانون مقرر نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ وہ بعینہ پولس رسول کے بیان کے مطابق تھیں کہ CChU 10.2

    ”اگلے زمانہ میں خدا نے باپ دادا سے حصہ بہ حصہ اور طرح بہ طرح نبیوں کی معرفت کلام کیا “۔ عبرانیوں ۱:۱ CChU 10.3

    نبی کو روشنی رویا کے زریعے ملتی تھی لیکن وہ رویا کے دوران ان واقعات کو قلم بند نہیں کرتا تھا۔ اُس کی حیثیت کل کی سی نہ تھی ۔ صرف خاص خاص اوقات کے علاوہ خدا نبی کو مخصوص الفاظ نہیں دیتا تھا اور نہ فرشتہ تحریر کے وقت اس کا ہاتھ پکڑ کر بعینہ وہی الفاظ لکھواتا تھا ۔ نبی کا ذہن رویاؤں سے منور ہو جاتا تھاجس کے باعث وہ وہی باتیں کہتے یا لکھتے جو حاضرین کیلئے روشنی اور ہدایت کا موجب ہو تیں، خواہ وہ انھیں پڑھتے یا سنتے تھے ۔ CChU 10.4

    شاید ہم یہ دریافت کریں کہ نبی کا ذہن کس طرح روشن ہو تا تھا، وہ ان معلومات اور ہدایات کو کس طرح حاصل کرتا تھا، جنھیں اسے لوگوں کے سامنے پیش کرنا تھا؟جس طرح نبوت کے دینے کیلئے کوئی خاص قاعدہ مقرر نہیں کیا جا سکتا ، اسی طرح اس طریقہ کے متعلق بھی کوئی خاص قاعدہ مقرر نہیں کیا جا سکتاجس کے زریعہ نبی خدا کی طرف سے الہامی پیغام حاصل کرتا تھا ۔ تاہم ہر حالت میں نبی کے دل و دماغ پر اس کا تجربہ واضح اور ناقابل فراموش اثر ہوتا۔ اور جس طرح وہ چیزیں جنھیں ہم دیکھتے اور ہمارے تجربہ میں آتی ہیں ہمارے دل و دماغ پر سننے کے با نسبت گہرا اثر کرتی ہیں اسی طرح خدا کے نبیوں پر ان باتوں کا گہرا اور دیرپا اثر ہوتا تھا جنہیں ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ اپنی آنکھوں کے سامنے واقعہ ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں ۔ CChU 10.5

    گذشتہ صفحات میں جہاں مسیح خداوند اور شیطان کے درمیان جنگ عظیم کی رویا کا بیان پایا جاتا ہے ہم نے ان کے اپنے الفاظ کا اقتباس پیش کیا تھاجس میں وہ بیان کرتی ہیں کہ ان کے سامنے تواریخی واقعات کس طرح رونما ہوئے ۔ ایک اور موقع پر وہ بیان کرتی ہیں کہ ان پر روشنی کیسے ظاہر ہوئی۔ وہ لکھتی ہیں کہ رویا میں ”میری توجہ ان واقعات کی طرف اکثر مبذول کرائی جاتی ہے جو دنیا میں واقع ہو رہے ہیں ۔ کئی دفعہ مجھے بہت دور مستقبل میں پہنچایا جا تا ہے اور میں وہ باتیں دیکھتی ہوں جو واقع ہونے کو ہیں اور بعض اوقات وہ باتیں مجھے دکھائی جاتی ہیں جا ماضی میں واقع ہو چکی ہیں۔ CChU 11.1

    مندرجہ بالا بیان سے صاف ظاہر ہے کہ ایلن جی ہوائٹ صاحبہ نے ان واقعات کو گو یا اپنی آنکھوں سے رونما ہوتے ہوئے دیکھا۔ اکثر یہ واقعات رویا میں ان کے سامنے دوبارہ وقوع میں آتے اور یوں ان کے دماغ پر ان واقعات کا گہرا اثر پڑتا ۔ CChU 11.2

    بعض موقعوں پر انھیں ایسا معلوم ہوتا کہ وہ فی الحقیقت ان واقعات میں شریک ہیں جو ان کے سامنے پیش کئے جا رہے ہیں اور وہ ان باتوں کو محسوس کر رہی ہیں ، سن رہی ہیں ، دیکھ رہی ہیں اور ان کے مطابق عمل کر رہی ہیں۔ جبکہ دراصل وہ ان میں حصہ دار نہ ہوتیں۔ لیکن یوں بھی ان کے دماغ پر ایک ناقابل فراموش اثر پڑ جاتا تھا۔ ان کی پہلی رویا جس کا ذکر اس کتاب کے شروع میں کیا گیا ہے اسی نوعیت کی ہے۔ CChU 11.3

