تینتیسواں باب
نکتہ چینی اور اُس کے اثرات
مسیحی لوگوں کو اپنی باتوں میں بڑی احتیاط کی ضروری ہے۔ انکو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ ایک دوست سے دوسرے تک خصوصاً جب ان میں ناچاقی ہو۔ کوئی ناواجب بات پہنچائیں۔ یہ مخرب اخلاق بات ہے کہ آپ اُس دوست یا اس دوست کی بابت کسی ایسی بات کا اشارہ کریں یا حرف گیری کریں کہ آپ اس کی بابت بہت کچھ جانتے ہیں۔ ایسے اشارے بہت جلد پھیل کر نا واجب اثر دیتے ہیں۔ آپ کو چاہیے کہ کسی مبالغہ کے بغیر بڑی صفائی سے حقائق بتائیں ایسی باتوں سے کلیسیا کو بہت نقصان پہنچا ہے۔ کلیسیا کے ارکان کی متلون مزاجی اور غیر محتاط روش نے کلیسیا کو خاک میں ملا دیا ہے۔ اور اس بے اعتقادی سے کلیسیا کے وقار کو ٹھیس لگی ہے۔ لیکن مقامِ حیرت ہے کہ مجرم کا ارادہ شرارت کا نہ تھا۔ محض گفتگو میں دانشمندی کا رویہ اختیار نہ کرنے سے بہت نقصان ہوا۔ چاہیے تھا کہ گفتگو روحانی اور الٰہی امور سے متعلق ہوتی۔ لیکن ایسا نہیں ہوا اگر مسیحی دوستوں سے میل ملاپ دل و دماغ کو فلاح مقصود ہوتا تو بعد میں تاسف کا مقام ہوتا۔ اور وہ اپنی گفتگو پر بڑے اطمینان سے نظر کر سکتے۔ لیکن جب بے ہودگی اور ہرزہ گوئی میں گھنٹوں صرف کیے گئے ہیں۔ اور قیمتی وقت دوسروں کی زندگیوں اور چلن کی تشہیر اور چیرہ دستیوں میں گزرا تو یہ دوستانہ بات چیت بدی اور سیاہ روئی کا ماخذ ثابت ہو گی۔ اور آپ کا اثر موجب موت ہو گا (۲ ٹی ۱۸۶، ۱۸۷)CChU 247.1