کلیسیاء اور اداروں کے سربراہوں کی نکتہ چینی کے اثرات
شیطان کے خاص وسائل میں سے ایک وسیلہ تنازعہ اور جھگڑے کے بیج بونا، دوستوں کو ایک دوسرے سے جُدا کرنا اور ہمارے عقائد پر کئی ایک کے ایمان کو کمزور کرنے کے لیے بے ہودگی اور چغلی ہے۔ بھائی اور بہن ان نقائص اور غلطیوں کا اعادہ کرنے کے لیے بہت جلد تیار ہو جاتے ہیں جو ان کی نظر میں دوسروں میں پائی جاتی ہیں اور خصوصاً ان احباب میں بہت غلطیاں ان کو نظر آتی ہیں۔ جنہوں نے بڑی وفاداری سے خدا کے عطا کردہ پیغامات جو تنبیہ اور ملامت پر مشتمل تھے پہنچائے۔ ان لوگوں نے ان کے خلاف بڑی زبان درازی اوردشنام طرازی کی ہے۔CChU 252.2
ان شکایات کرنے والوں کے بچّے کان کھول کر ان کی باتوں کو سنتے ہیں اور بدگمانی کا زہر پیتے رہتے ہیں۔ اس طرح والدین اپنے اندھے پن سے ان راستوں کی ناکہ بندی کر دیتے ہیں جن کے ذریعہ سے ان کے دلوں تک رسائی ہو سکتی ہے۔ یہ خدا کی توہین ہے۔ خدا وند مسیح نے فرمایا: ”جب تم نے میرے ان سب سے چھوٹے بھائیوں میں سے کسی کے ساتھ یہ سلوک کیا تو میرے ہی ساتھ کیا۔“ (متی ۴۰:۲۵) اس لیے خداوند مسیح کے خادموں کو بدنامی کرنے والے مسیح خداوند کی توہین اور بدنامی کرتے ہیں۔ CChU 253.1
خدا کے برگزیدہ خادموں کے نام بڑی توہین اور تذلیل سے لیے جاتے ہیں اور بعض دفعہ بڑی دشمنی اور گالی گلوچ سے لیے جاتے ہیں۔ مقام افسوس ہے کہ ایسا وہ لوگ کرتے ہیں جن کو چاہیے تھا کہ ان کی مدد اور معاونت کرتے۔ بچّے اپنے والدین کی توہین آمیز باتوں کو جو وہ خدا کے خادموں کی سنجیدہ تنبیات اور آگاہیوں کے ردِّعمل کے طور پر کرتے ہیں ۔ بغور سنتے ہیں ان کے کان وقت بیوقت ملامت آمیز ٹھٹھوں اور حقارت کی باتوں کو سنتے رہتے ہیں اور پھر یہ بھی رجحان رکھتے ہیں کہ ان کو مقدس اور ابدی قدروں کو ان تک عام دنیاوی طریقوں سے پہنچایا جائے۔ ایسے والدین اپنے بچّوں کو بچپن ہی میں بے دین بنانے کا اہم کام سر انجام دیتے ہیں۔ اس طریقہ سے بچّوں کو بے ادبی اور گناہ کے خلاف خدا کی طرف سے ملامت سے متعلق بغاوت کرنا سکھایا جاتا ہے۔CChU 253.2
جہاں ایسی بدی اور مکروہات ہوں وہاں روحانی زوال ہی غالب عنصر ہوتا ہے۔ ایسے والدین جن کو شیطان نے اندھا کر دیا ہے۔ حیران ہوتے ہیں کہ ان کے بچّے کیوں بے اعتقادی اور بائبل پر شکوک کا رجحان رکھتے ہیں۔ وہ حیرانی سے کہتے ہیں کہ بچّوں کو اخلاقی اور دینی امور سے متعلق تدریس دینا بڑا مشکل کام ہے۔ اگر ان کی روحانی آنکھیں کھلی ہوئی ہوتیں تو فوراً جان لیتے کہ افسوس ناک حالات ان کے اپنے خاندانی اثرات، ان کے حسد و کینہ اور بے اعتمادی کا نتیجہ ہیں۔ اس طرح مسیحیوں کے خاندانی دائرہ میں بہتیرے ملحد اور بے دین تیار کیے جا رہے ہیں۔CChU 253.3