    کئی مرتبہ مسز ہوائٹ صاحبہ کو رویا میں ایسا معلوم ہوتا کہ وہ کسی جلسہ ، گھر یا کسی ایسے ادارے میں موجود ہیں جو کسی دور درازجگہ میں ہے۔ ایسے مجمہ میں اپنی موجودگی کا مسز ہوائٹؔ صاحنہ کو اس قدر صریح احساس ہوتا کہ وہ دوسرے لوگوں کے الفاظ اور اشاروں کو بعینہ تفصیل کے ساتھ پیش کر سکتی تھیں۔ ایک دفعہ مسز ہوائٹ صاحبہ نے رویا میں ایسا محسوس کیا کہ وہ ہمارے شفا خانوں میں سے ایک ادارے کا دورہ کر رہی ہیں۔ اور وہ ہر کمرے کا معائنہ کر رہی ہیں اور تمام کاروائی کو بغور دیکھ رہی ہیں ۔ اس تجربہ کے متعلق وہ یوں لکھتی ہیں: ”سبک کلامی، فحش مذاق، بے ہودہ ہنسی کو سن کر مجھے بہت دکھ ہوا....میں حسد و کینہ کی باتوں اور بدگوئی کو دیکھ کر جن کو سن کر خدا کے فرشتے بھی شرم محسوس کر رہے تھے ہکا بکا رہ گئی “۔ CChU 11.4

    پھر اسی ادارہ کے خوشگوار پہلو ظاہر کئے گئے ۔ وہ ان کمروں میں لے جائی گیئں ”جن میں سے دعا کی آواز سنائی دے رہی تھی ۔ یہ آواز بڑی خوشگوار تھی ! “ اس دورے کی رویا کی بنا پر فرشتہ کی ہدایت کے مطابق جو مختلف کمرہ جات اور شعبوں میں ان کی رہنمائی کر رہا تھا، مسز ہوائٹؔ صاحبہ نے اس ادارے کو ہدایات بھیجیں ۔CChU 12.1

    اکثر مسز ہوائٹؔ صاحبہ کو روشنی نہایت صریح تشبیہات کے زریعے دی جاتی تھی ۔ جس کی تشریح مندرجہ ذیل بیان سے صاف ظاہر ہوتی ہے۔ جو ایک ذمہ دار کار گزار کے ذاتی پیغام میں سے اخذ کیا گیا ہے ، جو خطرہ کے وقت اسے بھیجا گیا تھا۔ CChU 12.2

    ”ایک دفعہ میں نے آپ کو ایک جرنیل کی حیثیت میں دیکھا ۔ آپ گھوڑے پر سوار تھے اور ہاتھ میں ایک جھنڈا تھا۔ کوئی شخص آپ کے قریب آیا اور اس نے آپ کے ہاتھ سے وہ جھنڈا چھین لیاجس پر یہ الفاظ لکھے ہوئے تھے “خدا کے احکام اور یسوعؔ کی گواہی ” اور اسے پاؤ ں تلے روند دیا۔ میں نے لوگوں کو آپ کے گرد دیکھا جع آپ کو دنیا وی لوگوں میں شمار کر رہے تھے“۔ CChU 12.3

    بعض دفعہ ایسا وقت بھی آتا تھا جب مسز ہوائٹؔ صاحبہ کے سامنے دو مختلف نظریات پیش کئے جاتے تھے ان میں سے ایک نظریہ یہ ظاہر کرتا کہ اگر بعض تجاویز اور اصولوں پر عمل کیا جائے تو اس کا نتیجہ کیا ہو گااور دوسرے نظریہ میں یہ ظاہر کیا جاتا کہ دیگر منصوبہ جات اور تجاویز پر عمل کرنے سے کیا نتائج بر آمد ہوں گے ۔ اس کی اعلیٰ مثال امریکہ کے مغربی حصہ لومالنڈا میں ہیلتھ فوڈ فیکٹری کیلئے جگہ کے انتخاب میں ملتی ہے۔ مینیجر اور اس کے مدد گا ر ایک بڑی عمارت ہسپتال کے پہلو میں تعمیر کرنا چاہتے تھے ۔ ابھی یہ تجاویز زیر غور تھیں کہ مسز ہوائٹؔ صاحبہ نے سینکڑوں میل دور اپنے گھر میں ایک رات دو رویائیں دیکھیں ان میں سے پہلی کے متعلق وہ یوں لکھتی ہیں : CChU 12.4

