رُوح کی بربادی کے لیے پڑھنا
بے شمار کتابوں کی اشاعت سے جو چھاپہ خانوں سے برابر باہر آ رہی ہیں۔ برناوپیر جلدی جلدی اور سرسری پڑھنے کی عادت میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ اور دماغ اپنے وابستہ اور زبردست خیال کی طاقت سے محروم ہو جاتا ہے۔ مزید برآں یہ کتب اور رسائل مصری مینڈکوں کی مانند زمین پر پھیل رہے ہیں ۔ یہ نہ صر ف عام رائج کہالت اور کمزوری کو مدعو کرتے بلکہ ناپاک اور ذلیل کرتے ہیں یہ اثر نہ صرف دماغ کو متحرک اور تباہ کرتا ہے بلکہ روح کو ناپاک اور تباہ و برباد کر دیتا ہے۔ (ایجوکیشن ۱۸۹، ۱۹۰)CChU 241.2
بچّوں اور نوجوانوں کی تعلیم و تربیت میں دیو پریوں کی کہانیوں، دیو مالا اور چھوٹے افسانوں کو زیادہ مقام دیا جاتا ہے۔ ایسی کتابیں اسکولوں میں استعمال کی جاتی ہیں اور بہتیرے گھروں میں بھی پائی جاتی ہیں۔ مسیحی والدین اپنے بچّوں کو کس طرح اجازت دے سکتے ہیں کہ وہ ان لغو اور جھوٹ و فریب سے بھری ہوئی کتابوں کو پڑھیں؟ جب بچّے ان کہانیوں کے جو اُن کے والدین کی تعلیم کے بالکل برعکس ہوتی ہیں۔ معنی دریافت کرتے ہیں تو جواب ملتا ہے کہ یہ کہانی سچی نہیں ہے۔لیکن ان سے ان کا بُرا اثر زائل نہیں ہوتا۔ ان کتابوں میں غلط نظریات بچّوں کو غلط فہمی میں ڈال دیتے ہیں۔ ان سے زندگی سے متعلق نظریات حاصل ہوتے ہیں۔ اور جھوٹی باتوں کے لیے غلط خواہشات پیدا کرتے ہیں۔ احتیاط کریں کہ بچّوں اور نوجوانوں کے ہاتھوں میں ایسی کتابیں جن میں سچائی کو مسخ کیا گیا ہو نہ دیں۔ ہمارے بچّوں کو دورانِ تعلیم ایسے نظریات نہیں دینے چاہئیں جو گناہ اور بدی کے بیج ثابت ہوں۔ (سی ۔ ٹی ۴۷۴)CChU 241.3
خطرہ کا ایک اور بھی ماخذ ہے اور وہ بےد ین مصنفوں کی کتابوں کا پڑھنا ہے۔ اِس سلسلہ میں ہمیں ہمیشہ اتفاق کرتے رہنا چاہیے۔ ایسی کتابیں شیطان کی ترغیب سے لکھی جاتی ہیں۔اور اپنی روح کو خطرہ میں ڈالے بغیر کوئی ان کو نہیں پڑھ سکتا ہے۔ یہ ممکن ہے کہ ان سے تاثر لینے والے آخر کار ہوش میں آئیں۔ ان کے بُرے اثرات سے کھیلنے والے اپنے آ پ کو شیطان کے علاقہ میں رکھتے ہیں اور وہ اس سے خُوب فائدہ اٹھاتا ہے۔ جب وہ اِس کی آزمائشوں کو دعوت دیتے ہیں تو اُن میں اُن کی پہچان کے لیے حکمت اور دفاع کا فقدان ہوتا ہے۔ بے دینی اور کفر و المجاد بڑی دلکش اور بھر پور طاقت سے اُن پر مسلط ہو جاتا ہے۔ (سی۔ٹی ۱۳۵، ۱۳۶)CChU 242.1
ہمارے بچّے کیا پڑھیں؟ یہ ایک بڑا سنجیدہ سوال ہے۔ اور ایک سنجیدہ جواب طلب بھی ہے۔ مجھے خدا کے سبست کو ماننے والے خاندانوں میں ایسے رسالے اور اخبارات دیکھ کر بڑا دکھ ہوتا ہے کہ جن میں متحرک اخلاق اور لغو قصے کہانیاں ہوتی ہیں۔ جن سے بچّوں اور نوجوانوں کے دماغ اچھا تاثر نہیں لیتے۔ میں نے دیکھا ہے کہ جھوٹی کہانیوں کو پسند کرنے والے ان کہانیوں ہی کی طرح بڑھتے اور نشوونما پاتے ہیں۔ اُن کو حق کو سننے اور ہمارے ایمان کے جواز سے متعلق واقفیت حاصل کرنے کا موقع ملا تھا لیکن وہ نیکی اور عملی دین داری کے بغیر ہی عمر رسیدہ ہو گئے ہیں۔ جھوٹی اور جذباتی کہانیوں کو پڑھنے والے عملی زندگی کے فرائض کی تکمیل میں ناکام رہتے ہیں۔ وہ محض ایک مصنوعی دنیا میں رہتے ہیں۔ میں نے ان بچّوں کو دیکھا ہے۔ جن کو ایسی دِل فریب کہانیاں پڑھنے کی اجازت دی گئی۔ خواہ وہ گھر میں ہوں یا باہر وہمی، متلون مزاج اور بے چین نظر آتے تھے اور عام رائج مضامین کے سوا کسی اور مضمون سے متعلق بات چیت نہیں کرسکتے تھے۔ وہ دینی سوچ اور بات چیت سے بالکل نا واقف تھے۔ جذباتی اور عشقیہ کہانیوں کی خواہش دماغی پسند اور دلچسپی کو بگاڑ دیتی ہے۔ اور دماغ ایسی فحش خوراک کے بغیر چین نہیں پاتا۔ ایسی گندی کتابوں کو پڑھنے والے کے لیے موزوں نام دماغی مدہوشی سے بہتر تجویز نہیں کر سکتی ہوں۔ جس طرح زیادہ کھانے پینے کا اثر دماغ پر پڑتا ہے۔ (سی۔ٹی ۱۳۲، ۱۳۵)CChU 242.2
موجودہ سچائی کو قبول کرنے سے پہلے بعض نے ناول پڑھنے کی عادت استوار کر لی تھی۔ کلیسیا میں شامل ہوتے وقت انہوں نے اس عادتِ بد پر غلبہ پانے کی کوشش کی ایسے لوگوں کے سامنے ویسی کتابیں رکھنا جن کو انہوں نے چھوڑ دیا ہے ایسا ہی ہے جیسے کہ نشہ باز کے سامنے نشہ آور چیز رکھی جائے۔ ملسل آزمائش میں گرنے سے اُن میں ٹھوس چیزیں پڑھنے کا شوق جاتا رہتا ہے۔ بائبل پڑھنے کا ذوق جاتا رہتا ہے۔ اُن کے اخلاقی قوأ کمزور ہو جاتے ہیں۔ گناہ انہیں کم اور کم تر بُرا نظر آتا ہے۔ ان میں بد دیانتی بڑھ جاتی ہے اور زندگی کے عملی فرائض کا ذائقہ جاتا رہتا ہے جب دماغ آلودہ ہو گیا تو وہ ہرنوعیت کے جذباتی کتابوں کو پڑھنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔ اب پورا راستہ کھل جاتا ہے کہ شیطان رُوح کو اپنی حکمرانی میں شامل کر لے۔ (۷۔ٹی ۲۰۳)CChU 242.3