بیشتر افراد خدا کے اداروں میں بھاری ذمہ داریاں اٹھانے والوں کے نقائص اور ناکامیوں پر خواہ حقیقی ہوں یا مصنوعی گفت و شنید کرنے اور ان پر زور دینے میں خاص طور پر حظ اٹھاتے ہیں۔ وہ ان کے اچھے کاموں کو جو تکمیل پا چکے ہیں نظر انداز کر دیتے ہیں اور خد اکے کام میں ان کی شدید محنت و مشقت اور کامل وفاداری سے جو نتائج حاصل ہوئے ہیں۔ ان کو بُھول جاتے ہیں۔ اور بظاہر کسی غلطی پر اپنی توجہ مبذول کرتے ہیں۔ یعنی کوئی ایسی بات جو عمل میں لائی گئی اور اس کے نتائج برآمد ہوئے ہوں تو وہ پوچھتے ہیں کہ اِس کام کو کسی اور طریقہ سے کرنا چاہیے تھا تا کہ اس سے بہتر نتائج ہوتے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر ان کی اپنی مرضی کے مطابق بھی کام کرنے دیا جاتا تو وہ یا ان حالات میں مایوس ہو جاتے یا جنہوں نے خدا کی معیشت میں یہ کام کیا ہے ان کی بہ نسبت زیادہ بد تمیزی سے کرتے۔ لیکن یہ گستاخ بکواس کرنے والے خدا کے کام میں زیادہ ناسازگار حالات سے متعلق جو چٹان میں مثل کائی ہو زیادہ شور و غل کرتے رہتے ہیں یہ اشخاص دوسروں کی ناکامیوں اور نقائص پر مسلسل لگے رہنے سے روحانی بونے بن چکے ہیں۔ یہ اخلاقی طور پر اچھے، نیک اور بے لوث خدمات اور دلیری اور خود انکاری کے کاموں میں امتیاز کرنے کے نا اہل ہو گئے ہیں۔ ایسے لوگ اپنی زندگیوں میں زیادہ شریف اور بلند خیال اور اپنے نظریات اور خیالات میں زیادہ فیاض اور کشادگی پسند نہیں ہوتے وہ مسیحی مذہب پر عمل کرنے سے محروم ہیں۔ وہ روز بروز بگڑتے چلے جاتے ہیں اور اپنے تعصبات اور نظریات میں تنگ تر ہوتے جاتے ہیں۔ اُن کے عنصر میں پستی اور ذلت داخل ہو چکی ہے وہ اطمینان اور شادمانی کے لیے زہر آلود ماحول میں محیط ہیں۔ (۴ ٹی ۱۹۵، ۱۹۶) CChU 253.4
ہر ادارہ کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ خدا کی اُمت کے دلوں کو جانچنے کے لیے آزمائشوں کا آنا ضرور ہے۔ مصیبت کے سبب سے ہی خدا کا کارندہ ظاہر کرے گا کہ خدا اور اس کے کلام پر ہمارا کتنا بھروسہ ہے۔ جب ایسا وقت آئے تو بُرے خیال سے ان معاملات پر غور کر کے شکوک اور بے اعتمادی ظاہر نہ کریں۔ خدا نے جن پر ذمہ داری کا بوجھ ڈالا ہے ان کی نکتہ چینی اور عیب جوئی نہ کریں۔ اپنے خاندان میں خدا کے کارندوں کی عیب جوئی اور نکتہ چینی کر کے اپنی گفتگو کو مسموم نہ کریں۔ ایسی نکتہ چینی میں شامل ہونے والے والدین اپنے بچّوں کو اچھی باتیں نہیں بتاتے جو انکو نجات بخشنے میں دانشمند بنائیں۔ ان کی گفتگو سے نہ صرف بچّوں کے ایمان اور اعتماد میں فرق آتا ہے۔ بلکہ بڑوں کے ایمان اور بھروسہ میں نقص پیدا ہو جاتا ہے۔ (۷ ٹی ۱۸۳)CChU 254.1
ہمارے اداروں نے منتظمین کو اپنے اداروں کے نوجوانوں میں نظام اور ترتیب کو دانشمندی سے قائم رکھنے میں بڑی مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کلیسیا کے ارکان اپنے ساتھیوں کو روک کر اس امر میں بہت کچھ مدد کر سکتے ہیں۔ جب نوجوان ادارہ کے نظام اور ترتیب سے انحراف کرتے ہیں۔ یا اپنے افسران بالا سے کسی بات میں سرکشی کر کے اپنی مرضی کرنے پر ڈٹے رہتے ہیں تو والدین کو اندھے دھند اپنے بچّوں کا ساتھ نہیں دینا چاہیے اور نہ ان سے ہمدردی کرنا چاہیے۔CChU 255.1
بہتر ہے بلکہ زیادہ بہتر ہے کہ آپ کے بچّے نقصان اٹھائیں۔ بہتر ہے کہ وہ پاتال میں سو جائیں۔ بہ نسبت اس کے کہ ان کو ان اصولوں کی بےقدری اور نافرمانی سکھائی جائے جو سچائی اور ان کے ہم جنس انسان اور خدا سے وفاداری کی ٹھوس بنیاد ہیں۔ (ٹی ۱۸۵، ۱۸۶)CChU 255.2