    ”مجھے ایک بہت بڑی عمارت دکھائی گئی جہاں کھانے کی کئی قسم کی چیزیں تیار کی جاتی تھیں ۔ بیکری کے نزدیک چند چھوٹی عمارتیں بھی تھیں ۔ جب میں کھڑی دیکھ رہی تھی تو اس میں کام کے متعلق میں نے لڑائی جھگڑے کی کئی آوازیں سنیں۔کار گزاروں میں اتحاد نہیں تھا اور ان میں گڑ بڑ پائی جاتی تھی “۔ CChU 12.5

    پھر انہوں نے دیکھا کہ پریشان مینیجر کارندوں کے ساتھ گفتگو کر رہا ہےتاکہ اُ ن میں کسی طرح اتحاد پیدا ہو جائے۔ انہوں نے ان مریضوں کو دیکھا جو اِن باتوں کو سُن کر ”افسوس کا اظہار کر رہے تھےکہ اس خوبصورت جگہ میں ہسپتال کے قریب فوڈ فیکٹری تعمیر کی گئی ہے“۔ پھر فرشتہ نے آکر کہا ”یہ باتیں تمہارے سامنے محض اس لئے پیش کی گئی ہیں تا کہ تم بعض تجاویز کی تکمیل کا نتیجہ دیکھ سکو“۔ CChU 13.1

    پھر منظر تبدیل ہو گیااور انہوں نے فوڈ فیکٹری کو دیکھا جو ہسپتال کی عمارت سے کچھ فاصلہ پر ریل کی پٹڑی کی طرف جانے والی سڑک پر واقع تھی۔ یہاں نہایت سادگی سے خدا کی تجویز کے مطابق کام کیا جا رہا تھا ۔ اس رویا کے چند گھنٹے بعد مسز ہوائٹ صاحبہ نے لوما لِنڈا کے کار گزاروں کو خط لکھا کہ اس امر کا فیصلہ ہو گیا کہ فیکٹری کس جگہ تعمیر ہونی چاہیے۔ اگر ان کی پہلی تجویز پر عمل کیا جاتا تو ہم آنے والے سالوں میں ایک بہت بڑی تجارتی عمارت کو ہسپتال کے پاس دیکھ کر نہایت مایوس اورپریشان ہوتے۔CChU 13.2

    یوں ہم دیکھتے ہیں کہ خدا وند کی خادمہ مختلف طریقوں سے رات اور دن کی رویا میں معلومات اور ہدایات حاصل کیا کرتی تھیں ۔ پھر ان کا دماغ منّور ہو جاتا اور وہ لوگوں کے سامنے یہ معلومات اور ہدایات زبان یا قلم سے پیش کیا کرتی تھیں ۔ اس کام میں خداوند کا روح مسز ہوائٹ ؔ صاحبہ کی مدد کرتا تھا لیکن ان کی حیثیت کل کی سی نہ تھی ۔ پیغام کی ادائیگی کیلئے الفاظ کے انتخاب کرنے کا حق انہیں حاصل تھا۔ اپنی خدمت کےابتدائی سالوں میں انہوں نے کلیسیائی رسالہ میں یوں لکھا:CChU 13.3

    ”حالانکہ اپنے رویاؤں کو قلم بند کرنے کیلئے مجھے خدا کے روح کی مدد پر ایسے انحصار رکھنا پڑتا ہے جیسے انھیں حاصل کرنے کے وقت روح ہی مجھے یہ پیغام بخشتا ہے تو بھی ان رویا ؤں کو پیش کرنے کیلئے جو مجھے دکھا ئی جاتی ہیں الفاظ کا انتخاب مجھے خود کرنا پڑتا ہے۔میں صرف ان پیغامات کو لفظ بہ لفظ لکھتی ہوں جس کی ہدایت مجھے فرشتہ کی طرف سے ملتی ہے جنہیں میں ہمیشہ مقتبس صورت میں دیکھتی ہوں“۔CChU 13.4